bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday 18 May 2015

عامل کامل ابو شامل قسط ۲۹



گُذشتہ سے پیوستہ۔
  
پندرہ منٹ بعد حسب وعدہ ابوشامل نے نفاست صدیقی کو  کامل علی کے آستانے نُما کمرے تک پُہنچا کر  آہستگی سے دروازہ باہر سے بند کردیا۔۔۔ سامنے فرشی نشست پر کامل علی آنکھیں بند کئے تسبیح پر انگلیاں گھما رہا تھا۔  نفاست صدیقی احترام سے قالین پر چلتے ہوئے کامل علی کے ہاتھوں کا بوسہ لینے کیلئے اِس بات سے بے خبرآگےبڑھ رَہا تھا۔کہ،،  اُسکے اُور کامل علی کے علاوہ ابو شامل بھی  غائبانہ طُور پر کامل علی کے ساتھ براجمان ہُو کر کامل علی کے کان میں سرگوشیاں کررہا ہے۔۔۔۔ نفاست صدیقی تم نے تو ہمیشہ دیسی علاج اُور خانقاہی سسٹم کی مخالفت کی ہے۔ اُور تم ہمیشہ یہی کہتے رہے ہُو نا کہ،، کالا سفید ، نوری  یا شیطانی  علم کچھ نہیں ہُوتا۔ یہ سب کم علم لوگوں کی فراغت کا  سرچشمہ ہے۔۔۔ مگر دیکھ لُو۔۔ آج تُم اُسی سسٹم کا حصہ بننے کیلئے یہاں موجود ہُو۔۔۔۔  نفاست صدیقی  کامل علی کی بارُعب آ  واز سُننے کے بعد ایک لمحے کیلئے ٹھٹک کر ٹہر گیا۔اُسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ بھلا کوئی کیسے اُسکے ماضی کو کھنگال کر اُس کے سامنے رکھ سکتا تھا۔۔۔ اُسے یقین آگیا۔کہ،، واقعی  دُنیا میں بُہت سے علوم ایسے بھی ہیں۔ جو انسان کے اندر بھی جھانکنے کی صلاحیت پیدا کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔  نفاست صدیقی نے کامل کے ہاتھوں پر بُوسہ دیکر لرزتی ہُوئی آواز میں کہا۔۔۔۔ شاہ صاحب میں اپنی  سابقہ فکر  اُور مادی فلسفے پر نادم ہُوں۔ آپ مجھے معاف فرماکر اپنی غلامی میں قبول فرمالیں۔۔۔

اَب مزید پڑھیئے۔

اَبوشامِل نے آنکھوں سے قبولیت کا اِشارہ دِیا تو کامل نے اپنے لہجے کو گھمبیر بناتے ہُوئے کہا،، صدیقی صاحب میں جانتا ہُوں۔کہ،، آپ نہایت اخلاص کیساتھ یہ باتیں کررہے ہیں۔۔۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ،، آپ اپنی تکلیف کے سلسلے میں بے یقینی کا شِکار ہُوچُکے ہیں۔ اُور آپکو لگتا ہے۔کہ،، شائد دُنیا میں کسی کے پاس آپکے مرض کی دَوا موجود نہیں ہے۔ ویسے بھی دُنیا ٹھگوں سے بھری ہُوئی ہے۔ اسلئے آپکا یہ اندیشہ بھی بجا ہے ۔کہ کہیں آپکی نوے ہزار کی رقم برباد ہی نہ ہُوجائے۔ اسلئے ہم نے فیصلہ کیا ہے۔کہ،،  آپ  سے محبت کی بنیاد ہم بھی اخلاص کے   مضبوط جذبوں کی زمین پر رکھتے ہُوئے یہ خاص الخاص  آئل آپکو تحفے کی صورت میں پیش کریں۔۔۔۔  نفاست صدیقی  نے ہدیہ پیش کرنے کی بُہت کُوشش کی لیکن کامل علی نے اُسکی ایک نہ چلنے دی۔۔۔۔ جسکی وجہ سے نفاست صدیقی یہ تحفہ لینے کیلئے مجبور ہُوگیا۔۔۔۔۔

