bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 6 December 2012

دانائی کے موتی




اُس دِن میں حسب معمول جب اپنے رُوحانی اُستاد کے کاشانے پر حاضر ہُوا۔ تب اِتفاق سے سلیم صاحب بھی وہاں پہلے سے ہی موجود تھے۔ جو کہ عموماً ہر ہفتہ کی شام ہی وہاں مُوجود پائے جاتے تھے۔( میں جب بھی لفظ رُوحانی اُستاد کا استعمال کرتا ہُوں۔ تب میری مُراد ہمیشہ اپنے اُستاد عشرت اقبال وارثی (رحمتہ اللہ علیہ سے ہُوتی ہے ۔ نا کہ اپنے مُرشدِ کریم سے۔۔۔ کیونکہ اپنے مُرشد کریم (رِحمتہ اللہ علیہ ) کو میں ہمیشہ مُرشدِ کریم ہی لکھتا ہُوں۔۔۔میرے یہ اُستاد جو کہ اتفاق سے میرے ہم نام تھے۔ بلکہ بقول اُنکے میں اُنکا ہم نام تھا۔۔۔ اُور یہ اُنکی مجھ پر خاص نوازش تھی۔ کہ وُہ میری تشنگی مِٹانے کیلئے خُود کراچی سے میرپُورخاص تشریف لائے تھے۔ یعنی پیاسہ کُنویں تک نہ پُہنچ سکا۔ تُو خُود کُنواں ہی پیاسے کے پاس چلا آیا تھا۔اُنکا یہ اِحسان ( جو کہ درحقیقت میرے مُرشدِ کریم کا ہی فیضان تھا)میں تا زِندگی بُھلا نہیں پاوٗں گا۔۔۔!

سلیم صاحب ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی ناکامیوں اُور مایُوسیوں کا رُونا رُو رہے تھے۔۔۔ جبکہ اُستاد مُحترم ہمیشہ کی طرح اُنکی دِلجوئی کا سامان فرمارہے تھے۔۔۔ جب سلیم صاحب واپس چلے گئے۔ تب میں نے تنہائی مُیسر آتے ہی اُستاد محترم سے سُوال کرڈالا۔۔۔ جناب میں کافی دِنوں سے دیکھ رہا ہُوں کہ سلیم صاحب آپ کے پاس ہر ہفتہ تشریف لاتے ہیں۔ اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ پھر آپ اُنہیں کُچھ پڑھنے کیلئے بتاتے ہیں۔ لیکن وُہ ہمیشہ یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ تمام وَظائف اُور تمام دُعاوٗں کے باوجود اُنکی کوئی دُعا قبولیت کا شرف حاصل نہیں کرپاتی۔۔۔

میرے اُستاد نے مُسکرا کر میری جانب دیکھتے ہُوئے کہا: تُو جونیئر عشرت وارثی صاحب آپکو کیا لگتا ہے۔ کیا وجہ ہُوسکتی ہے۔۔۔؟ جب بھی اُنکا مُوڈ خُوشگوار ہُوتا۔ یا اُنہیں میری کِسی بات پر پیار آتا۔ وُہ اِسی طرح مجھے جونیئر عشرت وارثی کہہ کر مُخاطب کیا کرتے تھے۔ میں نے اپنے دُونوں ہاتھ نفی میں ہِلاتے ہُوتے اپنی لاعلمی کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ حضرت میں کیا جانُوں۔۔۔ آپ ہی بتادیجئے نا۔

بھئی وجہ معلوم ہُونا چاہیئے نا۔۔ اُور صرف وجہ ہی معلوم نہیں ہُونا چاہیئے۔ بلکہ اُسکی علت کے اسباب، اُور مرض کی تشخیص کے ساتھ اُسکا علاج بھی معلوم ہُونا چاہیئے۔ کیونکہ ہم نے تُو اپنی ساری زندگی ایک حُکم کے سبب گُمنامی کی نظر کرڈالی۔ لیکن تُمہارے ساتھ ایسا نہیں ہُوگا۔ تُم سے سوال بھی کئے جائیں گے اُور لُوگ جواب کی اُمید بھی رکھیں گے۔۔۔ پس جب تُم سے کوئی عِلمی سوال کیا جائے ۔ جسکا جواب تُم جانتے ہُو۔ تو جواب ضرور دینا۔۔۔ اُورجب کوئی تشنہ لب تُمہارے در تک پُہنچنے میں کامیاب ہوجائے۔ تب اُسکی پیاس بُجھانے میں بھی بُخل سے کام نہیں لینا۔ البتہ جاہلوں اُور کم علموں سے مُباحث سے ہمیشہ گُریز کرنا۔ ورنہ وقت کے ضیاع کے سِوا کُچھ بھی حاصِل نہ کرپاوٗ گے۔ ۔۔

جناب جب آپ نے اپنے لئے گُمنامی کو پسند کرلیا ہے۔ تو مجھے بھی اِسی راہ کا مُسافر بنادیجئے نا۔۔۔ کیونکہ لوگوں کے ہجوم میں رِہنے سے ذیادہ مجھے بھی تنہائی کے لمحات پسند آتے ہیں۔۔۔ میں نے گُمنامی کی زِ ندگی کی خُواہش کرتے ہُوئے اپنے اُستاد کی جانب دیکھا۔۔۔ ارے بیٹا یہ کوئی میرے اِختیار کی بات تھوڑی نا تھی۔ وُہ تُو بس حُکم کی تعمیل مقصود تھی۔ سو ناچار پڑا اِِس راہ جانا۔۔۔۔ اُنہوں نے پھر سے تبسم فرماتے ہُوئے کہا۔

حضرت میں نے ایک سَادہ سا سُوال کیا تھا۔۔۔؟ شائد آپ جواب دینا نہیں چاہتے۔۔ میں نے اپنا سوال پھر سے دُہراتے ہُوئے ملتجانہ لہجے میں فریاد کی۔ میرے سوال دُہرائے جانے کے بعد وُہ چند لمحے خاموش رہے۔۔۔ پھر دھیمے دھیمے لہجے میں گُفتگو کی ابتداء کرتے ہُوئے سنجیدگی سےفرمانے لگے۔ بیٹا۔ اللہ کریم انسانوں سے جسقدر مُحبت کرتا ہے اِسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اُور نہ ہی دُنیا میں ایسا کوئی پیمانہ موجود ہے کہ،، جِسکے ذریعہ سے پروردِیگار کی اپنے بندوں سے مُحبت کو مَاپا جاسکے۔۔اُور حضرتِ انسان سے اُس کریم رب عزوجل کی اِس مُحبت کی سب سے بڑی دلیل کے لئے یہی بات کافی ہے۔ کہ،، اُس کریم نے اپنے محبوب ﷺ اُور تمام انبیا کرام کو انسانوں کے درمیان ہی مبعوث فرمایا۔۔۔

پھر کیا وجہ ہُوسکتی ہے اللہ کریم اپنے بَندوں کی دُعا قبول نہ فرمائے۔۔۔؟ اُنہوں نے خُود ہی سُوال قائم کرتے ہُوئے میری جانب دیکھا۔۔۔ میری خاموشی اُور مِحویت کو دیکھ کر اُنہوں نے پھر سے سلسلہِ کلام جاری رکھتے ہُوئے مزید ارشاد فرمایا۔۔۔وُہ کریم و مہربان رَبّ تُو اپنے بندوں کی تمام دُعاوٗں کو قبول فرماتا ہے۔ سِوائے اُس دُعا کے کہ،، جِس میں انسانوں کے لئے ضرر موجود ہُو۔۔۔

لیکن پھر بھی کِسی مانگنے والے کو اگر اپنے مَن کی مُراد حاصِل نہیں ہُوتی تُو جان لُو کہ،،، اُس اِنسان کے لئے وُہ شئے فائدہ مند نہیں ہے۔۔۔ اب چاہے وقتی ضرر ہُو یا دائمی نقصان ہُو۔ خُدا عزوجل کے نہ دینے میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پُوشیدہ ہے۔ ۔۔۔ حضرت وقتی ضرر اُور دائمی نقصان سےآپکی کیا مُراد ہے۔۔۔۔؟ میں نے وضاحت طلب نظروں سے سُوال کرتے ہُوئے کہا۔

