bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Sunday 7 June 2015

جال۔ در ۔ جال۔ قسط ١4۔ (بھان متی کا کُنبہ)۔



جال۔ در ۔ جال۔ قسط ١4۔ (بھان متی کا کُنبہ)۔


گُزشتہ سے پیوستہ۔

پھر خُدا کے خاص فضل سے وُہ دِن بھی آن پُہنچا کہ ،، جسکے انتظار میں فرقان نے آٹھ ماہ تک رات و دِن کا اِمتیاز بُھلا کر مُسلسل مِحنت کی تھی۔ پیپر مِل کا اِفتتاح فرقان اُور شہریار مجددی کی شدید خُواہش پر حَسَّان صاحب نے اپنے دست مُبارک سے کیا۔ تمام شہر سے کاروباری، مذہبی ، اُور روحانی سلسلے سے منسلک افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ فرقان اُور شہریار ہر ایک آنے والے سے مبارکباد و دُعا وَصول کررہے تھے۔ بے شُمار لوگ حَسان میاں کے ارد گِرد دُعا و برکت کے حُصول کیلئے موجود تھے ۔ شہریار مجددی کے مُعزز گھرانے کے کافی افراد بھی اِس خُوشی کےمُوقع پر مُوجود تھے۔ مگر فرقان کی نِگاہیں بار بار فیکٹری کے صدر دروازے کی جانب اُٹھ رہی تھیں۔ اُسکی نِگاہوں کی تشنگی حَسَّان میاں سے پُوشیدہ نہ رہ سکی۔ جب بار بار فرقان کی نِگاہیں بے چینی سے مین گیٹ کا طواف کرنے لگیں تُو حَسَّان صاحب سے نہ رَہا گیا۔ وُہ فرقان کے نزدیک تشریف لا کر گُویا ہُوئے،، فرقان میاں جسکے انتظار میں آپکی نظریں دروازے پر جمی ہیں وہ تُو کب کے مِحفل میں تشریف لاچُکے ہیں۔۔۔۔۔۔!

اَب مزید پڑھیئے۔
فرقان نے حَسَّان صاحب کی توجہ دِلانے پر اَب جو مِحفل کے ایک گُوشے میں دیکھا۔ تُو نعمان ٹھیکدار عبدالرشید سے گفتگو کرتا نظر آگیا۔ حَسان صاحب نے مُسکراتے ہُوئے اِشارہ کیا۔ گُویا فرمارہے ہُوں کہ،، میاں اب کس بات کا انتظار ہے۔ جسکی دید کے منتظر تھے۔ وُہ آچُکا ہے۔ تُو جاکر مِل کیوں نہیں لیتے۔

فرقان بڑی چاہت بھرے جذبے کیساتھ نُعمان کی جانب بڑھا۔ لیکن جب وُہ نعمان کی پُشت کے قریب پُہنچا۔ تب نعمان کے ایک ہی جُملے نے اُسکے تمام جذبات پر برفیلی اُوس ڈال دی۔ نُعمان استہزائیہ انداز میں ٹھیکیدار عبدالرشید سے فرقان کی موجودگی سے بے خبرکہہ رہا تھا۔۔۔۔ عبدالرشید بھائی حَسان میاں نے تمام اناڑیوں کی ٹیم جمع کرکے اُس محاورے ،، بھان متی نے کُنبہ جُوڑا۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا رُوڑا ،، کی یاد تازہ کروادی۔ فرقان اُور شہریار مجددی کی جوڑی ہی کیا کم تعجب خیز تھی۔ جو ایک بنک منیجر کو پیپر مِل کا منیجر بنا ڈالا۔ اب ایک ہمارے فرقان صاحب ہیں جنہیں کاروبار کی الف، ب کا علم نہیں ہے۔ تُو دوسرے پارٹنر بھی پیرزادے ہیں۔ ارے بھائی مجھے تُو یہ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ کہ وہ فیکٹری چلائیں گے یا گدی نشینی سنبھالیں گے۔ پھر رہی سہی کسر کرامت صاحب کو تمام فیکٹری کا چارج دے کر حَسان صاحب نے پُوری کردی۔

فرقان نے سُوچا تھا کہ نعمان تمام باتوں کو بُھول چُکا ہُوگا۔ لیکن نعمان کی زہریلی اُور کَٹی جلی گفتگو سے فرقان کو خُوب اندازہ ہُوچُکا تھا۔ کہ نعمان نے آج تک فرقان کو دِل سے مُعاف نہیں کیا ہے۔ فرقان شائد اپنی ہتک کو برداشت کرجاتا۔ لیکن اُسے حَسَّان صاحب اُور شہریار مجددی کا یُوں محفل میں مذاق بنایا جانا بالکل پسند نہیں آیا۔ اسلئے وہ نعمان سے مُلاقات کئے بغیر ہی نعمان کی پُشت کا فائدہ اُٹھا کر دوسرے گوشے کی جانب بڑھ گیا۔

محفل کے اختتام پر حَسان صاحب نے پرسوز دُعا کروائی جسکے بعد یہ محفل برخاست ہُوگئی۔ نعمان کو حسان میاں کی طرف بڑھتا دیکھ کر فرقان نے ٹُوائلٹ کا رُخ کرلیا۔ وُہ نہیں چاہتا تھا کہ حَسان میاں کے سامنے کوئی بدمزگی کا معاملہ پیش آجائے۔

تمام احباب کے چلے جانے کے بعد حَسان میاں نے فرقان سے استفسار کیا۔۔۔ بھئ فرقان میاں آپکی نعمان صاحب سے مُلاقات کیسی رہی۔۔۔؟ حضرت میری نُعمان سے مُلاقات نہیں ہُوسکی۔ جواب میں فرقان نے تمام ماجرا سچ سچ سُنا تے ہُوئے کہا۔ کہ ابھی تک نعمان کا دِل میری جانب سے صاف نہیں ہُوا ہے۔ اُس نے جسطرح بھان متی کا تذکرہ کرتے ہُوئے ہماری مِثال دِی تھی۔ اُسکے بعد مجھ میں اتنی ہمت ہی باقی نہیں بچی تھی۔ کہ اُس کے ساتھ کوئی گُفتگو کرپاتا۔۔۔۔۔۔ ویسے حضرت یہ بھان متی تھی کُون۔۔۔؟ اُور اُس نے اینٹ رُوڑے کونسی عمارت بنانے کیلئے جمع کئے تھے۔۔۔۔ فرقان نے غمگین لہجے میں سوال کرتے ہُوئے کہا۔۔۔!

