گُزشتہ سے پیوستہ
بابا وقاص نے عمران کو چند لمحے بَغور دِیکھا اور پھر گُویا ہُوئے دیکھو بیٹا اگر تُم مجھ سے میری رائے معلوم کرنا چاہتے ہُو تُو میں یہی کہوں گا کہ تُم کوثر سے نِکاح کر لُو اور جہاں تک بات ہے شریعت کے اِحکامات کی تو میں اِس معاملے میں کُچھ نہیں کہونگا اگر تُمہیں شرعی احکام جاننے ہیں تُو کسی عالم سے رُجوع کرو ۔ اور رہی بات کوثر کے والد سے مُلاقات کی تُو تُم اسکی بالکل فکر نہ کرو یہ میری ِذمہ داری ہے لیکن اِس سے پہلے تُمہیں فیصلہ لینا ہُوگا کہ آیا تُم اس شادی کیلئے رضامند بھی ہُو یا کہ نَہیں۔ اور ہاں مُلاقات کیلئے ہمیں شائد لاھور کے شاہی قلعے تک جانا پَڑے بابا وقاص کی گُفتگو جاری تھی کہ کہیں دور مسجد سے آذان کی صدا بُلند ہُوئی اور بابا وقاص خاموش ہُوگئے
اب مزید پڑھیے
بابا وقاص نے آذان خَتم ہوتے ہی دُعا کے واسطے ہاتھ بلند کر دئیے دُعا سے فراغت کے بعد بابا وقاص عِمران سے فرمانے لگے بیٹا پہلے نماز اَدا کرلیں اُسکے بعد چاہو تُو گھر چلے جانا یا چاہو تُو اپنے بقیہ سوال کا جواب سُن لینا
عمران نے جواباً کہا۔ بابا میرے بچّے تُو اپنی امی کیساتھ اپنی نانی کے گھر گئے ہُوئے ہیں اِسلئے مجھے گھر جانے کی آج کوئی جلدی نہیں ہے میں نماز کے بعد آپ کے پاس مزید ٹہرنا چاہوں گا اگر آپ کو پریشانی نہ ہو۔
بابا وقاص نے رضامندی کا اِشارہ دیتے ہُوئے نماز کی نیت باندھ لی ۔ عمران بھی نماز کی ادائیگی میں مشغول ہوگیا نماز کی ادائیگی کے بعد بابا وقاص وظائف میں مشغول ہُوگئے جبکہ عمران تپائی سے کتاب اُٹھا کر پَڑھنے میں مشغول ہوگیا لیکن جلد ہی عمران کو بوریت کا احساس ہُونے لگا کیونکہ یہ کتاب عملیات اور نقوش پر مشتمل تھی ۔ کتاب کافی پُرانی دِکھائی دِے رہی تھی کافی صفحات جلد کا ساتھ چُھوڑ چُکے تھے اور کئی پیراگراف صِرف چھپائی کا عکس پیش کررہے تھے ناجانے بابا وقاص اِس کتاب کو کیسے پڑھ پاتے ہُونگے یہی سُوچ کر عمران نے کتاب کو واپس تپائی پر رکھ دیا۔
تُھوڑی دیر میں بابا وقاص وظائف سے فارغ ہُوچُکنے کے بعد عمران کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ بابا وقاص کی آمد کیساتھ ہی عمران بھی مُؤدب ہُو کر بیٹھ گیا بابا وقاص تشریف فرما ہُوکر فرمانے لگے عمران بیٹا ویسے تُو تُمہاری یہاں آمد سے ہمیں بھی مسرت حاصل ہُوتی ہے لیکن ہم نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے کہ بُہت زیادہ میل جُول مُحبت کا دُشمن ہُوتا ہے اسلئے میری بات کا کوئی اور مقصد نہیں نکالنا مگر آجکل آپ بُہت زیادہ وقت ہمارے ساتھ گُزارنے لگے ہیں جسکی وجہ سے یقیناً آپ کی نجی زِندگی بھی مُتاثر ہُورہی ہُوگی اگرچہ ابھی اِس بات کا آپکو شائد اِدراک نہ ہُو لیکن اِس طرح میاں بیوی میں ایک خلیج پیدا ہُوتی چلی جاتی ہے آپ کی بیگم اور آپ کے بَچوں کا بھی آپ پر بُہت حق ہے اور ہمارا مُشاہدہ ہے کہ کوئی بھی عورت اِس بات کو برداشت نہیں کر پائے گی کہ اُسکا خَاوند کام کاج سے فارغ ہُونے کے بعد گھر کے بجائے کہیں اور وقت بِتائے۔ حالانکہ وہی عورت رِزق کی تلاش میں اپنے خاوند کا خُود سے دور رِہنا ہَفتوں کیا مہینوں بھی برداشت کر لیتی ہے۔
بابا میں کوشش کروں گا کہ آپکی ہِدایت پر ممکن حَد تک عمل پیرا ہُوسکوں اگرچہ یہ بھی حَقیقت ہے کہ جب سے آپکی صحبت مُجھے میسر آئی ہے میرا دِل یہی چاہتا ہے کہ تمام دِن آپ کی ہی خِدمت میں حاضر رہوں۔ عمران نے اپنی دِلی کیفیت کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔
جیتے رَہو عمران میاں۔۔ ہم تُمہارے جذبات کی قدر کرتے ہیں لیکن اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ بُزرگوں کی باتوں میں بَڑی حِکمت پُوشیدہ ہُوتی ہے اور یہ بات اگر سمجھنی ہُو تو کسی مُقدس مقام پر اِسکا مُشاہدہ کرلینا کہ جتنا اَدب دوسرے شہر یا مُلک سے آنے والے زائرین وہاں اُس مُقدس احاطہ کا کرتے مِلیں گے اُس ادب و احترام کا مقامی لوگوں سے موازنہ کر دیکھنا فرق اسقدر نظر آئے گا کہ میری بات دِن کی روشنی کی طرح صاف نظر آنے لگے گی بابا وقاص نے عمران کو سمجھاتے ہُوئے کہا۔
اچھا بابا میں کوشش کروں گا کہ میری فیملی کو میرے رَویوں سے تکلیف نہ پُہنچے۔ اب آپ میرے باقی سوال کا جواب اگر عنایت فرماد ِیں تُو مجھے پر بڑا کرم ہُوگا ورنہ رات بھر سُو نہیں پاؤں گا عمران نے سعادت مندی سے بات کا رُخ موڑنے کی کوشش کرتے ہُوئے کہا۔
بیٹا جِن بُزرگ کا تذکرہ تُم سے کوثر نے کیا ہے وہ اب اِس فانی دُنیا میں نہیں ہیں یہ بُزرگ اکثر کراچی کے ایک مشہور قبرستان میں پائے جاتے تھے اور اِنکا اصل نام تُو اب مجھے بھی یاد نہیں رہا لیکن میری اِن سے دو ایک مُلاقات ضرور رہی ہیں اور وہ بھی انکے وصال ظاہری کے آخری سال میں ممکن ہُوئیں تھیں چُونکہ آپ ہمیشہ قبر میں رِہنا پسند کرتے تھے اور چہرے پر جلال اسقدر رِہتا تھا کہ کسی عام اِنسان کو اُن سے گُفتگو کی مجال بھی نہ ہوتی تھی لیکن وصال ظاہری سے تقریباً دو برس قبل وہ اچانک ایک دِن واپس گھر لُوٹ آئے اور لوگوں سے مُلاقات بھی فرمانے لگے میں نے اپنی زِندگی میں ایسا سیف زُبان بُزرگ نہیں دیکھا۔
بابا وقاص سانس بحال کرنے کو رُکے تُو عمران سے نہ رہا گیا اور فوراً بُول پڑا بابا یہ ،،سیف زُبان،، کیا ہُوتا ہے ؟
بیٹا سیف زُبان کا لغوی معنی تو یہی ہوتا ہے کہ تلوار جیسی زُبان لیکن اِسے کسی کے لئے تب بھی استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شخص زُبان سے کوئی انہونی بات بھی کہدے تُو وہ بات فوراً قبول ہُوجائے اور اِن بُزرگ کا یہ لقب پڑنے کی ایک وجہ جو میرے علم میں آئی وہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ نوجوانی میں آپ کا ایک بچہ آپ کی زُبان سے نِکلے ایک جُملے کے سبب فوراً مرگیا تھا۔
بابا اُن بُزرگ کے دہن سے آخر ایسی کیا بات نِکل گئی تھی کہ اُنہی کا اپنا صاحبزادہ اسکا شکار ہُوگیا؟
بیٹا زیادہ تفصیل تُو مجھے بھی معلوم نہیں ہے مگر اتنا جانتا ہُوں کہ ایک مرتبہ جب حالت سلوک میں تھے اپنے گھر کی بیٹھک میں چند لوگوں کیساتھ بیٹھے گُفتگو فرما رہے تھے اور اُنکا بچہ گھر میں کھیل رہا تھا اُنہوں نے بچے کو مہمانوں کی خاطر مدارت کیلئے آواز لگائی لیکن بچہ کھیل میں ایسا مگن تھا کہ پلٹ کر جواب ہی نہیں دِیا دو یا تین مرتبہ آواز لگانے پر بھی جب بَچہ نہیں آیا تُو آپ پر جلال کی کیفیت طاری ہُوگئی اور اُسی کیفیت میں آپ نے فرمادِیا کہ،، مر تو نہیں گیا،، بس آپکا اِتنا کہنا تھا کہ بچہ پھڑک کر زمین پر ایسا گِرا کہ دوبارہ اُٹھنے کا نام نہیں لیا اس بچے کے انتقال کے بعد آپ پر اکثر ایسی جلالی کیفیت طاری ہُوجاتی اور اُس حالت میں جو کُچھ آپکی زُبانِ مُبارک سے نِکل جاتا وہ فوراً ہی ظاہر ہوجاتا تھا جس کی وجہ سے لوگ بھی آپ سے مِلنے سے کترایا کرتے کہ مُبادا کسی کو بددُعا نہ دے ڈالیں پھر آہستہ آہستہ آپ لوگوں کی بھیڑ سے ایسے متنفر ہوئے کہ خلوت اختیار فرمالی اور جب لوگ آپکو اُس حالت میں بھی تنگ کرنے سے باز نہ آئے تُو آپ نے اپنا ٹھکانہ ایک قبرستان میں بنالیا پھر ایک دِن نجانے اُنکے دِل میں کیا سمائی کہ ایک قبر تیار کر کے اُس میں رہنے لگے اور بلاآخر وصالِ ظاہری سے دو قبل برس ہی اُنکی یہ کیفیت ختم ہوئی۔
