گُذشتہ سے پیوستہ
لیکن بابا صاحب اللہ سے عشق کرنے کیلئے اُور اُسے پانے کیلئے
تو بُہت طویل مجاہدوں کی ضرورت ہُوتی ہُوگی نا۔ ؟؟؟۔عمران نے اشتیاق و تجسس سے استفسار کیا۔۔۔ بابا صابر نے اِس مرتبہ انتہائی محبت بھری نظروں
سے عمران کے پُر شوق چہرے پر نگاہ ڈالتے ہُوئے پھر سے سلسلہ کلام جُوڑا۔۔۔یہ بھی ایک بُہت بڑی
غلط فہمی ہے جو ہم مسلمانوں میں پھیلادی گئی ہے۔کہ،، تصوف کی راہ بُہت مشکل یا شائد
ناممکن ہے۔ حالانکہ جب کسی انسان کی سمجھ میں دُنیا کی حقیقت آجاتی ہے۔ تو اُسکے قلب
میں ایک عجب سے چنگاری پیدا ہُوجاتی ہے۔جو مٹی
کے ہر رُوپ کی خاہش کو جلا کر خاکستر
کردیتی ہے۔ اُورجب ہَوس و ہَوا (خاہش و لالچ) سے قلب پاک ہُوجاتا ہے ہے تو بابا فرید
فرماتے ہیں۔کہ،، خُدا انسان سے صرف ۲ قدم کی دُوری پر ہُوتا ہے۔پہلا قدم انسان خُواہشات نفس کی گردن
پر رکھتا ہے۔ تو دوسرا قدم اُٹھانے سے قبل خُدا کو پالیتا ہے۔۔۔۔ اب عمران بیٹا یہ
تمہاری مرضی پر منحصر ہے۔کہ،، یہ ۲ قدم اُٹھانے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرسکتے ہُو۔یا ساری زندگی
مٹی کی محبت میں خواہشات نفس کی غلامی کی زنجیروں کیساتھ خُود کو مٹی کے ڈھیر میں گُم
کرنا چاہتے ہُو۔۔۔؟اِنہی جملوں کیساتھ کہیں دُور سے عصر کی آذان سُنائی دینے لگی۔اُور
بابا صابر نماز کی تیاری کرنے لگے۔
اب مزید پڑھ لیجئے۔
بُوجھل قدموں کیساتھ باغ سے شہر کی جانب چلتے ہُوئے عمران
کے ذہن میں صابر پاک کا جملہ کہ،، اب عمران
بیٹا یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے۔کہ،، تُم
یہ ۲ قدم
اُٹھانے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرسکتے ہُو۔یا ساری زندگی مٹی کی محبت میں خواہشات نفس
کی غلامی کی زنجیروں کیساتھ خُود کو مٹی کے ڈھیر میں گُم کرنا چاہتے ہُو۔۔۔؟ دِل
کے ایک گوشے سے صدا بلند ہُورہی تھی۔کہ،، بابا صابر بالکل ٹھیک ہی تو کہتے ہیں،،
دُنیا میں موجود ہر شئے کا وجود مٹی سے ہی تو اُبھرتا ہے۔ تو کیوں صرف مٹی کے ڈھیر
کیلئے اپنے باطن کے موتی کو کیچڑ سے گدلا
جائے۔ جبکہ ذہن عمران کو مشورہ دے رہا تھا۔کہ،، عمران میاں ہر ایک کو اتنی آسانی
سے پری کی چاہت مُیسر نہیں آتی۔تُم خوش نصیب ہُو۔جِسے گھر بیٹھے یہ نعمت حاصل
ہُوگئی۔ورنہ لُوگ تو ایسی نعمت کے حصول کیلئے اپنی ساری زندگی جنگل بیابانوں کی
نذر کرنے سے بھی نہیں چُوکتی۔پھر دِل کی گہرائی سے نصیحت کی جاتی! عمران میاں دِماغ
کی مت سُنو! ایسی لاکھ پریاں اُور کائنات کی تمام نعمتیں مِل کر بھی جلوہ طُور کی
جھلک کے کروڑویں حصے کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
عمران دِل و دِماغ کی اِس کشمش کے درمیان فیصلہ کرنے سے
قاصر تھا۔ بات دِل کی بھی پُراَثر تھی۔جبکہ دلیل ذہن کی بھی مناسب تھی۔۔۔۔عمران نے
دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر چلتے چلتے
دیونواں کی طرح بُڑبڑانا شروع کردیا۔۔۔۔یا خُدا میں کس کی سُنوں! اُور کس کی بات
مانوں؟۔ دِل کی بات مانتا ہُوں۔تو اسکا مطلب صاف ہے کہ،، کوثر سے ہمیشہ کیلئےکنارہ
کش ہُوجاوٗں۔اُور اگر ذہن کی مانتا ہُوں۔تو واقعی مٹی کے ڈھیر میں کہیں ہمیشہ
کیلئے نہ کھوجاوٗں؟آبادی شروع ہُونے لگی تھی۔ اُور ایک بنجا رہ چائے کے ڈھابے پر
درد بھری آواز میں عارفانہ کلام اپنی
میدانی آواز میں گُنگنارہا تھا۔اُس بنجارے کی آواز میں بلا کا سوز و گداز تھا۔جسکے
سحر نے عمران کے بڑھتے قدم تھام لئے تھے۔جبکہ بنجارہ گرد و پیش سے بے نیاز گائے
چلا جارہا تھا۔
اے تن رَب سچے دا حجرہ، دِل کھڑیاں باغِ بہاراں ھو۔۔۔۔۔۔
وِچِ کوزے وِچِ مصلے، وِچ سجدے دیاں تھاراں ھو۔۔۔۔۔۔۔
