bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Sunday 7 June 2015

عامل کامل ابوشامل (زخمی ابوشامل) قسط 47.akas



گُذشتہ سے پیوستہ۔

مزید چند لمحوں کے بعد آندھی تھم گئی۔لیکن ابوشامل اُور فرنانڈس کا کمرے میں نام و نشاں تک نہیں تھا۔۔۔۔ یہ دونوں کہاں چلے گئے؟ کامل علی نے دانہ ثمانی کے موکل سے استفسار کیا۔۔۔۔  یہ سب اِس ہار کی کرامت ہے جو تم  تم نے ابھی اریبہ کو پہنایا ہے۔ اِس ہار کی موجودگی میں کوئی جن یہاں نہیں ٹہرسکتا۔ورنہ وُہ چند پل میں جل کر خاکستر ہُوجائے گا۔ دانہ ثمانی کے موکل نے کامل  علی کے علم میں اضافہ کرتے ہُوئے بتایا۔۔۔ لیکن پھر تُم یہاں کیسے موجود ہُو۔کامل نے حیرت کا اظہار کیا۔۔۔۔۔ میں اِس لئے یہاں موجود ہُوں۔کہ،، میں کوئی جن نہیں ہُوں صرف دانہ ثمانی کا موکل ہُوں۔۔۔ تم ایسا کرو رفیع صاحب کو بُلاکر ہدایات دےدُو۔کہ،، کسی بھی صورت میں وُہ اِس ہار کو اریبہ کے جسم سے جُدا نہ کریں۔ ورنہ وُہ فرنانڈس جب تک زندہ ہے۔ہر حال میں اریبہ کے جسم پر قبضہ جمانے کی کوشش ضرور کرے گا۔

دانہ ثمانی کے موکل کے مشورے پر کامل علی نے رفیع دُرانی کو تمام ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کی تاکیدکرتے ہُوئے یقین دِلایا۔کہ،، الحمدُللہ ایک خُونخوار جنگ لڑنے کے بعد اریبہ کو اُس شیطان جن زادے  کی دسترس سے نکال لیا گیا ہے۔ اُور اب انشا ٗ اللہ وُہ دِن دُور نہیں کہ،، جب اریبہ بٹیا پہلے کی طرح ایک نارمل زندگی گُزارسکے گی۔ بس آپ لوگوں نے اِس ہار کی حفاظت ایسے ہی کرنی ہے۔ جس طرح آپ لوگوں نے اپنی بچی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ رفیع دُرانی نے کامل کا شُکریہ ادا کرتے ہُوئے  ۔رقم سے بھراایک لفافہ کامل کی طرف بڑھایا۔جسے کامل نے یہ کہہ کر واپس رفیع دُرانی کی جیب میں ڈال دیا۔کہ،، اریبہ کا علاج کرتے ہُوئے مجھے بالکل ایسا ہی محسوس ہُورہا تھا۔ جیسے میں آپکی نہیں بلکہ اپنی بچی کیلئے لڑرہا ہُوں۔

رفیع کے گھر سے اپنے گھر کی جانب جاتے ہُوئے  راستے میں کامل کی گاڑی ایک مقام پر یکایک بند ہُوگئی۔ کافی کوشش کے بعد بھی جب سلب سے کوئی شور برآمد نہیں ہُوا۔تو کامل نے گاڑی سے اُتر کر انجن دیکھنے کا ارداہ کیا۔ کامل جس وقت بونٹ کھولنے کی کوشش کررہا تھا۔تب ہی کامل کے کان میں کسی کےدرد سے کراہنے کی کی آواز گونجی۔ کامل نے  گردن گھماکر یہاں وہاں دیکھا تو اُسے سڑک کے کنا رے ایک شخص کمبل لپیٹے دکھائی دیا۔ جو کراہتے ہُوئے کامل کو ہی پُکار رہا تھا۔