دیکھو بیٹا وقتی ضرر کا مطلب ہے کہ،، کچھ وقت کا نقصان۔ بِلا تشبیہ،، اِسے اِس مِثال سے سمجھنے کی کوشش کرو کہ،، جیسے مدرسہ کا کوئی طالب اپنا سبق یاد کرتے کرتے اپنے اُستاد سے کہے کہ مجھے کھیلنے کی اِجازت دی جائے۔ حالانکہ اُس طالب کی یہ مانگ پُوری کرنے میں اُستاد کا کوئی حرج و نُقصان نہیں ہے۔ لیکن اُستاد جانتا ہے کہ اگر یہ وقت طالب نے کھیل میں گُزار دِیا تُو وُہ کلاس میں موجود دوسرے بچوں سے بُہت پیچھے رِہ جائے گا۔ اِس لئے وُہ اِس طالب عِلم کی یہ ادنی سی خُواہش اسلئے پُوری نہیں ہُونے دیتا۔ کہ اُستاد کی نِگاہ مستقبل کے خطرات کو بھانپ لیتی ہے۔ جبکہ بچہ یہ بات اُس وقت نہیں سمجھ پاتا اُور اُسے لگتا ہے کہ جیسے اُستاد اُسکی خُوشیوں کا دُشمن ہُو۔ یا وُہ اِس سے قطعی مُحبت نہیں کرتا۔۔۔ جبکہ دائمی نُقصان سے یہ مُراد لی جاسکتی ہے۔۔۔ کہ بُہت سے شئے اگرچہ دیکھنے میں آنکھوں کو پُرکشش معلوم ہُوتی ہیں۔۔۔ لیکن درحقیت اُن اشیا کی قربت انسان کو خاکستر کرڈالتی ہے۔ جیسے کہ دِہکتا ہُوا انگارہ۔ ۔۔۔جُو کہ بطاہر دیکھنے میں سُرخ یاقوت کی طرح ہی پُرکشش نظر آتا ہے۔۔۔۔ لیکن کیا کوئی بچہ اپنے والدین سے ہزار بار بھی اِس دہکتے انگارے کو ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی خواہش ظاہر کرے۔ ۔۔۔تُو کیا والدین ایک مرتبہ بھی اپنے گُوشہءِ جگر کو اِس بات کی اِجازت دیں گے۔۔۔؟ یقیناً وُہ ہزار مرتبہ ہی اپنے بچے کی اِس خُواہش کو رَد کردیں گے۔

بے شک آپ نے بجا فرمایا۔۔۔ مگر اِس کے عِلاوہ بھی کوئی بات دُعا کی قبولیت میں مانع ہُوسکتی ہے۔۔۔ میں نے اُن کے خَاموش ہُوتے ہی اگلا سوال پیش کردِیا۔۔۔۔۔ ہاں اگر یہ وجہ نہ ہُو تو
۲ دیگر وجوہات بھی ہُوسکتی ہیں۔۔۔ اُستادِ محترم نے اَثبات میں اپنی گردن ہِلاتے ہُوئے جواب دیا۔۔۔ اُن ۲ وجوہات پر بھی روشنی ڈال دیجئے نا۔۔ تاکہ میرے علم میں مزید کُچھ اضافہ ہُوسکے۔۔۔؟ میری دَرخواست پر اُنہوں نے اپنی کلائی پر نِگاہ ڈالتے ہُوئے کہا۔ رات بُہت بیت چُکی ہے تُمہارے گھر والے بھی تشویش میں مُبتلا ہُونگے۔۔۔ اِس لئے اب جاوٗ ۔ کل جب آوٗ گے تب گُفتگو کو یہیں سے شروع کریں گے۔۔۔ میں جانتا تھا کہ،، اب میں لاکھ مِنت کروں تب بھی اُنکا اِرادہ نہیں بدلنے والا ہے۔ کیونکہ وُہ والدین اُور حُقوقُ العباد کا بُہت ذیادہ خیال رلھنے والے ہیں۔ ناچار مجھے گھر جانا پڑا۔۔۔۔ لیکن دوسرے دِن عشاءَ کی نماز سے فارغ ہُوتے ہی میں اُن کے آستانے پر پُہنچ گیا۔۔۔

