گُذشتہ سے پیوستہ
ہر انسان دوسرے انسان
سے تین اہم وجوہات کی وجہ سے مُتاثر ہو کر اُسکی جانب مائل ہُوتا ہے۔ پہلی وجہ (حُسن) ہے۔ ۔۔دوسری وجہ
(طاقت )ہے۔ جبکہ تیسری وجہ (دُولت )ہے۔ اِن میں سے کوئی ایک شئے بھی کسی انسان کے پاس
موجود ہو۔تو دوسرے انسان خُودبخود اُسکی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ مگر اے اللہ کے نبی
علیہ السلام۔میرے پاس تو بیک وقت حُسن کی لازوال دُولت بھی تھی۔ مصر کی طاقت کا سرچشمہ
بھی میں تھی۔ اُور ظاہری اسباب سے میرے خزانے
بھی پُر تھے۔لیکن آپ نے مجھے پھر بھی ایک نظر اُٹھا کر نہیں دیکھا۔
تب میں یہ سُوچنے پر مجبور ہُوگئی۔کہ یقیناً کوئی چوتھی وجہ
بھی ضرورموجود ہونی چاہیئے۔جو آپکو میری جانب
ملتفت نہیں ہُونے دیتی۔۔ تب میں کافی غُور
و خوص کے بعد اِس نتیجے پر پُہنچی۔کہ،، وُہ چوتھی وجہ کسی کے عشق میں مبتلا رہنا ہے۔۔۔ میں نے کافی کھوج لگانے کی کوشش کی۔کہ،، آپ کے معشوق
کا کچھ پتہ چل جائے۔لیکن آپکا عشق تو مخلوق
سے تھا ہی نہیں۔ تب میں اُسے کیسے کھوج سکتی
تھی۔ پھر مجھ پر میرے عشق کی مسلسل تپش نے
بلاآخر یہ راز افشاں کر ہی دیا۔کہ آپ مخلوق کے نہیں بلکہ خالق کے عشق میں گرفتار ہیں۔
اُور بلاآخر میرے جنون عشق نے مجھے بھی عشق
مجازی کی ندیا سے بہا کر عشق حقیقت کے ساگر
میں اُتار دیا ۔ سُو اِس لئے جب سے میں نے اُس
کریم کے عشق کوپالیا ہے۔ اب میرے دِل میں کسی غیر کی محبت کا خیال بھی نہیں
آتا۔
اب مزید پڑھیئے۔
تذکرہ زلیخا مائی صاحبہ نے عمران کو اِک عجیب سی کشمکش میں مُبتلا
کردیا تھا۔ پہلے بابا صابر نے فرمایا کہ،، ایک عظیم نعمت چھن جانے کے بعد اُسے ادراک
کی دُولت حاصل ہُوگی۔ پھر اُس پر مائی صاحبہ کی داستان بیان کی۔ آخر صابر پاک کہنا
کیا چاہتے ہیں مجھ سے۔ کہیں ؟ کہیں۔؟ کہیں۔؟ بیشمار سوالات اُور اندیشوں نے عمران کی
چھٹی حِس کو متحرک کردیا تھا۔ لیکن کسی ایک کہیں کا بھی جواب عمران کو سجھائی نہیں
دے رہا تھا۔۔۔۔بلاآخر تھک ہار کر عمران نے بابا صابر کی بارگاہ میں ہی عرض کرتے ہُوئے
پہلا سوال کیا۔۔۔ بابا صاحب اِس واقعہ میں
زلیخا مائی صاحبہ کے عشق کو مات نہیں ہُوگئی۔؟؟؟۔
مات کہاں عمران میاں؟ زلیخا مائی صاحبہ تو بظاہر ہار کر بھی
سُرخرو ہُوگئی تھی۔۔۔ کیا یہ جیت کم ہے کہ،، جسے چاہا جائے وُہ خُود محبت کے اظہار
کیلئے تیار ہُوجائے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کا
نکاح کی پیشکش کرنا بھی تو زلیخا مائی صاحبہ کی جیت ہی ہے۔۔۔۔ مگر بابا صاحب
