bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday 29 May 2015

عامل کامل ابو شامل (بوڑھا فقیر جوان) قسط 39



گُذشتہ سے پیوستہ۔


اچھا تو اِس لیئے جناب پورے بیس دِن لاپتہ رہے تھے۔ اُور یہ بات بالکل  ہی بھول گئے۔کہ،، یہاں نفاست صدیقی اپنے دوست کو لانے والے تھے۔ کامل نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔نہیں یار سیالکوٹ سے تو میں اُسی شام لُوٹ آیا تھا۔ جس رات تمہاری دہلوی سے ملاقات فکس تھی۔۔۔۔ لیکن واپس آتے ہُوئے مجھے درمیان میں یہ خبر مِلی ۔کہ،، تمہاری نرگس کراچی کے سول ہوسپٹل میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے۔سُو میں سیدھا ہوسپٹل پُہنچ گیا تھا۔۔۔۔ نرگس کا ذکر سُنتے ہی کامل علی پر دیوانگی سی طاری ہُوگئی۔ کیا ہُوامیری نرگس کو۔۔۔؟اب کیسی ہے وُہ۔؟؟؟ کہاں ہے نرگس۔؟؟؟ اُور تم مجھے اتنی دیر سے اپنے عشق کی کہانی سُنارہے تھے۔ جبکہ میری نرگس زندگی اُور موت کی کشمش میں گرفتار تھی۔۔۔ کامل کے منہ سے تھوک کے چھینٹے اُڑنے لگے تھے۔جبکہ لہجے میں چنگاریاں بھری ہُوئی  تھیں۔!!!

اَب مزید پڑھیئے۔

یار کامل مجھے بات تو مکمل کرلینے دیتے۔ پھر یہ غصہ مناسب بھی لگتا۔تُم تو اِس طرح ری ایکٹ کررہے ہُو۔ جیسے خُدانخواستہ میں نے ہی نرگس کو اسپتال میں پُہچایا  ہُو۔۔۔۔  شائد تمہیں معلوم ہُو۔کہ،،نرگس کے دِل میں بچپن سے سُوراخ تھا ۔جو اَب کافی بڑھ چکا تھا۔ جسکی وجہ سے اُس کے بدن میں طرح طرح کی بیماریوں نے جگہہ بنالی تھی۔یہاں ڈاکٹروں نے اُسے جواب دے دیدیا تھا۔۔۔ جس کے بعد میں اُسے   پرستان  حکیم بطلیموس  کے پاس لے گیا تھا۔ اب نرگس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اُور حکیم بطلیموس کا کہنا ہے۔کہ،، اگلے ماہ تک نرگس بالکل صحتیاب ہُوجائے گی۔ جس کے بعد میں اُسے واپس کراچی لے آوٗنگا۔۔۔

کیا تُم نے نرگس اُور اسکے شوہر کو  علاج کیلئے پرستان  لیجانے کی بابت بتادیا تھا۔ اُور نرگس کے شوھر نے  تمہیں اجازت کس طرح دے دی تھی۔۔۔۔  پھر اُسکا بیٹا طارق بھی نجانے کسطرح ماں کے بغیر رِہ رہا ہُوگا۔؟؟؟ کامل نے صورتحال کو سمجھنے کیلئے مزید سوالات ابو شامل کے سامنے رکھ دیئے۔۔۔۔ دُو ماہ قبل  نرگس کاشوہر  نشے کی حالت میں  کینٹ اسٹیشن پر مُردہ پایا گیا تھا۔ نرگس عدت کی حالت میں تھی۔کہ ،، پندرہ دِن بعد چچا ارشد کا بھی انتقال ہُوگیا۔ پے درپے حادثات نے نرگس کو بالکل توڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔ ایسے وقت میں نرگس کی ایک نند نے اُسکا کافی ساتھ دیا۔ ہسپتال بھی اُسی نند نے پُہنچایا تھا۔


