تذکرہ اِک پری کا (قصہ زُلیخا مائی صاحبہ) قسط۲۸
گُذشتہ سے پیوستہ
عمران کہانی کے سحر میں کھویا ہُوا تھا۔کہ،، اچانک کوثر نے
ہڑبڑا کر کہا۔ ہائے اللہ مجھ سےیہ کیا غضب
ہُوگیا۔۔۔۔ عمران بھی جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا اُور یہاں وہاں دیکھ کر کوثر سے استفسار
کرنے لگا۔کیا ہُوا کُوثر کیسا غضب ہُوگیا؟؟؟؟۔ بالما صابر پاک نے مجھے کہا
تھا۔کہ،، جیسے ہی عمران سے ملاقات ہُوجائے عشق کے ساگر میں بہکنے کے بجائے اُسے
جلد ہماری جانب روانہ کردینا۔ لیکن میں جنم جلی تمہاری قربت میں ایسی بہکی کہ،،
باباصاحب کا پیغام تم تک پُہنچانے میں تاخیر پر تاخیر کرتی چلی گئی۔۔۔۔ خُدا خیر
کرے کہیں اب صابر پاک ناراض نہ ہُوجائیں۔۔۔۔۔واقعی ہم سے بُہت بڑی غلطی
ہُوگئی۔اللہ پاک مہربانی فرمائے۔ اُور صابر پاک بھی ہماری کوتاہی کو درگُزر
فرمائیں۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیئے؟ عمران نے بھی پریشانی کے عالم میں کوثر سے سوال کیا۔۔۔۔۔۔
کرنا کیا ہے اب ایک لمحہ کی بھی تاخیر کیئے تمہیں بابا صابر کی خدمت میں حاضر
ہُوجانا چاہیئے۔چونکہ یہ درویش اللہ کریم کے دوست ہیں۔اس لئے میرا دِل گواہی دے
رہا ہے۔ کہ،، ذرا سی خفگی دکھانے کے بعد معافی ضرور عطا فرمادیں گے۔ کوثر کی گفتگو نے عمران کی وحشتوں کو یقین سے بدل
دیا تھا۔
عمران جب دھڑکتے
دِل کیساتھ باغ میں داخل ہُوا تب بابا صابر
باغ کے ایک گوشہ ٗخلوت میں نماز ظہر ادا کرنے میں مصروف تھے۔لہذا عمران بھی تھوڑے فاصلے پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ بابا صاحب
نے نماز سے فارغ ہُوکر ایک نگاہ عمران پر ڈالی۔لیکن اِس نگاہ میں کوئی شناسائی کا
عنصر موجود نہیں تھا۔ باباصاحب کی ناراضی بجا تھا۔لیکن اب عمران کے پاس بچا ہی کیا
تھا۔جو وُہ بابا صابر صاحب سے بھی بیگانہ ہُوجاتا۔ بابا صاحب نماز سے فارغ ہُونے کے بعد آنکھیں بند کئےایک درخت سے ٹیک لگاکر بیٹھ چُکے تھے۔
عمران کو نہ جانے
کیا سُوجھی۔کہ،، وُہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر بابا صاحب کے نذدیک پہنچ کر بابا صاحب کے
قدموں سے اپنی آنکھوں کو ملنے لگا۔ بابا صاحب نے بند آنکھوں سے اپنے پاوٗں سکوڑنے
چاہے۔ تب بھی عمران اپنے رُخسار قدموں سے ملتا رہا۔ کچھ لمحے خاموشی کی نذر ہُوتے
رہے پھر بابا صاحب کو عمران کی حالت پر رحم آہی گیا۔ تو محبت سے اُسکے چہرے کو
اپنے قدموں سے جُدا کرنے کے بعد اُسے اپنے سامنے بٹھا کر نصیحت فرمانے لگے۔
بیٹا میں نے کہا تھا نا تُم سے ایکدن۔کہ،، اختیار
