عمران کے ذِہن میں بیشُمار سوالات کُلبلا رہے تھے
جنکے جوابات وہ مُرشد کریم سے حاصِل کرنا چاہتا تھا لیکن مہمانوں کے آنے سے تمام
ماحُول ہی یکسر تبدیل ہو گیا تھا حالانکہ عمران کو قوی اُمید تھی کہ وہ جونہی
مُرشد کریم کو اپنی خُواہشات سے آگاہ کرے گا۔ تُو مُرشد کریم اُسے نا صِرف کوثر سے
نِکاح کی اجازت مرحمت فرمادیں گے بلکہ اِس نِکاح کیلئے کوئی شرعی دلیل بھی فراہم
کردیں گے۔ لیکن مُرشدِ کریم کی باتوں اور اُنکے رویے نے عمران کو سمجھادِیا تھا کہ
مُرشد کریم کو عمران کی یہ جُرأت قطعی پسند نہیں آئی تھی بلکہ مُرشدِ کریم نے شرعی
قوانین کا حوالہ دیتے ہُوئے ایسے بندھن کی صاف نفی فرمائی تھی۔
عِمران اپنے مُرشدِ کریم کے آستانے سے نِکل کر سوچنے لگا کہ اب وہ کہاں جائے؟ کیا بابا وقاص سے مِلے اور اُنہیں اپنے مُرشدِ کریم کے فیصلے سے آگاہ کرے یا اپنی والدہ سے جاکر کہے کہ وہ مُرشد کریم کی بارگاہ میں میرے لئے عرض کریں۔۔۔۔ یا وہ کسی کو کُچھ بھی نہ بتائے ۔ اور کسی اچھے موقع کا انتظار کرے اور اپنے مُرشِد کی خِدمت میں ہی دوبارہ عرض کرے اور اُنہیں اپنی دِلی کیفیت سے آگاہ کرتے ہُوئے کہے کہ وہ اب کوثر کے بنا ایک پل بھی زندہ نہیں رِہ سکتا۔
عِمران اِنہی سُوچوں میں غِلطاں آستانے سے نِکل کر اپنی بائیک کی جانب بڑھ رَہا تھا کہ اُسکی نِگاہ قمر بھائی پہ پڑی جو اپنی سائیکل پر سُوار آستانے کی جانب ہی آرہے تھے قمر بھائی اگرچہ پنسٹھ ،ستر، برس کی عُمر کو پُہنچ چُکے تھے لیکن اب بھی بُہت اچھی صِحت کے مالک تھے اگرچہ کار ورکشاپ کے مالک تھے اچھا کھاتے پیتے تھے لیکن اپنی سائیکل سے ایسی مُحبت تھی کہ 40 برس گزرے کے بعد بھی سواری بدلنے پر رضامند نہیں تھے۔
عِمران کبھی کبھار مذاق میں قمر بھائی سے کہہ دِیا کرتا تھا کہ قمر بھائی آپکا بس چلے تو اِس سائیکل کو قبر میں بھی اپنے ساتھ لیجانے کی وصیت کرڈالیں ۔ قمر بھائی اگرچہ عِمران کے پیر بھائیوں میں سب سے ذیادہ جہاندیدہ اور عُمر رسیدہ بُزرگ تھے لیکن کافی خُوش مِزاج واقع ہُوئے تھے ۔ہنس کر بات کو ٹال جاتے۔ قمر بھائی مُرشد کریم کی بارگاہ میں اُس وقت سے حاضر ہورہے تھے ۔ جب کہ شائد اِنکی مَسّیں بھی نہ بھیگی ہُونگی۔ اور مُرشِد کریم کی نِگاہوں میں بھی قمر بھائی کیلئے ایک خاص مُحبت چمکتی تھی اور مُرشدِ کریم کبھی بھی قمر بھائی کی کسی بھی بات کو ٹالا نہیں کرتے تھے۔
