bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Tuesday 11 August 2015

عامل کامل ابو شامل (حوالگی) قسط 55.akas




بیٹا!!! اب پہریدار تلاش کرنے کا وقت آن پُہنچا ہے۔ کیوں کہ خزانے کا چرچا بُہت ذیادہ ہُوگیا۔ بچانے والوں نے اگرچہ خوب ساتھ نبھایا۔۔۔لیکن اب وقت آگیا ہے۔کہ،، اپنا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں دے کر باقی کی سیڑھیاں بےفکری سے طے کرتے جاوٗ۔ کیونکر دھیان اگر سیڑھی پر ہُو۔تو اکثر کندھے پر موجود بار سلامت نہیں رہتا۔ اُور توجہ اگر بار پر رہے تو سیڑھی سے پاوٗں رپٹ جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ اِسلئے مسافت طے کرنے کیلئےکسی مشاق کوہ پیماکی ضرورت ضرور رہتی ہے۔ جو دشمن کو خوب پہچانتا ہُو۔ قذاق جس کی بہادری سے خوف کھاتے ہوں۔ جو پھسلن میں بھی قدم جماکر  ناصرف خود چل سکے بلکہ ہمسفر کو بھی نہ پھسلنے دے۔۔۔ جسے سمندر کی لہروں کے ارادوں کی خبر ہُو۔ جسے طغیانی اور طوفانوں سے لڑنے میں مزہ آتا ہو۔ جو تعداد کے بجائے جمعیت اور قوت یقین کا علم جانتا ہُوں۔


جو نہ صرف ٹھگوں کو پہچاننے والا ہُو۔ بلکہ قدم قدم پر اُنہیں مات دینے والا ہُو۔ ایسا ہی کوئی جانباز تمہیں آگے کی جانب کا رستہ دِکھا سکتا۔ تماش بین اور تماشہ گر ایسے رستے پر ہرگز نہیں چلتے جہاں جان کو خطرہ ہُو۔ بلکہ وُہ تو صرف نگاہوں کے جھپکنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں نگاہ جھپکی۔ وہاں شعبدہ تیار۔۔۔۔ میں ایک ایسے جانباز کو جانتا ہُوں۔ جسے باز پالنے کا بیحد شوق ہے۔

 اُور جو عقاب اُسکی تربیت کی بھٹی سے ایکبار گُزر جاتا ہے۔ اُسے کوئی سنار ناقص نہیں کہتا۔ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ ہے۔ چاہو تو لڑجاوٗ۔ اور ہمیشہ کیلئے امر ہُوجاوٗ۔ وگرنہ کرگ کی جھپٹ کا انتظار کرو۔وہ گوشت کی تھیلی کو ذیادہ دیر تمہارے ہاتھ میں رہنے نہیں دےگی۔ بوڑھے شخص نے گفتگو رُوک کر کامل کے چہرے پر نظریں جمادیں۔۔۔۔۔۔۔مجھے منظور ہے! کامل نے پہلی مرتبہ لب کشائی کرتے ہُوئے اپنی رضامندی ظاہر کی۔میں خود بھی سیاحت کرتے کرتے اِس سیلانی زندگی سے اُکتا کربےحد تھک چُکا ہُوں ۔اُور اب یہی چاہتا ہُوں۔کہ،، باقی کا سفر بھول بھلیوں کے بجائے مقصد کی راہ پر سکون سے گُزار سکوں۔۔۔۔  سکون؟؟؟؟ بوڑھے شخص نے لفظ سکون سُن کر اتنا زوردار قہقہ لگایا۔جیسے کامل نے کوئی لطیفہ سُنادیا ہُو۔