امانت کی طرح ہوتا ہے۔؟اختیار خواہشات کو
جنم دیتا ہے۔ اُور سپردگی سے دُور لیجاتا ہے۔ یہی بات اُس جنم جلی نے بھی تُم سے
بیساختگی میں کہی تھی۔ جو کہ،، درحقیقت ہم نے ہی اُسکی زُبان سے ادا کروائی تھی۔
لیکن نا تُم نے اُن جملوں پر دھیان دیا۔ اُور نہ ہی کوثر نے زُبان سے ادا کرنے کے
باوجود اُنکا اِدراک حاصل کیا۔۔۔ دیکھو میاں صاحب کی جگہ اگر ہم بھی ہُوتے تو
تمہارے ساتھ وہی رویہ اختیار کرتے جو کہ،، میاں صاحب نے تمہارے ساتھ اختیار کیا
تھا۔ کیونکہ،، وُہ بھی تم سے بیحد پیار کرتے ہیں ۔ اُور ہم بھی تُم سے بےپناہ محبت
کرتے ہیں۔۔۔ لیکن تُم عشق کی مدہانی میں پُہنچنے کے باوجود خُود سے مکھن جُدا کرنے
کیلئے تیار نہیں ہُو۔
یاد رکھو یہ مکھن ہی دراصل دُنیا کی محبت ہے۔ جب تک یہ جامن
کا ساتھ نہیں چھوڑتی چھاچ تیار نہیں ہُوپاتی۔ مکھن خُود لپٹ جانے والا ہے جبکہ
چھاچ چکنائی کو جُدا کرنے والی ہے۔۔۔تم اپنا وعدہ بھول چُکے ہُو۔اس لئے مکھن کو
خُود سے جُدا نہیں کرنا چاہتے۔ جبکہ اِس وعدہ ازل میں تم نے حلف لیا تھا۔کہ،،
تم ہر ایک مجاز کو حقیقت پر قربان کردو
گے،، لیکن تُم بھول گئے،، بخدا بھول گئے وُہ تمام عہد و پاس جسکے ہم سب گواہ
ہیں۔۔۔ بابا صابر گفتگو کرتے ہُوئے بُہت جذباتی ہُوگئے ۔تو اپنی آنکھوں کے گوشے
اپنی چادر کے کونوں سے صاف کرنے لگے۔
بابا صاحب! میں نرا جاہل ہُوں۔ مجھے اتنی باریک گفتگو سمجھ
نہیں آتی۔آپ مہربانی فرماکر اِنہیں میرے لئے آسان لفظوں میں بیان فرمادیں۔یا مجھ
پر آگہی و ادراک کے دروازے کھول دیں۔عمران نے نہایت لجاجت سے گُزارش کی۔۔۔۔۔ بیٹا
وُہ وقت دُور نہیں ہے ۔جب عنقریب تُم پر آگہی و ادراک کے نا صرف تمام در ظاہر ہُوجائیں گے۔بلکہ مشاہدات کے ذریعے تمہارے
ابہام کو یقین کی عظیم دولت بھی میسر آجائے گی۔۔۔اگرچہ یہ نعمت ملنے تک تُم ایک
عظیم دولت کو غیب میں جاتا بھی دیکھ چکے ہُوگے۔بہرحال میں تمہیں آسان لفظوں میں
اپنا مافی الضمیر سمجھانے کی کوشش کرتا ہُوں۔۔۔عمران تم نے زلیخا مائی صاحبہ کا
تذکرہ تو ضرور پڑھا ہُوگا قران مجید میں۔۔۔؟ جی بابا صاحب پڑھا ہے لیکن اتنے سرسری
انداز میں کہ،، کبھی اصل واقعہ سمجھ ہی نہیں آسکا۔ عمران نے متانت سے جواب دیا۔۔۔۔
کوئی بات نہیں عمران میاں! آج ہم اِس واقعہ کے صرف ۲ پہلو ہی نہیں بلکہ اِسکے ایک
ایسے رُخ سے بھی رُوشناس کروائیں گے۔ جسکا مشاہدہ بُہت کم لوگوں نے کیا ہُوگا۔
دیکھو بیٹا ہماری
آج کی مُلاقات بُہت اہم ہے۔ کوشش کرنا کہ،، تمام زندگی ہماری یہ گفتگو ذہن سے محو
نہ ہُونے پائے۔انشا ٗ اللہ یہ گفتگو تمام
