bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Tuesday 26 May 2015

عامل کامل ابو شامل (بھیمی دیوی) قسط 36




گُذشتہ سے پیوستہ۔

سات دِن بھی نہیں گُزرے ہُوں گے۔کہ،، ایکدن فرح کی امی فرح کو بتارہی تھیں۔ کہ،، آج دلشاد کی امی کسی خاص کام سے ہمارے گھر آرہی ہیں۔ البتہ اُنہوں نے یہ نہیں بتایا۔کہ،، وُہ خاص کام آخر ہے کیا؟؟؟؟ فرح  اپنی امی کو تشویش بھری نگاہوں سے دیکھتے ہُوئے استفسار کرنے لگی۔ امی آپکو کیا لگتا ہے۔؟؟؟ کہیں وُہ دِلشاد سے میرا رشتہ تو ختم کرنے کا نہیں سُوچ  رہیں؟؟؟؟ نہیں بٹیا ایسا نہیں سُوچتے!!!! حالات چاہے کتنے ہی انسان کے خلاف ہُوجائیں ۔ لیکن اِنسان کو ہمیشہ خیر کی ہی طلب کرنی چاہیئے ۔ اُور ہمیشہ اچھا اُور مثبت پہلو ہی تلاش کرنا چاہیئے۔ فرح کی امی نے فرح کو دِلاسہ دیتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ لیکن میں فرح کی سُوچ سے سُو فی صد متفق تھا۔ اُور میرے دِل میں خُوشی کے لڈو بلکہ شہنائیاں بھی گونجنے لگی تھیں۔۔۔ شام کو دِلشاد کی والدہ گھر میں داخل ہُوئیں۔ تو اُنکے ساتھ ایک جُوگی نما شخص بھی برآمد ہُوا۔۔۔ اُور یہ جُوگی نما شخص کوئی اُور نہیں بلکہ گھنشام داس تھا۔ جو بعد میں  تمہارے ہاتھوں جہنم رسید ہُوا تھا۔۔۔۔۔گھنشام داس کا تذکرہ سُن کر کامل علی کے بدن میں سرسری دوڑ گئی۔

اَب مزید پڑھیئے۔

گھنشام داس سے یہ میری پہلی مُلاقات تھی۔ اسلئے میں نے اُس جُوگی کو بھی  ڈھونگی قاری کی طرح اہمیت نہیں دِی۔ لیکن جسطرح اِس جوگی نے میرے وجود پر مستقل اپنی نظریں گاڑی ہُوئی تھیں۔ اُس سے صاف پتہ چل رہا تھا۔کہ،، جوگی گھنشام ناصرف میری موجودگی سے باخبر ہے۔بلکہ  یہاں پر موجود لوگوں میں وُہ واحد شخص ہے۔ جو مجھے دیکھ بھی رہا ہے۔۔ میں نے جواب میں اُسے دیکھ کر  گھورنا شروع کردیا۔ اُس کے چہرے پر مکارانہ مسکراہٹ در آئی تھی۔ میں بے فکری سے فرح کے بیڈ پر بیٹھا  اُس جوگی کی کسی حرکت کا منتظر تھا۔ جبکہ وُہ جوگی مسلسل زیر لب کوئی جاپ کررہا تھا۔  اچانک میرے کانوں میں مندر کی ہزاروں گھنٹیاں بجنے لگیں۔ یہ شُور رفتہ رفتہ بڑھتا ہی چلا جارہا تھا۔ جب یہ شُور میری قُوتِ برداشت سے باہر ہُونے لگا ۔ تو میں نے بے ساختہ اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی۔ لیکن شائد میری بے توجہی کی وجہ سے بُہت دیر ہُوچکی تھی۔  جُوگی کا ہیولا دھیرے دھیرے میری نگاہوں کے سامنے دھندلانے لگا تھا۔ اُور میری حالت اُس سانپ سے بالکل بھی مختلف نہیں تھی۔ جو کسی سپیرے کی بین کو دیکھ کر جھومنا شروع کردیتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم میری مدہوشی کے بعد جوگی گھنشام داس نے فرح کی فیملی کو کیا کچھ بتایا۔ اُور وُہ میرے ساتھ کسطرح پیش آیا۔ اُور نہ ہی مجھے یہ معلوم تھا۔کہ،، میں کتنے دِن مدہوشی کے عالم میں انٹا غفیل رَہا۔ جب میں نے آنکھ کھولی تو میں نے اپنے تمام بدن کو مکڑی کے جالوں  جیسی کسی شئے میں مقید پایا۔ میں نے لاکھ کوشش کی کہ،، کسی طرح اِن جالوں سے اپنے جسم کو آزاد کروانے میں کامیاب ہُوجاوٗں۔۔۔ لیکن جسقدر میں کوشش کرتا مجھے اپنی سانس  مزید سینے  میں گھٹتی محسوس ہُوتی۔ جسکی وجہ سے جلد ہی میں میں نے خُود کو آزاد کروانے کی کوشش ترک کردی۔۔۔ میں نے  ٹیلی پیتھی کے ذریعے سے فرح کا حال جاننے کا اِرادہ کیا۔ تب مجھے معلوم ہُوا۔کہ،، میری تمام روحانی اُور ذہنی صلاحیتیں بھی  میری آزادی کی طرح صلب ہوچکی ہیں۔جوگی گھنشام داس نے نہایت مکاری سے مجھے کسی کمزور چوہے کی مانند پنجرے میں مقید کردیا تھا۔۔۔ اب مجھے صرف جوگی گھنشام داس کی آمد کا انتظار تھا۔ کہ،، وُہ آئے اُور مجھ سے میری آزادی کی  منہ مانگی قیمت وصول کرنے کے بعد مجھے پھر سے آزاد کردے۔۔۔