اِس قصہ کا انجام ایسا کیوں ہُوا۔کہ زلیخا مائی صاحبہ کی طلب ہی ختم ہُوگئی۔؟ عمران
سے اگلا سوال پیش کردیا۔
ہاں تمہارا یہ سوال بُہت دلچسپ ہے۔ اُور اِس معاملہ کو سمجھنے
کیلئے ہمیں بُہت پیچھے جا کر کچھ باتوں کو یاد کرنا ہُوگا۔تاکہ ہمیں اِس داستان کو
سمجھنے میں آسانی ہو۔ بابا صابر نے گفتگو جاری رکھتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ دیکھو ! حضرت جلال الدین رُومی (رحمتہ اللہ علیہ) جنہیں
اِمام العاشقین بھی کہا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں ۔ایک حدیثِ قُدسی ہے ۔اللہ کریم فرماتا
ہے۔کہ،،میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں لہٰذا میں نے مخلوق
کو پیدا فرمایا۔ " مزید آپ فرماتے ہیں۔کہ،،مخلوقات مظہرِ صفاتِ خداوندی ہیں۔انسان
کے جسم میں جو موتی ہے اُس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اُس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اب ہم معرفت
اُور اِس موتی پر جوکہ انسان کے باطن میں موجود
ہےکچھ بات کرتے ہیں۔تاکہ اِس ہار جیت کو سمجھنے میں آسانی رہے۔
معرفت جسکا لغوی معنیٰ ہے پہچان۔ تو اِس معرفت کا اقرار تو ہم
رُوز اَزل،، ہی الستُ بربکم کے جواب پر قالو بلیٰ کی صداوٗں کی صورت دے چُکے ہیں۔ لیکن عمران بیٹا کیا کسی کی پہچان یقین کے بغیر ممکن
ہے۔ ؟۔۔۔نہیں ہے نا!تو معلوم ہُواکہ،، یہ یقین
ہی دراصل ایمان ہے۔جس میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتا۔ اُور ایمان کی معراج عشق ہے۔
جبکہ عشق امتحان کے بغیر مکمل نہیں ہُوتا۔اُور عشق میں سوال جواب نہیں ہُوتے۔ بس سر
جھکا کر ہر حُکم کی تعمیل کی جاتی ہے۔۔۔۔
اِسکا مطلب یہ ہُوا۔کہ،، قالو بلیٰ کی ہماری صدائیں دراصل ہمارے عشق کی تجدید تھی۔۔۔ لیکن
انسان دعویٰ عشق کرنے کے بعد جب امتحان دینے کیلئے وطنِ اصلیہ عالم اروح، عالم لاہوت، و عالم ملکوت
سے عالم مَلک و عالم ناسوت کے اسفار سے گُزرتے ہُوئے اپنے وعدے کو دُنیا کی محبت میں
بُھلا بیٹھا۔تب اُسے یہ بھی یاد نہیں رہا۔کہ،،
وُہ عشق الہی کا دعویٰ کرنے کے بعد امتحان کی خاطر اِس دُنیا (عالم ناسوت) میں بھیجا
گیا ہے۔ اِس لئے اللہ کریم نے انسانوں کو اُنکا وعدہ یاد دِلاتے ہُوئے اپنے کلام مجید میں الست وبربکم و قالو بلی کی یاد
دِلائی ہے۔تاکہ ہم انسان وطن اصلیہ کے وعدے کا پاس کرتے ہُوئے عشق الہی کی راہ میں
آنے والے امتحانات سے سُرخرو ہُوکر گُزر جائیں۔