زندگی تمہارے لئے اندھیری راہ میں مشعل کا کام دیگی۔ گفتگو کی ابتدا میں ہم اسکی
جزئیات پر بات کریں گے۔ جبکہ اِسکا آخری حصہ تمام گفتگو کا حاصل ہُوگا۔ اللہ کریم
سے دُعا ہے۔کہ،، تمہارے ذریعہ اِس سے ہمیشہ عشاق فیضیاب ہُوتے رہیں۔اب میں مختصرواقع پیش کرتا ہُوں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے حُسن کا چاند جب سیدنا
یعقوب علیہ السلام کے کاشانے میں نمودار ہُوا۔ تب اردگرد موجودتمام چراغ شرماکر خُود بخود ٹمٹماتے
ہُوئے گُل ہُونے لگے۔ہزارچراغوں کی روشنی بھی ایک چاند کا مقابلہ کرنے کیلئے
ناکافی ہُوتی ہیں۔ اسلئے سیدہ راحیلہ کے اِس چاند نبوت کو چالاکی سےاندھیرے کنویں
میں اُتار کر اُفق سے غائب کرنے کی لاحاصل سعی کی گئی۔پھر ہمیشہ کی طرح عشق کے
امتحانات نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو مصر کے بازاروں تک پُہنچا دیا۔آپ کے حُسن کا چرچا مصر کے بازاروں سے محلات تک
پُہنچنے میں ذیادہ دیر نہیں لگی۔ جسکی وجہ سے آپ کو عزیز مصر نے اپنے قریب کرلیا۔
جبکہ سیدنا یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی آنکھیں آپکی جُدائی میں بہتے
بہتے خشک ہُوگئیں۔
جب کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا حُسن ایکبار پھر مصر میں آپ
کیلئے ایک مزید امتحان کی صورت جلوہ گر ہُوا۔ اُور آپ کی
موہنی صورت نجانے کب اُور کیسے عزیز مصر کی بیوی زُلیخا کے دِل و جگر کو زخمی کرگئی۔ زلیخا نے بھرپور
کوششیں شروع کردیں۔کہ،، کسی طرح سیدنا یوسف علیہ السلام بھی آپکی جانب مائل
ہُوجائیں۔لیکن جِن آنکھوں میں عشق الہی کا سُرمہ موجود ہُو بھلا اُن نگاہوں میں
کوئی خلق کیسے سما سکتا ہے۔۔۔۔ کہتے ہیں عشق و مُشک چھپائے نہیں چھپتے۔ سُو زلیخا
کی دِلگی کا قصہ بھی کسی نہ کسی طرح اُمرا ٗ کی بیگمات تک جا پُہنچا۔زلیخا نے اُن خواتین کےطعنوں سے بچنے کیلئے ایک محفل کا اہتمام کیا۔ جس میں
شرفا کی بیگمات کے ایک ہاتھ میں پھل اُور
دوسرے ہاتھ میں چھری پکڑادی گئی۔اُور جب سیدنا یوسف علیہ السلام کو اُن کے سامنے
سے گُزارا گیا۔تو وُہ خواتین بھی نور نبوت
کی تاب نہ لاسکیں۔ اُور نتیجتاً اُنہوں نے
چھری سےاپنے ہی ہاتھوں کی
انگلیوں کو کاٹ ڈالا۔
جب زلیخا نے اپنی ہر تدبیر کو تقدیر کے مقابلے میں ناکامی
کی نذر ہُوتے دیکھا۔ تو اُس نےجبر کی
راہ اختیار کرنے کیلئے سیدنا یوسف علیہ
السلام کو چالاکی سے تنہائی میں اپنی آرام گاہ میں طلب کرلیا۔لیکن اللہ کے نبی علیہ السلام نے اُسے نصیحت فرمائی
کہ،، زلیخا اپنی خواہشات کی غلامی سے نکل کر اُس واحد و لاشریک کی غلامی کا طوق
