bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 13 December 2012

تذکرہ اَک پری کی مُحبت کا قسط نمبر 12

گُذشتہ سے پیوستہ
دیکھو عمران میری والدہ چُونکہ حیات نہیں ہیں اسلئے میری جانب سے میرے بابا اور میری کُچھ سہلیاں ہی اِس شادی میں شریک ہُونگے اور ہاں ایک بات اور تُمہیں شادی سے قبل میرے بابا جان سے میرا ہاتھ مانگنے کیلئے آنا ہُوگا۔

رَہی تُمہارے والدین کی بات تُو یہ تُم پر منحصر ہے کہ تُم اُنہیں اور اپنی بیگم کو اِس شادی سے آگاہ کرتے ہُو یا نہیں لیکن میرا تجربہ کہتا ہے کہ اِس شادی کیلئے تُمہاری بیگم ہی کیا تُمہارے والدین بھی رضامند نہیں ہُونگے چُونکہ میرا تعلق قُومِ اَجنہ سے ہے اس لئے شائد تُمہارے والدین بھی اِس معاملے سے خُوفزدہ ہُوجائیں آگے تُمہاری مرضی ہے جیسا تُم پسند کرو۔ کوثر نے عمران کو رائے دیتے ہوئے اپنی گُفتگو خَتم کردی۔

لیکن تُمہارے بابا سے ملنے کیلئے مجھے جانا کہاں ہُوگا؟ اور یہ کیسی عجیب شادی ہُوگی جِس میں میرے گھر والے بھی شریک نہ ہُونگے عمران کا سوال ابھی پُورا بھی نہیں ہُوپایا تھا کہ دروازے پہ ہُونے والی مسلسل دَستک نے دونوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
اب آگے پَڑھیئے

دروازے پر ہُونے والی دستک نے عمران کیساتھ ساتھ کوثر کو بھی چُونکا دِیا تھا عمران دروازے کی جانب بَڑھا ہی چاہتا تھا کہ کوثر نے عمران کو روکتے ہُوئے کہا ٹِہرو عمران یہ دستک تُمہارے لئے نہیں بلکہ میرے لئے تھی لیکن میں جانے سے پہلے تُم سے کُچھ کہنا چاہتی ہُوں۔

عمران کوثر کی آواز سُن کر واپس لوٹ آیا کیا تُم واقعی چلی جاؤ گی کوثر ؟ عمران کوثر کی بات سُن کر کُچھ مَغموم دِکھائی دے رہا تھا

ہاں عمران اب مجھے جانا ہی ہوگا لیکن اُداس کیوں ہُوتے ہُو ۔ میں واپس لُوٹ کر آؤں گی اور اگر تُمہارا فیصلہ میرے حَق میں ہُوا تو نا صرف ہماری مُلاقاتیں ہُونگی بلکہ ہَم تا عُمر ایک دوسرے کا ساتھ بھی نِبھائیں گے کوثر نے عمران کی ڈھارس بندھاتے ہُوئے کہا۔

لیکن عِمران میری وجہ سے تُمہارے کُچھ نادیدہ دُشمن پیدا ہُوچُکے ہیں اگرچہ بابا وقاص نے خَاطر خُواہ انتظام کردِیا ہے لیکن میں تُمہیں اِتنا مضبوط دیکھنا چاہتی ہُوں کہ تُم بَغیر کسی سہارے کے بھی اپنی حِفاظت خُود کر سکو۔

میرے بابا اکثر مجھےایک درویش عالم صاحب کی مِحفل میں لیجایا کرتے تھے وہاں ہَم حاضر ضرور ہوتے تھے لیکن ہمیں اُن درویش کے علاوہ وہاں کوئی دِیکھ نہیں پاتا تھا۔ میں نے جب تک وہ درویش حیات رہے اُنکی کافی مجلسوں میں شرکت کی ہے نہایت ہی نفیس انسان تھے وہ اور میں نے اِتنا قناعت پَسند اور صابر اِنسان اپنی زندگی میں دوبارہ نہیں دِیکھا یا یُوں کہہ لُو کہ مجھے ایسی سعادت دوبارہ نہیں مِلی۔

ایک مرتبہ اُنکی مِحفل میں ایک پریشان حال شخص آیا تھا اُسکی ظاہری حالت اور چہرے ہی سے مجھے اندازہ ہُوگیا تھا کہ وہ کوئی زمانے کا ستایا ہُوا انسان ہے محفل کے اختتام پر جب کافی لوگ واپس جاچُکے تھے وہ حضرت کی خِدمت میں حاضر ہُوا تھا اور دورانِ گُفتگو اُس نے بتایا تھا کہ شریر جنات نے اُس کے گھر پہ قبضہ کرلیا ہے اور رات دِن اسکے تمام گھر والوں کو ستاتے ہیں اور تمام گھر میں اسقدر غلاظت بکھیرتے ہیں کہ ہمارا گھر میں رِہنا دوبھر ہُوگیا تھا۔