حضور اگر مہربانی فرماکر  مجھے کل کچھ وقت عنایت فرمادیں ۔تو میرے ایک خاص دُوست کو بھی زیارت کا شرف حاصل  ہُوجائے۔ وُہ آجکل ایک بُہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہے۔۔۔۔ نفاست صدیقی عرض کرنے کے بعد کامل علی کے چہرے کو بڑی عقیدت  وپُراُمید نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔۔۔ جبکہ کامل علی  آنکھ بند کیئے   ابوشامل  کی گفتگو نہایت دھیان سے سُننے کے بعد نفاست صدیقی کی جانب متوجہ  ہُوا۔۔۔۔ بیچارہ ایک اَنار دُو بیماروں کے درمیان نزاع کا باعث بن گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں۔کہ،، آپ وجاہت دہلوی کو ہم سے مِلوانا چاہتے ہیں۔۔۔ لیکن کل ہم مُلاقات نہیں کرپائیں گے آپ ایساکیجیئے گا۔ اُنہیں پرسوں مغرب کے فوراً بعد لے آئیے گا۔۔۔ نفاست صدیقی پر مزید حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ کیونکہ نفاست صدیقی نے ابھی تک وجاہت  دہلوی کا نام تک زبان پر نہیں لیا تھا۔جبکہ کامل علی نے تو  نام کیساتھ مرض تک جان لیا تھا۔۔۔ بہرحال  کامل علی سے مُلاقات نفاست صدیقی میں بُہت بڑی تبدئلی لے آئی تھی۔ وہی نفاست صدیقی جو  اچھے اچھوں کو گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ آج کامل علی سے رُخصت ہُوتے ہُوئے بے تحاشہ کامل علی کے ہاتھ   اُور پیروں  پر بُوسوں کی بُوچھاڑ کررہا تھا۔

یار یہ وجاہت  دہلوی کی کیا کہانی ہے۔؟؟؟ نفاست صدیقی کے کوٹھی سے نکلتے ہی کامل علی نے ابو شامل سے استفسار کیا۔۔۔۔ ابو شامل قالین پر بیٹھ کر مُسکراتے ہُوئے کہنے لگا۔بُہت عجیب سی کہانی ہے میرے یار۔ اِس کہانی کی ابتدا میں وجاہت دہلوی خود کو دُنیا کا سب سے ذیادہ خُوش قسمت انسان سمجھتا تھا۔جبکہ انجام میں آجکل وُہ خُود کو دُنیا کا بدنصیب حیوان سمجھنے پر مجبور ہُوگیا ہے۔۔ یار پہلیاں مُت بُجھواوٗ    بلکہ صاف صاف بتاوٗ کہ،، اصل کہانی کیا ہے؟کامل علی نے ابو شامل کو ٹوکتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔یار کامل تُم بھی بُہت بے صبرے  واقع ہُوئے ہو۔ میری جان ایک اچھی اُور مزیدار کہانی سُننے کیلئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یونہی آسانی سے کوئی کہانی ہاتھ نہیں آجاتی۔۔۔۔ چلو بہرحال خفا نہ ہُو۔ میں تُمہیں سُنائے دیتا ہُوں ابو شامل نے کامل کا بگڑا ہُوا موڈ دیکھ کر کہانی سنانی شروع کی۔

وجاہت دہلوی کی عُمر تقریباً پنتالیس برس کے قریب ہے۔ موصوف  ایک سرکاری اِدارے میں ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہیں۔ چونکہ اُوپر کی آمدنی لامحدود ہے، اِس لئے جناب اکثر سیر سپاٹے کیلئے کسی نہ کسی بہانے  مُلک سے باہر پائے جاتے ہیں۔ صحت قابل رَشک ہے جسکی وجہ سے اپنی عُمر سے کم از کم  دس برس چھوٹے دِکھائی دیتے ہیں۔۔۔  چھ برس قبل ہی موصوف کو شادی کا خیال آیا تھا۔ لہذا ایک بہت بڑے صنعتکار کی ۲۸ برس کی بیٹی  عدیمہ  سے محبت کی شادی رَچالی۔۔۔۔ زندگی خُوب عیش و عشرت میں گُزر رہی تھی۔ کہ رَفتہ رَفتہ اُنہیں محسوس ہُونے لگا۔کہ عدیمہ کی بڑی بہن عائقہ بھی اِن میں بُہت ذیادہ دلچسپی  رکھتی ہے۔  ۔۔۔عائقہ اگر  چہ مطلقہ بھی تھی۔ اُور عدیمہ سے پانچ برس بڑی بھی تھی۔ اُس کے باوجود بھی  عائقہ کے نقوش و جسامت عدیمہ سے کئی گُنا ذیادہ متوجہ کرنے والے ہیں۔۔۔ پھر  شادی کو ایک برس بھی نہیں گُزرا تھا۔ کہ محترمہ نے  وجاہت کے سامنے اپنی تمام کیفیات بیان کردیں۔۔۔ ابتدا میں وجاہت کی شرافت اُسے عائقہ سے دُور رہنے میں کسی حد تک معاون رہی۔ لیکن عائقہ کسی نہ کسی بہانے اب اپنی بہن عدیمہ کے گھر چلی آتی۔ اور جب وجاہت کے گھر پہلے بیٹے زین کی پیدائش ہُوئی تو گویا عائقہ کو زین کی صورت میں روزانہ  گھر چلے آنے کا بہانہ دستیاب ہُوگیا۔ زین کے بعد وجیہ کی پیدائش نے عدیمہ کے حُسن کو مزید گہنا دیا۔۔۔۔ اُور اسطرح وجاہت صاحب بھی رفتہ رفتہ پکے آم کی مانند عائقہ کی گُود میں آگرے۔


