bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday 1 June 2015

عامل کامل ابو شامل (تھانے کی سیر) قسط 42.AKAS



گُذشتہ سے پیوستہ۔

رجب کا خوف اُور اُسکی وحشتیں جاناں کی محبتوں کی چھاوٗں میں فی الوقت کہیں گُم ہُوچُکی تھیں۔ ابو شامل نے ٹیلی پیتھی کے ذریعے سے اِس بات کا خاص خیال رکھا تھا۔کہ،، رجب  کسی بھی طرح جاناں سے اپنے علاقے کا ذکر نہ کرے۔ دوسری شام ابو شامل نے رجب کو کار میں بٹھا کر اُس پر نیند طاری کی اُور ایبٹ آباد کیلئے نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ جاناں کو شک نہ ہو۔ اس لئے ابو شامل نے کامل کو بتادیا تھا۔ کہ،، اُسکی واپسی چار گھنٹے بعد ہی ہُوگی۔ اِس دوران میں رجب کی فیملی سے ملنے کے بعد کچھ خبر اپنوں کی بھی لیتا آوٗنگا۔۔۔۔۔  ابوشامل کو گئے بمشکل آدھا گھنٹہ بھی نہیں گُزرا ہُوگا۔ کہ،، ڈور بیل کی آواز سُن کر کامل دروازے پر  پہنچ گیا۔ دروازے  کھولتے ہی کامل کی نظر دروازے پر کھڑے چند مستعد پولیس سپاہیوں اُور ایک انسپکٹر پر پڑی۔۔۔۔ ایک سپاہی نے کامل کی شناخت کرتے ہُوئے اعلان کیا۔ صاحب یہی تھا وُہ شخص جس نے کل رات نمائش میں پانچ بندوں کو زخمی کیا تھا۔ کامل کے چہرے پر سپاہی کی بات سُن کر ہوائیاں اُڑنے لگی تھیں۔

اب مزید پڑھیئے۔

 ایس ایچ  اُونے  بنگلہ کا سرسری جائزہ لینے کے بعد ایک نگاہ کامل کے بدحواس چہرے پر ڈال کر استہزائیہ انداز میں کہا،، کیا اِرادے ہیں جناب کے خُود چلنا پسند فرمائیں گے آپ یا ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ کامل علاقے میں اپنا تماشہ نہیں بنانا چاہتا تھا۔اسلئے گیٹ لاک کرکے خاموشی سے موبائیل وین میں بیٹھ کر تھانے پُہنچ گیا۔۔۔۔ ایک سپاہی نے تلاشی  کے بعد کامل کا تمام سامان اپنی تحویل میں لے لیا۔۔۔۔ اِسی سپاہی کو ایس ایچ اُو نے ہدایت دیتے ہُوئے حکم دیا۔ نذیر  اِنہیں فی الحال لاک اَپ میں رکھو۔ میں رات ۲ بجے تک واپس آکر اِنکی تواضع اُور باقی کاروائی مکمل کرتا ہُوں۔۔۔۔۔

 سُنیئے ایس ایچ اُو صاحب! میں آپ سے ہر قسم کا تعاون کرونگا۔ بس میری ایک گُزارش ہے اگر جناب مناسب سمجھیں تو مجھے ایک کال کا موقع عنایت فرمادیں۔۔۔۔اُور میں آپکو یقین دلاتا ہُوں۔ کہ،، مجھے صرف اپنی بیوی کو مطلع کرنا ہے۔کہ،، میں رات گھر نہیں آپاوٗنگا۔ ورنہ وُہ بیچاری تمام رات میرا انتظار کرتی رہے گی۔۔۔ کامل کا لہجہ اتنا مہذب اُور باوقار تھا۔کہ،، ایس ایچ اُو نے کچھ سُوچ کر اپنا موبائیل اُسکی طرف بڑھاتے ہُوئے تاکید کی۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ،، اب تمہاری بیوی کو  ایک طویل عرصہ تک تمہارے بغیر رہنے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔۔۔۔۔ اُور  دیکھو بچہ جی کوئی ہوشیاری نہیں دِکھانا۔ ورنہ قسم کھا کر کہتا ہُوں کہ،،  ہم پر پریشر ڈالنے کیلئے کسی سیاسی بندے کو گھسیٹنے کی کوشش تمہیں بُہت مہنگی پڑسکتی ہے۔۔۔ کامل نے خاموشی سے نمبر پنچ کرنے کے بعد جاناں کو فقط اتنی اطلاع دی۔کہ،، میں بھی ابو شامل کے پاس ہی جارہا ہُوں۔دروازہ اندر سے بند کرلینا،، ہوسکتا ہے ہمیں آنے میں صبح ہوجائے۔۔۔۔ گفتگو کے بعد کامل نے شکریہ ادا کرتے ہُوئے موبائیل ایس ایچ اُو کی جانب بڑھادیا۔۔۔۔۔