حضرت صاحب نے اُس مفلوک الحال شخص سے وعدہ کرلیا کہ وہ اُس کے گھر آئیں گے اور اسکے تمام گھر والوں کو اِس پریشانی سے نِجات دِلوائیں گے جب وہ شخص چلا گیا تُو میں نے حضرت صاحب سے ایک سوال پُوچھا تھا کہ جب اِنسان اشرف المخلوقات ہے تُو قومِ اجِنّہ کے شرارتی لوگوں کے چُنگل میں کس طرح گرفتار ہُوجاتا ہے؟

میرے سوال کا حضرت صاحب نے بُہت خوبصورت جواب دِیا تھا کہ حضرت اِنسان واقعی بُہت طاقتور ہے اگر اپنی زندگی کو خُدا کی مرضی کے مطابق گُزارے۔ اور پھر مجھے سَمجھانے کیلئے ایک مِثال بھی دِِی۔ فرمانے لگے یوں تو اللہ کریم کیلئے انسانوں کی مِثال نہیں دینی چاہیے لیکن بِلا شبیہ تُمہیں سمجھانے کیلئے ایک مِثال سے سمجھانے کی کُوشش کرتا ہُوں تُم میرے ایک سوال کا جواب دُو ۔ اگر کوئی بادشاہ کا خاص مُصاحِب ہُو تو کیا کوئی اُسے گُزند پُہنچا سکتا ہے یا اُس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی حِماقت کا متحمل ہُوسکتا ہے۔ اور جب میں نے نَفی میں گردن ہِلائی تو حضرت صاحب نے پھر پُوچھا مگر وہی مصاحب اگر بادشاہ کا نافرمان ہُوجائے اور دربار سے واسطہ تُوڑ لے اور بادشاہ سے اپنا تعلق خَتم کرلے تُو کیا اب بھی لوگوں میں اُسکا رُعب اور دبدبہ قائم رَہے گا؟ میں نے دوبارہ نَفی میں گردن ہِلا دی تب حضرت صاحب نے مجھے سمجھایا تھا کہ بیٹی بَس اس مِثال سے سمجھ لو کہ جو اللہ کریم کی نافرمانی پر آمادہ ہُوجاتا ہے بس اُس کے رُعب اور دبدبہ بھی قومِ اَجنّہ کے دِل سے نِکل جاتا ہے اور یُوں وہ لوگ اُس پر حاوی ہوجاتے ہیں۔

لیکن اگر کوئی اپنے عہد کو نہ تُوڑتے ہُوئے اپنی زندگی کو اللہ کریم کی فرمانبرداری میں گُزارتا ہے تو لوگوں کے دِل ہی میں نہیں بلکہ تمام مَخلوق کے دِل میں اُس نیک بندے کی ہیبت قائم ہُوجاتی ہے اور اِنسان فرائض اور واجبات کے بعد نوافِل اور اَذکار کے ذریعے اللہ کریم کا قُرب اور روحانی طاقت حاصل کرتا رِہتا ہے ہم اِنسانوں کی بس یہی بد قسمتی ہے کہ رِزق کی پروا تُو کرتے ہیں لیکن رَازق کو بھول جاتے ہیں ۔

اور جب میں نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ اب آپ کیا کریں گے؟

تُو اُنہوں نے فرمایا تھا کہ بس کرنا کیا ہے اِنشاءاللہ جونہی اُنہیں (شیطانوں کو )میری آمد کی اطلاع مِلے گی مجھے یقین ہے کہ وہ وہاں سے رَفو چکر ہوجائیں گے لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ واپس اپنی آماجگاہ پر آنے کی کوشش ترک نہیں کریں گے۔

اور جب میں نے کہا کہ حضرت صاحب اِسکا مطلب ہے کہ یہ صرف عارضی حَل ہُوگا اور کُچھ عرصے بعد وہ دوبارہ اُس مشکل کا شکار ہُوجائیں گے؟

تُو حضرت صاحب مسکراتے ہُوئے کہنے لگے بڑی سمجھدار ہُو بہت دور تک سوچتی ہُو نہیں بیٹا ایسی بات نہیں میری کوشش ہُوگی کہ اِن لوگوں کو اِتنا مضبوط کردوں کہ دوبارہ وہ شریر لوگ وَہاں قدم نہ جما سکیں۔

