الف کا راز عیاں بےظِہار بینی سے
نگاہِ
شوق نے پایا قرار بینی سے
قمر
گدائے ضیاء بار بار بینی سے
صبحِ
کا نور تیری آشکار بینی سے
کّمِثلِ
شمس و قمر کیسے استعارے بیاں؟
کوئی
مثال نہیں طرحدار بینی سے
سقیم
حال ہوں سرکار کرم فرمائیں
ملے
طفیلِ عطا وضعدار بینی سے
میرے
نصیب بھی ستواں ہو سرور عالم
نیاز
و ناز ملے آبشارِ بینی سے
کرم
کریماں ہو احباب پر میرے ذیادہ
اُنہیں
بھی بھیک ملے رازدار بینی سے
میری
نسل سے نہیں کوئی بے ادب گزرے
پئے
حُسین و حَسن تاجدار بینی سے
کیا
حور و غلماں, عرش اور فرش کا حصہ
ہے
فیضیاب خلق حصہ دار بینی سے
کیا
اب بھی کوئ گلہ وارثی عشرت باقی
رواں
ہے قلم و سخن شاہکار بینی سے
0 comments:
Post a Comment