اب  مزید پڑھ لیجئے۔

کیاہُوا بابا۔آپ ہنس کیوں رہے ہیں۔۔۔؟؟؟ بوڑھے شخص نے سنجیدگی سے کامل کے چہرے کو بغور دیکھا۔ جیسے اندازہ لگانے کی کوشش کررہا ہُو۔کہ،، کیا واقعی کامل اُسکی بات نہیں سمجھا ہے۔ یا یُونہی انجان بننے کی کوشش کررہا ہے۔۔۔ کچھ نہیں بیٹا! بس مجھے لفظ سکون پر ہنسی آگئی تھی۔ کیوں کہ عشق کی راہ میں سکون نام کی کوئی شئے نہیں ہُوتی۔ سکون تو  جمود کا دوسرا نام ہے۔ اور عرف میں جمود موت کو کہتے ہیں نا؟ اور جو مرجاتے ہیں۔وُہ بھلا عشق کی پرواز کا مزاہ کیا جانیں۔۔۔  البتہ جو موت سے پہلے مرجاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ کیلئے اَمر ہُوجاتے ہیں ۔کامل علی ہونقوں کی طرح بوڑھے شخص کو دیکھ کر اثبات میں یُوں سر ہلانے لگا۔جیسے وُہ تمام باتوں کا مطلب اچھی طرح سے سمجھ گیا ہُو۔ حالانکہ اُسے ککھ سمجھ نہیں آئی تھی۔ اُس کے لئے تو یہ بات ہی بہت خُوش آئند تھی۔کہ،، وُہ کسی کامل رہنما سے مُلاقات کا شرف حاصل کرنے والا تھا۔ جو اسے زندگی کے اسرار سے واقف کردے۔۔۔

بوڑھا شخص اب خاموشی سے گاڑی میں بیٹھا کامل کی رہنمائی کررہا تھا۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں کار ملیر قبرستان کی جانب بڑھ رہی تھی۔ راستے میں ریلوے پھاٹک کے قریب سے گُزرتے ہُوئے بوڑھے شخص نے کامل کو  گھنی جھاڑیوں کے نذدیک گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔۔ گاڑی رُکتے ہی بوڑھا شخص چند خورد نما جھاڑیوں سے چند پھول توڑ کر پھر کار میں سوار ہُوگیا۔ اور گاڑی آگے کی جانب بڑھانے کا اِشارہ کرتے ہُوئے ایکبار پھر نیم دراز ہُوگیا۔


تھوڑی دیر بعد جب کار سنسان علاقے کے ایک تنہامکان کے سامنے سے گُزرنے لگی تو بوڑھے شخص نے منزل آجانے کا اعلان کرتے ہُوئے کامل کو حُکم دیا کہ گاڑی دیورا کے سائے میں پارک کردو۔ کامل گاڑی کو دیوار کے سائے میں کھڑی کرنے میں مصروف تھا۔جبکہ بوڑھا شخص مکان کی شمالی دیوار کیساتھ موجود چند کچی قبروں پر وُہ پھول جو راستے میں جھاڑیوں سے حاصل کئے تھے۔ بڑی عقیدت سے نچھاور کررہا تھا۔ کامل علی بھی خاموشی سے بوڑھے شخص کے قریب پُہنچ کر فاتحہ پڑھنے میں مشغول ہُوگیا۔ فاتحہ سے فارغ ہُوکر بوڑھے شخص نے کامل کو ایک قبر کی جانب اشارہ کرتے ہُوئے بتایا کہ، یہ میری والدہ منہاج بی بی کی تربت ہے۔اور دوسری قبر میرے مُرشد کریم اور والد صاحب، سید میاں میر شاہ، (رحمتہ اللہ علیہ)کی ہے۔ ۔۔۔ فاتحہ سے فارغ ہُونے کے بعد بوڑھا شخص اُس مکان کے اکلوتے دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔ کامل بھی آہستہ روی سے دروازے کے سامنے پُہنچ گیا۔ مکان کا دروازہ کھلا ہُوا تھا۔

 جسکی وجہ سے تمام مکان کا اندرونی منظر صاف نظر آرہا تھا۔ یہ کوئی غالباً دو سو گز کا پلاٹ ہُوگا۔ جسکے ایک جانب ۲ کمرے دکھائی دے رہے تھے۔ جبکہ ایک حصہ بڑے درائینگ رُوم کی مانند تھا۔ لیکن اِسے ڈرائینگ رُوم سے ذیادہ آستانہ کہنا مناسب ہُوگا۔ کیونکہ یہاں دریاں صفوں کی صورت فرش پر موجود تھیں۔ جس پر کوئی دراز گیسو بُزرگ انتہائی سفید لباس و عمامہ زیب تن کئے بڑی عاجزی کیساتھ  تشریف فرما تسبیح میں مصروف تھے۔