قمر بھائی کو آتا دیکھ کر عمران کی آنکھوں میں ایکبار پھر اُمید کے ہَزاروں چراغ جگمانے لگے۔ عمران تمام حَسرتوں اور ناکامیوں سے دامن چُرا کر اپنے چہرے پہ مسکراہٹیں سجاتے ہُوئے قمر بھائی کی جانب بڑھا جو اپنی سائیکل کو آستانے کی دیوار کے سہارے کھڑا کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ عمران نے سلام کرتے ہُوئے کہا کیا بات ہے قمر بھائی کیا سائیکل کا اسٹینڈ خراب ہوگیا ہے جو اِسے دِیوار کے سہارے روکنے کی جدوجہد ہورہی ہے؟ وعلیکم السلام عِمران میاں بس اب یہ بھی ہماری طرح بوڑھی ہُوتی جارہی ہے۔۔ جس طرح بوڑھے آدمی کا ڈاکٹر کے پاس روز آنا جانا چلتا رِہتا ہے بس اِسی طرح اِسے بھی روزانہ مستری کے پاس جانے کی عادت ہوگئی ہے کبھی بریک فیل ہوجاتے ہیں تو کبھی اسٹینڈ خراب ہوجاتا ہے کبھی چین ڈھیلی پڑجاتی ہے تو کبھی چین کَوّر چین کا ساتھ نہیں دیتا ۔۔ مگر عمران میاں آپ کہاں گُم رہتے ہیں ایک مُدت سے آپکا چہرہ ہی نہیں دِیکھا ہم نے؟
بَس قمر بھائی کیا بتاؤں کُچھ زیادہ ہی دُنیاداری کے چکر میں مُبتلا ہوگیا تھا اِسی وجہ سے آنے میں کُچھ تاخیر ہو گئی لیکن اب سُوچ رہا ہُوں کہ آئندہ ایسی تاخیر نہیں کرونگا۔ لیکن قمر بھائی آج تاخیر تُو آپ سے بھی سرزد ہو ہی گئی۔۔ کیونکہ شائد ایسا پہلی مرتبہ ہی ہُوا ہوگا کہ مُرشد کریم آپ کے بِنا ہی اکیلے کہیں تشریف لے جاچُکے ہیں عِمران نے باتوں باتوں میں قمر بھائی کو اطلاع دِیتے ہُوئے کہا۔
آپ سچ کہتے ہیں عِمران میاں کہ بابا صاحب آج اکیلے ہی تشریف لے گئے ہیں لیکن عمران میاں یہ تاخیر ہماری جانب سے ہرگز نہیں تھی بلکہ نجانے کیوں آج بابا صاحب نے مُجھے حُکم دِیا تھا کہ ہم ساتھ نہ چلیں اور جو وقت بابا صاحب نے ہمیں یہاں آنے کا دِیا تھا ہم بالکل اُسی وقت حاضر ہُوئے اور اب یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بابا صاحب نے ہمیں ایسا کرنے کا کیوں حُکم ارشاد فرمایا ۔۔ لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس میں بھی کوئی حِکمت کوئی راز ضرور پُوشید ہُوگا۔
بے شک قمر بھائی اسمیں کوئی شک نہیں ہے۔ قمر بھائی کے خاموش ہوتے ہی عمران نے جواب دِیا،،، اچھا قمر بھائی مجھے آپ سے ایک بُہت ضروری بات کرنی ہے کیا آپ مُجھے کُچھ وقت دیں گے؟
ضرور عمران میاں اسمیں پوچھنے والی کیا بات ہے لیکن پہلے ہم آذان دے لیں قمر بھائی نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نِگاہ ڈالتے ہُوئے کہا۔
نماز سے فارغ ہونے کے بعد قمر بھائی عِمران کو لیکر ایک نزدیکی ہوٹل کے نسبتاً پُرسکون حصے میں جا بیٹھے اور عمران نے قمر بھائی کو تمام رُوداد مختصر الفاظ میں سنا ڈالی ۔ تمام کہانی سُننے کے بعد قمر بھائی نے عمران سے استفسار کرتے ہوئے کہا ،، عمران میاں اب آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟
دراصل قمر بھائی سب جانتے ہیں کہ مُرشدِ کریم آپکی بات کبھی نہیں ٹالتے میں چاہتا ہوں کہ میری جانب سے آپ مُرشد کریم سے میری اور کوثر کے نِکاح کی بات کریں مجھے معلوم ہے کہ وہ آپ کو منع نہیں کرپائیں گے ۔ میں آپکو بتا نہیں سکتا کہ مجھے کوثر سے کتنا دِلی لگاؤ ہے میں شائد اب اُسکے بِنا جی نہیں پاؤنگا۔ اب آپ ہی میری آخری اُمید ہیں۔ دیکھیں قمر بھائی میں نے آپ سے آج تک کوئی سوال نہیں کیا لیکن آج میں آپ کے آگے ہاتھ جُوڑ کر بھیک مانگ رَہا ہوں آپ مجھے مُرشدِ کریم سے اس نِکاح کی اِجازت دِلوا دیں۔