رات ڈھائی بجے کا وقت رَہا ہُوگا۔ جب ایس ایچ اُو صاحب نیم مدہوشی کی حالت میں ڈگمگاتے قدموں سے تھانے میں جلوہ افروز ہُوئے۔کرسی پر بیٹھتے ہی اُنہوں نے لاک اپ میں بند کامل پر ایک نگاہ غلط ڈالتے ہُوئے، گرجدار آواز میں نذیر کو حکم جاری کیا۔اُوئے نذیرے ذرا اِس مرغے کو تو تالا کھول کر باہر نکال۔۔۔۔  مجھے باہر نکالنے کی زحمت نہ کرو رضوان خان۔ کیونکہ میں تمہارے سامنے کرسی پر موجود ہُوں۔۔۔۔ کامل کو اگلے ہی لمحے  کرسی پر براجمان دیکھ کر ایس ایچ اُو کا تمام نشہ ہرن ہُوچُکا تھا۔۔۔۔۔ تُم۔تُم۔ ۔۔۔تُم باہر کس طرح آئے جبکہ لاک اپ پر ابھی تک تالا موجود ہے۔۔۔۔ ایس ایچ اُو نے ہکلاتے ہُوئے کامل سے استفسار کیا؟؟؟۔۔۔۔۔۔اِن باتوں میں کچھ نہیں رکھا  رضوان خان۔۔۔ تُم کیا ! تمہاری ساری پُولیس فورس بھی مِل کر مجھ اکیلے کو  میری مرضی کیخلاف قید نہیں کرسکتی۔ وُہ تو  میں اِس علاقے میں تمہارا تماشہ نہیں بنانا چاہتا تھا۔ اِس لئے خاموشی سے تمہارےساتھ بھی چلا آیا تھا۔ اُور تم جیسے بیہودہ آدمی کا انتظار بھی کرلیا۔ ورنہ مجھے خُوب معلوم ہے ۔کہ،، تُم ابھی اپنے اُسی عیاش کزن دلاور خان کی مزاج پُرسی کرکے آرہے ہو۔۔۔۔ کامل نے کن انکھیوں سے دوسری کرسی پر موجود ابوشامل کو دیکھتے ہُوئے۔دلاور حسین پر طنز کیا۔

ایس ایچ اُو ،رضوان خان نے  کامل کی باخبری دیکھ کربوکھلاہٹ میں ٹیبل پر موجود ،، بزر  ،، سے اُس وقت تک ہاتھ نہیں اُٹھایا۔جب تک کہ،، پانچ چھ سپاہی اپنی توند سنبھالے ٹیبل کے سامنے نہیں پُہنچ گئے۔۔۔۔ پکڑو اِس خبیث کو اُور سُنو صرف لاک اپ میں قید نہیں کرنا ۔بلکہ اِسکے ہاتھ پاوٗں بھی خُوب کس کر اِسے اُلٹا لِٹادو۔کافی دِنوں سے کسی کی چھترول نہیں کی۔آج  اِسکی وُہ حالت بناوٗنگا۔کہ،، زندگی بھر کسی پولیس افسر سے بدتمیزی کرنے سے قبل ہزار مرتبہ سُوچے گا۔ ۔۔۔ ابو شامل نے بےپرواہی سے کامل کو اِشارہ کیا۔جیسے کہہ رہا ہو۔کہ،، اِس بیچارے کو اپنی من مانی کرلینے دُو۔

