گُذشتہ(۱۷)۔ اقساط کا خُلاصہ۔۔۔
یہ کہانی ہے۔ ایک ایسے نُوجوان کامِل علی کی جِس کے سر سے اُسکے والد کا سایہ بچپن میں ہی اُٹھ گیا۔۔۔ والدہ کی نوجوانی میں بیوگی سے بے شُمار مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ حالات سے تنگ آکر کامل علی کی بیوہ والدہ پھر سے مولوی رمضان کی دُلہن بن جاتی ہے۔ ۔ کامِل علی کو اپنے ہمسائے چاچا ارشد کی بیٹی نرگس سے بُہت دِلی لگاوٗ پیدا ہُوجاتا ہے۔جُو دھیرے دھیرے مُحبت میں تبدئل ہُوجاتا ہے۔
حالات اُور زمانے کے بار بار ستائے جانے پر کامل علی رُوحانی عملیات کی جانب راغب ہُوجاتا ہے۔ تُو وہ تمام زمانے سے خاص کر چاچا ارشد سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن بار بار چلہ کاٹنے کے باوجود بھی ناکامی اُسکا مقدر ٹہرتی ہے۔ وُہ ایک بنگالی جادوگر کی شاگردی اِختیار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر بار ایک مَجذوب(بابا صابر) اُسکے راستے میں دیوار کی مانند کھڑا ہُوجاتا ہے۔ اُستاد عبدالرشید کے بار بار سمجھانے پر بھی جب کامل علی عملیات سے باز نہیں آتا۔ تب اُستاد عبدالرشید اُسے ایک اللہ کے ولی ،،میاں صاحب ،، کے پاس بھیجتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ناکامی کامل علی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اُور وہ خالی ہاتھ ہی اپنے گھر لُوٹ آتا ہے۔
افلاطون نامی ایک نوجوان کامل علی کے گھر میں گُھسنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن کامل علی دھکے دے کر اُسے گھر سے نِکال دیتا ہے۔ لیکن جب وُہ دروازے میں کنڈی لگا کر پلٹتا ہے۔ تُو اُسی نوجوان کو اپنے بستر پر دراز دیکھتا ہے۔ افلاطُوں جسکی کُنیت ابو شامل ہے۔ اُسے بتاتا ہے ۔ کہ وُہ ایک جِن زادہ ہے۔ اُور ایک عامِل اُسکے پیچھے پڑا ہے کیونکہ وُہ کافی طاقتور جن ہے۔ افلاطُون پیشکش کرتا ہے کہ اگر کامل علی اُس عامل سے بچانے میں اِسکی مدد کرے تُو،، افلاطُون دُوست بن کر دُنیا کی ہر شئے کو اسکے قدموں میں لاکر ڈال سکتا ہے۔ کامل علی افلاطون کی پیشکش قبول کرلیتا ہے۔ دُونوں جہلم جلباب سے مُلاقات کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ جلباب سے مُلاقات کے بعد ابو شامل کراچی پُہنچ کر کامل علی کو تنہا نرگس کے فیلٹ تک پُہنچا کر غائب ہُوجاتا ہے۔ نرگس کامل علی کو سمجھاتی ہے کہ وُہ واپس لُوٹ جائے۔ کیونکہ وُہ اپنی سابقہ زندگی کو بُھلانے کی کُوشش کررہی ہے
اَب مَزید پڑھیئے۔۔۔
نرگس کی گفتگو کامل علی کے سینے کو برچھی کی طرح چھلنی کئے جارہی تھی۔۔۔ جسکی وجہ سے نہایت رازداری سے اُسکی آنکھیں اَشکوں کو الودع کہہ رہی تھیں۔۔۔ کامل علی سُوچ رَہا تھا۔۔۔ کیا یہ وہی نرگس ہے ۔ جو مجھے دیکھے بِنا چین سے سُو بھی نہیں پاتی تھی۔۔۔ اُور کیا یہ وہی نرگس ہے کہ جِس کو پانے کیلئے وُہ تمام زمانے سے لڑنے کیلئے تیار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
