قمر بھائی سے رُخصت ہوکر عمران نے اپنی موٹر
بائیک اسٹارٹ کی اور اپنے گھر کیلئے روانہ ہُوگیا۔ قمر بھائی سے مُلاقات ہُونے کے
بعد عمران کو کافی ڈھارس مِلی تھی عمران کو یقین تھا کہ جب قمر بھائی مُرشدِ کریم
سے عمران اور کوثر کیلئے گُفتگو کریں گے تُو مشکل ہے کہ بابا صاحب قمر بھائی کی
بات کو ٹال سکیں ۔لیکن نجانے کیوں کوئی اندیشہ کوئی وہم اُسکی قلبی حالت کو
پُرسکون نہیں ہونے دے رہا تھا اُسے بار بار ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے قمر بھائی
نے بھی اُسے صاف منع کردِیا ہو۔۔ حالانکہ قمر بھائی نے تُو عمران سے وعدہ کیا تھا
کہ وہ بابا صاحب کو منانے کی بھرپور کوشسش کریں گے ۔ لیکن کوئی ایسی بات قمر بھائی
کے لہجے میں ضرور تھی جو عمران کو پریشان کئے جارہی تھی ۔ جُوں جُوں عمران قمر
بھائی کی گُفتگو پر غور کررہا تھا اُسکی پریشانی بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔
عمران انہی سوچوں میں گُم اپنے گھر کی جانب بڑھا چلا جارہا تھا کہ اچانک ایک رکشہ مُخالف سمت سے اپنی لائن سے نِکل کر عمران کے بالکل سامنے آکر گھوم گیا یہ سب اتنی برق رفتاری سے ہُوا کہ عمران کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیت اُس وقت ماؤف ہوکر رِہ گئی۔ بائیک کو سنبھالنا عمران کے بس میں نہیں تھا اور نہ اتنی جلدی بریک لگاکر بائیک کو روکنا ہی ممکن تھا ایک بڑا حادثہ یقینی امر نظر آرہا تھا۔ عِمران نے اپنی آنکھوں کو ایک لمحے کیلئے موند لیا پھر عمران کو یُوں محسوس ہُوا جیسے کسی نےعمران کو بایئک سمیت زمین سے اوپر اُٹھایا ہو اور پھر دوسرے ہی لمحے واپس زمین پر اُتار دِیا ہو اب جو عمران نے اپنی آنکھوں کو کھولا تُو ایک حیرت انگیز منظر عمران کی آنکھوں کے سامنے تھا اُسکی بائیک رکشہ کو کراس کرچُکی تھی عمران اسقدر بدحواس ہُو چُکا تھا کہ گاڑی ایک سائیڈ پر کرنے سے قبل ہی اُس نے اپنی بائیک کی اِگنیشن سے چابی نِکال لی بائیک کا انجن بند ہوتے ہی عِمران کو اپنی حماقت کا اِحساس ہُوا عمران نے اپنے اعصاب کو بحال کرنے کیلئے موٹر بائیک کو شاہراہ کی ایک جانب لگا دِیا۔
چُونکہ اس تمام ممکنہ حادثہ کا ذِمہ دار عِمران رِکشہ ڈرائیور کا مان رہا تھا اسلئے عمران موٹر بائیک کو کھڑا کرنے کے بعد رکشہ ڈرائیور کی جانب بڑھا تاکہ اُسے اِس غیر ذمہ دارانہ حرکت کیلئے سبق سِکھا سکے لیکن جونہی عمران کی نِگاہ رکشہ ڈرائیور پر پڑی تو عمران کا تمام غُصہ صابن کے جھاگ کی مانند بیٹھ گیا وہ کوئی چودہ پندرہ برس کی عُمر کا لڑکا تھا جو شائد حالات کی مجبوری کی وجہ سے رکشہ ڈرائیو کر رہا تھا اور اِس وقت بدحواسی کے عالم میں اپنے رکشہ کو اسٹارٹ کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھا اُس کی جونہی نظر عمران پر پڑی تو وہ مزید گھبرا گیا اور ہاتھ جُوڑ کر معافی طلب کرتے ہُوئے کہنے لگا۔جناب مجھے مُعاف کردیجئے نا جانے یہ سب کیسے ہوگیا میں نہیں جانتا لیکن چھ ماہ میں میرے ساتھ ایسا پہلی مرتبہ ہُوا ہے آپ مجھے مارئیے گا نہیں اور نہ ہی پولیس کے حَوالے کیجئے گا کیونکہ میرے سِوا گھر میں کمانے والا کوئی دوسرا نہیں ہے۔
