bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Wednesday 24 June 2015

خُدا کی تلاش پارٹ ۲




لُوگ کہتے ہیں،کہ،، بیٹیاں خُدا کی رحمت ہوتی ہیں۔۔۔مگر لُوگ ہمیشہ صرف کہتے  ہیں۔ اُور کہہ کر گُزر جاتے۔ لیکن اللہ کریم نے مجھے جو حساس قلب و ذہن عطا فرمایا ہے۔ تو یہ اُس کریم کا ہی مجھ پر خاص فضل ہے۔کہ،، میں صرف سُنتا اُور لکھتا ہی نہیں ہُوں۔ بلکہ جب بھی میں کوئی بات سُنتا ہُوں۔تو اُس بات کی دلیل کیلئے میرا قلب و ذہن ایکدم مستعد ہُوجاتا ہے۔ اِسلیئے جب میں نے  پہلی مرتبہ یہ بات سُنی کہ،، بیٹیاں اللہ کی رحمت ہُوتی ہیں،، تو میرا ذہن اِس بات کی دلیل  جاننےکیلئے پُرشوق ہُوگیا۔لیکن سچی بات یہی ہے۔کہ،، کم سنی کی وجہ سے میرا ذہن اِس سَوال کے جواب سے یکسر نابلد تھا۔ پھر جب میرے گھر اللہ کریم کی عطا سے پہلی اُولاد بیٹی کی صورت جلوہ گر ہُوئی۔تو اِس سوال  کے جواب کی تلاش شدت  اختیار کرنے لگی۔کہ،، آخر کیوں بیٹیاں اللہ کی رحمت ہُوتی ہیں۔

اِس سوال کیساتھ ایک بات بہرحال دِل میں راسخ ہُوتی چلی گئی۔کہ،، اگر بیٹیاں اللہ کریم کی رحمت ہیں۔ تو رحمت،، رحیم کے قریب کرنے کا باعث ہونی چاہیئے۔ پھر میرے گھر ایک اُور بیٹی کا جنم ہُوا۔ لیکن دوسری بیٹی کی زندگی نہایت مختصر ثابت ہُوئی۔ وُہ اپنی محبت کا دیپ میرے دِل میں جلا کر صرف ایک سال میں رخصت ہُوگئی۔ مجھے ہمیشہ سے بیٹیاں بُہت پسند ہیں۔ شائد اِسی وجہ سے دوسری بیٹی کے وصال کے بعد  تیسری اُور چوتھی بیٹی سے  بھی نوازا  گیا۔ ہر بیٹی کی پیدائش کے بعد ایک بیٹا بھی عطا کیا گیا۔ یُوں چاربیٹیوں  کیساتھ انعام میں تین بیٹے بھی عطا کیئے گئے۔

جن  احباب نے۲۰۱۰ میں میری تحریر خُدا کی تلاش خُدا کی تلاش کو پڑھا ہُوگا۔ وُہ بخوبی اِس بات سے بھی آگاہ ہُونگے۔کہ،، میری اِس تحریر کا جنم میری چار سالہ بیٹی جائزہ علی کی گفتگو سے  ہی ممکن ہُوا تھا۔ اُور یہ میری واحد تحریر ہے۔ جسے میں خُود بھی بیسیوں مرتبہ پڑھ چُکا ہُوں۔لیکن پھر بھی  اِس تحریر کو میں جب بھی پڑھتا ہُوں مجھے کچھ نہ کچھ مہکتے پھول اِس تحریر سے ضرور ملتے ہیں۔ جو تجدید وفا کیلئے میری خُوب معاونت کرتے ہیں۔جائزہ علی اب خیر سے نو برس کی ہُوچکی ہے۔اُور سچی بات یہی ہے۔کہ،، خُدا کی تلاش پارٹ ۲ لکھنے کا سہرا بھی جائزہ علی کی گفتگو کا مرہون منت ہے۔ اُس کی آج کی گفتگو نے مجھ پر  اُفک پر جگمگاتے خُورشید کی مانند خوب واضح کردیا ہے۔کہ،، واقعی بیٹیاں خُدا کی رحمت ہیں۔ کیونکہ جائزہ علی کی گفتگو مجھے ہمیشہ اپنے رحیم و کریم پروردیگار سے قریب کرنے کا ذریعہ ثابت ہُوتی ہیں۔ اِس لئے اب مجھے اپنے سوالوں پر کوئی ابہام نہیں ہے۔ میں برملا دلیل سے ثابت کرسکتا ہُوں۔کہ،، واقعی اللہ کریم نے جتنا زرخیز معصوم  ذہن بیٹیوں کو عطا کیا ہے۔وُہ واقعی خُدا کی رحمت کہلائے جانے کی اہل ہیں۔