وِچِ قبلہ وِچِ کعبہ، وِچ اِلااللہ پُکاراں ھو۔۔۔۔۔۔۔
کامل مُرشد ملیا جنہاں نوں اُوہ آپے لیساںساراں ھو۔۔۔۔۔
اندر ہُو' تے باہر ہُو دَم ہُو دے نال جلیندا ھُو۔۔۔۔
ہُو دا داغ محبت والا ہر دَم پیا سڑیندا ھُو۔۔۔۔۔۔
جِتھے ہُو کرے رُشنائی چھوڑ اندھیرا ویندا ھُو۔۔۔۔
دوہیں جہاں غُلام اُس دے جیہڑا ہُونوں صحیح کریندا ۔ھُو۔۔۔۔
ایمان سلامت ہر کوئی مَنگے،عشق سلامت کوئی ھُو۔۔۔۔۔
ایمان منگن شرماون عِشقوں دل نوں غیرت ہوئی ھُو۔۔۔۔۔
عِشق پُجاوے جِس منزل ایمانے خبر نہ کوئی ھُو۔۔۔۔۔
عِشق سلامت رکھیں بَاہُو ایمانوں دیاں دھروہی ھُو۔۔۔۔۔
ایہہ تَن رب سچے دا حجرہ پا فقیرا جَھاتی ھُو۔۔۔۔۔
نہ کر مِنت خواج خضر دی اندر آب حَیاتی ھُو۔۔۔۔۔
شوق دا دِیوا بال اَنھیرے لبھی وَست کھڑاتی ھُو۔۔۔۔۔
مرن تھیں اَگے مر رہے باہُو جنہاں رَمز پچھاتی ھُو۔۔۔۔۔
الف اللہ چنبے دی بُوٹی میرے من وچ مُرشد لائی ھو۔۔۔
نفی اثبات دا پانی ملیا۔ ہوئی ہر رگیں ہرجائی ھو۔۔۔۔
اندر بُوٹی مشک مچایا جان پُھلاں تے آئی ھو۔۔۔۔
جیوے مُرشد کامل باھو جیں اے بُوٹی لائی ھو۔۔۔
کلام باھو سُنتے ہُوئےعمران کے آبگینوں سے ساون کی پہلی
بارش کی طرح موتی بہہ بہہ کر رُخساروں کو
بِھگورہے تھے۔ جبکہ تاثیر کلام نے من میں
سُوئی ہُوئی عشق کی چنگاریوں کو رُوشن کردیا تھا۔عمران جو ہمیشہ پنجابی زُبان کو ،،بُہت مشکل زُبان،، کے خطاب سے نوازتا چلا
آیا تھا۔آج عشق کی إسی روشنی میں کلام باہو کے ہر مصرعے سے یُوں روشناس ہُورہا
تھا۔ جیسے اُسکی ساری زندگی پنجابی عارفانہ کلام کا فہم و اِدراک حاصل کرنے میں گُزری ہُو۔اُور یہ
کلامِ باھو کا ہی فیض تھا۔جس نے اُس کی
ذہنی الجھن کے تمام تار سلجھا دیئے تھے۔
عمران بھیگی آنکھوں
سے
اِس فیضانِ کے تشکر کے اظہار کیلئے دربارِ باھو میں حاضری کی بیقراری کو اپنے من میں صاف محسوس کررہا تھا۔جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہی
چلی جارہی تھی۔۔۔۔۔۔گھر پُہنچنے کے بعد بھی عمران کی بیقراری کو چین نہیں آیا تھا۔
بنجارے کی آواز ابھی تک عمران کے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔۔۔ یا الہی یہ کیا ماجرا
ہے؟ میرے ساتھ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہُوا۔کہ،، کوئی نغمہ یُوں میرے حواس پر غالب
آجائے۔جیسے وُہ میری نس نس میں خُون کی طرح رچ بس گیا ہُو۔ انہی خیالوں میں نجانے
کب عمران کی آنکھ جھپکی تو سحر کی ہی خبر لائی۔
اگلے چند دِن عمران
کے اتنی مصروفیت و پریشانی میں پڑوسی شہر میں اسطرح گُزرے کہ،، نہ اُسے صابر پاک
کی یاد ہی آئی۔ اُور نہ ہی کوثر کا کوئی
خیال اُسکے دِل میں گُزرا۔۔۔پھر ایک صبح نماز فجر پڑھ
کرعمران جب صابر پاک سے ملنے باغ پُہنچا تو اُسے یہ رُوح فرسا خبر سُننے کو ملی کہ
صابر پاک کا وصال تین دن پہلے ہُوچکا ہے۔اور آپکی تدفین آپکے حکم کے مطابق شہر کے
وسطی قبرستان میں کی جاچُکی ہے۔صابر پاک کے پردہ فرمانے کی خبر نے عمران پر ایسی
بجلی گرائی۔کہ،، اُسے اپنی سانس تھمتی دکھائی دینے لگی اُور عمران اپنا سر پکڑے زمین پر بیٹھ کر اسطرح رُونے لگا۔جیسے کسی چھوٹے
بچے کے سر سے اچانک اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہُو۔
جاری ہے۔۔۔
۲۸ اقساط کو صرف (۲)اقساط میں سمیٹ کر اختتام پذیر کرنے سے اس کہانی
کے کئی پہلو تشنہ رِہ جانے کا خطرہ پیدا ہُوگیا تھا۔ اِس لئے قسط ۳۰ آخری
قسط کے طور پر پیش نہیں کرسکا۔ لیکن انشا اللہ حسب وعدہ رمضان سے قبل یہ کہانی اختتام پذیر ہُوجائے گی۔انشااللہ۔
پلکوں سے دَر یار پر دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
0 comments:
Post a Comment