 جب ڈاکڑوں نے جواب دیدیا تو میں نے خُود کو ایک این جی اُو کا نمائندہ ظاہر کیا۔ اُور کافی سمجھانے پر وُہ اِس بات پر رضامند ہُوگئی۔ کہ،،  نرگس کو علاج کیلئے اسلام آباد منتقل کردیا جائے۔ میں نے  (این جی اُو) کی جانب سے طارق کی دیکھ بھال کیلئے ایک لاکھ روپیہ  نقد بھی اُس کے ہاتھوں میں تھمادیا۔ وُہ بیچاری خُود بُہت غریب عورت ہے۔ اِس لئے ہماری (این جی اُو) کو حاتم طائی کا اِدارہ سمجھ کر کافی دیر تک ڈھیروں دُعائیں دیتی رہی۔۔۔۔ یہ تھی میرے بھائی وُہ تمام صورتحال جسکی وجہ سے میں وجاہت دہلوی سے مُلاقات کیلئے حاضر نہیں ہُوسکا تھا۔۔۔۔۔ اُور ہاں وجاہت دہلوی کے ذکر سے یاد آیا۔ کہ،، میں نے وجاہت دہلوی کا مسئلہ بھی حل کردیا ہے۔ مجھے لگتا ہے ایک دُو دِن میں وُہ بھی مٹھائی لیکر آتا ہی ہُوگا۔

یار ابو شامل مجھے معاف کرنا میں نرگس کی بیماری کا سُن کر کچھ ذیادہ ہی جذباتی ہُوگیا تھا۔۔۔۔۔  بس مجھے میرے ۲ سوالوں کا جواب اُور دے دُو۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ،، کیا میں تمہارے ساتھ نرگس کی عیادت کیلئے چل سکتا ہُوں۔ اُور دوسرا سوال یہ کے وجاہت دہلوی کا مسئلہ تم نے کسطرح حل کردیا۔۔۔۔ کوئی بات نہیں یار۔ عشق میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمدردوں کیساتھ عاشقوں  کا رویہ۔ ابو شامل نے بھولی شکل بناتے ہُوئے   سلسلہ کلام جاری رکھا۔ اب تمہارے پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے۔کہ،، کچھ مشکلات کی وجہ سے میں فی الحال پرستان نہیں جاسکتا۔ البتہ تم سے میرا وعدہ رہا کہ،، اُسے واپس لانے کیلئے ہم دونوں ساتھ چلیں گے۔ ویسے وُہ بیچاری بھی ابھی تک  یہی سمجھ رہی ہے۔ کہ،، اسکا علاج اسلام  آباد میں ہُورہا ہے۔۔۔۔

جبکہ وجاہت دہلوی کا مسئلہ اتنا اہم نہیں تھا۔ عائقہ  نے اگرچہ خلع اپنی مرضی سے حاصل کی تھی ۔لیکن طلاق کے کچھ عرصہ بعد ہی   نفسانی خُواہشات نے اُسے  اپنا غلام بنالیا تھا۔ ۔۔۔ وجاہت دہلوی  ایک تو واقعی  اسم بامسمیٰ تھا۔ جبکہ اِس سے آسان شکار عائقہ کو مِل بھی نہیں سکتا تھا۔جسکی وجہ سے وُہ یہ بات بھی فراموش کرگئی۔کہ،،  وُہ اپنی جنسی تسکین کیلئے اپنی ہی بہن  عدیمہ کے گھر میں ڈاکہ ڈال رہی ہے۔۔۔ وجاہت دہلوی تو خُود اِس دلدل سے نکلنے کیلئے راضی ہُوچُکا تھا۔۔۔ اسلئے میں نے   اپنے ایک بندے کی ڈیوٹی عائقہ کی توجہ بدلنے پر لگادی ہے۔ اُور اچھی خبر یہ ہے۔کہ،، آجکل عائقہ ذیادہ تر  اپنے ایک رَنڈوے کزن کیساتھ دیکھی جارہی ہے۔ ہُوسکتا ہے اگلے چند دِن میں اُن دونوں کی شادی کی خبر بھی سُنائی دے جائے۔ ابو شامل نے اپنے مخصوص انداز میں کامل کو آنکھ مارتے  ہُوئے جملہ مکمل کیا۔