نرگس نے ایک لمحے کیلئے کامل علی کی بھیگی پَلکوں کو دیکھا۔ تُو اُسے ایسا محسوس ہُوا کہ،، کہ وُہ ذیادہ دیر تک اپنے جذبات کو کامل علی سے چُھپانے میں کامیاب نہ ہُو سکے گی۔۔۔ شائد اِسی لئے وُہ چند لمحوں کیلئے کامل علی کے سامنے سے اُٹھ کر کچن کی جانب چلی آئی ۔۔۔ چائے کا پانی پتیلی پر چڑھاتے ہُوئے اُس کی عجیب کیفیت تھی۔ دِل کی خُواہش تھی کہ،، کہ وُہ کامل علی سے لپٹ کر اتنا رُوئے کہ سینے کے غُبار کو باہر نِکل جانے کا راستہ دِکھائی دے جائے۔ جب کہ عقل اُسے مسلسل یہ بات سمجھانے کی کُوشش میں مصروف تھی۔ کہ،، اب وُہ کامل علی کی محبوبہ نہیں ۔۔۔ بلکہ کسی دُوسرے شخص کی بیوی ہے۔اُور ایک عدد بچے کی مَاں بھی ہے۔۔۔۔ ابھی تک تُو اُس کی زندگی کا پس منظر صرف اسکے والدین کے علم میں ہے۔ جسکے باوجود بھی وُہ اپنے شوھر کا دِل نہیں جیت پائی۔ اگر یہ پس منظر کل کو شوہر پر بھی آشکار ہُوگیا۔۔۔۔ تُو۔۔۔ مستقبل میں بہتری کی جُو موہوم سی آس باقی ہے وُہ بھی جاتی رہے گی۔۔۔ دُنیا والے جو رُسوائی کی کالک چہرے پر مَلیں گے۔ وُہ الگ سے تکلیف کے احساس میں ہمیشہ کیلئے جکڑ دے گی۔ چائے تیار ہُونے تک نرگس ایک فیصلہ پر پُہنچ چکی تھی۔
چائے کی پیالی کامل علی کی جانب بڑھاتے ہُوئے نرگس نے دیکھا کہ کامل علی کی پلکیں ابھی تک اَشکوں کے بُوجھ سے جھکی ہُوئی ہیں۔۔۔۔ایک پیالی چائے حلق سے اُتارنے میں کامل علی کو پندرہ منٹ لگ گئے۔ جُونہی اُس نے چائے کی خالی پیالی زمین پر رکھ کر رُومال سے اپنے آنسووٗں کو چھپانے کی کُوشش کی۔۔۔۔۔ نرگس نے دِل گرفتہ لہجے میں کامل علی کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ اِن آنسووٗں کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے کامل۔ مردوں کو فیصلہ لیتے ہُوئے ہمت سے کام لینا ہُوتا ہے۔۔ نا کہ آنسووٗں سے۔۔۔ یہ آنسو تو ہم جیسی کمزور مخلوق کی آنکھوں میں ہی بھلے لگتے ہیں۔۔۔
کیا واپسی کو کوئی راستہ باقی نہیں بچا نرگس۔۔۔؟ میں نے آج تک زندگی میں تُمہارے سِوا کسی اُور شئے کی خُواہش نہیں کی۔۔۔۔ خُدا جانتا ہے کہ تُم کو پانے کیلئے میں کتنا روتا اُور تڑپتا رَہا ہُوں ۔ میں اب تک صرف تُمہاری اُمید پر جینے کی کوشش کرتا چلا آیا ہُوں۔۔۔ اُور سچ کہتا ہُوں کہ،، اگر اب بھی تُم مجھے نہ ملیں تو میں تُمہارے بِنا اب مَزید نہیں جی پاوٗں گا۔۔۔۔ کامل علی نے التجا کرتے ہُوئے بے اختیار اپنے دونوں ہاتھ نرگس کے سامنے پھیلا دیئے۔
کامل اب ہم بچے نہیں رہے ہیں۔۔۔ کہ وقت و حالات کا اِدراک نہ کرپائیں۔۔۔ تمہارے آنسو اب مجھے جذباتی نہیں کر پائیں گے۔۔۔ کاش تُم نے اُس وقت ہمت دِکھائی ہُوتی،،کہ،، جب میرے والد میرا ہاتھ ایک شادی شُدہ آدمی کے ہاتھ میں دے رہے تھے۔۔۔۔ لیکن نہیں تُم نے اُس وقت حالات سے سمجھوتا کرلیا تھا۔۔۔ میں ہر پل تمہاری منتظر رہی۔۔۔۔ کہ ،، کِسی دِن تُم آوٗ گے۔ اُور میرے بابا سے میرا ہاتھ مانگو گے۔۔۔۔ مگر تُم نہیں آئے۔ بلکہ بُزدِلوں کی طرح سے مُحلہ ہی چھوڑ گئے۔۔ کاش۔۔۔ اُس وقت تُم نے سُوچا ہُوتا۔۔۔ کہ میں کسطرح اِس ادھورے پن کیساتھ اپنی بقیہ زندگی گُزار پاوٗنگی۔۔۔ مگر تُم نے پلٹ کر ایکبار بھی میری خبر تک نہ لی۔ اُور جہاں تک بات ہے میرے بِن جینے کی تُو جسطرح میں نے تمہارے بنا جینا سیکھ لیا ہے ۔تُم بھی ایک دِن سیکھ جاوٗ گے۔کوئی کِسی کی ہم نشینی کے بغیر نہیں مرتا۔ اُور کوئی بھی رستہ دُشوار تُو ہُوسکتا ہے ۔لیکن ناممکن نہیں ہُوسکتا۔ چلتے چلتے راستے مانوس ہُوہی جاتے ہیں ۔ چاہے پاوٗں میں آبلے ہی کیوں نہ پڑجائیں۔۔۔ آخری جُملہ ادا کرتے ہُوئے نرگس کی آواز نہ صرف بَھرا گئی بلکہ کافی بُلند بھی ہُوچکی تھی۔۔۔ نرگس کی تیز آواز کی وجہ سے ننھے طارق نے کسمسا کر اپنی آنکھیں کُھول دیں۔۔۔ نرگس نے فوراً بچےکو اپنے بازوٗں میں لیکر تھپکنا شروع کردیا۔ جسکی وجہ سے اُس نے واپس اپنی آنکھیں مُوند لیں۔۔۔
نرگس ایسا نہیں تھا۔ کہ میں نے چچا ارشد سے بات نہیں کی تھی۔۔۔ مگر اُس وقت وُہ اتنے جذباتی تھے کہ اُنہیں میری کوئی بات ہی سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔ اُور محلہ بھی میں نے ڈر کر یا حالات سے سمجھوتا کرتے ہُوئے نہیں چھوڑا تھا۔۔۔ بلکہ میں تُو صرف اس لئے محلہ چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ کہ میں چاہتا تھا کہ چچا ارشد کا غُصہ کچھ ٹھنڈا ہُوجائے۔ میرا خیال تھا کہ وُہ وقت کیساتھ نارمل ہُوجائیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہُوا۔ یہ میری بدقسمتی تھی۔۔ لیکن خُدا گواہ ہے کہ مجھے تو تمہاری شادی تک کی خبر بُہت بعد میں مِلی تھی۔۔۔ جسکی وجہ سے میری حالت غیر ہُوگئی تھی۔۔۔۔ نرگس کے تیز جملوں کے برعکس کامل علی نے ٹھنڈے انداز میں اپنی صفائی پیش کرتے ہُوئے کہا۔
دیکھو کامل علی جُو ہُونا تھا سُو ہُوچکا۔۔۔ اب گَڑے مُردوں کو واپس اُکھاڑنے سے کچھ بھی حاصِل ہُونے والا نہیں ہے۔۔۔ لِہذا ہُوش مندی کا یہی تقاضہ ہے کہ اب ہم اپنی راہیں جُدا کرلیں۔۔۔ اُور جو ہمارے مقدر میں لکھا جا چُکا ہے۔ اُس پر راضی رہنے کی کوشش کرتے رہیں۔ ویسے بھی جب شیشہ ایک مرتبہ ٹوٹ جاتا ہے تب لاکھ جُوڑنے پر بھی اُس میں بال باقی رِہ ہی جاتا ہے۔۔۔۔ نرگس نے کامل علی کو سمجھاتے ہُوئے کہا۔
بار بار ماحول میں تیز جملوں کی بازگشت نے ننھے طارق کو ایک مرتبہ پھر بے چین کردِیا تھا۔۔۔ لیکن اب کی مرتبہ وُہ خاموشی سے مُنہ نہیں بسور رَہا تھا۔۔۔ بلکہ اُس نے تیز لے میں کوئی سُر چِھیڑ دیا تھا ۔ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ نرگس کے بچے کی بے وقت کی راگنی نے تمام ماحول کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔ نرگس بار بار اپنے بچے کو تھپکتے ہُوئے کبھی کمرے سے برآمدے تک چلی جاتی۔ اُور پھر تھوڑی دیر میں واپس لُوٹ آتی۔ کامل علی بچے کے پرسکون ہُونے کا اِنتظار کرتا رَہا۔۔۔ لیکن لگتا تھا کہ،، جیسے مُنے کو بھی کامل کی گھر میں انٹری اچھی نہیں لگی تھی۔۔۔ کامل کی خُواہش تھی کہ رات کُچھ مزید ٹہر جائے۔۔۔ لیکن کسی مرغ کی صدا کامل علی کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہی تھی۔ کہ وقت تو کب کا گُزر چُکا ہے۔ وُہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔۔۔۔ بلکہ جب کوئی اُسکی رفتار کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ تب یہ اپنی رفتار اُسکے لئے مزید تیز کر دیتا ہے۔