ایک مرتبہ ایک عجیب واقعہ میری موجودگی میں بھی پیش آیا تھا جسکا میں جشم دید گواہ ہُوں میں نے ایک شخص کو آپکی خِدمت میں دیکھا جو سب سے پیچھے گھٹنوؤں میں سر دئیے بیٹھا تھا مغرب کے بعد سب لوگ چلے گئے میں بھی اِجازت لینا چاہتا تھا کہ وہ بُزرگ اپنی نشست سے اُٹھے اور اُس شخص کے پاس جاکر بیٹھ گئے اُس شخص کو جیسے ہی آپکی موجودگی کا اِحساس ہُوا اُس نے اپنا چہرہ گُھٹنوؤں سے نکالا اور مؤدب ہو کر بیٹھ گیا اُس شخص کی آنکھوں کی سُرخی سے معلوم ہُورہا تھا کہ وہ کافی دیر سے رُو رہا تھا۔
پہلے حضرت کے چہرہ پر جلال آیا لیکن دوسرے ہی لمحے آپکا چہرہ سراپأ شفقت کا مظہر نظر آنے لگے اور اُس شخص سے فرمانے لگے احمق اِنسان اپنے خُون پسینے کی کمائی جب لُٹا رہا تھا تب خیال نہیں آیا، اور جب اپنے بچوں کی خُوشیوں کو آگ لگا چُکا تبھی ہماری یاد آئی ہے تُجھے وہ شخص دہاڑیں مار مار کر رونے لگا اور رُوتے ہُوئے کہنے لگا حضرت میں نے کئی بار سوچا تھا کہ اِس گورکھ دھندے سے نِکل جاؤں مگر ساری پونجی لُٹانے کے بعد بھی ایک آس تھی کہ شائد آخری پرچی میرے نصیبوں پر پڑی گرد ہٹا دے سُو یوں کھیلتا گیا اور اب جب کہ کوئی مجھے اُدھار دینے کیلئے بھی تیار نہیں میری بچی کے سسرال والے شادی کا فوری تقاضہ کرہے ہیں۔
اور اب اُنہوں نے کہلا بھیجا ہے کہ اگر پندرہ دِن میں بچی نہیں بیاھی تو وہ کہیں اور رشتہ کرلیں گے میری حرکتوں کی وجہ سے میری بیوی ٹی بی کی مریضہ بن کر رِہ گئی ہے اور میری بچی کی حسرت زدہ نگاہیں روز مجھ سے ایک ہی سوال کرتی ہیں کہ بابا کیا میرے نصیب میں سہاگن بننا نہیں لکھا ہے ۔ حضرت اب آپ ہی کُچھ کریں ورنہ میری بَچی کی زندگی برباد ہُوجائے گی ۔
اچھا اب بس بھی کر زیادہ ٹسوئے نہ بہا میرے پاس کیا لینے آیا ہے میں تُو خُود تہی دامن ہُوں میرے پلے کیا ہے جو تیری مدد کرونگا؟ جُا اُسی کی بارگاہ میں سر ڈال دے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور بڑا بے نیاز ہے حضرت صاحب اُسے منزل کا پتہ دے رَہے تھے مگر وہ ناسمجھ اپنا ہی راگ الاپ رہا تھا کہنے لگا کئی روز سے رات دِن التجائیں کر رہا ہُوں مگر کوئی سُنوائی نہیں ہُورہی تب آپ سے سِفارش کرانے آیا ہُوں کہ دوست دوست کی بات کو نہیں ٹالتا۔
کمبخت سٹہ بازی کرتے ہُوئے کیا اُسکی اجازت لی تھی تُو نے؟ جُو اب خُدا پر الزام رکھ رَہا ہے کہ نہیں سُنتا۔ حالانکہ وہ تُو سب کی سُنتا ہے چاہے کوئی کتنا ہی نافرمان کیوں نہ ہُو مگر مانگنے کا ڈھنگ بھی تو ہونا چاہیئے بھکاری کی طرح مانگنا چاہیئے سخی سے ۔ ناکہ قرضدار کی طرح حق جتا کر مانگا جائے بابا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
وہ کہنے لگا حُضور آپ سچ کہتے ہیں مجھے مانگنا ہی نہیں آتا شائد ۔ تبھی تُو آپکی خِدمت میں حاضر ہوا ہُوں اُسکا لہجہ بُہت مُلتجانہ تھا۔