سپاہیوں کو اچھی طرح باندھنے کا مقصد اگرچہ سمجھ نہیں آیا۔لیکن صاحب کا حُکم تھا۔ اِس لئے اُنہوں نے تشریف کا علاقہ چھوڑ کر باقی تمام جسم ہی رسیوں سے لپیٹ ڈالا تھا۔۔۔۔ رضوان خان نے تمام سپاہیوں کو باہر بھیج کر خُونخوار نگاہوں سے کامل کو گھور کر ایک گندی سی گالی بکی اُور  پھر دیوار پر موجود ہنٹر اُتار کر جونہی مُڑا ۔ تو اُسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رِہ گئیں۔کیونکہ لاک اَپ  کے فرش پر صرف رسیوں کے گُچھے موجود تھے۔ جبکہ کامل علی اُسی نشست پر براجمان تھا۔ رضوان خان نے پھر ایک گندی سی گالی نکال کر کامل پر جھپٹنے کی کوشش کی۔ لیکن اِس سے پہلے کہ،،  رضوان خان لاک اپ سے باہر نکل پاتا۔ رسیوں کے گچھے خُود بخود رضوان  خان کے جسم سے لپٹنے لگے تھے۔ اور ایک منٹ سے پہلے رضوان خان کا  نیم برہنہ جسم اُسی حالت میں رسیوں سے لپٹا ہُوا تھا۔ جس طرح سپاہیوں نے کامل کو لِٹایا ہُوا تھا۔ جبکہ ہنٹر اِس مرتبہ کامل کے ہاتھوں میں رقص کناں تھا۔


رضوان خان جو اِس ہنٹر کو دوسروں کے جسم پر برساتے ہُوئے اکثر بےلگام  ہُوجایا کرتا تھا۔ خُود  ۱۰ کوڑے بھی اپنی نازک تشریف پر برداشت نہیں کرپایا ۔اُور بے ہُوش ہُوگیا۔۔۔۔ ابو شامل نے نجانے کونسی  تدبیر اپنائی تھی۔کہ رضوان خان اگلے لمحے ہی ہوش میں آگیا تھا۔ البتہ انجانی ہیبت سے اُسکا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ۔۔ ابو شامل نے شرارت سے دیواروں کی جانب  اِشارہ کیا۔تو لاک اپ کی تمام  دیواروں پر ایسے مناظر اُبھرنے لگے۔ جیسے ہزاروں عفریت کڑکتی بجلیوں کی روشنی میں ایک دوسرے کا گلہ دبوچنے کی کوشش میں مصروف ہُوں۔۔۔ پھر ابو شامل کی ہیبتناک  آواز نے ماحول کو مزید پراسرار بناڈالا۔ ابو شامل نے رضوان خان کو مخاطب کرتے ہُوئے وارننگ دی۔ رضوان خان یہ تمہاری پہلی غلطی تھی۔ اِس لئے حضرت قبلہ کامل شاہ  سرکارکے حکم پر تمہیں زندہ چھوڑ دیا گیا ہے۔لیکن یاد رکھنا اگر تم نے آئندہ ،، سرکار،، کے راستے میں آنے کی جراٗت کی تو اِسکا خمیازہ تمہاری نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔۔۔۔ رضوان خان کی ساری دلیری گدھے کے سینگ کی مانند غائب ہُوچکی تھی۔۔۔ وُہ گھگیائی ہُوئی آواز میں نادیدہ  ہستی سے رحم کی بھیک  طلب کرتے ہُوئے ایکبار پھر بے ہوش ہُوچکا تھا۔۔۔۔ ابو شامل نے مُسکرا کر کامل کی جانب ہاتھ بڑھایا تو کامل علی نے ابو شامل کا اِرادہ بھانپ لیا۔ اِس لئے ابوشامل کے جھٹکہ دینے سے قبل ہی کامل علی ابو شامل سے لپٹ گیا۔اگلے ہی لمحے وُہ دونوں  اپنے بنگلے کے دروازے پر موجود تھے۔


دِل کی بات
نہیں کہنی آج۔۔۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔


2 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. Slam,BHAI kia zabardast kahani hai dil chahta hai bus koi our kam nahi karo yehi parhtey rao. aaj kafi dino k bad blog per aaya hn dil bagh bagh ho gay aap ki tehrerin dekh kar. BHAI aap likhtey rahein pta nahi log kiyn comment nahi detey BHAI lekin main dil sey kehta hun k aap ki tehrerin parh kar jo sukon, muhabbat, our sabaq milta hai us sey mera eeman mazbot hota hai. ALLAH KAREEM aap ko dono jahano ki khoob naimatin our Rehmaten ata karey. oua aap ko kamil sehat k sath umer, ilm o amal our rizq main bey pnah izafa farmaye. BHAI JZAK ALLAH, JZAK ALLAH, JZAK ALLAH I LOVE U BHAI

    ReplyDelete