اُس بچے کا لہجہ چُغلی کھا رہا تھا کہ وہ اسکول میں تعلیم حاصل کرتا رہا ہے یا اب بھی زیر تعلیم ہے ورنہ اتنا مُہذب لہجہ کسی ان پڑھے بچے کا ہرگز نہیں ہُوسکتا تھا ۔عِمران کا غُصہ تُو پہلے ہی اُسکی عُمر دیکھ کر رَفو ہُوچُکا تھا باقی ماندہ بھی اُسکے مُہذب لہجے اور التجا سے خَتم ہُوگیا۔ عمران سوچنے لگا ضرور اسکے گھر میں کوئی بڑا کمانے والا نہیں ہوگا ورنہ کونسی ماں ہوگی جو اِس عمر میں اپنے بچے کو رکشہ چلانے کی اجازت دے گی یہی سوچ کر عمران نے اپنی جیب سے والٹ نِکالا اور اُسمیں سے ایک پانچسوں کا نُوٹ نِکال کر اُس لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو شائد کوئی بڑی خرابی ہوگئی ہے پہلے کسی مکینک کو دِکھا لو اُس کے بعد ہی رِکشہ روڈ پر نکالنا۔ بلکہ ہوسکے تو کوئی ڈھنگ کا کام بھی تلاش کرتے رِہنا ابھی تُمہاری عمر ایسی نہیں کہ رِکشہ چلا سکو۔ وہ لڑکا کُچھ دیر تک پیسے لینے سے اِنکار کرتا رہا بلاآخر عمران نے وہ نُوٹ اس لڑکے کی جیب میں ٹھونس دِیا اور اپنی بائیک کی جانب بڑھ گیا۔
عمران نے بائیک اِسٹارٹ کی اور گھر جانے کیلئے بابا وقاص والی شاہراہ پر اپنی بائیک دوڑانے لگا عِمران سوچ رہا تھا کہ آج کا تمام دِن ناکامیوں کی نذر ہوگا ہے اِس لئے گھر جانے سے قبل کُچھ وقت بابا وقاص احمد کی صحبت میں گُزار لینا شائد اسکے مُوڈ کو بدلنے میں مُعاون ثابت ہُو۔
بابا وقاص احمد کے آستانے پُہنچ کر عمران کی مُلاقات خادِم حُسین سے ہُوئی تب عمران کو معلوم ہُوا کہ بابا وقاص احمد بھی کسی خاص محفل میں شمولیت کی خاطر ابھی کُچھ ہی لمحوں قبل عمران کی راہ دیکھ دیکھ کر آستانے سے روانہ ہُوئے ہیں اور بابا وقاص احمد عمران کیلئے پیغام چھوڑ گئے تھے کہ کل صبح آفس جانے سے پہلے عمران آستانے پر ضرور آئے خادم حُسین سے ہی عمران کو یہ بھی معلوم ہُوا کہ بابا صاحب نے لاہور جانے کیلئے ایک ہفتہ بعد کی دو ٹکٹیں بھی آج بُک کرائیں ہیں بابا صاحب عمران کو اگلے ہفتے اپنے ساتھ لاہور لیجانا چاہتے ہیں ۔ عِمران بابا صاحب سے مُلاقات نہ ہونے پر اُداس ضرور تھا لیکن لاھور کے ذکر سے وہی یاسیت خُوشی میں تبدیل ہوگئی تھی۔
عمران ۔ خادم حُسین سے صبح آنے کا وعدہ کرنے کے بعد آستانے سے رُخصت ہو کر گھر چلا آیا تمام رات خادم حُسن کی زبانی بابا وقاص کے پیغام اور قمر بھائی کی باتوں پر غور کرتے ہوئے گُزر گئی فجر کی نماز کے بعد عمران نیند کی وادیوں میں کھو گیا ۔ جسکی وجہ سے صبح کافی دیر تک سونے کے باوجود بھی عمران کے تمام بدن میں تھکن کے آثار باقی تھے لیکن بابا وقاص سے مُلاقات کی خُوشی میں عمران نے ناشتہ بھی آفس پُہنچ کر کرنے کے خیال سے بائیک خاموشی سے گھر سے نِکالی تاکہ اَمّی کو خبر نہ ہونے پائے اور جونہی بائیک گیٹ سے باہر نِکلی عمران بائیک پر سوار ہو کر بابا وقاص کے آستانے کیلئے روانہ ہوگیا۔