بوڑھے شخص نے آہستگی سے لکڑی کے دروازے پر تین مرتبہ دستک دی۔اور پھر آستانے جیسی جگہ کی جانب بڑھنے لگا۔ دستک کی آواز سُن کر اُن بزرگ نے تسبیح پڑھتے ہوئے گردن گھما کر دروازے کی جانب دیکھا۔ اُور جونہی اُن بزرگ کی نگاہیں بوڑھے شخص کے چہرے سے ٹکرائیں۔اُن کے چہرے پر مسرت کے جذبات اُمنڈ آئے۔ اُور انہوں نے فوراً اپنی جگہ سے کھڑے ہُوتے ہُوئے والہانہ انداز میں صدا لگائی۔آہا! آج برادر ،، سید محمد میر،، آستانے تشریف لائے ہیں۔۔۔ کامل نے جب اُن بزرگ کے چہرے کی جانب دیکھا۔ تو اسے بھی ایک خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ سید محمد میر،، اور وُہ بزرگ نہ صرف ایک دوسرے کے ہمشکل تھے۔ بلکہ اُن کے قدوقامت میں بھی ذرہ برابر فرق نہیں تھا۔ ۔۔


بس اگر کوئی فرق تھا تو صرف اتنا کہ،، میاں محمد میر کا حلیہ ایک ایسے مسافر سے مشابہ تھا۔ جو مدت سے  زندگی کےاسفارمیں رات و دن بسرکررہا ہو۔ اور مسلسل اسفار کی مشقتوں نے اُس کے رنگ و رُوپ کو گہنا کر رکھ دیا ہُو۔ لباس کو پیوند زدہ ،اور بالوں کو گرد آلود کرڈالا ہُو۔ دونوں بزرگ کافی دیر تک ایک دوسرے سے بغلگیر رہے۔اچانک اُن بزرگ کی نگاہ کامل علی پر پڑی تو انہوں نے دریافت کیا۔۔ بردار ،، سید محمد میر،، یہ نوجوان آپ کے ساتھ ہیں۔؟ جی برادر گرامی ۔ یہ کامل علی ہے۔ ۔۔ایک عقاب کا بچہ جو اپنے نشیمن سے بچھڑ کر ،کرگسوں کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ میں اِسے آپ کی خدمت میں لیکر حاضر ہُوا ہُوں۔تاکہ آپ اسکی نگہبانی کریں۔اور اسے بلند پرواز سے آگاہی دیں۔۔۔۔ اور کامل میاں یہ میرے بڑے بھائی ہیں ،، سید احمد میر،، دامت برکاتہم عالیہ۔جو میرے بھائی ہونے کیساتھ میرے مرشد کے خلیفہ بھی ہیں۔آگے بڑھو۔ اُور انکی دست بوسی کی سعادت حاصل کرو۔

کامل علی نے آگے بڑھ کر میاں سید احمد میر کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔تو کامل کو ایسے محسوس ہُوا۔جیسے وُہ ہاتھوں کے بجائے لطیف بادلوں کو چھونےکی کوشش کررہا ہُو۔ سید احمدمیر،، نے شفقت سے کامل علی کے سر پہ ہاتھ پھیر کر اُسے اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے۔ سید محمد میر کو مخاطب کیا!برادر عقاب تو واقعی بہت عمدہ  نسل سےہے۔بس اپنی پرواز سے ناآشنا ہے۔آپ خود کیوں اسکی تربیت نہیں فرماتے؟؟؟۔