میرے خیال میں صبح ہُونے میں ذیادہ وقت باقی نہیں ہے ۔ اسلئے بہتر یہی ہے۔ کہ اگر تُمہارے دِل میں میرے لئے ذرا بھی عزت باقی ہے ۔ تُو تُم کو تھوڑی دیر میں یہاں سے چلے جانا چاہیئے۔ نرگس نےننھے طارق کی کمر سہلاتے ہُوئے کامل علی کو مخاطب کیا۔
آج نرگس کی زُباں سے بُزدلی کے طعنے اُور واپس لُوٹ جانے کی لگاتار التجائیں۔۔۔ کامل کو اپنے چہرے پر طمانچے کی طرح محسوس ہُورہی تھیں۔ وُہ کُچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ کامل کو اپنے کان میں ابو شامل کی سرگوشی سُنائی دی۔ میرے خیال میں اِس وقت ذیادہ بِحث مُناسب نہیں ہے۔ جلد بازی اکثر بنے بنائے کام کو بِگاڑنے کا باعث بن جاتی ہے۔اسلئے ہم پھر کسی وقت کا انتخاب کریں گے۔ جب تک نرگس کوبھی اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے کا موقع مِل جائے گا۔۔۔ کامل علی کو ابو شامل کی رائے میں وزن محسوس ہُوا ۔ کامل نے نرگس کو الوداعی سلام کرنے کے بعد اجازت لی ۔ اُور فلیٹ سے نکل کر رُوڈ کی جانب چلتے ہُوئے ابو شامل سے دِل گرفتہ لہجے میں گُویا ہُوا۔۔۔۔ یار میں نے تُو کبھی سُوچا بھی نہیں تھا۔ کہ وقت گُزرنے کیساتھ نرگس اِتنا بدل جائے گی۔۔۔؟
یار پہلے تُو میں معذرت چاہتا ہُوں کہ ،، میں بنا بتائے نرگس کے گھر میں داخل ہُوگیا تھا۔ ابو شامل نے ظاہر ہوکر شرمندگی کا اِظہار کرتے ہُوئے اپنی گفتگو جاری رکھی۔۔۔ دراصل میں خُوش ہی اسقدر ذیادہ تھا۔ کہ مجھے اِس بات کا بالکل بھی خیال نہیں رَہا۔۔۔ اُور جہاں تک نرگس کی بے رُخی کی بات ہے۔۔۔۔ تو میرے یار۔۔۔ انسان ہُوں یا جِن سبھی کے جذبات ہُوتے ہیں۔ اُور مجھے تُو پہلے ہی نرگس سے اِس رِی ایکشن کی توقع تھی۔۔۔ لیکن اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے ۔ کہ بازی تُمہارے ہاتھوں سے بالکل نِکل چُکی ہے۔ ۔۔ بلکہ جسطرح پانی کی ایک ایک بُوند گرنے سے پہاڑ میں رستہ بن جاتا ہے۔۔۔ بس ہم بھی اِسی طرح دھیرے دھیرے نرگس کے دِل میں راستہ بنا لیں گے۔ اب چاہے پہلے دروازہ کُھلے یا کھڑکی ہَوا آنے جانے کا رستہ تُو بن ہی جائے گا۔۔۔ ابو شامل نے مُسکرا کراپنے مخصوص انداز میں کامل کو آنکھ مارتے ہُوئے کہا۔۔۔۔
یار تُمہاری باتوں سے مجھے بُہت حُوصلہ مِلا ہے۔ ورنہ نرگس نے تُو تمام خوشیوں کے چراغوں کو ہی پُھونک ڈالا تھا۔۔۔ ویسے تُم خُوش کس بات پر تھے۔یہ تُم نے نہیں بتایا۔۔۔ کامل علی نے جوابی آنکھ مارتے ہوئے مُسکرانے کی ناکام کوشش کی۔۔۔ بتا تا ہُوں یار۔۔۔ آج تو میں جہلم فتح کرکے آیا ہُوں۔لیکن پہلے گھر تُو پُہنچ جائیں۔ پھر ساری کہانی سُناتا ہُوں۔ ابو شامل نے فاتحانہ انداز میں اپنے ہاتھ بُلند کرتے ہُوئے کہا۔
(جاری ہے)۔
اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے
INTERESTING DER INTERESTING :-)
ReplyDeleteMashaALLAH ,bohat acha likha per iss ki next qist bohat jaldi aani chaheya...shukria
ReplyDelete