بائیک آستانے کے باہر کھڑی کرنے کے بعد جونہی عمران کی نِگاہ مین گیٹ پر پڑی تو عمران پریشان ہوگیا۔ کیونکہ پہلی مرتبہ عمران کو بابا صاحب کے دروازے پر ایک بڑا سا تالا نظر آرہا تھا ۔ اور اُسے بابا وقاص کا وہ جُملہ بھی ابھی تک یاد تھا جب بابا صاحب نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ،،فقیروں کو ہر وقت اپنے دروازے کُھلے رکھنے پڑتے ہیں نجانے کب کوئی ضرورتمند آجائے ،، مگر آج بابا صاحب کے دروازے پر پڑا یہ تالا عمران کا مُنہ چِڑا رہا تھا۔
عِمران نے بے صبری سے قریبی پڑوسی کا دروازہ بجا ڈالا ۔ کُچھ لمحوں کے بعد اندر سے ایک ضعیف خاتون برآمد ہوئیں۔۔ عمران نے بابا صاحب کے دروازے کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا۔۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ بابا صاحب آج کہاں گئے ہیں اُنکے گھر کے دروازے پر تالا لگا ہُوا ہے۔
بیٹا معلوم نہیں کیا بات ہوئی لیکن رات بابا صاحب اپنا تمام سامان ٹرک میں لوڈ کرنے کے بعد مکان خالی کر کے ہمیشہ کے لئے واپس چلے گئے ہیں یہاں بابا صاحب کرائے پر رہتے تھے ہم بھی بابا صاحب سے بُہت مانوس تھے اور ہم نے بُہت پوچھا کہ آخر ایسی کیا بات ہوگئی ہے کہ آپ اچانک واپس جارہے ہیں ۔ مگر بابا صاحب نے کسی کو کُچھ نہیں بتایا البتہ وہ رومال سے بار بار اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کررہے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ بُڑھیا بے تکان بولے چلی جارہی تھی مگر اب عمران کو کُچھ سُنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔ وہ آہستہ آہستہ زمین کی طرف بڑھا چلا جارہا تھا بڑھیا کو احساس ہونے تک عمران بے ہوش ہوکر زمین بوس ہوچُکا تھا
(جاری ہے)
عمران انہی سوچوں میں گُم اپنے گھر کی جانب بڑھا چلا جارہا تھا کہ اچانک ایک رکشہ مُخالف سمت سے اپنی لائن سے نِکل کر عمران کے بالکل سامنے آکر گھوم گیا یہ سب اتنی برق رفتاری سے ہُوا کہ عمران کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیت اُس وقت ماؤف ہوکر رِہ گئی۔ بائیک کو سنبھالنا عمران کے بس میں نہیں تھا اور نہ اتنی جلدی بریک لگاکر بائیک کو روکنا ہی ممکن تھا ایک بڑا حادثہ یقینی امر نظر آرہا تھا۔ عِمران نے اپنی آنکھوں کو ایک لمحے کیلئے موند لیا پھر عمران کو یُوں محسوس ہُوا جیسے کسی نےعمران کو بایئک سمیت زمین سے اوپر اُٹھایا ہو اور پھر دوسرے ہی لمحے واپس زمین پر اُتار دِیا ہو اب جو عمران نے اپنی آنکھوں کو کھولا تُو ایک حیرت انگیز منظر عمران کی آنکھوں کے سامنے تھا اُسکی بائیک رکشہ کو کراس کرچُکی تھی عمران اسقدر بدحواس ہُو چُکا تھا کہ گاڑی ایک سائیڈ پر کرنے سے قبل ہی اُس نے اپنی بائیک کی اِگنیشن سے چابی نِکال لی بائیک کا انجن بند ہوتے ہی عِمران کو اپنی حماقت کا اِحساس ہُوا عمران نے اپنے اعصاب کو بحال کرنے کیلئے موٹر بائیک کو شاہراہ کی ایک جانب لگا دِیا۔
چُونکہ اس تمام ممکنہ حادثہ کا ذِمہ دار عِمران رِکشہ ڈرائیور کا مان رہا تھا اسلئے عمران موٹر بائیک کو کھڑا کرنے کے بعد رکشہ ڈرائیور کی جانب بڑھا تاکہ اُسے اِس غیر ذمہ دارانہ حرکت کیلئے سبق سِکھا سکے لیکن جونہی عمران کی نِگاہ رکشہ ڈرائیور پر پڑی تو عمران کا تمام غُصہ صابن کے جھاگ کی مانند بیٹھ گیا وہ کوئی چودہ پندرہ برس کی عُمر کا لڑکا تھا جو شائد حالات کی مجبوری کی وجہ سے رکشہ ڈرائیو کر رہا تھا اور اِس وقت بدحواسی کے عالم میں اپنے رکشہ کو اسٹارٹ کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھا اُس کی جونہی نظر عمران پر پڑی تو وہ مزید گھبرا گیا اور ہاتھ جُوڑ کر معافی طلب کرتے ہُوئے کہنے لگا۔جناب مجھے مُعاف کردیجئے نا جانے یہ سب کیسے ہوگیا میں نہیں جانتا لیکن چھ ماہ میں میرے ساتھ ایسا پہلی مرتبہ ہُوا ہے آپ مجھے مارئیے گا نہیں اور نہ ہی پولیس کے حَوالے کیجئے گا کیونکہ میرے سِوا گھر میں کمانے والا کوئی دوسرا نہیں ہے۔
اُس بچے کا لہجہ چُغلی کھا رہا تھا کہ وہ اسکول میں تعلیم حاصل کرتا رہا ہے یا اب بھی زیر تعلیم ہے ورنہ اتنا مُہذب لہجہ کسی ان پڑھے بچے کا ہرگز نہیں ہُوسکتا تھا ۔عِمران کا غُصہ تُو پہلے ہی اُسکی عُمر دیکھ کر رَفو ہُوچُکا تھا باقی ماندہ بھی اُسکے مُہذب لہجے اور التجا سے خَتم ہُوگیا۔ عمران سوچنے لگا ضرور اسکے گھر میں کوئی بڑا کمانے والا نہیں ہوگا ورنہ کونسی ماں ہوگی جو اِس عمر میں اپنے بچے کو رکشہ چلانے کی اجازت دے گی یہی سوچ کر عمران نے اپنی جیب سے والٹ نِکالا اور اُسمیں سے ایک پانچسوں کا نُوٹ نِکال کر اُس لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو شائد کوئی بڑی خرابی ہوگئی ہے پہلے کسی مکینک کو دِکھا لو اُس کے بعد ہی رِکشہ روڈ پر نکالنا۔ بلکہ ہوسکے تو کوئی ڈھنگ کا کام بھی تلاش کرتے رِہنا ابھی تُمہاری عمر ایسی نہیں کہ رِکشہ چلا سکو۔ وہ لڑکا کُچھ دیر تک پیسے لینے سے اِنکار کرتا رہا بلاآخر عمران نے وہ نُوٹ اس لڑکے کی جیب میں ٹھونس دِیا اور اپنی بائیک کی جانب بڑھ گیا۔
عمران نے بائیک اِسٹارٹ کی اور گھر جانے کیلئے بابا وقاص والی شاہراہ پر اپنی بائیک دوڑانے لگا عِمران سوچ رہا تھا کہ آج کا تمام دِن ناکامیوں کی نذر ہوگا ہے اِس لئے گھر جانے سے قبل کُچھ وقت بابا وقاص احمد کی صحبت میں گُزار لینا شائد اسکے مُوڈ کو بدلنے میں مُعاون ثابت ہُو۔