عمران میاں آپ کیوں مجھے امتحان میں مُبتلا کرنا چاہتے ہیں میں جانتا ہُوں کہ بابا صاحب اپنے سبھی مُریدوں کو اولاد کی طرح جانتے ہیں اور اگر بابا صاحب نے آپکو منع کیا ہے تو ضرور اسمیں بھی آپ ہی کا کوئی فائدہ پوشیدہ ہوگا لیکن آپ اتنے ہی بضد ہیں۔تو میں ایک مرتبہ اور بابا صاحب سے آپکے متعلق گُفتگو کرلونگا لیکن آپ ایسی کسی خُوش فہمی میں نہ رہیے گا کہ میرے بات کرنے سے بابا صاحب ضرور حامی بھرلیں گے کیونکہ میں جتنا بابا صاحب کو جانتا ہُوں وہ ایسے کسی کام کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے جو شریعت کے اُصولوں سے ٹکراتا ہُو۔
ٹھیک ہے قمر بھائی آپ ایک مرتبہ بات کرکے دیکھ لیں اگر بابا صاحب نے آپکو بھی انکار کردِیا تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہُوں کہ چاہے میں اپنی جان سے ہاتھ دُھو لوں مگر آپکو دوبارہ تنگ نہیں کرونگا۔
(جاری ہے)
میں نے اگرچہ ایک مہربان دوست سے وعدہ کیا تھا کہ سترہویں قسط میں تمام کہانی سمیٹ کر اِسے اختتام تک پُہنچا کر ہی دَم لونگا لیکن ایک تو طبیعت لکھنے پر آمادہ نہیں ہورہی دوئم دوسرے کاموں کا بُوجھ اسقدر ہے کہ بُہت جبر کرنے کے باوجود بھی اس سے زیادہ نہیں لکھ پارہا ہُوں اسلئے اپنے مہربان دوست سے بھی اور تمام قارئین سے بھی مُعذرت خواہ ہوں کہ اتنی تاخیر برداشت کر رہے ہیں انشاءَ اﷲ جونہی کُچھ طبیعت بہتر ہوئی اسکی اختتامی قسط پیش کردونگا۔
عِمران اپنے مُرشدِ کریم کے آستانے سے نِکل کر سوچنے لگا کہ اب وہ کہاں جائے؟ کیا بابا وقاص سے مِلے اور اُنہیں اپنے مُرشدِ کریم کے فیصلے سے آگاہ کرے یا اپنی والدہ سے جاکر کہے کہ وہ مُرشد کریم کی بارگاہ میں میرے لئے عرض کریں۔۔۔۔ یا وہ کسی کو کُچھ بھی نہ بتائے ۔ اور کسی اچھے موقع کا انتظار کرے اور اپنے مُرشِد کی خِدمت میں ہی دوبارہ عرض کرے اور اُنہیں اپنی دِلی کیفیت سے آگاہ کرتے ہُوئے کہے کہ وہ اب کوثر کے بنا ایک پل بھی زندہ نہیں رِہ سکتا۔
عِمران اِنہی سُوچوں میں غِلطاں آستانے سے نِکل کر اپنی بائیک کی جانب بڑھ رَہا تھا کہ اُسکی نِگاہ قمر بھائی پہ پڑی جو اپنی سائیکل پر سُوار آستانے کی جانب ہی آرہے تھے قمر بھائی اگرچہ پنسٹھ ،ستر، برس کی عُمر کو پُہنچ چُکے تھے لیکن اب بھی بُہت اچھی صِحت کے مالک تھے اگرچہ کار ورکشاپ کے مالک تھے اچھا کھاتے پیتے تھے لیکن اپنی سائیکل سے ایسی مُحبت تھی کہ 40 برس گزرے کے بعد بھی سواری بدلنے پر رضامند نہیں تھے۔