لیکن  وُہ انتظار کی  تکلیف دہ گھڑیاں میں کبھی نہیں بُھلا سکوں گا۔ جو مجھے گھنشام داس نے بلا جواز تحفے میں دی تھیں۔ میرا اُس سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں تھا۔ لیکن اُس نے پھر بھی میرے معاملے میں  اپنی حدود سے تجاوز کیا تھا۔۔۔ جبکہ مجھے اِس بات پر بھی بُہت حیرت تھی۔ کہ،، گھنشام داس نے آخر مجھے ایسی کونسی جگہ پر قید کردیا ہے۔ کہ،، جسکی اطلاع ابھی تک میرے والدین کو حاصل نہیں ہُوپائی۔ وگرنہ ایسی صورتحال ہم جنات کیلئے نئی نہیں تھی۔ اکثر ہماری قوم کے جناتوں کو انسان  اپنے مقاصد کے حصول کیلئے قید کرلیا کرتے ہیں۔ جنکی اطلاع  بابا جان کو ہُوجاتی تھی۔ اور پھر معملات طے کرلئے جاتے تھے۔ پھر میرے اغوا کی خبر ابتک کیوں میرے گھر والوں کو نہیں ہُوسکی؟؟؟ اُور اسکا ایک ہی جواب میرے دماغ میں آرہا تھا۔کہ،، جس علاقے میں مجھے گھنشام داس نے قید کیا ہے۔ وُہ علاقہ  ضرور گھنشام داس نے اپنے کسی خاص حصار میں باندھ رکھا ہے۔ ورنہ میرے بدن کی خُوشبو آسانی سے میرے گھر والوں کو میرا پتہ بتاسکتی تھی۔

میرا خیال ہے کہ تقریباً  چھ ماہ کے بعد  اچانک ایکدن گھنشام داس  مجھ سے ملنے میرے پاس آیا۔ اگرچہ اُسکا انداز بڑا ہی لاپرواہی کا تھا۔ لیکن میں صاف محسوس کرسکتا تھا۔کہ،، وہ مجھ سے اپنی پریشانی چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔۔۔ میں نے اُس پر واضح کیا کہ،، مجھے  مزیدقید کرنے کا انجام  تمہارے لئے نہایت  خوفناک ثابت ہُوسکتا ہے۔۔۔۔ اُس نے پھیکی سی طنز بھری مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہُوئے جواب دیا،، اب تُم مجھے یہ مت بتانے بیٹھ جانا کہ،، تمہارے والد اپنی ریاست کے راجہ ہیں۔ جبکہ کئی ریاستوں کے راجہ تمہارے والد کے زیر نگر ہیں۔ کیونکہ یہ تمام باتیں مجھے اُس وقت بھی معلوم تھیں ۔ جب میں تمہارے غرور کو چکنا چُور کرتے ہُوئے اپنے ڈیرے تک تمہیں گھسیٹ لایا تھا۔۔۔۔۔