ابو شامِل کا اندازہ بالکل ٹھیک نکلا تھا۔وجاہت دہلوی چار دِن بعد اجازت ملتے ہی آستانے چلا آیا تھا۔پھولوں کے گلدستے کے ساتھ ایک لفافے میں پورے پانچ لاکھ روپیہ کا نذرانہ اُس نے منت سماجت کرتے ہُوئے کامل علی کے قدموں میں رکھتے ہُوئے بتایا۔۔۔۔حضور آپ سے مِل کر یقین ہُوگیا۔کہ،، دُنیا  آج بھی اللہ والوں کے مبارک قدموں سے خالی نہیں ہے۔ آپکی ایک توجہ سے میرے تمام مسئلے مقررہ وقت میں حل  ہُوگئے ہیں۔ آپکی دُعاوں کی بدولت ایک طرف جہاں عائقہ نے میرا پیچھا چھوڑ کر دوبارہ سے اِک نئی ازداجی زندگی شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تو دوسری طرف عدیمہ نے بھی مجھے دِل سے معاف کردیا ہے۔ اُور ہم دُونوں اب پہلے کی طرح خُوشگوار زندگی گُزار رَہے ہیں۔ جبکہ ماشاٗ اللہ  کنسٹریکشن کے بزنس میں بھی اِس ماہ خُوب منافع ہُوا ہے۔

کامل علی  رقم کا لفافہ  اُٹھانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہا تھا۔ تبھی ابوشامل نے کامل سے کہا،، رقم اُٹھالے یار آخر بھابی کو دوبارہ شاپنگ بھی کرانی ہے۔ ۔۔ کامل نے یہ کہہ کر رقم کا لفافہ ہاتھ میں سنبھال لیا۔کہ،، میں اِسے اسکے حقدار تک پُہنچادونگا۔ جونہی وجاہت دہلوی  اجازت لیکر جانے کیلئے اُلٹے قدموں کمرے سے نکلا۔۔۔ ابو شامل نے کامل کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا،، یارمجھے فوراً یہاں سے نکلنا پڑیگا۔ میں تُم سے گھر پر مِلتا ہُوں۔ کامل علی عجیب سی نظروں کو ابو شامل کو گھورنے لگا۔ لیکن ابو شامل افراتفری کی حالت میں کوٹھی سے تقریباً بھاگتا ہُوا نکل چُکا تھا۔

کامل جونہی گیٹ کو لاک لگا کر گاڑی میں سوار ہُونے کیلئے کار کی طرف بڑھا تو وہی بوڑھا فقیر اُسے کار سے ٹیک لگائے نظر آیا۔ کامل کو  حیرت ہُوئی کہ،، آج فقیر رُوپوش ہُونے کے بجائے ڈھٹائی سے اُسکا منتظر تھا۔ فقیر کے قریب پُہنچ کر کامل علی کو ایک جھٹکا اُور لگا۔ کہ ،، جس فقیر کو  کامل علی دُور سے ابتک ایک بُوڑھا سمجھ رَہا تھا۔ وُہ کوئی ذیادہ سے ذیادہ پچیس چھبیس برس کا نوجوان تھا۔  اُ س فقیر کےچہرے  کی جلد انتہائی چکنی تھی۔ جس پر داڑھی کا ایک بال بھی شائد نہیں اُگ پایا تھا۔ جبکہ سر پر موجود اُلجھے مٹیالے گرد آلود  بال  کسی گھونسلے کامنظر پیش کررہے تھے۔ کامل علی بیخودی میں فقیر کے اتنے قریب پُہنچ چُکا تھا۔کہ،، اُس فقیر کے  پسینے کی خوشگوار خُوشبو کو محسوس کرسکتا تھا۔   
دل کی بات۔

مجھے معلوم ہے کہ،، میرے بلاگ پر میری تحریریں پڑھنے کیلئے بُہت سے صاحب علم دوست بھی تشریف لاتے ہیں اُور میری تحریروں کو پسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔۔۔ لیکن وُہ اتنی خاموش سے  بِلا تبصرہ ،،واپس لُوٹ جاتے ہیں۔ جیسے باد نسیم کے جھونکے بنا کچھ کہے جسم کو چُھو جاتے ہیں۔۔۔ میں اُنکی خدمت میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہُوں۔کہ،، میں تمام نامساعد حالات کے باوجود لکھنے کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک پُوری کرنے کی کوشش کررہا ہُوں۔۔۔۔ لیکن آپکی خاموشی۔۔۔۔ بے اعتنائی، بے توجہی، یا بے حسی کے زمرے میں تو شُمار نہیں ہُوتی۔۔۔ اس سوال کا بہترین  جواب، صرف آپکا دِل ہی دے سکتا ہے۔۔۔۔
آپ سب کی دُعاوں کا طلبگار
عشرت اقبال وارثی۔
(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment