عمران نمازِ عِشاء سے فراغت کے بعد رات کے کھانے
میں شریک ہُوگیا اور جب کھانے سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں پُہنچا تُو بَچّے سُو
چُکے تھے عمران نے بستر پر دراز ہُوتے ہی بابا وقاص کی لکھی کتاب نکالی اور اُسے
پڑھنا شروع کردیا پانچواں باب جناتوں کی انسانوں میں دلچسپی اور محبت سے مُتعلق
تھا۔
چھٹا باب پریوں کی زندگی اُنکی ترجیحات اُنکی اقسام اُنکے رہن سہن اور اُنکی مشہور مُحبتوں کے افسانوں سے مُزیّن تھا جِس میں اِنکے قبائل کا بھی تفصیلی احوال پیش کیا گیا تھا تو دوسری جانب اِنکی انسانوں میں دلچسپی کی وجوہات کا بھی تذکرہ موجود تھا یہ کس طرح زمین کی سیر کرتی ہیں اور کسطرح دُنیائے زمین پر اپنے پَروں کو مخفی کر لیتی ہیں یہ مریخ اور پرستان سے آتے ہُوئے کسطرح وہاں کے کونسے جواہر لا کر یہاں کسطرح جوہریوں کو فروخت کرکے اُسکے عوض خریداری کرتی ہیں۔
کیا یہ اپنے مُحافظین کیساتھ سیر وتفریح کرتی ہیں یا تنہا سفر کرتیں ہیں۔ کیا پریوں کی انسانوں سے شادیوں کی کوئی اِمثال بھی دریافت ہوئیں ہیں، اگر انسان اور پریوں کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم ہُوجائیں تو یہ بَچے اِنسان کہلائیں گے یا جنات؟
جبکہ ساتویں باب میں بابا وقاص کے اپنی زندگی کے تجربات درج کئے گئے تھے اس میں ایک واقعہ جو ایک پری اور بابا وقاص کے درمیان مکالمے کی صورت میں تھا عمران کے لئے نہایت دلچسپی کا باعث تھا اِس کِتاب میں قاری کے لئے ایسی دلچسپ معلومات تھیں کہ شائد کوئی بھی قاری اِسے ایک مرتبہ پڑھ کر آسودہ نہیں ہُوسکتا تھا، عمران کو یوں تو تمام کِتاب ہی اپنے سحر میں جکڑے رہی لیکن چَھٹے باب کو عمران نے کئی بار پڑھا یہاں تک کہ اُسے نیند آگئی۔
حسبِ معمول جب عمران بابا وقاص کے آستانے پر پُہنچا تو خَادم حُسین عُرف ( خادم میاں) نے اُسے بتایا کہ بابا وقاص شہر کِسی کام کے سلسلے میں گئے ہُوئے ہیں اور چونکہ کل بابا وقاص کراچی جارہے ہیں اِس لئے اُنہوں نے خاص تاکید کی ہے کہ عمران سے کہنا کہ آج رات مُلاقات کیلئے ضرور آئے عمران نے کِتاب خادم حُسین کے حوالے کی اور اُسے خاص حِفاظت کی خاص تاکید کرتے ہُوئے اپنے آفس کیلئے روانہ ہُوگیا۔
عمران کا یہ پُورا دِن بھی بے چینی کی حالت میں گُزرا سارا دِن نظر گھڑی کا طواف کرتی رہی اللہ اللہ کرتے بڑی مشکل سے شام ہُوئی تو عمران نماز مغرب پڑھ کر بابا وقاص کے آستانے کیلئے چَل پَڑا دِل میں عجیب عجیب سے خیالات تھے کہ بابا وقاص سے اب بھی نجانے مُلاقات ہُو بھی پائے گی یا اُسے دوبارہ خالی ہاتھ لوٹنا ہوگا، آخر ایسی کونسی بات ہے جِسکے لئے بابا اِتنے لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں اور آخر اِس کتاب کا مجھ سے یا میری زندگی سے کیا ربط ہے کیا رشتہ ہے؟ سوالات کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا جو تسلسُل سے عمران کے دِماغ مٰیں ہلچل بَپا کئے ہُوئے تھے۔
عمران جونہی وقاص بابا کے آستانے پر پُہنچا تو کُھلے دروازے سے بابا وقاص کو برآمدے میں بیٹھا دیکھ کر اُسکی سانس میں سانس سمائی بابا نے اندر آنے کا اِشارہ کیا تو عمران نے برآمدے میں پُہنچ کر بابا وقاص کی دست بُوسی کی اور بابا وقاص کے سامنے ادب سے زانوئے تِلمذ ہوگیا، بابا وقاص نے عمران سے کِتاب پر تبصرہ کی خُواہش کا اِظہار کیا۔ جواباً عمران نے بابا وقاص سے عرض کیا بابا میری تمام زندگی کی معلومات آپ کی قُومِ اَجِنّہ پر لکھی گئی اِس نایاب کِتاب کے پانچ صفحات کے برابر بھی نہیں ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی کِتاب پڑھی تُو کُجا دیکھی بھی نہیں مجھے لگتا ہے کہ اِس کتاب کو ضرور پبلش ہونا چاہیے میری تو یہی خُواہش ہے کہ آپ اپنے فیصلے پر ایک مرتبہ ضرور نظر ثانی فرمائیں۔
اچھا تُم اِتنا اصرار کر رہے تو میں اس پر سوچوں گا لیکن عمران تُم نے میرے اِس سوال کا جواب نہیں دِیا کہ تُم اپنے خاندان والوں سے اِتنے مُختلف کیسے ہُوگئے؟ عمران کی خاموشی پر بابا وقاص نے عمران سے دوسرا سوال پوچھا اچھا یہ بتاؤ خُواب دیکھتے ہُو عمران نے بتایا کہ وہ اکثر ایک شہزادی کو اپنے خُوابوں میں دیکھتا ہے جو آتی ہے اور مجھے ہمیشہ ایک ایسی جھیل پر اپنے ساتھ لے جاتی ہے جو ایک سربفلک پہاڑ پر واقع ہے جِس پر برف کی تِہہ جمی ہے یہ خُواب میں نے اپنی زندگی میں متعدد بار دیکھا ہے اور اب تو خُواب میں بھی مجھے ہندی فلم فارمولے کی طرح پہلے ہی سے معلوم ہُوتا ہے کہ آئندہ میرے ساتھ کیا ہُونے والا ہے!
تو کیا تُمہیں بھی واقعی ایسا ہی لگتا ہے کہ تُم ہمیشُہ خُواب ہی دیکھتے ہُو؟ بابا وقاص نے اگلا سوال داغ دِیا۔
سُوتے میں جو دیکھا جائے اُسے سب خُواب ہی کہتے ہیں عمران نے جواب دیتے ہُوئے کہا،
ایسا تُمہارا خیال ہے کیونکہ رات کو سُوتے ہُوئے تُم جِس بِستر پر ہُوتے ہُو صبح اُس ہی بستر پر آنکھ کھولتے ہُو، خیر چُھوڑو اِس بحث کو رات جو کِتاب میں نے تمہیں پڑھنے کیلئے دی تھی اِسکا ایک خاص پس منظر تھا۔ عام طور پر جب لوگ جنات کا ذکر سُنتے ہیں تو خُوف زدہ ہُوجاتے ہیں حالانکہ جِس قدر انسان جِنات سے خائف رہتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ عام جِنات اِنسانوں سے ڈرتے ہیں لیکن جب اُنہیں معلوم ہُوجاتا ہے کہ یہ حضرت اِنسان خُود اِن سے خُوفزدہ ہیں تو بعض جِنات اِسکا لطف اُٹھانے لگتے ہیں اور اِنسانوں کے ذہنوں پر ایسے حاوی ہُوجاتے ہیں کہ پھر تمام عُمر اِسی خُوف کے سائے میں زندگی گُزار دیتے ہیں لیکن عمران یہ تمام مخلوق اِتنے خونخوار ہر گز نہیں ہُوتے جس قدر اِسکا چرچا کیا جاتا ہے اِنکے بھی اِحساسات ہُوتے ہیں یہ بھی مُحبت کرنا جانتے ہیں جبکہ اِنکی مُحبت کو سمجھا جائے اِنکے ساتھ مُحبت کیساتھ پیش آیا جائے اِنکی عزت نفس کا خیال کیا جائے ایک ذرا سی غلط فہمی دونوں فریقین کے درمیان دیوار حائل کئے رکھتی ہے۔ جبکہ میں چاہتا ہُوں کہ تُمہارے من سے اس خوف کو نِکال سکوں اور میری اِس آرزو میں کِسی کی التجا بھی شامل ہے، کیا تمہیں یاد ہے وہ پہلا دِن جب تُم پہلی مرتبہ میرے گھر آئے تھے اُس دِن ایک لڑکی بھی تمہارے آنے کے بعد میرے پاس آئی تھی۔
عمران بھلا کِس طرح اُس نازنین کو بھول سکتا تھا کہ جِس کے بدن کی خوشبو آج بھی عمران کے مسام دِماغ کو معطر کئے ہُوئے تھی، عمران نے نظریں جھکاتے ہُوئے عرض کیا حضور کوئی خاتون آئیں ضرور تھیں لیکن میں اُنہیں دیکھ نہیں پایا تھا میری حیا مانع رہی جسکی وجہ سے میں اُسے دیکھ نہیں پایا اور اُنکی رویت سے محروم رہ گیا۔
عمران کی بات خَتم ہُوتے ہی بابا وقاص نے زور دار قہقہہ لگاتے ہُوئے کہا، یہ بھی خُوب کہی کہ دیدار سے محروم رِہ گئے ساری زندگی جسکے ساتھ سپنوں میں سیر کرتے رہے اور جب وہ حقیقت بن کر سامنے آئی تو دیکھنے سے محروم رِہ گئے بھئی بُہت خُوب لطیفہ سُنایا عمران میاں آپ نے مُجھے، عمران ہَونقُوں کی طرح بابا وقاص کو دیکھ رہا تھا اور بابا وقاص کی بات کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا ۔ تو کیا یہ وہی لڑکی تھی جو میرے خوابوں میں شہزادی بن کر آتی رہی ہے عمران نے بابا وقاص سے سوال کیا؟
ہاں وہ وہی تھی جو پندرہ برس کی عُمر سے تُمہارے خوابوں میں آتی ہے بابا وقاص نے جواب دیتے ہُوئے کہا۔ لیکن تُم اب بھی نہیں جانتے کہ وہ کون ہے ایک زمانہ اُسکا دیوانہ ہے بڑے بڑے عامِل اُسکو پانے کی خُواہش اپنے دِل میں لئے اُسکی ایک جھلک پانے کیلئے دیوانے ہُورہے ہیں اور اِک تُم ہو جو اُسکی مُحبت سے بے خبر ہُو وَہی تو ہے جو تُمہارے اندر ایک آتش جلائے رکھتی آئی ہے جو تُمہارے بَچپن کی اِک ادا پر اپنا دِل ہارے تُم پہ فِدا ہے اُسی نے مجھ سے درخواست کی تھی کی میں تُمہارے درمیان رابطہ کی کڑی بَنُوں اور وہی تھی جو تُمہیں تُمہاری مرضی کیخلاف میرے گھر تک لائی تھی جِس نے تُمہارے لئے اپنے خاندان سے بَغاوت کی ہے جُو ہزاروں پابندیوں اور پہروں کو تُمہاری چاہ میں کِسی خَاطر میں نہیں لاتی۔
لیکن آخر وہ ہے کُون؟ مجھے کیوں چاہتی ہے میرے سامنے کیوں نہیں آتی؟ اور اُس پر کس نے پہرے لگائے ہیں اور آخر کیوں لگائے ہیں؟ عمران نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات کر ڈالے۔
بابا وقاص چند لمحے خاموش رہے گویا عمران کی بے چینی اُسکے تجسس سے لُطف اندوز ہُورہے ہُوں جب عمران کا ضبط ٹوٹنے لگا تو بابا وقاص گویا ہُوئے بیٹا اُس پر پہرے اُسکے والدین نے لگائے ہیں، رہا یہ سوال کہ وہ تُمہیں کیوں چاہتی ہے تو بیٹا مُحبت ایسا لطیف جذبہ ہے کب کِس کے دِل میں گھر بنا لے خبر نہیں ہُوتی اور جب یہ جذبہ قلب میں اپنی ماہیت کو پالیتا ہے تو دُنیا کی کوئی طاقت اِس کی بہار کو خِزاں میں تبدیل نہیں کرسکتی دُنیا کو کوئی ظلم اِسکو پَھلنے پُھولنے سے نہیں روک سکتا۔
اور بیٹا وہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے نا ہی کوئی عام سی شہزادی ہے نا ہی تُمہارے وطن سے تعلق رکھتی ہے بلکہ وہ اِک پری ہے جو قبیلہ ایمن کے ایک معزز سردار کی لخت جِگر ہے، نُور نظر ہے جِس کا حُسن بیمِثال ہے جِسکا خاندان ذیشان ہے جِسکا قبیلہ ممتاز ہے۔
(جاری ہے)
مُحترم قارئین میری کوشش ہوگی کہ یہ سچی کہانی رمضان المبارک کی آمد سے قبل ختم ہُوجائے جسکی وجہ سے میں نے اِس کہانی میں کافی اِختصار سے کام لیا ہے اگر رمضان المبارک سے قبل اِس کے اِختتام میں ناکام رہا تو اِس کا بقیہ حصہ عید کے بعد پیش کروں گا تاکہ رمضانُ المبارک میں آپ یکسوئی کیساتھ عبادت کی سعادت حاصل کر سکیں۔
چھٹا باب پریوں کی زندگی اُنکی ترجیحات اُنکی اقسام اُنکے رہن سہن اور اُنکی مشہور مُحبتوں کے افسانوں سے مُزیّن تھا جِس میں اِنکے قبائل کا بھی تفصیلی احوال پیش کیا گیا تھا تو دوسری جانب اِنکی انسانوں میں دلچسپی کی وجوہات کا بھی تذکرہ موجود تھا یہ کس طرح زمین کی سیر کرتی ہیں اور کسطرح دُنیائے زمین پر اپنے پَروں کو مخفی کر لیتی ہیں یہ مریخ اور پرستان سے آتے ہُوئے کسطرح وہاں کے کونسے جواہر لا کر یہاں کسطرح جوہریوں کو فروخت کرکے اُسکے عوض خریداری کرتی ہیں۔
کیا یہ اپنے مُحافظین کیساتھ سیر وتفریح کرتی ہیں یا تنہا سفر کرتیں ہیں۔ کیا پریوں کی انسانوں سے شادیوں کی کوئی اِمثال بھی دریافت ہوئیں ہیں، اگر انسان اور پریوں کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم ہُوجائیں تو یہ بَچے اِنسان کہلائیں گے یا جنات؟
جبکہ ساتویں باب میں بابا وقاص کے اپنی زندگی کے تجربات درج کئے گئے تھے اس میں ایک واقعہ جو ایک پری اور بابا وقاص کے درمیان مکالمے کی صورت میں تھا عمران کے لئے نہایت دلچسپی کا باعث تھا اِس کِتاب میں قاری کے لئے ایسی دلچسپ معلومات تھیں کہ شائد کوئی بھی قاری اِسے ایک مرتبہ پڑھ کر آسودہ نہیں ہُوسکتا تھا، عمران کو یوں تو تمام کِتاب ہی اپنے سحر میں جکڑے رہی لیکن چَھٹے باب کو عمران نے کئی بار پڑھا یہاں تک کہ اُسے نیند آگئی۔
حسبِ معمول جب عمران بابا وقاص کے آستانے پر پُہنچا تو خَادم حُسین عُرف ( خادم میاں) نے اُسے بتایا کہ بابا وقاص شہر کِسی کام کے سلسلے میں گئے ہُوئے ہیں اور چونکہ کل بابا وقاص کراچی جارہے ہیں اِس لئے اُنہوں نے خاص تاکید کی ہے کہ عمران سے کہنا کہ آج رات مُلاقات کیلئے ضرور آئے عمران نے کِتاب خادم حُسین کے حوالے کی اور اُسے خاص حِفاظت کی خاص تاکید کرتے ہُوئے اپنے آفس کیلئے روانہ ہُوگیا۔
عمران کا یہ پُورا دِن بھی بے چینی کی حالت میں گُزرا سارا دِن نظر گھڑی کا طواف کرتی رہی اللہ اللہ کرتے بڑی مشکل سے شام ہُوئی تو عمران نماز مغرب پڑھ کر بابا وقاص کے آستانے کیلئے چَل پَڑا دِل میں عجیب عجیب سے خیالات تھے کہ بابا وقاص سے اب بھی نجانے مُلاقات ہُو بھی پائے گی یا اُسے دوبارہ خالی ہاتھ لوٹنا ہوگا، آخر ایسی کونسی بات ہے جِسکے لئے بابا اِتنے لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں اور آخر اِس کتاب کا مجھ سے یا میری زندگی سے کیا ربط ہے کیا رشتہ ہے؟ سوالات کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا جو تسلسُل سے عمران کے دِماغ مٰیں ہلچل بَپا کئے ہُوئے تھے۔
عمران جونہی وقاص بابا کے آستانے پر پُہنچا تو کُھلے دروازے سے بابا وقاص کو برآمدے میں بیٹھا دیکھ کر اُسکی سانس میں سانس سمائی بابا نے اندر آنے کا اِشارہ کیا تو عمران نے برآمدے میں پُہنچ کر بابا وقاص کی دست بُوسی کی اور بابا وقاص کے سامنے ادب سے زانوئے تِلمذ ہوگیا، بابا وقاص نے عمران سے کِتاب پر تبصرہ کی خُواہش کا اِظہار کیا۔ جواباً عمران نے بابا وقاص سے عرض کیا بابا میری تمام زندگی کی معلومات آپ کی قُومِ اَجِنّہ پر لکھی گئی اِس نایاب کِتاب کے پانچ صفحات کے برابر بھی نہیں ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی کِتاب پڑھی تُو کُجا دیکھی بھی نہیں مجھے لگتا ہے کہ اِس کتاب کو ضرور پبلش ہونا چاہیے میری تو یہی خُواہش ہے کہ آپ اپنے فیصلے پر ایک مرتبہ ضرور نظر ثانی فرمائیں۔
اچھا تُم اِتنا اصرار کر رہے تو میں اس پر سوچوں گا لیکن عمران تُم نے میرے اِس سوال کا جواب نہیں دِیا کہ تُم اپنے خاندان والوں سے اِتنے مُختلف کیسے ہُوگئے؟ عمران کی خاموشی پر بابا وقاص نے عمران سے دوسرا سوال پوچھا اچھا یہ بتاؤ خُواب دیکھتے ہُو عمران نے بتایا کہ وہ اکثر ایک شہزادی کو اپنے خُوابوں میں دیکھتا ہے جو آتی ہے اور مجھے ہمیشہ ایک ایسی جھیل پر اپنے ساتھ لے جاتی ہے جو ایک سربفلک پہاڑ پر واقع ہے جِس پر برف کی تِہہ جمی ہے یہ خُواب میں نے اپنی زندگی میں متعدد بار دیکھا ہے اور اب تو خُواب میں بھی مجھے ہندی فلم فارمولے کی طرح پہلے ہی سے معلوم ہُوتا ہے کہ آئندہ میرے ساتھ کیا ہُونے والا ہے!
تو کیا تُمہیں بھی واقعی ایسا ہی لگتا ہے کہ تُم ہمیشُہ خُواب ہی دیکھتے ہُو؟ بابا وقاص نے اگلا سوال داغ دِیا۔
سُوتے میں جو دیکھا جائے اُسے سب خُواب ہی کہتے ہیں عمران نے جواب دیتے ہُوئے کہا،
ایسا تُمہارا خیال ہے کیونکہ رات کو سُوتے ہُوئے تُم جِس بِستر پر ہُوتے ہُو صبح اُس ہی بستر پر آنکھ کھولتے ہُو، خیر چُھوڑو اِس بحث کو رات جو کِتاب میں نے تمہیں پڑھنے کیلئے دی تھی اِسکا ایک خاص پس منظر تھا۔ عام طور پر جب لوگ جنات کا ذکر سُنتے ہیں تو خُوف زدہ ہُوجاتے ہیں حالانکہ جِس قدر انسان جِنات سے خائف رہتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ عام جِنات اِنسانوں سے ڈرتے ہیں لیکن جب اُنہیں معلوم ہُوجاتا ہے کہ یہ حضرت اِنسان خُود اِن سے خُوفزدہ ہیں تو بعض جِنات اِسکا لطف اُٹھانے لگتے ہیں اور اِنسانوں کے ذہنوں پر ایسے حاوی ہُوجاتے ہیں کہ پھر تمام عُمر اِسی خُوف کے سائے میں زندگی گُزار دیتے ہیں لیکن عمران یہ تمام مخلوق اِتنے خونخوار ہر گز نہیں ہُوتے جس قدر اِسکا چرچا کیا جاتا ہے اِنکے بھی اِحساسات ہُوتے ہیں یہ بھی مُحبت کرنا جانتے ہیں جبکہ اِنکی مُحبت کو سمجھا جائے اِنکے ساتھ مُحبت کیساتھ پیش آیا جائے اِنکی عزت نفس کا خیال کیا جائے ایک ذرا سی غلط فہمی دونوں فریقین کے درمیان دیوار حائل کئے رکھتی ہے۔ جبکہ میں چاہتا ہُوں کہ تُمہارے من سے اس خوف کو نِکال سکوں اور میری اِس آرزو میں کِسی کی التجا بھی شامل ہے، کیا تمہیں یاد ہے وہ پہلا دِن جب تُم پہلی مرتبہ میرے گھر آئے تھے اُس دِن ایک لڑکی بھی تمہارے آنے کے بعد میرے پاس آئی تھی۔
عمران بھلا کِس طرح اُس نازنین کو بھول سکتا تھا کہ جِس کے بدن کی خوشبو آج بھی عمران کے مسام دِماغ کو معطر کئے ہُوئے تھی، عمران نے نظریں جھکاتے ہُوئے عرض کیا حضور کوئی خاتون آئیں ضرور تھیں لیکن میں اُنہیں دیکھ نہیں پایا تھا میری حیا مانع رہی جسکی وجہ سے میں اُسے دیکھ نہیں پایا اور اُنکی رویت سے محروم رہ گیا۔
عمران کی بات خَتم ہُوتے ہی بابا وقاص نے زور دار قہقہہ لگاتے ہُوئے کہا، یہ بھی خُوب کہی کہ دیدار سے محروم رِہ گئے ساری زندگی جسکے ساتھ سپنوں میں سیر کرتے رہے اور جب وہ حقیقت بن کر سامنے آئی تو دیکھنے سے محروم رِہ گئے بھئی بُہت خُوب لطیفہ سُنایا عمران میاں آپ نے مُجھے، عمران ہَونقُوں کی طرح بابا وقاص کو دیکھ رہا تھا اور بابا وقاص کی بات کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا ۔ تو کیا یہ وہی لڑکی تھی جو میرے خوابوں میں شہزادی بن کر آتی رہی ہے عمران نے بابا وقاص سے سوال کیا؟
ہاں وہ وہی تھی جو پندرہ برس کی عُمر سے تُمہارے خوابوں میں آتی ہے بابا وقاص نے جواب دیتے ہُوئے کہا۔ لیکن تُم اب بھی نہیں جانتے کہ وہ کون ہے ایک زمانہ اُسکا دیوانہ ہے بڑے بڑے عامِل اُسکو پانے کی خُواہش اپنے دِل میں لئے اُسکی ایک جھلک پانے کیلئے دیوانے ہُورہے ہیں اور اِک تُم ہو جو اُسکی مُحبت سے بے خبر ہُو وَہی تو ہے جو تُمہارے اندر ایک آتش جلائے رکھتی آئی ہے جو تُمہارے بَچپن کی اِک ادا پر اپنا دِل ہارے تُم پہ فِدا ہے اُسی نے مجھ سے درخواست کی تھی کی میں تُمہارے درمیان رابطہ کی کڑی بَنُوں اور وہی تھی جو تُمہیں تُمہاری مرضی کیخلاف میرے گھر تک لائی تھی جِس نے تُمہارے لئے اپنے خاندان سے بَغاوت کی ہے جُو ہزاروں پابندیوں اور پہروں کو تُمہاری چاہ میں کِسی خَاطر میں نہیں لاتی۔
لیکن آخر وہ ہے کُون؟ مجھے کیوں چاہتی ہے میرے سامنے کیوں نہیں آتی؟ اور اُس پر کس نے پہرے لگائے ہیں اور آخر کیوں لگائے ہیں؟ عمران نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات کر ڈالے۔
بابا وقاص چند لمحے خاموش رہے گویا عمران کی بے چینی اُسکے تجسس سے لُطف اندوز ہُورہے ہُوں جب عمران کا ضبط ٹوٹنے لگا تو بابا وقاص گویا ہُوئے بیٹا اُس پر پہرے اُسکے والدین نے لگائے ہیں، رہا یہ سوال کہ وہ تُمہیں کیوں چاہتی ہے تو بیٹا مُحبت ایسا لطیف جذبہ ہے کب کِس کے دِل میں گھر بنا لے خبر نہیں ہُوتی اور جب یہ جذبہ قلب میں اپنی ماہیت کو پالیتا ہے تو دُنیا کی کوئی طاقت اِس کی بہار کو خِزاں میں تبدیل نہیں کرسکتی دُنیا کو کوئی ظلم اِسکو پَھلنے پُھولنے سے نہیں روک سکتا۔
اور بیٹا وہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے نا ہی کوئی عام سی شہزادی ہے نا ہی تُمہارے وطن سے تعلق رکھتی ہے بلکہ وہ اِک پری ہے جو قبیلہ ایمن کے ایک معزز سردار کی لخت جِگر ہے، نُور نظر ہے جِس کا حُسن بیمِثال ہے جِسکا خاندان ذیشان ہے جِسکا قبیلہ ممتاز ہے۔
(جاری ہے)
مُحترم قارئین میری کوشش ہوگی کہ یہ سچی کہانی رمضان المبارک کی آمد سے قبل ختم ہُوجائے جسکی وجہ سے میں نے اِس کہانی میں کافی اِختصار سے کام لیا ہے اگر رمضان المبارک سے قبل اِس کے اِختتام میں ناکام رہا تو اِس کا بقیہ حصہ عید کے بعد پیش کروں گا تاکہ رمضانُ المبارک میں آپ یکسوئی کیساتھ عبادت کی سعادت حاصل کر سکیں۔
0 comments:
Post a Comment