اچھا ایسا کرو میں تُمہیں ایک کاغذ دیتا ہُوں اُسے فُلاں سیٹھ کے پاس لیجاؤ تمام شہر میں سٹہ کی وبا اُسی کی پھیلائی ہُوئی ہے وہی تُمہارے سمیت ہزاروں لوگوں کا مُجرم ہے لَہٰذا تُمہارے نقصان کی تلافی بھی اُسی کا حق بنتا ہے اُسے ہمارا خَط دِکھانا اور کہنا کہ اب بچی کی شادی کا تمام خرچ وہی اُٹھائے ورنہ ہمارے شہر سے دفع ہُوجائے اُسکے بعد حضرت صاحب نے مجھے حُکم دیا کہ میں بھی اُس پریشان حال شخص کیساتھ روانہ ہُوجاؤں اور عمران میاں جب ہم اُس سیٹھ کے پاس پُہنچے اور اپنا مُدعا بیان کیا تو وہ سیٹھ ہم پر ہنسنے لگا لیکن جونہی ہم نے اُسکے ہاتھ میں پرچی تھمائی تو وہ سیٹھ خط پڑھتے ہی تھر تھرانے لگا جو شخص ابھی کُچھ لمحوں قبل ہمارا مذاق اُڑا رہا تھا اب ہمارے ساتھ ایسے پیش آنے لگا جیسے ہم نے اُسے حضرت صاحب کا خط نہ تھمایا ہو بلکہ اُسکی موت کا پروانہ اُسکے ہاتھ میں دیدیا ہُو۔ اُس نے وہ خَط نہایت احترام سے چُوما اور اُسے اپنی آنکھوں سے لگا کر جیب میں رکھنا چاہا لیکن اُسکے ہاتھوں سے وہ پرچی نیچے گِر گئی میں نےاحتراماً اُس پرچی کو زمین سے اُٹھایا تو میں حیرت زدہ رِہ گیا کیونکہ وہ ایک سادہ کاغذ تھا جسکے دونوں جانب کُچھ بھی نہیں لکھا ہُوا تھا۔
تُو کیا اُس نے واقعی شادی کا خرچہ اُٹھایا تھا بابا عمران نے تجسس سے پُوچھا۔
ہاں بیٹا تمام شادی کا خَرچہ اُسی سیٹھ نے برداشت کیا تھا اور ایک مرتبہ ہَم نے بھی اُس سیٹھ سے ایک غریب شخص کا علاج مفت میں کروایا تھا اور اُس نے صرف حضرت صاحب کے نام لیتے ہی ایک خطیر رَقم علاج کیلئے مُہیا کردی تھی حالانکہ وہ بھی بابا کے وِصال سے بے خبر نہیں تھا لیکن یہ قِصہ پھر کبھی سُن لینا اب رات کافی ہُوگئی ہے اس لئے اب جاؤ اور جا کر آرام کرو اور جلد از جلد کِسی فیصلے پر پُہنچنے کی کوشش کرو بابا وقاص گویا رُخصت کا اشارہ دِے رہے تھے۔
بابا ایک بات اور بتادیں اُس خالی کاغذ کے مُتعلق کبھی آپ نے حضرت صاحب سے دریافت نہیں کیا؟ عمران نے رخصت لینے سے قبل معلوم کیا۔
معلوم کیا تھا لیکن حضرت صاحب نے بس اِتنا ہی فرمایا تھا کہ جس کیلئے تحریر تھی اُس نے پڑھ بھی لی اور سمجھ بھی گیا ہر ایک کیلئے وہ تحریر نہیں تھی اور نہ ہی ہر ایک وہ تحریر سمجھنے کی اہلیت رکھتا تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اُس سیٹھ نے خُود اس راز سے پردہ اُٹھا دیا۔ اُس نے بتایا تھا کہ حضرت صاحب نے اُس میں ایک بات یہ بھی لکھی تھی کہ چُونکہ تُمہاری وجہ سے ہی یہ شخص مفلس اور قلاش ہُوا ہے لہٰذا یا تو ہرجانے میں اس کی مدد کرو ورنہ ہم ہر قرعہ سے قبل ہی نتائج کا اعلان کردیں گے جس کے نتیجے میں تُمہاری حالت بھی اِس مفلس شخص سے مُختلف نہ ہُوگی۔
اچھا بیٹا اب تُم جاؤ کیونکہ کوئی اور بھی مُلاقات چاہتا ہے لیکن اسکے لئے تنہائی کا ممتنی ہے۔
عمران بابا وقاص کی بات کو سمجھ چُکا تھا لہٰذا الوداعی مصافحہ کے بعد وہاں سے رُخصت ہوگیا۔
(جاری ہے)
تذکرہ اِک پری کے اِختتام پر انشاءَ اللہ آپکی خِدمت میں ایک نہایت دلچسپ سلسلہ (احمد بشیر اور افلاطون) کے عنوان سے پیش کرنے کی سعی حاصل کرونگا ۔ جِس میں آپکی مُلاقات معاشرے کے ایک ایسے ناآسودہ شخص احمد بشیر سے کراونگا جو اپنی خُواہشات کی تکمیل کیلئے عملیات کے سحر میں گرفتار تھا اور بلاآخر اُسکی ملاقات ایک جن زادے (افلاطون)سے ہوجاتی جِسے شہرت کی طلب نے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اور جب یہ دونوں ایک موقع پر حادثاتی طور پر مِل جاتے ہیں تو کیا گُل کِھلاتے ہیں یہ تو کہانی پڑھ کر ہی آپکو معلوم ہُوگا لیکن اتنی اُمید ضرور ہیکہ آپ اس طلسمی کہانی کے سحر میں کھو کر رِہ جائیں گے۔