اسطرح وجاہت دہلوی بیک وقت جائز و ناجائز دُو شوہروں کا کردار نبھانے لگے۔۔۔ ابھی چند ماہ قبل ہی  عدیمہ نے  خُود میں وجاہت کی عدم دلچپی کی وجوہات کی طرف توجہ دینی شروع کی۔ تو اِنہیں معلوم ہُوا کہ،، انکے دَر و دیوار کو کھوکھلا کرنے والی کوئی اُور نہیں اِنکی اپنی سگی بہن ہے۔ بات اگرچہ کھل جاتی تو اِسمیں سب سے ذیادہ نقصان عدیمہ کی فیملی کو ہی اُٹھانا پڑتا۔ اِس لئے عدیمہ نے سب سے پہلے عائقہ کو ہی تنبہی کی۔ لیکن عائقہ نے عدیمہ کی ایک نہیں چلنے دی۔ اُلٹا سارا الزام عدیمہ کے سر تھونپتے ہُوئے جتایا۔کہ،، وُہ خُود اپنے شوہر کو خُوشیاں نہیں دے پارہی ہے۔ اُور اپنے شوہر کی عدم دلچسپی کی سزا مجھے دینا چاہتی ہے۔۔۔۔بہرحال عدیمہ نے عائقہ کو خبردار کردیا ۔کہ،، وُہ اب اسکے گھر نہ آیا کرے۔ ورنہ وُہ پاپا کو سب کچھ بتانے پر مجبور ہُوجائے گی۔۔۔۔ دوسری طرف عدیمہ نے وجاہت کیساتھ سخت رویہ اپناکر باور کروادیا ۔ کہ وُہ  وجاہت اُور عائقہ کے ناجائز رشتے سے باخبر ہُو چکی ہے۔۔۔ اُور وجاہت کو  صرف بچوں کی خاطر ایک آخری موقع دینا چاہتی ہے۔۔۔ وجاہت اِس تمام صورتحال سے ایسا سٹپٹایا کہ،، عدیمہ کو یہ یقین دِلانے کیلئے کہ،، اُسکی زندگی میں عدیمہ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ اُس نے حال ہی میں اپنی تمام جائز و ناجائز آمدنی سے ایک اپارٹمنٹ کا پروجیکٹ شروع کیا  ہُوا تھا۔ وُہ تمام پروجیکٹ عدیمہ کے نام کرڈالا۔۔۔۔


یہ بات جب عائقہ کو معلوم ہُوئی تو۔ وُہ ایک دن وجاہت کے آفس پُہنچ گئی۔۔۔۔ وجاہت اِس تمام معاملے کو ختم کرنا چاہتا تھا۔کیونکہ اگر یہ معاملہ کورٹ میں چلا جاتا ۔یا گھر سے باہر نکل جاتا۔ ہر دُو صورت میں وجاہت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔۔۔ لیکن اب عائقہ بضد تھی۔ کہ،، معاہدے کے مطابق وُہ عدیمہ کا طلاق دیدے۔ اُور کچھ عرصہ بعد وُہ   سب کچھ سمیٹ کر کینیڈا شفٹ ہُوجائیں۔۔۔۔ لیکن وجاہت جانتا ہے کہ ،، عدیمہ  کو طلاق دینے کا مطلب تھا ۔کہ ،، وجاہت سیدھا فُٹ پاتھ پر آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔اُف میرے خُدایا یہ کہانی ہے یا کوئی مکڑی کا جالا؟؟؟  کامل علی نے ابوشامل کے خاموش ہُوتے ہی  دُونوں ہاتھوں سے اپنا سَر تھام لیا۔۔۔۔۔ یار سیدھی سادھی گُتھی تو ہر ایک گھر میں سُلجھالی جاتی ہے۔ عامِلوں سے لوگ تب ہی رجوع کرتے ہیں ۔جب اُنہیں یہ محسوس ہُونے لگتا ہے۔کہ،، اب ڈُور اُن کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اب تُم دیکھنا ہم اِس اُلجھی ڈُور کو کیسے سُلجھاتے ہیں ۔ جسکے بعد حُکومت میں ہمارا پہلا مُہرہ وجاہت دہلوی ہمارے لئے کیسے راہ ہموار کرتا چلاجائے گا۔ ابوشامل نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہُوئے کامل علی کو  اپنےمخصوص انداز میں آنکھ ماری۔

(جاری ہے)۔

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment