محترم قارئین السلامُ علیکم
مجھے معلوم ہے کافی احباب اس سلسلے کی تاخیر کی وجہ سے مجھ سے شاید خفا ہیں اور کچھ بدگُمان بھی ہوسکتے ہیں لیکن کیا کروں ایک تو رمضان المبارک کے بعد سے اِک طرف میری صحت لکھنے لکھانے کی متحمل نہ تھی کہ عارضہ جگر میں مُبتلا تھا اور بے شمار لوگ ملاقات کیلئے آجاتے ہیں جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا تو دوسری جانب کاٹن کا سیزن شروع ہونے کی وجہ سے فیکٹری میں کام کا اسقدر پریشر ہے کہ بالکل ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ موقوف سا ہو کر رہ گیا جس کیلئے آپ سب سے معذرت خواہ ہوں ویسے بھی میں کوئی رائٹر تو ہوں نہیں۔ بس ہماری ویب کی اس محفل سے ایسی اُنسیت سی ہوگئی ہے کہ چاہے لکھوں کچھ بھی نا اسے دیکھے بنا چین بھی نہیں آتا پس جسقدر صحت اجازت دے گی آپ کی خدمت میں حاضری دیتا رہوں گا
اب سلسلہ کو وہیں سے شروع کرتے ہیں۔
عمران بابا وقاص کی گفتگو میں ایسا کھو گیا کہ بابا وقاص کے خاموش ہونے کے بعد بھی اِس سحر سے باہر نا آسکا جب بابا وقاص نے اُس کے شانے کو جھنجوڑا تو عمران کو ایسا محسوس ہُوا کہ جیسے کسی نے نیند سے جگا دِیا ہو۔ کیا ہُوا عمران میاں کہاں کھو گئے تھے؟ بابا وقاص نے سوال کیا تو عمران نے نہایت یاس کی کیفیت سے بابا کے قدموں کی جانب دیکھتے ہُوئے کہا بابا مجھے نہیں معلوم کہ کوئی پری مجھے کیوں چاہتی ہے نا ہی میں ایسا حسین ہوں کہ کوئی پری مجھ پر عاشق ہوجائے اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش میرے دِل میں کبھی پیدا ہُوئی البتہ تمام بچوں کی طرح مجھے بھی اس مخلوق کی کہانیوں سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے لیکن ایسا تو کبھی سوچا بھی نہیں کہ کوئی پری میری ہوجائے چہ جائیکہ وہ مجھ پر عاشق ہوجائے البتہ جب سے آپ نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ وہ لڑکی جسے میں نہیں دیکھ پایا ایک پری تھی جسم میں ایک سنسنی سی محسوس کر رہا ہوں اور مجھے اُس لمحے پر افسوس ہورہا ہے کہ میں نے اُس وقت کیوں اُس سے آنکھیں چُرائیں کاش میں اُسے ایک نظر ہی دیکھ لیتا، یہ کہہ کر عمران بابا وقاص کی جانب دیکھنے لگا۔
بابا وقاص نے بڑے پیار سے عمران کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا عمران بیٹا تمہارے پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ عشق صرف حسین چہروں سے نہیں کیا جاتا بلکہ جنکے اخلاق اچھے ہوں جنکی عادات اچھی ہوں اُنکے عشق میں بھی لوگوں کے دِل گرفتار ہوجایا کرتے ہیں یہ تو میں بھی نہیں جانتا کہ تُمہاری کس بات پر وہ اپنا دِل ہار بیٹھی ہے۔ لیکن مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ وہ تُمہاری خاطر کچھ بھی کرسکتی ہے کیونکہ وہ تُم سے واقعی سچا پیار کرتی ہے اور جہاں تک بات ہے اُس دِن کی محرومی کا تو تمہارے لئے خوشخبری یہ ہے وہ کوئی پہلی اور آخری مُلاقات نہیں تھی بلکہ اب یہ مُلاقات کا سلسلہ رُکنے والا نہیں۔ بیٹا انسانوں کی آنکھ میں ایک پردہ ایسا حائل ہوتا ہے کہ مخلوق اجنہ جسکے سبب نظر نہیں آتی لیکن تُم اب جب چاہو اِس مخلوق کو باآسانی دیکھ سکو گے لیکن ہمیشہ احتیاط کے دامن کو پکڑے رہنا اور کوشش کرنا کہ جس قدر ممکن ہو اُنکی آنکھوں میں جھانک کر گفتگو نا کرنا کہ فی الحال تُمہاری بینائی کے زائل ہونے کا اندیشہ ہے۔
بابا کیا آپ میری اُس پری سے مُلاقات کرواسکتے ہیںَ؟ عمران نے استعجاب کے عالم میں سوال کیا،
کیوں نہیں! بابا وقاص نے بڑے یقینی لہجے میں جواب دِیا لیکن اُس کے لئے تمہیں اب تین روز مزید انتظار کرنا ہوگا اور ملاقات سے قبل کچھ تیاری بھی کرنی ہوگی بابا وقاص کی اِس بات سے جیسے عمران کے بدن میں اِک خُوشی کی لہر بیدار ہوگئی بابا وقاص نے عمران کو ایک اسم اِلہی بتاتے ہوئے خاص تعداد میں روزانہ بِلا ناغہ پڑھنے کی تاکید کرتے ہوئے سورہ کوثر کو بھی ایک خاص تعداد میں پڑھنے کیلئے کہا اس کے علاوہ تیسرے دِن موتیا کے گجرے کیساتھ ایک خاص خوشبو نئے کپڑوں پر لگا کر آنے کی خاص تاکید کرتے ہوئے کافی معلوماتی باتیں بتائیں جو کہ بابا وقاص کے مطابق عمران کے علم میں ہونا ضروری تھیں عمران پر اِک سرشاری کی کیفیت طاری تھی اُسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ تین دِن بعد اُسکی ایک پری سے ملاقات ہونے جارہی ہے جو اُس سے بے پناہ محبت بھی کرتی ہے اور نا صرف محبت کرتی ہے بلکہ خود بھی عمران سے مُلاقات کی مُتمنی ہے۔
اسکے بعد بابا وقاص نے تنبیہ لہجے میں عمران سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے ایک بات اور سرگوشی کے انداز میں کہی کہ بیٹا کچھ بھی ہوجائے اِس ملاقات سے قبل کسی سے اِس بات کا تذکرہ بھول کر بھی نہیں کرنا کہ خدانخواستہ ظالم شکاریوں کو اِس کی بھنک لگ جائے اور وہ شکنجہ لگا کر بیٹھ جائیں اگر ایسا کچھ ہُوا تو نہ صرف تم تمام عمر پچھتاؤ گے بلکہ میرا ضمیر بھی ہمیشہ مجھے ملامت کرتا رہے گا کہ اس معاملے میں رازداری شرط اولین کی حیثیت رکھتی ہے بابا وقاص یہ کہتے ہوئے عمران کو الوداع کرنے کیلئے کھڑے ہوگئے مجبوراً عمران کو بھی کھڑا ہونا پڑا اگرچہ اُسکا من ابھی بابا وقاص سے مزید باتیں کرنے کو چاہ رہا تھا لیکن ادب کے پیش نظر عمران خاموشی سے جانے کیئے تیار ہوگیا بابا وقاص کے گھر سے نکل کر اپنے گھر جاتے ہوئے عمران کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ شاہراہ پر نہیں بلکہ فضاؤں میں اُڑ رہا ہو
(جاری ہے)
انشاءاللہ کوشش کروں گا کہ اب بِلا تاخیر یہ سللہ جلد از جلد اپنے انجام کو پُہنچ جائے
اپنی دُعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیئے گا والسلام مع الاکرام آپ سب کیلئے دُعا گو آپکا بھائی۔۔۔
مجھے معلوم ہے کافی احباب اس سلسلے کی تاخیر کی وجہ سے مجھ سے شاید خفا ہیں اور کچھ بدگُمان بھی ہوسکتے ہیں لیکن کیا کروں ایک تو رمضان المبارک کے بعد سے اِک طرف میری صحت لکھنے لکھانے کی متحمل نہ تھی کہ عارضہ جگر میں مُبتلا تھا اور بے شمار لوگ ملاقات کیلئے آجاتے ہیں جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا تو دوسری جانب کاٹن کا سیزن شروع ہونے کی وجہ سے فیکٹری میں کام کا اسقدر پریشر ہے کہ بالکل ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ موقوف سا ہو کر رہ گیا جس کیلئے آپ سب سے معذرت خواہ ہوں ویسے بھی میں کوئی رائٹر تو ہوں نہیں۔ بس ہماری ویب کی اس محفل سے ایسی اُنسیت سی ہوگئی ہے کہ چاہے لکھوں کچھ بھی نا اسے دیکھے بنا چین بھی نہیں آتا پس جسقدر صحت اجازت دے گی آپ کی خدمت میں حاضری دیتا رہوں گا
اب سلسلہ کو وہیں سے شروع کرتے ہیں۔
عمران بابا وقاص کی گفتگو میں ایسا کھو گیا کہ بابا وقاص کے خاموش ہونے کے بعد بھی اِس سحر سے باہر نا آسکا جب بابا وقاص نے اُس کے شانے کو جھنجوڑا تو عمران کو ایسا محسوس ہُوا کہ جیسے کسی نے نیند سے جگا دِیا ہو۔ کیا ہُوا عمران میاں کہاں کھو گئے تھے؟ بابا وقاص نے سوال کیا تو عمران نے نہایت یاس کی کیفیت سے بابا کے قدموں کی جانب دیکھتے ہُوئے کہا بابا مجھے نہیں معلوم کہ کوئی پری مجھے کیوں چاہتی ہے نا ہی میں ایسا حسین ہوں کہ کوئی پری مجھ پر عاشق ہوجائے اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش میرے دِل میں کبھی پیدا ہُوئی البتہ تمام بچوں کی طرح مجھے بھی اس مخلوق کی کہانیوں سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے لیکن ایسا تو کبھی سوچا بھی نہیں کہ کوئی پری میری ہوجائے چہ جائیکہ وہ مجھ پر عاشق ہوجائے البتہ جب سے آپ نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ وہ لڑکی جسے میں نہیں دیکھ پایا ایک پری تھی جسم میں ایک سنسنی سی محسوس کر رہا ہوں اور مجھے اُس لمحے پر افسوس ہورہا ہے کہ میں نے اُس وقت کیوں اُس سے آنکھیں چُرائیں کاش میں اُسے ایک نظر ہی دیکھ لیتا، یہ کہہ کر عمران بابا وقاص کی جانب دیکھنے لگا۔
بابا وقاص نے بڑے پیار سے عمران کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا عمران بیٹا تمہارے پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ عشق صرف حسین چہروں سے نہیں کیا جاتا بلکہ جنکے اخلاق اچھے ہوں جنکی عادات اچھی ہوں اُنکے عشق میں بھی لوگوں کے دِل گرفتار ہوجایا کرتے ہیں یہ تو میں بھی نہیں جانتا کہ تُمہاری کس بات پر وہ اپنا دِل ہار بیٹھی ہے۔ لیکن مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ وہ تُمہاری خاطر کچھ بھی کرسکتی ہے کیونکہ وہ تُم سے واقعی سچا پیار کرتی ہے اور جہاں تک بات ہے اُس دِن کی محرومی کا تو تمہارے لئے خوشخبری یہ ہے وہ کوئی پہلی اور آخری مُلاقات نہیں تھی بلکہ اب یہ مُلاقات کا سلسلہ رُکنے والا نہیں۔ بیٹا انسانوں کی آنکھ میں ایک پردہ ایسا حائل ہوتا ہے کہ مخلوق اجنہ جسکے سبب نظر نہیں آتی لیکن تُم اب جب چاہو اِس مخلوق کو باآسانی دیکھ سکو گے لیکن ہمیشہ احتیاط کے دامن کو پکڑے رہنا اور کوشش کرنا کہ جس قدر ممکن ہو اُنکی آنکھوں میں جھانک کر گفتگو نا کرنا کہ فی الحال تُمہاری بینائی کے زائل ہونے کا اندیشہ ہے۔
بابا کیا آپ میری اُس پری سے مُلاقات کرواسکتے ہیںَ؟ عمران نے استعجاب کے عالم میں سوال کیا،
کیوں نہیں! بابا وقاص نے بڑے یقینی لہجے میں جواب دِیا لیکن اُس کے لئے تمہیں اب تین روز مزید انتظار کرنا ہوگا اور ملاقات سے قبل کچھ تیاری بھی کرنی ہوگی بابا وقاص کی اِس بات سے جیسے عمران کے بدن میں اِک خُوشی کی لہر بیدار ہوگئی بابا وقاص نے عمران کو ایک اسم اِلہی بتاتے ہوئے خاص تعداد میں روزانہ بِلا ناغہ پڑھنے کی تاکید کرتے ہوئے سورہ کوثر کو بھی ایک خاص تعداد میں پڑھنے کیلئے کہا اس کے علاوہ تیسرے دِن موتیا کے گجرے کیساتھ ایک خاص خوشبو نئے کپڑوں پر لگا کر آنے کی خاص تاکید کرتے ہوئے کافی معلوماتی باتیں بتائیں جو کہ بابا وقاص کے مطابق عمران کے علم میں ہونا ضروری تھیں عمران پر اِک سرشاری کی کیفیت طاری تھی اُسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ تین دِن بعد اُسکی ایک پری سے ملاقات ہونے جارہی ہے جو اُس سے بے پناہ محبت بھی کرتی ہے اور نا صرف محبت کرتی ہے بلکہ خود بھی عمران سے مُلاقات کی مُتمنی ہے۔
اسکے بعد بابا وقاص نے تنبیہ لہجے میں عمران سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے ایک بات اور سرگوشی کے انداز میں کہی کہ بیٹا کچھ بھی ہوجائے اِس ملاقات سے قبل کسی سے اِس بات کا تذکرہ بھول کر بھی نہیں کرنا کہ خدانخواستہ ظالم شکاریوں کو اِس کی بھنک لگ جائے اور وہ شکنجہ لگا کر بیٹھ جائیں اگر ایسا کچھ ہُوا تو نہ صرف تم تمام عمر پچھتاؤ گے بلکہ میرا ضمیر بھی ہمیشہ مجھے ملامت کرتا رہے گا کہ اس معاملے میں رازداری شرط اولین کی حیثیت رکھتی ہے بابا وقاص یہ کہتے ہوئے عمران کو الوداع کرنے کیلئے کھڑے ہوگئے مجبوراً عمران کو بھی کھڑا ہونا پڑا اگرچہ اُسکا من ابھی بابا وقاص سے مزید باتیں کرنے کو چاہ رہا تھا لیکن ادب کے پیش نظر عمران خاموشی سے جانے کیئے تیار ہوگیا بابا وقاص کے گھر سے نکل کر اپنے گھر جاتے ہوئے عمران کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ شاہراہ پر نہیں بلکہ فضاؤں میں اُڑ رہا ہو
(جاری ہے)
انشاءاللہ کوشش کروں گا کہ اب بِلا تاخیر یہ سللہ جلد از جلد اپنے انجام کو پُہنچ جائے
اپنی دُعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیئے گا والسلام مع الاکرام آپ سب کیلئے دُعا گو آپکا بھائی۔۔۔
0 comments:
Post a Comment