عِمران کبھی کبھار مذاق میں قمر بھائی سے کہہ دِیا کرتا تھا کہ قمر بھائی آپکا بس چلے تو اِس سائیکل کو قبر میں بھی اپنے ساتھ لیجانے کی وصیت کرڈالیں ۔ قمر بھائی اگرچہ عِمران کے پیر بھائیوں میں سب سے ذیادہ جہاندیدہ اور عُمر رسیدہ بُزرگ تھے لیکن کافی خُوش مِزاج واقع ہُوئے تھے ۔ہنس کر بات کو ٹال جاتے۔ قمر بھائی مُرشد کریم کی بارگاہ میں اُس وقت سے حاضر ہورہے تھے ۔ جب کہ شائد اِنکی مَسّیں بھی نہ بھیگی ہُونگی۔ اور مُرشِد کریم کی نِگاہوں میں بھی قمر بھائی کیلئے ایک خاص مُحبت چمکتی تھی اور مُرشدِ کریم کبھی بھی قمر بھائی کی کسی بھی بات کو ٹالا نہیں کرتے تھے۔
قمر بھائی کو آتا دیکھ کر عمران کی آنکھوں میں ایکبار پھر اُمید کے ہَزاروں چراغ جگمانے لگے۔ عمران تمام حَسرتوں اور ناکامیوں سے دامن چُرا کر اپنے چہرے پہ مسکراہٹیں سجاتے ہُوئے قمر بھائی کی جانب بڑھا جو اپنی سائیکل کو آستانے کی دیوار کے سہارے کھڑا کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ عمران نے سلام کرتے ہُوئے کہا کیا بات ہے قمر بھائی کیا سائیکل کا اسٹینڈ خراب ہوگیا ہے جو اِسے دِیوار کے سہارے روکنے کی جدوجہد ہورہی ہے؟ وعلیکم السلام عِمران میاں بس اب یہ بھی ہماری طرح بوڑھی ہُوتی جارہی ہے۔۔ جس طرح بوڑھے آدمی کا ڈاکٹر کے پاس روز آنا جانا چلتا رِہتا ہے بس اِسی طرح اِسے بھی روزانہ مستری کے پاس جانے کی عادت ہوگئی ہے کبھی بریک فیل ہوجاتے ہیں تو کبھی اسٹینڈ خراب ہوجاتا ہے کبھی چین ڈھیلی پڑجاتی ہے تو کبھی چین کَوّر چین کا ساتھ نہیں دیتا ۔۔ مگر عمران میاں آپ کہاں گُم رہتے ہیں ایک مُدت سے آپکا چہرہ ہی نہیں دِیکھا ہم نے؟
بَس قمر بھائی کیا بتاؤں کُچھ زیادہ ہی دُنیاداری کے چکر میں مُبتلا ہوگیا تھا اِسی وجہ سے آنے میں کُچھ تاخیر ہو گئی لیکن اب سُوچ رہا ہُوں کہ آئندہ ایسی تاخیر نہیں کرونگا۔ لیکن قمر بھائی آج تاخیر تُو آپ سے بھی سرزد ہو ہی گئی۔۔ کیونکہ شائد ایسا پہلی مرتبہ ہی ہُوا ہوگا کہ مُرشد کریم آپ کے بِنا ہی اکیلے کہیں تشریف لے جاچُکے ہیں عِمران نے باتوں باتوں میں قمر بھائی کو اطلاع دِیتے ہُوئے کہا۔
آپ سچ کہتے ہیں عِمران میاں کہ بابا صاحب آج اکیلے ہی تشریف لے گئے ہیں لیکن عمران میاں یہ تاخیر ہماری جانب سے ہرگز نہیں تھی بلکہ نجانے کیوں آج بابا صاحب نے مُجھے حُکم دِیا تھا کہ ہم ساتھ نہ چلیں اور جو وقت بابا صاحب نے ہمیں یہاں آنے کا دِیا تھا ہم بالکل اُسی وقت حاضر ہُوئے اور اب یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بابا صاحب نے ہمیں ایسا کرنے کا کیوں حُکم ارشاد فرمایا ۔۔ لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس میں بھی کوئی حِکمت کوئی راز ضرور پُوشید ہُوگا۔