بابا صاحب ! لیکن اِن تمام باتوں سے یہ کہاں ثابت ہُوتا ہے۔کہ
زلیخا مائی صاحبہ کو یوسف علیہ السلام کی محبت
میں ناکامی کی وجہ سے ہی عشق حقیقی کی دولت نصیب ہُوئی۔۔۔؟ عمران کے الجھے ہوئے
ذہن نے اِک نئے سوال کی اختراع کی۔۔۔۔۔ تعلق تو بہت گہرا ہے عمران بیٹا۔لیکن شائد قربانی
کا خوف تمہیں صحیح رہنمائی حاصل کرنے سے رُوک رہا ہے۔کیا تُم نے وُہ حدیث قدسی جس میں
چاہت کا تذکرہ متعدد بار آیا ہے کبھی سُنی ہے۔صابر بابا نے پہلو بدلتے ہُوئے عمران سے سُوال کیا۔ جی صابر پاک
وُہ حدیث قدسی اکثر میاں صاحب بیان فرماتے ہیں۔عمران نے اثبات میں گردن ہلاتے ہُوئے
جواب دیا۔
لیکن مجھے لگتا ہے۔کہ،، تُم نے اُس حدیث قدسی کو کبھی سمجھنے
کی کوشش ہی نہیں کی۔ بابا صابر نے مُسکراتے ہُوئے گفتگو جاری رکھی۔ چلو آج اُسی حدیثِ
قُدسی کو میں آسان انداز میں ایک نئے مفہوم
میں تمہارے سامنے پیش کرتا ہُوں۔ ہوسکتا ہے کہ،، آج خُدا کے فضل سے وُہ بات تمہاری
سمجھ میں آجائے۔ اگرچہ مجھ میں اتنی صلاحیت نہیں ہے۔کہ،، میاں صاحب جیسے عظیم عاشق کی طرح اپنی بات سمجھا پاوٗں۔۔۔۔
اب اُس حدیث کو ذہن میں رکھ کر میری تشریح غُور سے سُنو۔ چونکہ ہر انسان کی خواہش ہُوتی
ہے کہ،، اُس کی زندگی میں تمام کردار اُسکی خاہش کے مطابق ہُوں۔ اُور جس کردار کو وُہ اپنے لئے پسند کرتا
ہے۔ وہی کردار اُسے نبھانا پڑے۔ تو گویا اُن سے ربّ تعالی یُوں فرمارہا ہے کہ،،
اے انسان ایک وُہ کردار ہے جو میں نے تیرے لئے پسند فرمایا ہے۔
اُور ایک وُہ کردار ہے جو تجھے پسند ہے۔۔۔
ایک وُہ اسکرپٹ ہے جو میں نے لکھا ہے۔جبکہ ایک وُہ اسکرپٹ ہے جو تجھے پسند ہے۔اگر
تو میرے اسکرپٹ کے مطابق وُہ کردار چُن لے ۔جو میرا پسندیدہ ہے۔ اُور اِس میں بخوبی اپنی لگن سے رنگ بھردے۔ تو میں اسکے بعد تیرے
تمام پسندیدہ کردار نبھانے کا موقع بھی تجھے فراہم کردوں گا۔ اُور اگر تو مجھ سے اِس
معاملے میں ضد کرے گا۔ تو میں تجھے تیرے مقصد میں کامیاب نہیں ہُونے دُونگا۔یہاں تک
کہ تو ٹوٹ کر بکھرنے لگے گا۔ اُور بلاآخر میرے اسکرپٹ کے مطابق کردار نبھانے کیلئے
راضی ہُوجائے گا۔
جب وُہ کسی پر مہربانی فرماتا ہے۔ تو اُسے عشق کی مدہانی میں
جھونک دیتا ہے۔ یہ عشق کی مدہانی اُسکے انگ انگ میں محبت کی حلاوت گھول کر اُسے بیمار
محبت بنادیتی ہے۔ اگر انسان اِس عشق کی حلاوت
پر ذرا غور کرلے تو وُہ اپنا بھولا وعدہ یاد کرکے عشق الہی کی طرف آسانی سے متوجہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہاں بھی نفس انسان کو بہلانے پُھسلانے سے نہیں چُوکتا۔ اُور