اپنی گردن میں سجالے،جس نے مہربانی فرماتے ہُوئے اپنی نیابت کا تاج انسان کے سر پر
سجایا ہے۔اَب اِسے اتفاق کہیئے یا اللہ کریم کی مشیت کہ،،عین اُسی وقت عزیز مصر
بھی وہاں پُہنچ گیا۔
زلیخا جانتی تھی کہ،، عزیز مصر حُسن زلیخا پر پروانے کی
مانندنثار ہے۔ اسلئے اُس نے اپنی تمام ناکامیوں کا انتقام لینے کیلئے سارا
الزام سیدنا یوسف علیہ السلام کے سر ڈال دیا۔ اللہ کریم کے حُکم سے سیدنا یُوسف
علیہ السلام کی پاکیزگی کی گواہی ایک شیر خوار بچے نے دی جسکی وجہ سے عزیز مصر پر
یہ بات تو واضح ہو ہی گئی۔کہ،، خواہشات کی اسیر اُسکی اپنی زوجہ ہے ناکہ،، سیدنا
یوسف علیہ السلام۔لیکن۔۔۔ یوسف علیہ السلام کی قربت پھر زلیخا کو بہکانے کا باعث
بن سکتی تھی۔ اسلئے عزیز مصر نے سیدنا یُوسف علیہ السلام کو قید کرنے کے احکامات
جاری کردیئے۔
کچھ عرصہ بعد یوسف علیہ السلام سے ۲ قیدیوں نے اپنے خواب
بیان کیئے جنکی تعبیر اللہ کے نبی علیہ
السلام نے بیان فرمادی۔ دونوں کو جو تعبیر بتائی گئی تھی۔ بالکل اسی طرح معاملہ پیش
آیا۔ ایک قیدی کو پھانسی دیکر چوراہے پر عبرت کیلئے لٹکا دیاگیا۔ جبکہ دوسرے کو
عزیز مصر کے ساقی کا فرئضہ سُونپ دیا گیا۔ پھر عزیز مصر نے ایک خواب دیکھا تو اُس
ساقی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیر کی بیحد تعریف کی۔ عزیز مصر نے جب اپنا
خواب سیدنا یوسف علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا۔ تو آپ نے جواباً فرمایا۔کہ،،
سات برس تک خُوب خُوشحالی رہنے کے بعد سات برس تک ملک میں قحط پڑے گا۔
عزیز مصر کے قلب
میں بات بیٹھ جاتی ہے۔کہ،، یوسف علیہ السلام عام انسان نہیں ہیں۔ بلکہ یہی مصر کو پیش آنے والی مصیبت سے بچاسکتے ہیں۔ اُور
اسطرح حضرت یوسف علیہ السلام کو قیدخانے سے نکال کر حکومت مصر کی تمام انتظامی ذمہ داریاں سُونپ دی
جاتی ہیں۔حضرت یوسف علیہ السلام دُنیا کے پہلے ذخیرہ گھر تعمیر کراتے ہیں۔ اُور
غالباً پہلی مردم شُماری بھی۔پھر آپکی تعبیر کے عین مطابق سات برس تک اجناس کی
خُوب پیداوار ہُوتی ہے جنہیں ذخیرہ کیا
جاتا ہے۔ جو اگلے قحط کےسات برسوں میں کام
آتا ہے۔اِسی دوران آپکے بھائی بھی غلے کے حصول کیلئے آپ کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ آپ
اُن کیساتھ بھی اچھا سلوک کرتے ہیں۔ اُور اپنی قمیص مبارک والد گرامی کی خدمت میں
بھیجتے ہیں۔جسے آنکھوں سے لگانے پر سیدنا یعقوب علیہ السلام کی ظاہری بینائی واپس
لُوٹ آتی ہے۔