فرقان میاں آپ اپنا دِل نعمان کی گُفتگو سے چھوٹا نہ کریں۔ اُسکے بجائے کوئی اُور بھی ہُوتا تب بھی اِسی قسم کے تبصرے کے سِوا کوئی مختلف بات سامنے آنے کی کم از کم مجھے توقع نہیں تھی۔ دراصل اکثر لُوگ یہی سمجھتے ہیں کہ کاروبار میں ترقی کا راز صرف محنت ، لگن ، اُور سمجھ بُوجھ سے ہی ممکن ہے۔ جبکہ وُہ یہ بات اکثر فراموش کرجاتے ہیں۔ کہ اللہ کریم کے فضل کے بِنا کوئی تینوں خصوصیت رکھنے کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہُوسکتا۔ یہ تینوں کوالٹی صرف عمل میں نِکھار کا باعث ہیں۔ منزل کو آسان بنانے میں معاون ہیں۔ مگر خُود منزل نہیں ہیں۔۔۔۔۔ جبکہ اللہ کریم چاہے تُو کسی ناسمجھ و نااہل پر بھی اپنے فضل کی ایسی برسات کر دیتا ہے۔ کہ بڑے بڑے دانا بھی مُنہ تکتے رِہ جاتے ہیں۔ حَسان میاں نے فرقان کی دلجوئی کرتے ہُوئے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہُوئے کہا۔۔۔

اُور جہاں تک بات ہے بھان متی کے کُنبہ،، کی تُو یہاں بھی اکثر لُوگ غلطی کھا جاتے ہیں۔ بھان متی ہندوستان کی ریاست چتوڑ میں کافروں کے درمیاں روشنی کا منارہ تھیں۔ ظلمت و کفر کے پروردہ اُنہیں اپنے جیسا سمجھ کر اُن کا مذاق اُڑا رہے تھے۔وہ بظاہر ایک مجذوبہ کی شکل میں نظر آنے والی خاتون تھیں۔ لیکن درحقیقت تمام ریاست چتوڑ میں وہ واحد خاتون تھیں۔ جو کُفر سے بیزار توحید پرستی کی شمع کو اپنے سینے میں چھپائے بیٹھی تھیں۔ اُور جس وقت کافر وزیر کی صاحبزادی کےخُفیہ ایمان لانے کے بعد اُسے اپنے گھر میں پناہ دیکر علاوٗالدین خلجی کے معتوب سفیر کو اپنے گھر لے آئیں تھیں۔ تب کفر کے پرستار اُنکا مذاق اُڑانے کیلئے یہ جُملہ،، بھان متی نے کُنبہ جُوڑا۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا رُوڑا۔ پھبتی کسنے کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ بھان متی نے نہ ہی شادی رچائی تھی۔ اُور نہ ہی تمام چتوڑ میں کوئی اُنکا رشتہ دار تھا۔ بس اسلام کے رشتے سے اُنہوں نے مسلم سفیر کو اپنا بیٹا اُور وزیر زادی کو اپنی بیٹی بنا لیا تھا۔ اُور کفار انہی دونوں پاکباز کرداروں کو اینٹ ، رُوڑے سے تشبیہ دِیا کرتے تھے۔

اب کتنی بدنصیبی کی بات ہے۔ کہ کل تک کُفار جو طعنہ اللہ کریم کی ایک ولیہ کو دِیا کرتے تھے۔ جو کہ نا صِرف مسلم سفیر و مسلم وزیر دادی کی محسنہ تھیں بلکہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی مُحسنہ تھیں کہ مسلمانوں کے سفیر کی مدد فرمارہی تھیں۔ ہم بجائے اُنکے احسان مند ہُوتے۔ آج تک ہِنود کی روش اپناتے ہُوئے وہی طعنہ ناسمجھی میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو بھی دیتے ہیں۔

لیکن فرقان میاں میں آپ سے پھر یہی کہوں گا۔ کہ آپ نعمان میاں کی جانب سے اپنا دِل میلا نہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک نا ایک دِن وہ ضرور پلٹ کر آئے گا۔ تب تک اُسکی واپسی کا انتظار کرنا۔ اُور واپسی کی راہ کو مسدود نہ کرنا۔ آپ کل سے اپنی فیکٹری پر توجہ دینا شروع کردیں اللہ کریم آپکی مدد ضرور فرمائے گا۔ اُور ایک دِن آپ کو آپکی قربانی کا پھل ضرور مِل کررہے گا۔
(جاری ہے)

مُحترم قارئین کرام ،، آپ سب سے دُعاوٗں کیلئے ملتمس ہُوں۔ مجھے یقین ہے کہ رمضان المبارک کی اِن بابرکت ساعتوں میں آپکے ہاتھوں کی بُلندی کے دوران میں آپکی دعاؤں کا حِصہ ضرور رہا ہُونگا۔

پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا

0 comments:

Post a Comment