گُذشتہ شب معلوم ہے  نو برس کی جائزہ نے مجھ سے کیا کہا۔۔۔ یقین جانئے جب میں آپکو اُسکے الفاظ بتاوٗں گا۔ تو آپ بھی اُس کی خُدادادقابلیت پر عش عش کر اُٹھیں گے۔جس وقت میرا سات برس کا بیٹا  احمد رضامجھ سے جنت کے متعلق کرید کرید کر سوالات کررہا تھا۔ جائزہ علی  خاموشی سے ہم دُونوں کی گفتگو نہایت انہماک سے سُن رہی تھی۔لیکن جونہی احمد رضا کے سوالات میں ایک معمولی سا تعطل (بریک )آیا۔جائزہ علی نے ذہانت سے اپنا سوال میرے دماغ میں اُنڈیل دیا۔جسے سُن کر میں حیرت سے اُسکے چہرے کو تکتا رِہ گیا۔ وُہ مجھ سے پُوچھ رہی تھی۔کہ،، بابا جب ہم اِس دنیا میں بُور  ہو جاتے ہیں (اُکتا جاتے ہیں) تو ہم باغات کی سیر یا جھولے جھولنے کیلئے نکل جاتے ہیں۔ لیکن پھر جلد ہی ہمارا دِل اُن باغات کی خوبصورتی اُور جھولوں کی محبت سے بھر جاتا ہے۔ اُور ہمیں پھر سے گھر کی یاد ستانے لگ جاتی ہے۔۔۔تو بابا  جان پھر  مستقل جنت میں قیام کی وجہ سے  جنت کے مزے سے ہمارا دِل کیوں نہیں اُکتائے گا۔۔۔؟؟؟کیونکہ انسان ذیادہ دیر تک ایک جیسے ماحول میں خوش نہیں رِہ سکتا۔ اُور اگر واقعی جنت میں بھی ہمارے ساتھ ایسا کچھ ہُوا۔تو ہم آخر کہاں جائیں گے۔کہ،، ہماری اکتاہٹ ختم ہُوسکے؟؟؟

میں آپ سے سچ کہتا ہُوں۔ جب بھی مجھ سے لُوگ سوالات کرتے ہیں ۔تو میں چند سیکنڈ کی تاخیر بھی برداشت نہیں کرپاتا۔ اُور اکثر فوراً ہی بولنا شروع کردیتا ہُوں۔لیکن جائزہ علی کا یہ سوال سُن کر مجھ پر کتنی ہی دیر سکتہ سا طاری ہُوگیا تھا۔ پھر میں نے خُود کو سنبھالا۔ اُور اُسے سمجھانے لگا۔کہ،، ہمیں اکتاہٹ ہمیشہ تشنگی کی وجہ سے پیش آتی ہے۔اُور جنت میں نعمتوں کی اتنی ذیادہ ورائٹی ہُوگی ۔کہ،، اکتاہٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہُوتا۔کیونکہ وہاں عطائے ربانی انسانی ذہن سے اسقدر ذیادہ ہیں۔ کہ،،وہاں تک انسان کے ذہن کی رسائی  ممکن ہی نہیں ہے ۔ جنت کے باغات، وہاں موجود خیمے ، محلات، رنگ و نور کا سمندر، چہکتے پرندے، مہکتے پھول ، جھرنے، آبشاریں ، مزیدار شربتوں کی مختلف نہریں،   زمین پر موجود مخملی گھاس،  حُور وغلماں کے حسین چہرے  ، سُواری کے لئےبرق رفتار بُراق ،اور بازاروں کی رونقیں انسان کو کہاں بُور ہُونے دیں گی۔؟ پھر وہاں انسانوں میں حسد  کا مادہ  بھی نہیں ہُوگا۔ کہ،، جسکی وجہ سے  دل میں حرص پیدا ہُوسکے۔!!!  مجھے لگا تھا۔کہ،، شائد جائزہ علی میری گفتگو سے متاثر ہُوکر خاموش ہُوجائیگی۔ لیکن اُسے چہرے پر صاف لکھا تھا۔کہ،، وُہ میرے جواب سے ہرگز مطمئین نہیں ہے۔