کامل نے ہمت کرکے جب کمبل اُس شخص کے چہرے سے ہٹانے کی کوشش کی تو۔کامل کے مُنہ سے  چیخ بُلند ہُوتے ہُوتے رِہ گئی۔ کمبل میں ابوشامل کا جھلسا ہُوا جسم موجود تھا۔ اگرچہ ابوشامل کے چہرے پر اسقدر زخم موجود تھے۔کہ،، اصلی چہرے کے خدوخال واضح نظر نہیں آرہے تھے۔لیکن وُہ  بہرحال ابو شامل ہی تھا۔ جس نے قدم قدم پر کامل پر اتنے احسانات کیئے تھے۔کہ،، کامل کو اُنہیں چکانے کیلئے ایک زندگی کم دکھائی دیتی تھی۔۔۔ کامل نے فوراً خیال کیا کہ،، ابوشامل کو اِس وقت علاج کی سخت ضرورت ہے۔ اس لئے کامل نے ابوشامل کو ہسپتال لیجانے کیلئےگود میں بھرا اُور فرنٹ سیٹ پر ڈال کر جونہی بےخیالی میں گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی تو پہلی ہی کوشش میں کار کا انجن ایسے انگڑائی لیکر جاگ اُٹھا۔ جیسے وُہ کبھی خراب ہی نہ ہُوا  تھا۔۔۔۔ کامل میرے دوست مجھے اِس وقت داکٹروں کی ضرورت نہیں ہے۔ اُور نہ ہی تمہارے داکٹروں کے پاس میرا علاج موجود ہے۔ اگر تم مجھے بچانا چاہتے ہُو تو مجھے فوراً ہمارے آستانے پر لے چلو۔ وہاں پُہنچ کر ہم کوشش کریں گے۔کہ حکیم بطلیموس کو میرے متعلق  معلومات پُہنچ جائے۔ اگر ہم کامیاب ہُوگئے۔ تو مجھے یقین ہے کہ،، حکیم بطلیموس ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر دُوڑا چلا آئے گا۔ اُور وہی ایک ایسا معالج ہے ۔جسے معلوم ہے۔کہ،، میرا علاج کس طرح ممکن ہے۔۔۔ کمزوری اُور زخموں کی وجہ سے مجھ میں بالکل ہمت باقی نہیں بچی ہے ۔ورنہ میں خود اُنکی خدمت میں جانا چاہتا تھا۔ ابوشامل اتنا کہنے کے بعد زُور زُور سے سانس لینے لگا۔جیسے اُسے سانس لینے میں  بُہت دقت پیش آرہی ہُو۔

آستانے پُہنچنے کے بعد جیسے تیسے کامل علی نے ابوشامل کو اپنے کمرہ خاص تک پُہنچا کر ابوشامل سے دریافت کیا۔ ابو شامل اب جلدی سے مجھے بتاوٗ کہ،،حکیم بطلیموس سے کس طرح رابطہ کرنا ہے؟۔ ابوشامل نے کامل کو نذدیک آنے کا اشارہ کیا۔ اُور اُسکے کان میں چند جملے دہرانے کے بعد اُسے ہدایت کی۔کہ،، شمالی دیوار کے کونے میں جاکر انہی جملوں کو  لگاتار گیارہ مرتبہ دُہرانے سے حکیم بطلیموس تک  میرا پیغام پُہنچ جائے گا۔۔۔ کامل علی نے اُن جملوں کو کئی بار ابوشامل کے سامنے دُہرا کر تصیح کی۔ اُور پھر کمرے کے شمالی کونے میں وہی جملے گیارہ مرتبہ دُہرا دیئے۔ آخری مرتبہ جملہ دہرانے کے بعد جب کامل نے ابوشامل کی جانب پلٹ کر دیکھا۔تو اُس نے ایک معمر ترین شخص کو ابوشامل کی پیشانی کا بوسہ لیتے ہُوئے دیکھا۔