مگر حضرت صاحب یہ سب ہُوگا کس طرح؟

تب حضرت صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ تیسرے کلمے کے آخری حِصے( لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم) میں اتنی طاقت ہے کہ اِس کے ذاکر پر اگر شیطان اپنی ذریت سمیت بھی حملہ آور ہُوجائے تب بھی ممکن نہیں کہ اس کلمہ کے ذاکر کو کوئی ذرہ برابر بھی نقصان پُہنچا سَکے کیوں کہ اس کلمہ میں اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہُوئے بندہ کہتا ہے کہ میں تو کُچھ بھی نہیں مگر جس مالک سے میرا رابطہ ہے جو میرا نِگہبان ہے وہ بُہت طاقتور ہے۔ اور بس اس طرح وہ خود بھی اپنی طاقت کا اِظہار کررہا ہُوتا ہے اور کوئی اُسے نقصان نہیں پُہنچا پاتا بس میں بھی اُنہیں فرائض کیساتھ ساتھ اس وظیفہ کی جانب مائل کردونگا تاکہ وہ ہمیشہ کیلئے طاقتور ہُوجائیں۔

اس لئے عمران میری خُواہش ہے کہ تُم بھی اِس کلمہ کو اپنے معمولات کا حِصہ بناکر طاقتور ہُوجاؤ۔ اور ہاں اِس کا ایک فائدہ یہ بھی ہُوگا کہ کوئی تُمہارے سامنے میری صورت میں آکر تُمہیں دھوکہ نہیں دے پائے گا۔

اِسکا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ہماری مُلاقات ہُو میں اس کلمہ کو پڑھ لیا کروں؟

ہَاں تُو اِس میں ہرج ہی کیا ہے میں نہیں چاہتی کہ کوئی تُمہیں میرے نام پر دُھوکہ دِے یا ہمارے دَرمیاں کوئی غَلط فہمی پیدا کرےعمران کے استفسار پر کوثر نے جَواب دِیا ۔

اچھا عمران اَب تُم جاؤ کیوں کہ مُجھے بھی جانا ہُوگا اچھی طرح سے سُوچ لینا اور جب مطمئین ہُوجاؤ تو بابا وقاص کو بتا دِینا وہ مجھ تک تُمہارا پیغام پُہنچا دیں گے اور اُسکے بعد ہم مِل جُل کر تمام معملات طے کرلیں گے۔

اِتنا کہنے کے بعد کوثر کھڑی ہُوگئی پہلے کوثر کی نِگاہوں نے عمران کے چہرے کا الوداعی طواف کیا اور پھر ڈبڈبائی آنکھوں کیساتھ دیوار کی جانب پَلٹ گئی عمران سمجھ گیا کہ اُس میں الوادع کی تاب نہیں ہے کہ بابا وقاص کی آواز آئی عمران مِیاں نماز کا وقت نِکلا جارَہا ہے جلدی آجاؤ ورنہ نماز کا وقت نِکل جائے گا ۔ کوثر ہنوز دیوار کی جانب مُنہ کئے کھڑی تھی البتہ اُسکے جسم کا ارتعاش اِس بات کی چُغلی کھا رہا تھا کہ وہ صرف خاموش نہیں کھڑی تھی بلکہ جُدائی کے اِحساس کی وجہ سے شائد دُکھی ہُورہی تھی ۔عمران کی حالت بھی اگرچُہ ایسی تھی کہ لگتا تھا جیسے وہ بھی ابھی رُو دے گا لیکن عمران نہ چاہتے ہُوئے بھی کوثر کو فی اَمان اللہ کہتے ہُوئے کمرے سے باہر نِکل آیا۔

باہر بابا وقاص جیسے عمران کی آمد کے منتظر بیٹھے تھے عمران پر نظر پڑتے ہی کہنے لگے بیٹا فوراً نماز ادا کرلو وقت بُہت قلیل رِہ گیا ہے عمران نماز کی ادائیگی سے فراغت کے بعد بابا وقاص کے سامنے آبیٹھا۔ تمام گھر خالی پَڑا تھا یکایک عمران کو یاد آیا کہ ابھی کُچھ دیر پہلے جب وہ یہاں آیا تھا تُو کافی خَواتین یہاں موجود تھیں جنہوں نے بڑے والہانہ انداز سے عمران کا استقبال کیا تھا۔ بابا وہ ساری خَواتین کہاں گئیں؟