وُہ کافی دیر تک میرے جواب پر غور کرتی رہی۔جیسے میری گفتگو میں کوئی سِقم تلاش کررہی ہُو۔۔۔ لیکن شائد وُہ اتنی پیچیدہ گفتگو کیلئے فوری طور پر تیار نہیں تھی۔ میرا خیال تھا۔کہ،، اب وُہ ضرور ہتھیار ڈال دے گی۔ لیکن وُہ تو میرے لئے رحمت ہے۔ اُور بھلا رحمت قُرب دیئے  بغیر کہاں ٹہرتی ہے؟ اُس نے اگلا سوال قائم کردیا۔ جس نے مجھے مزید حواس باختہ کردیا۔۔۔ بابا  جان کیا آپ اُور ساری دُنیا کے انسان صرف اسلئے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔تاکہ ،، ہم سب کو آخر میں صرف جنت مِل جائے؟؟؟ اُور آپ جنت میں ہمیشہ مزے کرتے رہیں۔؟

جائزہ علی کے اِس سوال نے  یقین جانئے ایک مرتبہ مجھے پھر سے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔۔۔ میں دِل میں جائزہ علی کے سوال پر جتنا غور کرتا جارہا تھا۔ مجھے اپنا وجود آئینہ دِل میں ایک منافق کی  شکل دِکھارہا تھا۔۔۔ ایک ایسا منافق جو  کبھی دِل میں اُور کبھی زُبان حال سے پُکارتا رہتا ہے۔کہ،، مجھے اپنے پروردیگار کی محبت و رضا کے سِوا کچھ نہیں چاہیئے۔ لیکن جانے انجانے میں  بار باردُنیا کے جال میں خوشی سے پھنسا رہتا ہے۔ اُور اپنے دِل کو جھوٹے دِلاسے دیتا رہتا ہے۔کہ،، بس آج دُنیا کی محبت میں اُور  جی لُوں۔۔۔ کل سے دُنیا کی محبت کو خیرباد کہہ دُونگا۔ لیکن رات کا بچا ہُوا خاہشات کا بیج صبح تک پھر سے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہُوتا ہے۔۔۔۔۔ بابا جانی کہاں کھو گئے۔؟  جائزہ علی نے  شائدمیری خاموشی کی طوالت  سے  بیزار  ہوکر سوال کیا۔۔پتہ نہیں کیوں مجھے  ایسا لگا جیسے جائزہ علی مجھ سے کہہ رہی ہُو۔کیوں بابا جانی آپ تو بڑے فلسفی بنتے ہیں نا!!! لیکن آج آپ  ایک بچی کے سوال پر کتنے بےبس دکھائی دے رہے ہیں۔

کہیں نہیں بٹیا۔۔۔ میں نے پھیکی سی مسکراہٹ  چہرے پر سجانے کی ناکام کوشش کرتے ہُوئے  پھر سے سلسلہ کلام جُوڑا۔۔۔۔۔ بٹیا تمہارے بابا جانی تو بُہت کمزور سے انسان ہیں۔ جو کبھی عشق کی راہ کے مسافر بن جاتے ہیں۔ اُور کبھی خود غلامی کی زنجیروں کو اپنے پاوٗں سے لپیٹ لیتے ہیں۔ لیکن اِس کائینات میں اللہ کریم کے ایسے  کروڑوں عاشق موجود ہیں۔ جو اللہ کریم کی عبادت نہ جنت کی لالچ کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اُور نہ  ہی جہنم  کے خُوف کی وجہ سے وُہ  گناہوں سے دُور رہتے ہیں۔  ۔۔۔۔۔۔۔  بابا جانی یہ کیا بات ہُوئی۔کہ،،  جب نہ اُن لوگوں کا جنت کا لالچ ہے ۔ اُور نہ ہی جہنم کا ڈر ہے۔ تو پھر وُہ لُوگ کس وجہ سے اُور کس کیلئے عبادت کرتے ہیں۔؟؟؟

بٹیا وُہ لوگ صرف اللہ کریم کو راضی کرنے کیلئے اُور اللہ کریم کادید ار اُور اللہ کریم سے ملاقات کو پسند کرتے ہیں۔ اِس لئے اُنکے دِل میں اللہ کریم کے  علاوہ کسی مخلوق کی محبت جگہ نہیں پکڑتی۔ اُور کیوں کہ جنت اُور دوزخ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ اسلئے اُنکے دِل  خالق کی محبت سے اتنے لبریز ہیں۔ کہ،، جنت کے لطف کی طرف اُنکا  خیال ہی نہیں جاتا۔۔۔۔۔۔ تو بابا  جانی قیامت کے دِن جب سب لُوگ جنت یا دُوزخ میں چلے جائیں گے تو یہ لُوگ  پھرکہاں جائیں گے۔؟ جائزہ کی آنکھوں میں اگرچہ نیند نے اپنی جگہ بنانی شروع کردی تھی۔ لیکن شائد وُہ مطمئین ہُوئے بغیر سُونا نہیں چاہتی تھی۔

بٹیا سلطان العارفین حضرت سلطان باہو (رحمتہ اللہ علیہ) جنہیں سُلطان الفقر اُور اِمام العاشقین بھی کہا جاتا ہے۔اپنی کتاب  عین الفقر میں ایک روایت بیان کرتے ہیں۔ جسکا مفہوم کچھ یُوں ہے۔کہ،، جب سب لُوگ جنت یا دُوزخ میں داخل کردیئے جائیں گے۔ تب یہ تمام عاشقین الہی  جنکے لئے جنت کا اعلان کردیا گیا ہُوگا۔ لیکن  یہ گروہ عاشقین جنت کو قبول کرنے میں  تامل کریں گے۔  فرشتے اپنی تمام کوشش کرنے کے بعد  اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض کریں گے ۔ اے ہمارے رب تمام لُوگ جنت یا دُوزخ میں منتقل ہُوچکے ہیں۔ لیکن ایک گروہ اولیا ٗ جنت کی نوید کے باوجود خوش نہیں ہے۔

اللہ کریم ارشاد فرمائے گا۔اِن لوگوں سے معلوم کرو۔کہ،، آخر یہ چاہتے کیا ہیں؟ وُہ گروہ عاشقین عرض کرے گا۔ اے ہمارے پروردیگار تو جانتا ہے۔کہ،، ہم نے کبھی دُنیا کی محبت کو اپنے قلوب میں جگہ نہیں دی۔ ہم نے تیرے عشق کی شمع  سے اپنے وجود کو  اسلئے خاکستر نہیں کیا تھا۔ کہ،، بدلے میں ہمیں باغیچے اُور خدام عطا کردیئے جائیں۔ ہم دُنیا کی تمام تکالیف کو صرف اِس لئے ہنس کے سہتے رہے۔کہ،، تو ہم سے راضی ہُوجائے۔ اور ہمیں دائمی قربت اُور دیدار کی دولت سے سرفراز کردیا جائے۔تاکہ ہماری تشنگی بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بُجھ جائے!!!  اِن عاشقین کی فریاد کے جواب میں اللہ کریم ارشاد فرمائے گا۔ بیشک میرے یہ بندے سچ کہتے ہیں۔ اِن تمام کو مقام القُربہ  میں لے آوٗ۔ تاکہ میں انہیں اپنی قربت خاص  اُور دید کے جام سے سیراب کروں۔ اُور یہ لوگ جنت النعیم اُور جنت الفردوس سے بھی لُطف اندوز ہُوں۔