بابا وقاص نے عمران کو چند لمحے بَغور دِیکھا اور پھر گُویا ہُوئے دیکھو بیٹا اگر تُم مجھ سے میری رائے معلوم کرنا چاہتے ہُو تُو میں یہی کہوں گا کہ تُم کوثر سے نِکاح کر لُو اور جہاں تک بات ہے شریعت کے اِحکامات کی تو میں اِس معاملے میں کُچھ نہیں کہونگا اگر تُمہیں شرعی احکام جاننے ہیں تُو کسی عالم سے رُجوع کرو ۔ اور رہی بات کوثر کے والد سے مُلاقات کی تُو تُم اسکی بالکل فکر نہ کرو یہ میری ِذمہ داری ہے لیکن اِس سے پہلے تُمہیں فیصلہ لینا ہُوگا کہ آیا تُم اس شادی کیلئے رضامند بھی ہُو یا کہ نَہیں۔ اور ہاں مُلاقات کیلئے ہمیں شائد لاھور کے شاہی قلعے تک جانا پَڑے بابا وقاص کی گُفتگو جاری تھی کہ کہیں دور مسجد سے آذان کی صدا بُلند ہُوئی اور بابا وقاص خاموش ہُوگئے
اب مزید پڑھیے
بابا وقاص نے آذان خَتم ہوتے ہی دُعا کے واسطے ہاتھ بلند کر دئیے دُعا سے فراغت کے بعد بابا وقاص عِمران سے فرمانے لگے بیٹا پہلے نماز اَدا کرلیں اُسکے بعد چاہو تُو گھر چلے جانا یا چاہو تُو اپنے بقیہ سوال کا جواب سُن لینا
عمران نے جواباً کہا۔ بابا میرے بچّے تُو اپنی امی کیساتھ اپنی نانی کے گھر گئے ہُوئے ہیں اِسلئے مجھے گھر جانے کی آج کوئی جلدی نہیں ہے میں نماز کے بعد آپ کے پاس مزید ٹہرنا چاہوں گا اگر آپ کو پریشانی نہ ہو۔
بابا وقاص نے رضامندی کا اِشارہ دیتے ہُوئے نماز کی نیت باندھ لی ۔ عمران بھی نماز کی ادائیگی میں مشغول ہوگیا نماز کی ادائیگی کے بعد بابا وقاص وظائف میں مشغول ہُوگئے جبکہ عمران تپائی سے کتاب اُٹھا کر پَڑھنے میں مشغول ہوگیا لیکن جلد ہی عمران کو بوریت کا احساس ہُونے لگا کیونکہ یہ کتاب عملیات اور نقوش پر مشتمل تھی ۔ کتاب کافی پُرانی دِکھائی دِے رہی تھی کافی صفحات جلد کا ساتھ چُھوڑ چُکے تھے اور کئی پیراگراف صِرف چھپائی کا عکس پیش کررہے تھے ناجانے بابا وقاص اِس کتاب کو کیسے پڑھ پاتے ہُونگے یہی سُوچ کر عمران نے کتاب کو واپس تپائی پر رکھ دیا۔
تُھوڑی دیر میں بابا وقاص وظائف سے فارغ ہُوچُکنے کے بعد عمران کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ بابا وقاص کی آمد کیساتھ ہی عمران بھی مُؤدب ہُو کر بیٹھ گیا بابا وقاص تشریف فرما ہُوکر فرمانے لگے عمران بیٹا ویسے تُو تُمہاری یہاں آمد سے ہمیں بھی مسرت حاصل ہُوتی ہے لیکن ہم نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے کہ بُہت زیادہ میل جُول مُحبت کا دُشمن ہُوتا ہے اسلئے میری بات کا کوئی اور مقصد نہیں نکالنا مگر آجکل آپ بُہت زیادہ وقت ہمارے ساتھ گُزارنے لگے ہیں جسکی وجہ سے یقیناً آپ کی نجی زِندگی بھی مُتاثر ہُورہی ہُوگی اگرچہ ابھی اِس بات کا آپکو شائد اِدراک نہ ہُو لیکن اِس طرح میاں بیوی میں ایک خلیج پیدا ہُوتی چلی جاتی ہے آپ کی بیگم اور آپ کے بَچوں کا بھی آپ پر بُہت حق ہے اور ہمارا مُشاہدہ ہے کہ کوئی بھی عورت اِس بات کو برداشت نہیں کر پائے گی کہ اُسکا خَاوند کام کاج سے فارغ ہُونے کے بعد گھر کے بجائے کہیں اور وقت بِتائے۔ حالانکہ وہی عورت رِزق کی تلاش میں اپنے خاوند کا خُود سے دور رِہنا ہَفتوں کیا مہینوں بھی برداشت کر لیتی ہے۔
بابا میں کوشش کروں گا کہ آپکی ہِدایت پر ممکن حَد تک عمل پیرا ہُوسکوں اگرچہ یہ بھی حَقیقت ہے کہ جب سے آپکی صحبت مُجھے میسر آئی ہے میرا دِل یہی چاہتا ہے کہ تمام دِن آپ کی ہی خِدمت میں حاضر رہوں۔ عمران نے اپنی دِلی کیفیت کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔
جیتے رَہو عمران میاں۔۔ ہم تُمہارے جذبات کی قدر کرتے ہیں لیکن اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ بُزرگوں کی باتوں میں بَڑی حِکمت پُوشیدہ ہُوتی ہے اور یہ بات اگر سمجھنی ہُو تو کسی مُقدس مقام پر اِسکا مُشاہدہ کرلینا کہ جتنا اَدب دوسرے شہر یا مُلک سے آنے والے زائرین وہاں اُس مُقدس احاطہ کا کرتے مِلیں گے اُس ادب و احترام کا مقامی لوگوں سے موازنہ کر دیکھنا فرق اسقدر نظر آئے گا کہ میری بات دِن کی روشنی کی طرح صاف نظر آنے لگے گی بابا وقاص نے عمران کو سمجھاتے ہُوئے کہا۔
اچھا بابا میں کوشش کروں گا کہ میری فیملی کو میرے رَویوں سے تکلیف نہ پُہنچے۔ اب آپ میرے باقی سوال کا جواب اگر عنایت فرماد ِیں تُو مجھے پر بڑا کرم ہُوگا ورنہ رات بھر سُو نہیں پاؤں گا عمران نے سعادت مندی سے بات کا رُخ موڑنے کی کوشش کرتے ہُوئے کہا۔
بیٹا جِن بُزرگ کا تذکرہ تُم سے کوثر نے کیا ہے وہ اب اِس فانی دُنیا میں نہیں ہیں یہ بُزرگ اکثر کراچی کے ایک مشہور قبرستان میں پائے جاتے تھے اور اِنکا اصل نام تُو اب مجھے بھی یاد نہیں رہا لیکن میری اِن سے دو ایک مُلاقات ضرور رہی ہیں اور وہ بھی انکے وصال ظاہری کے آخری سال میں ممکن ہُوئیں تھیں چُونکہ آپ ہمیشہ قبر میں رِہنا پسند کرتے تھے اور چہرے پر جلال اسقدر رِہتا تھا کہ کسی عام اِنسان کو اُن سے گُفتگو کی مجال بھی نہ ہوتی تھی لیکن وصال ظاہری سے تقریباً دو برس قبل وہ اچانک ایک دِن واپس گھر لُوٹ آئے اور لوگوں سے مُلاقات بھی فرمانے لگے میں نے اپنی زِندگی میں ایسا سیف زُبان بُزرگ نہیں دیکھا۔
بابا وقاص سانس بحال کرنے کو رُکے تُو عمران سے نہ رہا گیا اور فوراً بُول پڑا بابا یہ ،،سیف زُبان،، کیا ہُوتا ہے ؟
بیٹا سیف زُبان کا لغوی معنی تو یہی ہوتا ہے کہ تلوار جیسی زُبان لیکن اِسے کسی کے لئے تب بھی استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شخص زُبان سے کوئی انہونی بات بھی کہدے تُو وہ بات فوراً قبول ہُوجائے اور اِن بُزرگ کا یہ لقب پڑنے کی ایک وجہ جو میرے علم میں آئی وہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ نوجوانی میں آپ کا ایک بچہ آپ کی زُبان سے نِکلے ایک جُملے کے سبب فوراً مرگیا تھا۔
بابا اُن بُزرگ کے دہن سے آخر ایسی کیا بات نِکل گئی تھی کہ اُنہی کا اپنا صاحبزادہ اسکا شکار ہُوگیا؟
بیٹا زیادہ تفصیل تُو مجھے بھی معلوم نہیں ہے مگر اتنا جانتا ہُوں کہ ایک مرتبہ جب حالت سلوک میں تھے اپنے گھر کی بیٹھک میں چند لوگوں کیساتھ بیٹھے گُفتگو فرما رہے تھے اور اُنکا بچہ گھر میں کھیل رہا تھا اُنہوں نے بچے کو مہمانوں کی خاطر مدارت کیلئے آواز لگائی لیکن بچہ کھیل میں ایسا مگن تھا کہ پلٹ کر جواب ہی نہیں دِیا دو یا تین مرتبہ آواز لگانے پر بھی جب بَچہ نہیں آیا تُو آپ پر جلال کی کیفیت طاری ہُوگئی اور اُسی کیفیت میں آپ نے فرمادِیا کہ،، مر تو نہیں گیا،، بس آپکا اِتنا کہنا تھا کہ بچہ پھڑک کر زمین پر ایسا گِرا کہ دوبارہ اُٹھنے کا نام نہیں لیا اس بچے کے انتقال کے بعد آپ پر اکثر ایسی جلالی کیفیت طاری ہُوجاتی اور اُس حالت میں جو کُچھ آپکی زُبانِ مُبارک سے نِکل جاتا وہ فوراً ہی ظاہر ہوجاتا تھا جس کی وجہ سے لوگ بھی آپ سے مِلنے سے کترایا کرتے کہ مُبادا کسی کو بددُعا نہ دے ڈالیں پھر آہستہ آہستہ آپ لوگوں کی بھیڑ سے ایسے متنفر ہوئے کہ خلوت اختیار فرمالی اور جب لوگ آپکو اُس حالت میں بھی تنگ کرنے سے باز نہ آئے تُو آپ نے اپنا ٹھکانہ ایک قبرستان میں بنالیا پھر ایک دِن نجانے اُنکے دِل میں کیا سمائی کہ ایک قبر تیار کر کے اُس میں رہنے لگے اور بلاآخر وصالِ ظاہری سے دو قبل برس ہی اُنکی یہ کیفیت ختم ہوئی۔
ایک مرتبہ ایک عجیب واقعہ میری موجودگی میں بھی پیش آیا تھا جسکا میں جشم دید گواہ ہُوں میں نے ایک شخص کو آپکی خِدمت میں دیکھا جو سب سے پیچھے گھٹنوؤں میں سر دئیے بیٹھا تھا مغرب کے بعد سب لوگ چلے گئے میں بھی اِجازت لینا چاہتا تھا کہ وہ بُزرگ اپنی نشست سے اُٹھے اور اُس شخص کے پاس جاکر بیٹھ گئے اُس شخص کو جیسے ہی آپکی موجودگی کا اِحساس ہُوا اُس نے اپنا چہرہ گُھٹنوؤں سے نکالا اور مؤدب ہو کر بیٹھ گیا اُس شخص کی آنکھوں کی سُرخی سے معلوم ہُورہا تھا کہ وہ کافی دیر سے رُو رہا تھا۔
پہلے حضرت کے چہرہ پر جلال آیا لیکن دوسرے ہی لمحے آپکا چہرہ سراپأ شفقت کا مظہر نظر آنے لگے اور اُس شخص سے فرمانے لگے احمق اِنسان اپنے خُون پسینے کی کمائی جب لُٹا رہا تھا تب خیال نہیں آیا، اور جب اپنے بچوں کی خُوشیوں کو آگ لگا چُکا تبھی ہماری یاد آئی ہے تُجھے وہ شخص دہاڑیں مار مار کر رونے لگا اور رُوتے ہُوئے کہنے لگا حضرت میں نے کئی بار سوچا تھا کہ اِس گورکھ دھندے سے نِکل جاؤں مگر ساری پونجی لُٹانے کے بعد بھی ایک آس تھی کہ شائد آخری پرچی میرے نصیبوں پر پڑی گرد ہٹا دے سُو یوں کھیلتا گیا اور اب جب کہ کوئی مجھے اُدھار دینے کیلئے بھی تیار نہیں میری بچی کے سسرال والے شادی کا فوری تقاضہ کرہے ہیں۔
اور اب اُنہوں نے کہلا بھیجا ہے کہ اگر پندرہ دِن میں بچی نہیں بیاھی تو وہ کہیں اور رشتہ کرلیں گے میری حرکتوں کی وجہ سے میری بیوی ٹی بی کی مریضہ بن کر رِہ گئی ہے اور میری بچی کی حسرت زدہ نگاہیں روز مجھ سے ایک ہی سوال کرتی ہیں کہ بابا کیا میرے نصیب میں سہاگن بننا نہیں لکھا ہے ۔ حضرت اب آپ ہی کُچھ کریں ورنہ میری بَچی کی زندگی برباد ہُوجائے گی ۔
اچھا اب بس بھی کر زیادہ ٹسوئے نہ بہا میرے پاس کیا لینے آیا ہے میں تُو خُود تہی دامن ہُوں میرے پلے کیا ہے جو تیری مدد کرونگا؟ جُا اُسی کی بارگاہ میں سر ڈال دے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور بڑا بے نیاز ہے حضرت صاحب اُسے منزل کا پتہ دے رَہے تھے مگر وہ ناسمجھ اپنا ہی راگ الاپ رہا تھا کہنے لگا کئی روز سے رات دِن التجائیں کر رہا ہُوں مگر کوئی سُنوائی نہیں ہُورہی تب آپ سے سِفارش کرانے آیا ہُوں کہ دوست دوست کی بات کو نہیں ٹالتا۔
کمبخت سٹہ بازی کرتے ہُوئے کیا اُسکی اجازت لی تھی تُو نے؟ جُو اب خُدا پر الزام رکھ رَہا ہے کہ نہیں سُنتا۔ حالانکہ وہ تُو سب کی سُنتا ہے چاہے کوئی کتنا ہی نافرمان کیوں نہ ہُو مگر مانگنے کا ڈھنگ بھی تو ہونا چاہیئے بھکاری کی طرح مانگنا چاہیئے سخی سے ۔ ناکہ قرضدار کی طرح حق جتا کر مانگا جائے بابا نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
وہ کہنے لگا حُضور آپ سچ کہتے ہیں مجھے مانگنا ہی نہیں آتا شائد ۔ تبھی تُو آپکی خِدمت میں حاضر ہوا ہُوں اُسکا لہجہ بُہت مُلتجانہ تھا۔
اچھا ایسا کرو میں تُمہیں ایک کاغذ دیتا ہُوں اُسے فُلاں سیٹھ کے پاس لیجاؤ تمام شہر میں سٹہ کی وبا اُسی کی پھیلائی ہُوئی ہے وہی تُمہارے سمیت ہزاروں لوگوں کا مُجرم ہے لَہٰذا تُمہارے نقصان کی تلافی بھی اُسی کا حق بنتا ہے اُسے ہمارا خَط دِکھانا اور کہنا کہ اب بچی کی شادی کا تمام خرچ وہی اُٹھائے ورنہ ہمارے شہر سے دفع ہُوجائے اُسکے بعد حضرت صاحب نے مجھے حُکم دیا کہ میں بھی اُس پریشان حال شخص کیساتھ روانہ ہُوجاؤں اور عمران میاں جب ہم اُس سیٹھ کے پاس پُہنچے اور اپنا مُدعا بیان کیا تو وہ سیٹھ ہم پر ہنسنے لگا لیکن جونہی ہم نے اُسکے ہاتھ میں پرچی تھمائی تو وہ سیٹھ خط پڑھتے ہی تھر تھرانے لگا جو شخص ابھی کُچھ لمحوں قبل ہمارا مذاق اُڑا رہا تھا اب ہمارے ساتھ ایسے پیش آنے لگا جیسے ہم نے اُسے حضرت صاحب کا خط نہ تھمایا ہو بلکہ اُسکی موت کا پروانہ اُسکے ہاتھ میں دیدیا ہُو۔ اُس نے وہ خَط نہایت احترام سے چُوما اور اُسے اپنی آنکھوں سے لگا کر جیب میں رکھنا چاہا لیکن اُسکے ہاتھوں سے وہ پرچی نیچے گِر گئی میں نےاحتراماً اُس پرچی کو زمین سے اُٹھایا تو میں حیرت زدہ رِہ گیا کیونکہ وہ ایک سادہ کاغذ تھا جسکے دونوں جانب کُچھ بھی نہیں لکھا ہُوا تھا۔
تُو کیا اُس نے واقعی شادی کا خرچہ اُٹھایا تھا بابا عمران نے تجسس سے پُوچھا۔
ہاں بیٹا تمام شادی کا خَرچہ اُسی سیٹھ نے برداشت کیا تھا اور ایک مرتبہ ہَم نے بھی اُس سیٹھ سے ایک غریب شخص کا علاج مفت میں کروایا تھا اور اُس نے صرف حضرت صاحب کے نام لیتے ہی ایک خطیر رَقم علاج کیلئے مُہیا کردی تھی حالانکہ وہ بھی بابا کے وِصال سے بے خبر نہیں تھا لیکن یہ قِصہ پھر کبھی سُن لینا اب رات کافی ہُوگئی ہے اس لئے اب جاؤ اور جا کر آرام کرو اور جلد از جلد کِسی فیصلے پر پُہنچنے کی کوشش کرو بابا وقاص گویا رُخصت کا اشارہ دِے رہے تھے۔
بابا ایک بات اور بتادیں اُس خالی کاغذ کے مُتعلق کبھی آپ نے حضرت صاحب سے دریافت نہیں کیا؟ عمران نے رخصت لینے سے قبل معلوم کیا۔
معلوم کیا تھا لیکن حضرت صاحب نے بس اِتنا ہی فرمایا تھا کہ جس کیلئے تحریر تھی اُس نے پڑھ بھی لی اور سمجھ بھی گیا ہر ایک کیلئے وہ تحریر نہیں تھی اور نہ ہی ہر ایک وہ تحریر سمجھنے کی اہلیت رکھتا تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اُس سیٹھ نے خُود اس راز سے پردہ اُٹھا دیا۔ اُس نے بتایا تھا کہ حضرت صاحب نے اُس میں ایک بات یہ بھی لکھی تھی کہ چُونکہ تُمہاری وجہ سے ہی یہ شخص مفلس اور قلاش ہُوا ہے لہٰذا یا تو ہرجانے میں اس کی مدد کرو ورنہ ہم ہر قرعہ سے قبل ہی نتائج کا اعلان کردیں گے جس کے نتیجے میں تُمہاری حالت بھی اِس مفلس شخص سے مُختلف نہ ہُوگی۔
اچھا بیٹا اب تُم جاؤ کیونکہ کوئی اور بھی مُلاقات چاہتا ہے لیکن اسکے لئے تنہائی کا ممتنی ہے۔
عمران بابا وقاص کی بات کو سمجھ چُکا تھا لہٰذا الوداعی مصافحہ کے بعد وہاں سے رُخصت ہوگیا۔
(جاری ہے)
تذکرہ اِک پری کے اِختتام پر انشاءَ اللہ آپکی خِدمت میں ایک نہایت دلچسپ سلسلہ (احمد بشیر اور افلاطون) کے عنوان سے پیش کرنے کی سعی حاصل کرونگا ۔ جِس میں آپکی مُلاقات معاشرے کے ایک ایسے ناآسودہ شخص احمد بشیر سے کراونگا جو اپنی خُواہشات کی تکمیل کیلئے عملیات کے سحر میں گرفتار تھا اور بلاآخر اُسکی ملاقات ایک جن زادے (افلاطون)سے ہوجاتی جِسے شہرت کی طلب نے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اور جب یہ دونوں ایک موقع پر حادثاتی طور پر مِل جاتے ہیں تو کیا گُل کِھلاتے ہیں یہ تو کہانی پڑھ کر ہی آپکو معلوم ہُوگا لیکن اتنی اُمید ضرور ہیکہ آپ اس طلسمی کہانی کے سحر میں کھو کر رِہ جائیں گے۔
0 comments:
Post a Comment