بابا وقاص احمد کے آستانے پُہنچ کر عمران کی مُلاقات خادِم حُسین سے ہُوئی تب عمران کو معلوم ہُوا کہ بابا وقاص احمد بھی کسی خاص محفل میں شمولیت کی خاطر ابھی کُچھ ہی لمحوں قبل عمران کی راہ دیکھ دیکھ کر آستانے سے روانہ ہُوئے ہیں اور بابا وقاص احمد عمران کیلئے پیغام چھوڑ گئے تھے کہ کل صبح آفس جانے سے پہلے عمران آستانے پر ضرور آئے خادم حُسین سے ہی عمران کو یہ بھی معلوم ہُوا کہ بابا صاحب نے لاہور جانے کیلئے ایک ہفتہ بعد کی دو ٹکٹیں بھی آج بُک کرائیں ہیں بابا صاحب عمران کو اگلے ہفتے اپنے ساتھ لاہور لیجانا چاہتے ہیں ۔ عِمران بابا صاحب سے مُلاقات نہ ہونے پر اُداس ضرور تھا لیکن لاھور کے ذکر سے وہی یاسیت خُوشی میں تبدیل ہوگئی تھی۔
عمران ۔ خادم حُسین سے صبح آنے کا وعدہ کرنے کے بعد آستانے سے رُخصت ہو کر گھر چلا آیا تمام رات خادم حُسن کی زبانی بابا وقاص کے پیغام اور قمر بھائی کی باتوں پر غور کرتے ہوئے گُزر گئی فجر کی نماز کے بعد عمران نیند کی وادیوں میں کھو گیا ۔ جسکی وجہ سے صبح کافی دیر تک سونے کے باوجود بھی عمران کے تمام بدن میں تھکن کے آثار باقی تھے لیکن بابا وقاص سے مُلاقات کی خُوشی میں عمران نے ناشتہ بھی آفس پُہنچ کر کرنے کے خیال سے بائیک خاموشی سے گھر سے نِکالی تاکہ اَمّی کو خبر نہ ہونے پائے اور جونہی بائیک گیٹ سے باہر نِکلی عمران بائیک پر سوار ہو کر بابا وقاص کے آستانے کیلئے روانہ ہوگیا۔
بائیک آستانے کے باہر کھڑی کرنے کے بعد جونہی عمران کی نِگاہ مین گیٹ پر پڑی تو عمران پریشان ہوگیا۔ کیونکہ پہلی مرتبہ عمران کو بابا صاحب کے دروازے پر ایک بڑا سا تالا نظر آرہا تھا ۔ اور اُسے بابا وقاص کا وہ جُملہ بھی ابھی تک یاد تھا جب بابا صاحب نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ،،فقیروں کو ہر وقت اپنے دروازے کُھلے رکھنے پڑتے ہیں نجانے کب کوئی ضرورتمند آجائے ،، مگر آج بابا صاحب کے دروازے پر پڑا یہ تالا عمران کا مُنہ چِڑا رہا تھا۔
عِمران نے بے صبری سے قریبی پڑوسی کا دروازہ بجا ڈالا ۔ کُچھ لمحوں کے بعد اندر سے ایک ضعیف خاتون برآمد ہوئیں۔۔ عمران نے بابا صاحب کے دروازے کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا۔۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ بابا صاحب آج کہاں گئے ہیں اُنکے گھر کے دروازے پر تالا لگا ہُوا ہے۔
بیٹا معلوم نہیں کیا بات ہوئی لیکن رات بابا صاحب اپنا تمام سامان ٹرک میں لوڈ کرنے کے بعد مکان خالی کر کے ہمیشہ کے لئے واپس چلے گئے ہیں یہاں بابا صاحب کرائے پر رہتے تھے ہم بھی بابا صاحب سے بُہت مانوس تھے اور ہم نے بُہت پوچھا کہ آخر ایسی کیا بات ہوگئی ہے کہ آپ اچانک واپس جارہے ہیں ۔ مگر بابا صاحب نے کسی کو کُچھ نہیں بتایا البتہ وہ رومال سے بار بار اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کررہے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ بُڑھیا بے تکان بولے چلی جارہی تھی مگر اب عمران کو کُچھ سُنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔ وہ آہستہ آہستہ زمین کی طرف بڑھا چلا جارہا تھا بڑھیا کو احساس ہونے تک عمران بے ہوش ہوکر زمین بوس ہوچُکا تھا
(جاری ہے)
0 comments:
Post a Comment