اُنہوں نے مجھے اپنے گلے سے لگانے کے بعد اپنے قریب بِٹھالیا۔۔۔ پھر مُسکرا کر میری بے چینی کو بھانپتے ہُوئے فرمانے لگے۔۔۔ رات نیند تُو آگئی تھی نا۔۔۔؟میں نے اُنکا اِشارہ سمجھتے ہُوئے کہا۔۔۔ جی حضرت نا چاہتے ہُوئے بھی آہی گئی تھی۔۔۔۔ دیکھو بیٹا ماں باپ کے نافرمان کو جنت تو کُجا دُنیا ہی تنگ پڑجاتی ہے۔۔۔ اُور پھر جِسے خُدا کی تلاش ہُو۔یا۔۔ آخرت کی فِکر ہُو۔۔۔اُسے تو اُور بھی پھونک پھونک کر قدم بڑھانے چاہیئں۔ ورنہ ایک ٹھوکر ہی آسمان کی بُلندیوں سے قصر مذلت کی گھاٹیوں میں گِرانے کیلئے کافی ہُوتی ہے۔۔۔ میں نے اُنکا مطلب سمجھ کر اپنی گردن رضا کے واسطے خم کرتے ہُوئے کہا۔ آپ بجا فرماتے ہیں حضرت آئیندہ اُور ذیادہ اِحتیاط کرونگا۔۔۔۔ اُن کے چہرے پر میرے جواب سے خُوشی کی ایک لہر سی دُوڑ گئی۔

کُچھ لمحے مزید وَالدین کے حقوق سے ،متعلق نصیحت فرمانے کے بعد آپ نے اپنی گُفتگو کو دُوباہ کل کی گُذشتہ باتوں سے جُوڑتے ہُوئے ارشاد فرمایا۔ بیٹا جیسا کہ کل میں بتارہا کہ اگر کسی دُعا میں انسان کے لئے ضرر بھی نہ ہُو۔ تو
۲ مزید وجوھات بھی دعا کی قبولیت میں مانع ہُوسکتی ہیں۔ جس میں پہلی وجہ تو یہ ہُوسکتی ہے۔ کہ انسان اللہ کریم کی واضح ممانعت کے باوجود سرکشی پر اُتر آئے۔ اُور کِسی ایسے فعل میں مشغول ہُوجائے ۔ جو خُدا کی رضا کے بالکل برخلاف جاتا ہُو۔ جیسے شرک یا سودی معملات میں مشغول ہُوجانا۔۔۔جبکہ دُوسری وجہ یہ ہُوسکتی ہے۔ کہ انسان کا اپنے رَبّ سے ربط باقی نہ رہے۔۔ ۔

حضرت پہلی وجہ تُو مجھے سمجھ آگئی۔ لیکن دوسری وجہ عقل میں نہیں سمائی۔ بھلا یہ کسطرح ممکن ہے کہ بندے کا خالق سے ربط ہی باقی نہ رہے یہ تُو ناممکن سی بات لگتی ہے۔۔۔ اِس بات سے آپ کی کیا مُراد ہے۔۔۔؟ اُور آخر کسطرح یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بندے کا خُدا سے ربط ختم ہُوچُکا ہے۔میں نے بیچ میں لُقمہ دیتے ہُوئے کئی سُوالات کرڈالے۔۔۔ ۔۔۔بُہت اچھے سوالات کئے ہیں تُم نے۔ اُنہوں نے تحسین بھرے لہجے میں سَراہتے ہُوئے مجھے مُخاطب کیا۔۔۔ دَراصل رَبط باقی نہ رہنے سے میری مُراد یہ تھی کہ،، بندے کا اِسطرح سے اپنی زندگی کے سفر کو طے کرنا کہ جِسمیں اُسکی اپنی خُواہشات تُو موجود ہُوتی ہیں۔ لیکن اپنے مالک کی رضا شامل نہیں ہُوتی۔جِسکی وجہ سے بندے کا انتہائی کمزور تعلق اپنے رَب سے باقی رِہ جاتا ہے۔۔۔ اُور جِس پیرائے میں تُم سُوچ رہے ہُو۔ واقعی اُس پیرائے میں تو کبھی بھی خالق کا مخلوق سے رَبط ٹُوٹ ہی نہیں سکتا۔ یعنی بندہ جب بھی پلٹ کر خالق کو پُکارے گا۔ تب تب خالق کووُہ اپنے بُہت نذدیک پائے گا۔۔۔ لیکن میں جس تعلق کی بات کررہا ہُوں۔۔۔ وُہ ایسا ربط ہے جِس میں بندہ ہر لحظہ ہر ساعت خُود کو رب کے سامنے حاضر مِحسوس کرتا ہے۔ اُور یہی احساس اُسے گُناہ اُور نافرمانی سے دُور رکھنے کا باعث ہُوتا ہے۔ اُور اسکی تشخیص ہر ایک شخص تھوڑے سے غُور و فِکر کے بعد خُود حاصِل کرسکتا ہے۔

اِ س ربط کے کمزور ہُونے کی ایک نِشانی تو یہ ہے۔۔۔ کہ عموما جب بندے سے کوئی خطا کوئی گُناہ سرذد ہُوجاتا ہے۔ تب اُسکے مَن میں اِحساس نِدامت پیدا ہُوتا ہے جسکی وجہ سے وُہ بندہ اپنی خطا کی معافی اپنے رَب سے طلب کرلیتا ہے۔ اُور پاک ہُوجاتا ہے۔۔۔ لیکن متواتر گُناہ کرنے کے بعد بھی اگر احساس شرمندگی نہ ہُو۔۔۔ تُو سمجھ لینا چاہیئے کہ ربط خطرے میں ہے۔۔۔!