بے شک قمر بھائی اسمیں کوئی شک نہیں ہے۔ قمر بھائی کے خاموش ہوتے ہی عمران نے جواب دِیا،،، اچھا قمر بھائی مجھے آپ سے ایک بُہت ضروری بات کرنی ہے کیا آپ مُجھے کُچھ وقت دیں گے؟
ضرور عمران میاں اسمیں پوچھنے والی کیا بات ہے لیکن پہلے ہم آذان دے لیں قمر بھائی نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نِگاہ ڈالتے ہُوئے کہا۔
نماز سے فارغ ہونے کے بعد قمر بھائی عِمران کو لیکر ایک نزدیکی ہوٹل کے نسبتاً پُرسکون حصے میں جا بیٹھے اور عمران نے قمر بھائی کو تمام رُوداد مختصر الفاظ میں سنا ڈالی ۔ تمام کہانی سُننے کے بعد قمر بھائی نے عمران سے استفسار کرتے ہوئے کہا ،، عمران میاں اب آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟
دراصل قمر بھائی سب جانتے ہیں کہ مُرشدِ کریم آپکی بات کبھی نہیں ٹالتے میں چاہتا ہوں کہ میری جانب سے آپ مُرشد کریم سے میری اور کوثر کے نِکاح کی بات کریں مجھے معلوم ہے کہ وہ آپ کو منع نہیں کرپائیں گے ۔ میں آپکو بتا نہیں سکتا کہ مجھے کوثر سے کتنا دِلی لگاؤ ہے میں شائد اب اُسکے بِنا جی نہیں پاؤنگا۔ اب آپ ہی میری آخری اُمید ہیں۔ دیکھیں قمر بھائی میں نے آپ سے آج تک کوئی سوال نہیں کیا لیکن آج میں آپ کے آگے ہاتھ جُوڑ کر بھیک مانگ رَہا ہوں آپ مجھے مُرشدِ کریم سے اس نِکاح کی اِجازت دِلوا دیں۔
عمران میاں آپ کیوں مجھے امتحان میں مُبتلا کرنا چاہتے ہیں میں جانتا ہُوں کہ بابا صاحب اپنے سبھی مُریدوں کو اولاد کی طرح جانتے ہیں اور اگر بابا صاحب نے آپکو منع کیا ہے تو ضرور اسمیں بھی آپ ہی کا کوئی فائدہ پوشیدہ ہوگا لیکن آپ اتنے ہی بضد ہیں۔تو میں ایک مرتبہ اور بابا صاحب سے آپکے متعلق گُفتگو کرلونگا لیکن آپ ایسی کسی خُوش فہمی میں نہ رہیے گا کہ میرے بات کرنے سے بابا صاحب ضرور حامی بھرلیں گے کیونکہ میں جتنا بابا صاحب کو جانتا ہُوں وہ ایسے کسی کام کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے جو شریعت کے اُصولوں سے ٹکراتا ہُو۔
ٹھیک ہے قمر بھائی آپ ایک مرتبہ بات کرکے دیکھ لیں اگر بابا صاحب نے آپکو بھی انکار کردِیا تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہُوں کہ چاہے میں اپنی جان سے ہاتھ دُھو لوں مگر آپکو دوبارہ تنگ نہیں کرونگا۔
(جاری ہے)
میں نے اگرچہ ایک مہربان دوست سے وعدہ کیا تھا کہ سترہویں قسط میں تمام کہانی سمیٹ کر اِسے اختتام تک پُہنچا کر ہی دَم لونگا لیکن ایک تو طبیعت لکھنے پر آمادہ نہیں ہورہی دوئم دوسرے کاموں کا بُوجھ اسقدر ہے کہ بُہت جبر کرنے کے باوجود بھی اس سے زیادہ نہیں لکھ پارہا ہُوں اسلئے اپنے مہربان دوست سے بھی اور تمام قارئین سے بھی مُعذرت خواہ ہوں کہ اتنی تاخیر برداشت کر رہے ہیں انشاءَ اﷲ جونہی کُچھ طبیعت بہتر ہوئی اسکی اختتامی قسط پیش کردونگا۔
0 comments:
Post a Comment