میاں صاحب آپ تو جانتے ہیں۔ کہ،، میں ٹہرا ایک سیلانی انسان آج یہاں ہوں تو کل کی کچھ خبر نہیں کہ،، کہاں جانا پڑے۔ اُور تربیت کیلئے اضطرار کیساتھ انہماک کی بھی اشد ضرورت پڑتی ہے۔اسلئے برائے مہربانی اِسے قبول فرمائیں۔ اور اپنی خاص نگاہ سے اسے  اپنے فیض کی بھٹی سے گُزار کر کندن فرمادیں۔ سید احمد میر کے استفسار پر سید محمد میر نے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے عرض کیا۔

برادر گرامی آپ خوب جانتے ہیں۔کہ،، میں آپ کی کوئی خاہش کبھی رَد کر ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ مجھے بابا جان کی یہ نصیحت آج بھی یاد ہے۔ کہ،، بابا  جان نے فرمایا تھا۔ کہ،،احمد میر کی بقا محمد میر کی قربانیوں کی وجہ سے ہے۔ اِس لئے کوشش کرنا کبھی سیدمحمد میر آپکی کسی بات سے دلبرداشتہ نہ ہُو۔۔۔ برادر گرامی ! یہ تو بابا جان کی شفقت اور آپکی مہربانی ہے۔ جو آپ اِس طرح سُوچتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہی ہے۔ کہ آپکو جو بھی مقام عطا کیا گیا ہے۔ وُہ  اللہ کریم کا خاص فضل، آپکی استقامت اور بابا جان کی فیضان نگاہ کے سبب سے ہے۔چونکہ میری طبیعت میں سیلانی عنصر کی فروانی ہے۔ اسلئے میں نے بابا جان سے عرض کیا تھا۔کہ،، مسند و خلافت بڑے بھائی کو عطا فرمادیں۔کیونکہ میں  خود کو اِس ذمہ داری کا اہل نہیں پاتا۔اسمیں بھلا قربانی کی کیا  بات ہے۔۔۔ اچھا بہرحال آپ کامل علی کو قبول فرماکر مجھے اجازت مرحمت فرمادیں۔ تاکہ میں جو کام ادھورے چھوڑ کر  آیا ہُوں اُنکی تکمیل کی سعی انہماک سے کرسکوں۔

تو کیا آپ ابھی چلے جائیں گے؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ،، رات کا کھانا  اپنی بھتیجی اور بھابی کیساتھ تناول فرماتے۔ اور آج کی شب ہمارے ساتھ کچھ گزری یادوں کی تجدید میں بسر کرلیتے۔ سید احمد میر،،  نے مغموم لہجے میں استفسار کیا!!!۔ برادر گرامی میری اپنی بھی یہی خاہش ہے۔کہ،، کچھ ایسی راتیں بھی میسر آئیں جب میں آپکی قربت و نصائح سے لطف اندوز ہُوسکوں۔ لیکن آپ تمام معملات  مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ کہ،، ہمیں جو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اُسمیں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری خواہشات و چاہت کی تمنا ہی ہے۔ لیکن میرا دِل کہتا ہے۔کہ،، وُہ کریم عزوجل ہمیں ساتھ وقت گزارنے کی توفیق بھی عطا فرمائے گا۔

مغرب کی نماز کے بعدسید محمدمیر،، زنان خانے  کے حصےمیں چلے گئے۔ اور تھوڑی دیر بعد ہی واپسی کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ کامل علی نے عرض بھی کیاکہ،، میں آپکو چھوڑ آتا ہُوں۔لیکن حضرت سید احمدمیر،، نے مسکرا کر جواب دیتے ہُوئے فرمایا۔کہ سید محمد میر کو کہیں جانے کیلئے سواری کی حاجت نہیں ہے۔ یہ جہاں چاہیں پلک جھپکنے سے پہلے پُہنچ سکتے ہیں۔

جاری ہے۔

میرے لئے فی الحال تواتر سے لکھنا مشکل ہے۔ اسلئے میں کوشش کروں گا۔کہ فیس بُک کے پیج پر گاہے بگاہے پیراگراف کی صورت میں یہ کہانی لکھتا رہوں۔

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔



0 comments:

Post a Comment