مطلب بابا جانی جنت تو اِن لوگوں کو بھی مِل جائے گی۔لیکن  اِنکا اصل انعام اللہ تعالی کی قربت اُور اُسکا دیدار ہُوگا۔ تو باباجانی کیا دوسرے جنتیوں کو اللہ کریم کا دیدار نہیں ملے گا۔ ؟جائزہ علی نے نیند بھگانے کی کوشش کرتےہُوئے اگلا سوال کیا۔۔۔۔ نہیں بٹیا ایسی بات نہیں ہے۔دیدار تو  سب جنت والوں کیلئے ہُوگا۔لیکن  دوسرے جنتی ایک مرتبہ دیدار کے بعد ایک  طویل مُدت کیلئے بیہوش ہُوجائیں گے۔ جبکہ مقام قرابت کے عاشقین تجلی سے قرار پکڑیں گے۔ اور بار بار دیدار سے سیراب کئے جائیں گے۔  بس یوں سمجھ لُو کہ ،،   دیگر جنت میں حُسن  محبوب  حجاب میں ہوگا۔ جبکہ مقام قربت میں عاشقین بے حجاب جلوئے سمیٹں گے۔

بابا جانی پھر تو اللہ کے عاشقین ہی فائدے میں رہیں گے۔۔۔ بابا جانی آپ بھی عاشق بن جائیں نا۔ پھر آپ بھی کبھی بُور (تشنہ) نہیں رہیں گے۔۔۔۔اُس نے شب کا آخری جملہ کہا۔ اُور نیند کی وادی میں پُہنچ گئی۔۔۔۔ وُہ آج پھر ہمیشہ کی طرح  قربت کا چراغ میرے من میں رُوشن کر کے اطمینان سے سُوگئی تھی۔ اُور میں ہمیشہ کی طرح اُسکی نصیحت پر عمل کرنے کیلئے خود سے عہد و پیمان کرنے کیلئے جاگنے کی کوشش میں مصروف ہُوں۔ اُور اللہ کریم کی بارگاہ میں فریاد کررہا ہُوں۔کہ،، اے میرے پروردیگار  تونے مجھے کتنا خُوبصورت ناصح عطا کیا ہے۔ جو مجھے بار بار جھنجوڑ کر تیری جانب متوجہ کرتا رہتا ہے۔۔۔  اے کریم مجھ پر مہربانی فرمادے۔ اُور میرے من میں ٹمٹماتی آتشِ عشق  کی شمع کو قرار عطا فرمادے۔ مجھے اپنی پسند کے کردار کی محبت کے چنگل سے نکال کر ۔ تیری پسند کے کردار کیلئے مستعد کردے۔ تاکہ میں اسمیں خوبصورت رنگ بھر کر عاشقوں کے نشانِ  قدم کو ڈھونڈتا ہُوا مُراد پاجاوٗں۔


اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔



1 comment:

  1. Slam, MA SHA ALLAH bohat zaheen bachi hai our bohat roshan soch hai. BHAI KHUDA ki talash part-1 bhi aaj hi parha hai dono tehrerin bari la jawab hain. ALLAH KAREEM ham ko amal karney ki toufeeq ata farmaye. our sacha aashiq bna dey. JZAK ALLAH
    talib-e-dua
    MUHAMMAD Owais

    ReplyDelete