عمران بیٹا یہ تو وُہ قصہ تھا جو عموماً بیان کیا جاتا ہے۔ اب میں تمہاری خاص توجہ چاہونگا۔تاکہ میں وُہ بات بیان کرسکوں جو میرے پاس تمام عاشقوں کیلئے امانت ہے۔۔۔کہ،، جب سیدنا یوسف علیہ السلام جب اِن تمام ہنگاموں اُور امتحانات سے سُرخرو ہوجاتے ہیں۔تو ایکدن آپ کے دِل میں زلیخا کا خیال آتا ہے۔ زلیخا کے خیال کیساتھ اُسکا آپکو پانے کے لئے جنون بھی یاد آتا ہے۔پھر آپ اَس فیصلے پر پُہنچتے ہیں۔کہ،، زلیخا جو عزیز مصر کے گُزرجانے کے بعدایک بیوہ کی زندگی گُزار رہی ہے۔ اُسے اُسکی محبتوں کا ثمر ملنا چاہیئے۔ اُور زلیخا کو اپنی شریک حیات بنالینا چاہیئے۔ چناچہ اللہ کے نبی سیدنا یوسف علیہ السلام زلیخا مائی صاحبہ سے ارشاد فرماتے ہیں۔
عمران بیٹا یہ تو وُہ قصہ تھا جو عموماً بیان کیا جاتا ہے۔ اب میں تمہاری خاص توجہ چاہونگا۔تاکہ میں وُہ بات بیان کرسکوں جو میرے پاس تمام عاشقوں کیلئے امانت ہے۔۔۔کہ،، جب سیدنا یوسف علیہ السلام جب اِن تمام ہنگاموں اُور امتحانات سے سُرخرو ہوجاتے ہیں۔تو ایکدن آپ کے دِل میں زلیخا کا خیال آتا ہے۔ زلیخا کے خیال کیساتھ اُسکا آپکو پانے کے لئے جنون بھی یاد آتا ہے۔پھر آپ اَس فیصلے پر پُہنچتے ہیں۔کہ،، زلیخا جو عزیز مصر کے گُزرجانے کے بعدایک بیوہ کی زندگی گُزار رہی ہے۔ اُسے اُسکی محبتوں کا ثمر ملنا چاہیئے۔ اُور زلیخا کو اپنی شریک حیات بنالینا چاہیئے۔ چناچہ اللہ کے نبی سیدنا یوسف علیہ السلام زلیخا مائی صاحبہ سے ارشاد فرماتے ہیں۔
اے زلیخا میرے پاس تمہارے لئے ایک خُوشخبری ہے۔تو تمام زندگی مجھے پانے کیلئے ترستی رہی ہے۔ اُور تجھ پر میری محبت ہمیشہ ایسی غالب رہی۔کہ،، تونے کبھی اپنے مرتبے کا بھی خیال نہ کیا۔اُور ایک دیوانے کی طرح میری چاہت میں گرفتار رہی۔ لے آج خُوش ہوجا۔کہ،، آج میں خُود تجھے اپنانے کا اعلان کرتا ہُوں۔ اُور تجھ سے نکاح کا خواہشمند ہُوں۔۔۔۔ عمران بیٹا ذرا تصور تو کرو جب سیدنا یوسف علیہ السلام نے زُلیخامائی صاحبہ کو نکاح کا پیغام دیا ہُوگا۔ اُس وقت مائی صاحبہ کی کیفیت کیا ہُوگی۔؟۔۔۔ جی باباصاحب واقعی وُہ دِن تو مائی صاحبہ کیلئے عید کا دِن ہُوگا۔ کہ،، مائی صاحبہ جسے ساری زندگی خُدا سے مانگتی رہیں ہُونگی۔ وُہ مُراد اُس دن خُود مائی صاحبہ کی جھولی میں اچانک آگری تھی۔عِمران نے تصور میں مائی صاحبہ کے چہرے پر خُوشی اور تشکر کے ہزاروں رنگ تلاش کرنے کی کوشش کی۔
ہاں بیٹا۔ جب جب کوئی مائی صاحبہ کی طلب عشق کی داستان سُنے گا اُس کا وہی جواب ہُوگا۔
جو تم نے ابھی دیا ہے۔ لیکن بیٹا حقیقت یہی ہے۔کہ،، حضرت یوسف علیہ السلام کی