دوسری نشانی یہ ہے کہ ۔۔۔ جِس بندے کو مخلوقِ خُدا خُود سے کمتر ا‘ور حقیر نظر آنے لگے۔۔۔ اُن کا خُون ، اُنکی آبرو ، بے
قیمت نظر آنے لگے۔ تب جان لینا چاہیئے کہ خُدا سے ربط ٹوٹنے کو ہے۔ کیونکہ اِسکا نفس خُود خُدائی کا خواہشمند ہے۔۔۔۔! تب اُسکی دُعائیں کیوں کر مستعجاب ہُونگی۔۔۔؟

اُور بیٹا آخری بات یہ ہے کہ۔۔۔ جب تُمہیں کسی بندے کا خُدا سے ربط معلوم کرنا ہُو۔۔۔ تب یہ دیکھ لینا کہ وُہ خُدا کے بندوں سے کسقدر محبت رکھتا ہے َ جو مخلوقِ خُدا کی اذیتوں پر جسقدر تکلیف محسوس کرے گا۔ اُور اُن کےمصائب و پریشانیوں کو دُور کرنے میں مصروفِ عمل نظر آئے گا۔۔۔ اُسکا ربط، اُسکا تعلق اپنے پروردیگار سے اُسی قدر مضبوط ہُوگا۔۔۔ اُور جو مخلوقِ خُدا سے بیزار نظر آئے۔یا ۔ جِسکو۔ مخلوقِ خُدا کی ہلاکت و پریشانی سے خُوشی حاصل ہُو۔۔۔ دراصل وہی خَسارے میں ہے ۔ اُور وہی رَبط کُھو بیٹھا ہے۔۔۔

اُستادِ محترم کی گُفتگو میں ایسی چاشنی اُور اُن میں ایسی دانائی وحکمت کے گُوہر پُوشیدہ تھے۔ کہ دِل سے صِرف ۔۔ ھل مِن مزید۔۔۔ کے ترانے بُلند ہُورہے تھے مگر نجانے کیا ہُوا۔۔۔ کہ اُستاد محترم چُونک کر ایکدم کھڑے ہُوگئے ۔ اُور مجھ سے فرمانے لگے۔۔ عشرت میاں ہمارے کُچھ مہمان آنے والے ہیں۔ اسلئے اِس موضوع پر پھر کبھی گُفتگو کریں گے۔۔۔ فی الحال آپکو یہاں سے جانا ہُوگا۔ اتنا کہہ کر اُنہوں نے مجھ سے مُصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھادیا۔ نہ چاہتے ہُوئے بھی مجھے اُن سے الوداعی مصافحہ کرنا پڑا ۔۔۔ پھر وُہ صدر دروازے کی جانب بڑھے۔ اُور کُنڈی کھول کر دروازے میں کسی کے استقبال کیلئے کھڑے ہُوگئے۔۔۔ میں اپنی چپلیں سنبھالے جب دروازے کے نذدیک پُہنچا ۔تب تک کُچھ لُوگ ایک بچے کو ہاتھوں میں تھامے دروازے سے اندر داخل ہُورہے تھے۔ ملجگی رُوشنی میں جب میں نے اُنکے چہرے دیکھنے کی کُوشش کی۔ تُو اُنکی سُرخ آنکھوں میں دِہکتے چراغوں کو دیکھ کر میرے جِسم کا رُواں رُواں کھڑا ہُوگیا۔ آنے والے مہمانوں کو دیکھ کر مجھے اِس قدر بہرحال اندازہ ہُو ہی چُکا تھا۔ کہ آنے والے چاہے جو بھی ہُوں۔۔۔مگر وُہ کم از کم انسان نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔

پَلکوں سے دَرِ یار پہ دَستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا

0 comments:

Post a Comment