انسان کی محبت کو دُنیا کی جانب مُوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ انسان کے خمیر میں اکڑ
بھی ہے۔ اُور خودپرستی کا مادہ بھی ۔اسلئے
انسان اپنی حقیقی محبت کو تلاش کرنے کے بجائے عشق مجازی کی طرف آسانی سے ملتفت
ہُوجاتا ہے۔صابر بابا نے ایک طویل سانس لیکر عمران کی جانب دیکھا۔
بابا صاحب اگر آپ اجازت دیں تو ایک آخری سوال اُور پُوچھ لُوں؟
عمران نے کچھ سُوچتے ہُوئے لجاجت سے عرض کیا۔۔۔یہی معلوم کرنا چاہتے ہُو ناکہ،، آج
میں یہ تمام باتیں تُم سے کیوں کررہا ہُوں۔صابر بابا نے ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے
ہُوئے کہا۔۔۔۔ جی حضور یہی سوال میرے دِل میں عجیب سی بے چینی پیدا کررہا ہے۔۔۔۔عمران
نے سعادت سے جواب دیا۔
تو سُنو! میاں صاحب
نے بھی فقط تمہیں اِس وجہ سے کوثر سے دُور رکھنے کی کوشش کی تھی۔کہ،، وُہ نہیں چاہتے
تھے۔کہ،، تمہارے باطن میں موجود جگمگاتا مُوتی
جسے آیئنہ کی مانند اُجلا ہونا چاہیئے۔کہیں مٹی کی گرد میں چھپ کر نہ رِہ جائے۔ اُور تمہاری آج کی کوثر سے مُلاقات
نے یہ ثابت کردیا ہے کہ،، اگر تُم نے خود کو نہیں سنبھالا تو بُہت جلد یہ گوہر فواد بھی مٹی کے ڈھیر میں گُم ہوجائے گا۔ تُم بھی وہی
غلطی دہرارہے ہُو۔جو تم سے پیشتر لاکھوں لوگ اپنی پسند کے اسکرپٹ کی سعی لاحاصل کرتے
کرتے لاکھوں من مٹی تلےبےنشان ہُوچکے ہیں۔ کیونکہ شائد تُم کبھی غُور نہیں کیاکہ،،
صرف حضرت انسان ہی نہیں بلکہ ہماری دُنیا میں
موجود اجناس ہُو ، کرنسی ہُو۔ دھاتیں ہُوں
یا جدید سے جدید ٹیکنالوجی سب مٹی سے ہی نکلتی ہے۔اُور ایکدن مٹی میں ہی دفن ہُوجاتی
ہے۔ پھر بھلا یہ کہاں کی دانشمندی ہے۔کہ،، مٹی کے معمولی ڈھیر کی خاطر عشق الہی سے مُنہ مُوڑ لیا جائے۔
جبکہ جن انسانوں نے اِس حقیقت کو جان کر خُود کو عشق حقیقی کے سپرد کردیا۔ تو کیا تُم نے نہیں دیکھا
کہ،، کس طرح ہند کا ناقابل شکست راجہ علاوٗالدین خلجی بھی محبوب الہی نظام الدین (رحمتہ
اللہ علیہ)کی چوکھٹ پر باریابی کیلئے اپنے ہی وزیر امیر خُسرو سے منت کیا کرتا تھا۔
اُور فاتح سومنات محمود غزنوی اپنی سلطنت کی وسعت کے بجائے ایک فقیر حضرت ابوالحسن خرقانی (رحمتہ اللہ علیہ)سے اپنی نسبت پر ناز کیا کرتا
تھا۔جب ابراہیم بن ادہم بادشاہ بنے تو انکا حکم تمام رعایا بھی نہیں مانتی تھی۔لیکن
جب عشق حقیقی نے اُنہیں راہِ فقر کا مسافر