بابا وقاص مسکراتے ہُوئے کہنے لگے بیٹا باراتی ہمیشہ کیلئے نہیں آتے ۔اُنکا کام تُو بس اِتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ تقریب کو رُونق بَخشدیں سو جب اُنکا کام خَتم ہُوجاتا ہے اُنہیں تُو واپس جانا ہی ہُوتا ہے بابا وقاص کے جواب سے عمران کا چہرہ حَیا سے سُرخ ہُوگیا۔

اچھا بابا مُجھے آپ سے کُچھ پُوچھنا ہے عمران نے زمین کو کریدتے ہُوئے کہا۔

کیوں عمران میاں نظریں کیوں نہیں مِلا پارہے ہُو کہیں کوثر نے نکاح کی دعوت تو نہیں دے ڈالی آپکو؟ بابا نے لہجے کو شُوخ بناتے ہُوئے کہا۔

بابا یہ بات بھی ہے لیکن مُجھے کُچھ اور بھی پوچھنا ہے آپ سے میرا پہلا سوال تو یہی ہے کہ مجھے کوثر کی اِس خُواہِش کے جواب میں کیا کرنا چاہیئے اور میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں شریعت اِس بات کی اِجازت دیتی ہے کہ ہم دوسری مخلوق سے نِکاح قائم کرسکیں اور تیسرا سوال ایک درویش سے مُتعلق ہے جسکا تذکرہ آج کوثر نے بڑی عقیدت اور احترام سے کیا ہے اور بَقول کوثر کے وہ اُن کی محفلوں میں اپنے والد کیساتھ شریک ہُوتی رَہی ہے۔ اور کوثر نے مجھ سے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے اُسکا ہاتھ مانگنے کیلئے اُسکے والد کے پاس جاؤں گا لیکن مجھے یہ نہیں بتایا کہ مُجھے جانا کہاں ہُوگا۔ عمران نے اپنے ذہن میں پیدا ہُونے والے تمام سوالات کو حَسبِ دستور زمین کو کُریدتے ہُوئے بابا وقاص کے سامنے پیش کردِیا۔

عمران کے خاموش ہُونے کے بعد بابا وقاص نے عمران کو چند لمحے بَغور دِیکھا اور پھر گُویا ہُوئے دیکھو بیٹا اگر تُم مجھ سے میری رائے معلوم کرنا چاہتے ہُو تُو میں یہی کہوں گا کہ تُم کوثر سے نِکاح کرلُو اور جہاں تک بات ہے شریعت کے اِحکامات کی تو میں اِس معاملے میں کُچھ نہیں کہونگا اگر تُمہیں شرعی احکام جاننے ہیں تُو کسی عالم سے رُجوع کرو ۔

اور رہی بات کوثر کے والد سے مُلاقات کی تُو تُم اسکی بالکل فکر نہ کرو یہ میری ِذمہ داری ہے لیکن اِس سے پہلے تُمہیں فیصلہ لینا ہُوگا کہ آیا تُم اس شادی کیلئے رضامند بھی ہُو یا کہ نَہیں۔ اور ہاں مُلاقات کیلئے ہمیں شائد لاھور کے شاہی قلعے تک جانا پَڑے بابا وقاص کی گُفتگو جاری تھی کہ کہیں دور مسجد سے آذان کی صدا بُلند ہُوئی اور بابا وقاص خاموش ہُوگئے

(جاری ہے)

کافی احباب کی فرمائش تھی کہ کوئی ایسا سلسلہ بھی پیش کروں کہ جِس میں قوم جنات سے متعلق معلومات ہُوں انشاءَ اللہ بُہت جلد آپکی خِدمت میں ایک نہایت دلچسپ سلسلہ (احمد بشیر اور افلاطون) کے عنوان سے پیش کرنے کی سعی حاصل کرونگا ۔ جِس میں آپکی مُلاقات معاشرے کے ایک ایسے ناآسودہ شخص احمد بشیر سے کراؤنگا جو اپنی خُواہشات کی تکمیل کیلئے عملیات کے سحر میں گرفتار تھا اور بلاآخر اُسکی ملاقات ایک جن زادے (افلاطون)سے ہوجاتی ہے جِسے شہرت کی طلب نے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اور جب یہ دونوں ایک موقع پر حادثاتی طور پر مِل جاتے ہیں تو کیا گُل کِھلاتے ہیں یہ تو کہانی پڑھ کر ہی آپکو معلوم ہُوگا لیکن اتنی اُمید ضرور ہے کہ آپ اس طلسمی کہانی کے سحر میں کھو کر رِہ جائیں گے۔ اور شائد اِس کہانی کو کبھی نہ بُھلا پائیں

0 comments:

Post a Comment