 جب تُم سب کچھ جانتے ہُو۔ تو آخر مجھے قید کرنے کی وجہ کیا ہے۔ جبکہ میرا تُم سے کوئی ذاتی جھگڑا بھی نہیں ہے۔۔۔؟ میں حیرت سے گھنشام داس کے چہرے کو تکتے ہُوئے استفسار کرنے لگا۔۔۔۔ میں بغیر وجہ کے کوئی کام نہیں کرتا سمجھے!!! دلشاد کی والدہ میری عقیدت مند ہے۔ اُور اُسی کی خاطر میں اتنے چھوٹے کام کیلئے رضامند ہُوا تھا۔۔۔ اب چونکہ تُمہیں کافی سزا مِل چُکی ہے۔ اِس لئے میں تمہیں چھوڑ سکتا ہُوں۔۔ لیکن اس سے پہلے تمہیں مجھ سے کچھ وعدے کرنے ہُونگے۔۔۔۔ کیسے وعدے؟؟؟ میں نے بیتابی سے گھنشام داس سے سوال کیا۔
پہلا وعدہ تو یہ کہ،، تمہیں قسم اُٹھانی ہُوگی۔کہ،، تم براہ راست کبھی میرے سامنے نہیں آوٗ گے۔ نہ ہی کبھی مجھ پر جوابی حملہ کرو گے۔ جبکہ دوسرا وعدہ یہ بھی کرنا ہُوگا۔کہ،، آجکل میں بھیمی دیوی  کو  اپنے  وَش میں کرنے کیلئے جو جاپ کررہا ہُوں۔ تو تُم مجھے بھیمی  دیوی کو پرسند  کرنے میں سہایتا کروگے۔ اگر تُم  اپنے دھرم کیمطابق شپت لیکر مجھ سے وعدہ کرو۔ تو میں بھی تمہیں آزاد کرنے کا نرنے لے سکتا ہُوں۔ گھنشام داس نے اپنی داڑھی کھجاتے ہُوئے  میری جانب دیکھا۔۔۔۔۔ میرے پاس اسکے سوائے کوئی راستہ نہیں تھا۔کہ،، میں بلاچُون چراں گھنشام داس کی دونوں شرائط مان لیتا۔ لیکن ایک بات مجھے  بہت ذیادہ کھٹک رہی تھی۔ چونکہ میں گھنشام داس کی طاقت کے مظاہرے دیکھ چکا۔ اُور مجھے یہ بھی معلوم ہُوچکا تھا۔کہ،، جوگی گھنشام داس کے سامنے میری طاقت صفر سے ذیادہ نہیں تھی پھر اُسے میری مدد کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ اُور جو کام خُود جوگی گھنشام داس کیلئے اتنا مشکل ثابت ہُورہا ہے ۔ بھلا اُس کام میں  وُہ مجھے کیوں شامل کرنا چاہتا ہے۔؟؟؟ اُور آخر یہ بھیمی دیوی ہے کس بلا کا نام؟

اِس سے پہلے کے میں اِن سوالات کو اپنی زبان پر لاتا۔ جوگی گھنشام داس نے مجھے مخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ میں اَوشے تمہاری شنکا  کو  دُور کیئے دیتا ہُوں۔ تم نے ابھی وچار کرتے ہُوئےاپنی قیمت شُنے (۰) لگائی ہے۔ جس سے میں بہت پربھاوت ہُوا ہُوں۔  سُنو!!!   یہ بات بالکل ست ہے کہ،،میری قوت دَس کے برابر ہے۔ ۔۔۔  پرنتو ایک بات تمہاری بُدھی میں نہیں سماسکی۔ کہ،، کیول شُنے  بے قیمت ہُوتا ہے۔ پرنتو جب  یہ کسی دوسرے ہندسے کے  ساتھ مِل جاتا ہے۔ تو نہ صرف خُود انمول ہُوجاتا ہے۔بلکہ جس سے جڑ جاتا ہے۔ اُسے بھی انمول بنادیتا ہے۔ اِس پرکار میری اِچھا ہے کہ،، تُم مجھ سے مِل جاوٗ ۔ تاکہ میری  سیما  ۱۰ سے بڑھ کر ۱۰۰ پریشت ہُوجائے۔ اُور ہاں میں تمہیں بھیمی دیوی کے بارے میں کیول اتنا بتا سکتا ہُوں۔کہ،، وُہ  ہزاروں ورشُوں سے شکتی کی اَمر دیوی ہے۔ اُور جو بھی  منش اُس دیوی کو پرسند کرنے میں سپھل ہُوجاتا ہے۔ وُہ دیوی اُس منش کیساتھ ایک رات ضرور گُزارتی ہے۔ جسکے بعد وُہ منش بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اَمر ہُوجاتا ہے۔

دل کی بات۔
مجھے معلوم ہے کہ،، میرے بلاگ پر میری تحریریں پڑھنے کیلئے بُہت سے صاحب علم دوست بھی تشریف لاتے ہیں اُور میری تحریروں کو پسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔۔۔ لیکن وُہ اتنی خاموش سے  بِلا تبصرہ ،،واپس لُوٹ جاتے ہیں۔ جیسے باد نسیم کے جھونکے بنا کچھ کہے جسم کو چُھو جاتے ہیں۔۔۔ میں اُنکی خدمت میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہُوں۔کہ،، میں تمام نامساعد حالات کے باوجود لکھنے کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک پُوری کرنے کی کوشش کررہا ہُوں۔۔۔۔ لیکن آپکی خاموشی۔۔۔۔ بے اعتنائی، بے توجہی ،۔یا ۔بے حِسی،، کے زمرے میں تو شُمار نہیں ہُوتی۔۔۔ اس سوال کا بہترین  جواب، صرف آپکا دِل ہی دے سکتا ہے۔۔۔۔
آپ سب کی دُعاوں کا طلبگار
عشرت اقبال وارثی۔

(جاری ہے)


اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment