bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday, 13 December 2012

تذکرہ اِک پری کا قسط 14

گُزشتہ سے پیوستہ
بابا ایک بات اور بتا دیں اُس خالی کاغذ کے مُتعلق کبھی آپ نے حضرت صاحب سے دریافت نہیں کیا؟ عمران نے رخصت لینے سے قبل معلوم کیا۔

معلوم کیا تھا لیکن حضرت صاحب نے بس اِتنا ہی فرمایا تھا کہ جس کیلئے تحریر تھی اُس نے پڑھ بھی لی اور سمجھ بھی گیا ہر ایک کیلئے وہ تحریر نہیں تھی اور نہ ہی ہر ایک وہ تحریر سمجھنے کی اہلیت رکھتا تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اُس سیٹھ نے خُود اس راز سے پردہ اُٹھا دیا۔ اُس نے بتایا تھا کہ حضرت صاحب نے اُس میں ایک بات یہ بھی لکھی تھی کہ چُونکہ تُمہاری وجہ سے ہی یہ شخص مفلس اور قلاش ہُوا ہے لہٰذا یا تو ہرجانے میں اس کی مدد کرو ورنہ ہم ہر قرعہ سے قبل ہی نتائج کا اعلان کردیں گے جس کے نتیجے میں تُمہاری حالت بھی اِس مفلس شخص سے مُختلف نہ ہُوگی۔

اچھا بیٹا اب تُم جاؤ کیونکہ کوئی اور بھی مُلاقات چاہتا ہے لیکن اسکے لئے تنہائی کا ممتنی ہے۔

عمران بابا وقاص کی بات کو سمجھ چُکا تھا لہٰذا الوداعی مصافحہ کے بعد وہاں سے رُخصت ہوگیا۔

اب مزید پڑھیے

عمران بابا وقاص کے مکان سےکُچھ فاصلے پر ہی پُہنچا تھا کہ وقت دیکھنے کیلئے جونہی اپنی کلائی کو اوپر اُٹھایا تو خالی کلائی دیکھ کر عمران کو یاد آیا کہ وہ اپنی گھڑی دورانِ وضو وہیں رکھ کر بُھول آیا تھا ویسے تُو گھڑی صُبح بھی لی جاسکتی تھی لیکن کمرے کا وال کلاک بھی کافی دِن سے بند پڑا تھا اور فجر کی نماز اکثر عمران اپنی کلائی پر موجود گھڑی ہی کے توسط سے اَدا کر رہا تھا چُنانچہ گھڑی لینے کیلئے واپس بابا وقاص کے آستانے کی جانب چَل پَڑا۔ آستانے کے دروازے پر پُہنچ کر عمران دستک دینا ہی چاہتا تھا کہ بابا وقاص کی دور سے ناراضگی بھری آواز سُنائی دِی اور اِسکے بعد کوئی نِسوانی آواز بھی سُنائی دی۔ فاصلہ کافی ہونے کی وجہ سے آوازیں اگرچہ کافی معدوم تھیں لیکن گُفتگو کے اُتار چَڑہاو سے معلوم ہورہا تھا کہ گُفتگو خُوشگوار ماحُول میں بالکل نہیں ہُورہی تھی۔ عمران کافی دِیر سوچتا رَہا کہ دستک دی جائے یا واپس چل دِیا جائے پھر عقل نے سمجھایا کہ اِس وقت یہاں سے چَلے جانا ہی عِمران کے حَق میں بِہتر رہے گا۔ اور عمران نے عقل کی رائے کو ترجیح دیتے ہُوئے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔

تمام راستے ایک بھینی بھینی خُوشبو عمران کیساتھ مِحو سفر رہی عمران گھر پُہنچا تو آج امّاں کو برآمدے میں اپنا مُنتظر پایا عمران سلام کرکے جونہی آگے بَڑھنے لگا اَماں کی آواز نے عِمران کے بَڑھتے قدموں کو رُوک دِیا بیٹا کہاں رِہتے ہُو سارا دِن ؟ بیوی بچے گھر میں نہ ہُوں تو اسکا مطلب یہ نہیں ہُوتا کہ انسان اپنے ماں باپ اور بِہن بھائیوں سے بھی بے خبر رَہے۔

نہیں اَماں ایسی کوئی بات نہیں ہے بَس ایک بُزرگ ہمارے شہر میں آئے ہُوئے ہیں بَس اُنہی کی صُحبت میں بیٹھنے کیلئے چَلا جاتا ہوں۔ عِمران نے اَماں کے پاس بیٹھتے ہُوئے کہا۔

بیٹا کبھی مُجھے بھی لے کر چَلو نا اُنکے پاس ۔ اور یہ خُوشبو کونسی لگائی ہے آج تُم نے؟ اَماں نے عِمران کے بِیٹھتے ہی سوال کر ڈالا۔

اَماں خُوشبو تو کوئی بھی نہیں لگائی شائد بابا صاحب کے سَر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کُچھ خُوشبو میرے بالوں پر لگ گئی ہُو۔ ویسے اَماں میں کوشش کروں گا کہ کِسی دِن اُنہیں اپنے گھر لے کر آؤں لیکن اَبّا تُو ناراض نہ ہونگے؟ عِمران نے اپنے خَدشے کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔

نہیں بیٹا وہ کیوں ناراض ہُونگے۔ تُمہارے اَبّا دُنیا دار ضرور ہیں لیکن بد اِخلاق اور بے اَدب بالکل نہیں ہیں۔ ویسے میں اُن سے اِجازت لے لُونگی۔ اَب تُم ہاتھ مُنہ دُھو لو میں تُمہارے لئے کھانا لگاتی ہُوں۔ عمران ہاتھ مُنہ دُھونے کے بعد جب دستر خُوان پر بیٹھا اور جُونہی پہلا لقمہ عمران نے چبایا تُو کُچھ بھولی بِسری یادیں تازہ ہُوگئی۔ اَماں آج کھانا تُم نے پکایا ہے؟ عِمران نے اَمّاں کی جانب دیکھتے ہُوئے کہا۔

کیوں تُمہیں ایسا کِیوں لگا جب کہ تُم جانتے ہُو کہ باورچی خانہ تو گُزشتہ سولہ برسوں سے تُمہاری بھابیوں نے سنبھال رکھا ہے اَماں نے جواب دینے کے بجائے اُسے یاد دِہانی کراتے ہُوئے کہا۔

لیکن اَماں چاہے کُچھ بھی ہُوجائے میرا دِل نہیں مانتا کہ یہ کھانا میری کِسی بھابی نے بنایا ہے وہ لاکھ مزیدار کھانا بناتی ہُوں لیکن اِتنا لذیز کھانا ہرگز نہیں بناسکتیں ۔ پہلے ہی َلقمے نے تُمہارے ہاتھ کے کھانوں کی یاد تازہ کَروا دِی اَمّاں صحیح بتاؤ نا یہ کھانا کِس نے بنایا ہے ؟ عِمران کے لہجے میں بَچّوں کی طرح فریاد تھی۔

اَماں کے چہرے پر ایکدم خُوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ اَمّاں نے عِمران کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا آج خاص طور پر تُمہارے واسطے ہی کھانا تیار کیا تھا لیکن مُجھے ہرگز اُمید نہیں تھی کہ تُم سولہ برس بعد بھی میرے ہاتھ کی لذت کو یاد رکھو گے اور پہچان جاؤ گے کہ آج میں نے اپنے ہاتھ سے تُمہارے لئے کھانا تیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تُمہیں خُوش رَکھے اور تُمہیں خُوب کامیابی عطا کرے۔

عِمران اپنے بستر پر لیٹا سُوچ رَہا تھا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ آج ہی میری پہلی مرتبہ کُوثر سے رُوبرو مُلاقات ممکن ہُوئی اور اَمّاں نے میرے لئے خاص طُور پر آج ہی کھانا تیار کیا جیسے اَمّاں نے مجھے انعام کے طُور پر اپنے ہاتھ سے بَنا کھانا کھلایا ہُو ۔ عِمران کافی دیر تک سُونے کی کوشش کرتا رَہا لیکن کامیابی حاصل نہ ہُوپائی وہ جب بھی اَپنی آنکھیں مُوندتا کُوثر کا حَسین چِہرہ عِمران کی آنکھوں میں سَما جاتا۔ اور وہ تمام باتیں جو آج کُوثر سے ہُوئیں تھیں کِسی فِلم کی طرح عمران کے سامنے آجاتیں کافی وقت یہ آنکھ مِچولی جارہی رَہی پھر نہ نجانے کب عِمران کی آنکھ لگ گئی پھر عمران کی آنکھ تب کھلی جب فجر کی آذان ہُورہی تھی۔

فجر کی نماز پڑھ کر اپنے گھر میں داخل ہوتے ہُوئے عِمران کی نِگاہ دُودھ والے گَوالے پر پڑی جو اپنی آمد کا اِحساس کرانے کیلئے اپنا ہاتھ سلام کے انداز میں ہِلا رَہا تھا عمران جواب دیتے ہُوئے اپنے گھر میں داخل ہُوگیا کِچن سے دودھ کا برتن اُٹھا کر دروازے پر پُہنچا اور برتن گَوالے کی جانب بِڑھا دِیا گَوالے نے دُودھ برتن میں ڈالتے ہُوئے کہا عمران صاحب بُہت دِن بعد مُلاقات ہوئی آپ سے کیسے مزاج ہیں آپ کے عمران نے جان چُھڑاتے ہُوئے کہا سب ٹھیک ہے بھائی ۔۔۔۔ گُوالے نے اچانک دوسرا سُوال کیا عِمران صاحب آپ نے خُوشبو بُہت بڑھیا لگائی ہوئی ہے کونسی خُوشبو ہے یہ ؟

میں نے تُو کوئی خُوشبو نہیں لگائی میرے بھائی ۔ تُو تُمہیں نام کیا بتاؤں ۔

صاحب کیوں مَذاق کر رہے ہیں ؟ آپ کے آنے سے پہلے تُو کوئی خُوشبو نہیں تھی یہاں۔ جب سے آپ باہر آئے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے آپکے گھر نہیں آیا ہوں بلکہ کسی پرفیوم کی دُکان پر آگیا ہُوں ۔ صاحب کیا کوئی بُہت مہنگی خُوشبو ہے ؟ وہ شائد عِمران کی جان اتنی آسانی سے چُھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھا ۔

عِمران نے ایک لمبی سانس لیکر خُوشبو کو مِحسوس کرنا چاہا لیکن اُسے کوئی خُوشبو مِحسوس نہ ہوئی تب اُس نے گوالے سے کہا پہلی بات تُو یہ ہے میں نے کوئی خُوشبو لگائی ہی نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہاں ایسی کوئی خُوشبو ہے بھی نہیں ورنہ مُجھے بھی مِحسوس ہوجاتی۔

صاحب میں جھوٹ نہیں بُو ل رہا آپ سے ۔ اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو گھر میں کِسی سے معلوم کرلیں وہ بھی آپ سے یہی کہے گا

اچھا ٹھیک ہے ۔ ہوسکتا ہے کِسی اور نے یہ خوشبو میرے کپڑوں پر لگادی ہُو۔ ویسے بھی مجھے تُو سخت زُکام ہے ۔ عِمران جان چُھڑاتے ہُوئے گھر میں داخل ہوگیا۔

عمران جونہی گھر میں داخل ہُوا تُو اَمّاں مُصلی لپیٹ کر رکھ رہی تھیں عمران کو دیکھتے ہی کہنے لگیں بیٹا کِس سے باتیں کررہے تھے دروازے پر؟

اَمّاں کوئی نہیں دودھ والا تھا بڑا باتونی لگتا ہے خُوامخواہ میں مجھے عطر والا بنانے پر تُلا تھا عِمران نے دودھ کا برتن اَماں کو تھماتے ہوئے کہا۔

کیا مطلب کیا تُمہیں عطر والا کہہ رَہا تھا وہ ؟ اَماں نے دوسرا سوال کر ڈالا۔

نہیں اَماں ایسی بات نہیں بس کُچھ اُوٹ پٹانگ سی باتیں کررہا تھا کہ آپ سے ایسے خُوشبوئیں آرہی ہیں جیسے عطر کی دُکان سے آتیں ہیں عمران نے ہنستے ہُوئے جواب دِیا۔

عمران کی بات سُن کر اَمّاں کے چہرے پر تفکرات در آئے۔

ویسے بیٹا وہ کُچھ غلط بھی نہیں کہہ رَہا تھا تُم سے مجھے بھی کُچھ ایسا ہی مِحسوس ہُورہا ہے جیسے تُم نے پرفیوم کی شیشی خُود پر اُنڈیل رکھی ہُو۔ تُم آج اپنے پیر صاحب کے پاس چلے جانا کتنے دَن ہوئے میاں صاحب بتارہے تھے کہ آجکل تُم نے وہاں جانا بالکل چُھوڑا ہُوا ہے۔

بیٹا یہ خُوشبوؤں کا آنا ایسے ہی نہیں ہُوتا۔ کہتے ہیں کہ ایسی بے وجہ خُوشبو کسی دوسری مخلوق کا بھی پتہ دیتی ہیں پھر اَماں نے عِمران کا بازو پکڑ کر اُس پر دَم کرنا شروع کردیا۔

عِمران اَماں کے سامنے کھڑا یہاں وہاں دیکھ رَہا تھا کہ اُسے کُچھ بے چینی مِحسوس ہونے لگی ۔ اُسے یُوں مِحسوس ہُوا کہ جیسے کوئی چُھپ کر اُسے دیکھ رَہا ہُو عمران کی نِگاہ جیسے ہی اپنے کمرے کی جانب لپکی اُسے مِحسو س ہُوا کہ جیسے کوئی ایکدم کھڑکی کی اُوٹ میں ہُوا ہو۔

(جاری ہے)

0 comments:

Post a Comment