 اُس معمر شخص کا قد بمشکل چار فُٹ کے قریب رہا ہُوگا۔ جبکہ داڑھی اُور مونچھ کے  علاوہ نوکیلی ٹوپی سے جھانکتے ہُوئےسفید بال اُسکے وقار میں اضافہ کررہے تھے۔۔۔۔ وُہ معمر تریں شخص ایک انجانی زُبان میں ابوشامل سے کچھ سوالات کررہا تھا۔جنکے جوابات بھی ابوشامل اُسی زبان میں دے رہا تھا۔ پھر ابو شامل نے کامل کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ کامل میرے بھائی حکیم بطلیموس تشریف لے آئے ہیں۔ اس لئے اب تُم بھی بے فکر ہُوکر جاناں کے پاس چلے جاوٗ۔میں  بھی انشاٗ اللہ چند دن میں صحتیاب ہو کر گھر آجاوٗں گا۔ تمہاری حفاظت کیلئے بدستور دانہ ثمانی کا موکل موجود رہے گا۔ ویسے بھی فرنانڈس کی حالت مجھ سے بھی بُہت ذیادہ خراب تھی۔اِس لئے فی الحال اُس کی طرف سے بھی کسی خطرے کا اندیشہ نہیں ہے۔۔۔۔ کامل علی نہیں چاہتا تھا۔کہ،، ابوشامل کو اِس حال میں تنہا چھوڑ کر گھر جائے۔لیکن ابوشامل کے اصرار کے سامنے بلاآخر کامل کو ہی ہتھیار ڈالنے پڑے۔
گھر پہنچ کر بھی کامل کو ابوشامل کا خیال ستاتا رہا۔ جاناں نے آج کامل کی پسند کو مدنظر رکھتے ہُوئے خُشک چاول کیساتھ فرائی مچھلی کا اہتمام کیا تھا۔ لیکن اپنا پسندیدہ کھانا بھی سامنے ہُونے کے باوجود کھانا کامل کے حلق سے نیچے نہیں اُتر رہا تھا۔
کامل کی بےرغبتی دیکھ کر جاناں سے بھی کھانا نہیں کھایا  جارہا تھا۔ پھر کامل نے جاناں کو مخاطب کرتے ہُوئے اِس خواہش کا اظہار کیا۔کہ،، کمرے میں مجھے اچھی نیند نہیں آسکے گی۔اسلئے آج رات ہم کیوں نہ  چھت پرکھلے آسمان تلے سُوجائیں۔ جاناں کے بستر لگاتے ہی کامل کچھ ہی دیر میں ستاروں کو تکتے تکتے نیند کی آغوش میں پُہنچ گیا۔۔۔۔ خاب میں بھی تمام رات اُسے سلطان تبریزی کے جلوے نظر آتے رہے۔ وُہ کبھی باز کی طرح فضا میں پرواز کرتے ہُوئے اُسکی نگرانی کرنے لگتا۔پھر اچانک  چاروں جانب سے سانپ اُس کو ڈسنے کی کوشش کرتے۔تو سلطان تبریزی سرعت سے جھپٹ جھپٹ کر اُن سانپوں پر حملہ آور ہُوجاتا اُور اپنے پنجوں  کی مدد سے اُن سانپوں کو اُدھیڑ اُدھیڑ کو دُور اچھال دیتا۔ پھر اچانک اُسے وہی درویش  ریحان شاہ تبریزی دکھائی دیا جنہوں سے ایکبار گھنشام داس سے اِسکی جان بچائی تھی۔۔۔ اُور اب ریحان شاہ تبریزی سلطان تبریزی کی پیٹھ ٹھونک ٹھونک کر اُسے ایسے شاباسی دے رہے تھے۔ جیسے سلطان تبریزی کے کام سے بُہت خوش ہُوں۔کامل ریحان شاہ تبریزی کی دست بوسی کرکے اُن سے سلطان تبریزی کی بابت دریافت کرنا چاہتا تھا۔کہ،،۔۔۔۔

اچانک جاناں نے کامل کو جھنجھوڑ کر اُٹھاتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔ کامل کیا ہُوا ہے تمہیں۔ کیا کوئی بُرا خواب دیکھ رہے تھے۔  ؟؟؟کیونکہ تم ابھی خواب میں بُہت ذیادہ چیخ رہے تھے۔۔۔ ہاں۔ آں۔ میں شائد خواب  ہی دیکھ رہا تھا۔ خُدایا  کتنا عجیب خُواب تھا؟ ہر طرف سے سانپ مجھ پر حملہ آور ہُورہے تھے۔۔۔۔ جان  میں نے اپنے نانا سے سُنا ہے۔کہ،،خُواب میں سانپ کا دیکھنا اچھا نہیں ہُوتا۔ وُہ کہتے تھے۔کہ،، سانپ کی مثال اُس دشمن کی ہُوتی ہے جو اپنے حریف کی کمزوری پر نگاہ رکھتا ہے۔اور جیسے ہی کوئی کمزوری اُس کے ہاتھ آجاتی ہے۔ وُہ تاک کر حملہ کردیتا ہے۔۔۔جاناں کی بات سُن کر  ٹھنڈی ہواوٗں کے باوجود کامل کی پیشانی پر پسینے کے قطرے جگمگانے لگے تھے۔

(جاری ہے)


اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔


0 comments:

Post a Comment