بنادیا تو انسان ہی کیا۔ چرند پرند اُور پانی کی مچھلیاں بھی اُنکے اشارے پر ناچتی
تھیں۔
نجانے کیوں چند ناعاقبت اندیش لُوگ اُولیا اللہ سے اپنے دل میں بغض پال کر اعلان کرتے پھرتے ہیں۔کہ،،
انکے اختیارات کے چرچے خُدا کی خدائی پر ڈاکہ کے مترادف ہیں۔وُہ بیچارے شائدیہ نہیں جانتےکہ،، ہماری دُنیا جیسے کائنات میں لاکھوں
نہیں کروڑوں سیارے موجود ہیں۔ اُن میں سے کئی تو ہم سے اتنے وسیع ہیں کہ ہماری جیسی
سینکڑوں دُنیا کا حجم گھیرے ہُوئے ہیں۔ اُور کائنات میں ہماری دُنیا کی مثال ایسے ہی
ہے۔جیسے کسی صحرا میں ایک دال کا دانہ موجود
ہو۔۔۔ جب ہم اُس کی کریمی کے گُن گاتے ہیں۔تو یہ کیوں نہیں سمجھ پاتے۔کہ جو اللہ کریم
کیلئے اپنی تمام خواہشات کو ترک کردے تو کیا ہمارا پروردیگار نعوذُباللہ اتنا تنگ نظر ہے۔کہ انعام میں اپنے عاشق
کو ایک دال کے دانے پر تصرف کی اجازت بھی نہ دے۔
لیکن بابا صاحب اللہ سے عشق کرنے کیلئے اُور اُسے پانے کیلئے
تو بُہت طویل مجاہدوں کی ضرورت ہُوتی ہُوگی نا۔ ؟؟؟۔عمران نے اشتیاق و تجسس سے استفسار کیا۔۔۔ بابا صابر نے اِس مرتبہ انتہائی محبت بھری نظروں
سے عمران کے پُر شوق چہرے پر نگاہ ڈالتے ہُوئے پھر سے سلسلہ کلام جُوڑا۔۔۔یہ بھی ایک بُہت بڑی
غلط فہمی ہے جو ہم مسلمانوں میں پھیلادی گئی ہے۔کہ،، تصوف کی راہ بُہت مشکل یا شائد
ناممکن ہے۔ حالانکہ جب کسی انسان کی سمجھ میں دُنیا کی حقیقت آجاتی ہے۔ تو اُسکے قلب
میں ایک عجب سے چنگاری پیدا ہُوجاتی ہے۔جو مٹی
کے ہر رُوپ کی خاہش کو جلا کر خاکستر
کردیتی ہے۔ اُورجب ہَوس و ہَوا (خاہش و لالچ) سے قلب پاک ہُوجاتا ہے ہے تو بابا فرید
فرماتے ہیں۔کہ،، خُدا انسان سے صرف ۲ قدم کی دُوری پر ہُوتا ہے۔پہلا قدم انسان خُواہشات نفس کی گردن
پر رکھتا ہے۔ تو دوسرا قدم اُٹھانے سے قبل خُدا کو پالیتا ہے۔۔۔۔ اب عمران بیٹا یہ
تمہاری مرضی پر منحصر ہے۔کہ،، یہ ۲ قدم اُٹھانے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرسکتے ہُو۔یا ساری زندگی
مٹی کی محبت میں خواہشات نفس کی غلامی کی زنجیروں کیساتھ خُود کو مٹی کے ڈھیر میں گُم
کرنا چاہتے ہُو۔۔۔؟اِنہی جملوں کیساتھ کہیں دُور سے عصر کی آذان سُنائی دینے لگی۔اُور
بابا صابر نماز کی تیاری کرنے لگے۔
جاری ہے۔۔۔
انشاٗ اللہ کوشش کروں گا۔کہ،، آخری قسط ۳۰ بھی رمضان سے قبل قلمبند کرتے ہُوئے آپ احباب کی خدمت میں پیش
کردوں۔
پلکوں سے دَر یار پر دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
SUBHAN ALLAH.
ReplyDelete