پیشکش کا جواب مائی صاحبہ نے تمہارے تصور
کے بالکل برخلاف دیا تھا۔۔۔ مائی صاحبہ نے صاف صاف منع کردیا تھا۔۔۔۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے
حیرت کے عالم میں مائی صاحبہ سے دریافت
کیا۔ زُلیخا وُہ تمہاری محبت کیا ہُوئی۔؟ کہ،، جس نے تمہیں وحشتوں میں مبتلا کردیا
تھا۔
مائی صاحبہ نے جواب دیتے ہُوئے عرض کی۔ اے اللہ کے نبی
(علیہ السلام) میں آپ کے عشق میں ایسی گرفتار تھی۔کہ،، اگر کوئی مجھ سے آپ کی محبت
کی خاطر میری جان بھی طلب کرلیتا۔ تو میں اپنی جان پیش کرنے کیلئے ذرا نہیں
چُوکتی۔لیکن میری تمام تر کوششوں کے باوجود آپ نے مجھے کبھی پلٹ کر نہیں
دیکھا۔۔۔تب میں ایک بات سوچنے پر مجبور
ہُوگئی۔کہ،، ہر انسان دوسرے انسان سے تین
اہم وجوہات کی وجہ سے مُتاثر ہو کر اُسکی جانب مائل ہُوتا ہے۔ پہلی وجہ (حُسن) ہے۔ ۔۔دوسری وجہ
(طاقت )ہے۔ جبکہ تیسری وجہ (دُولت )ہے۔ اِن میں سے کوئی ایک شئے بھی کسی انسان کے
پاس موجود ہو۔تو دوسرے انسان خُودبخود اُسکی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ مگر اے اللہ
کے نبی علیہ السلام۔میرے پاس تو بیک وقت حُسن کی لازوال دُولت بھی تھی۔ مصر کی
طاقت کا سرچشمہ بھی میں تھی۔ اُور ظاہری اسباب سے میرے خزانے بھی پُر تھے۔لیکن آپ نے مجھے پھر بھی ایک نظر
اُٹھا کر نہیں دیکھا۔
تب میں یہ سُوچنے پر مجبور ہُوگئی۔کہ یقیناً کوئی چوتھی وجہ
بھی ضرورموجود ہونی چاہیئے۔جو آپکو میری
جانب ملتفت نہیں ہُونے دیتی۔۔ تب میں کافی
غُور و خوص کے بعد اِس نتیجے پر پُہنچی۔کہ،، وُہ چوتھی وجہ کسی کے عشق میں مبتلا
رہنا ہے۔۔۔ میں نے کافی کھوج لگانے کی
کوشش کی۔کہ،، آپ کے معشوق کا کچھ پتہ چل جائے۔لیکن آپکا عشق تو مخلوق سے تھا ہی نہیں۔ تب میں اُسے کیسے کھوج سکتی تھی۔ پھر مجھ پر میرے
عشق کی مسلسل تپش نے بلاآخر یہ راز افشاں
کر ہی دیا۔کہ آپ مخلوق کے نہیں بلکہ خالق کے عشق میں گرفتار ہیں۔ اُور بلاآخر میرے
جنون عشق نے مجھے بھی عشق مجازی کی ندیا سے بہا کر عشق حقیقت کے ساگر میں اُتار
دیا ۔ سُو اِس لئے جب سے میں نے اُس کریم
کے عشق کوپالیا ہے۔ اب میرے دِل میں کسی غیر کی محبت کا خیال بھی نہیں آتا۔
جاری ہے۔۔۔
پلکوں سے دَر یار پر دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
JZAK ALLAH BHAI.ALLAH KAREEM hamey apney piyaron k SADQEY ishq e haqiqi ata kary. J SA K HASAN RAZA BARELVI REHMAT ULLAH ALEH FARMATEY HAIN.
ReplyDeleteAPNA AZIA WO HAI JISEY TU AZIZ HAI.
HAM KO WOHI PASAND JISEY AAYE TU PASAND.