bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday, 13 December 2012

تذکِرہ اِک پری کی مُحبت کا (حصہ پنجم)۔

عمران بابا وقاص سے ملکر جب اپنے گھر پُہنچا تو اُسکے چہرے پہ خوشی کے تاثرات اُسکی بیوی سے بھی چُھپے نہ رہ سکے عمران کو کھانا پروستے ہوئے کہنے لگی کیا بات ہے آج کل بڑے خوش نظر آرہے ہیں نہ کسی سے زیادہ بات کرتے ہیں نہ ہی مجھے پہلے جیسی اہمیت دِی جارہی ہے کیا بات ہے کہیں کوئی چکر تو نہیں چَل رہا؟

عمران نے بیگم کے لہجے میں چُھپے ہوئے طنز کو محسوس کرتے ہُوئے سوچا آج اِسے بھی بَتا دینا چاہیے کہ جس انسان کو وہ ایک عام سا مرد سمجھتی ہے اُسکے عشق میں کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ ایک اعلٰی نسب کی پری گرفتار ہے ، عمران کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ اُسے بابا وقاص کی بات یاد آگئی کہ اس معاملے کو ابھی کسی پر عیاں نہیں کرنا ہے ویسے بھی عمران کو یقین تھا کہ اُس کی بیگم اِس کی بات کا کبھی بھی اعتبار نہیں کرے گی بلکہ ہوسکتا ہے وہ سارے گھر میں اسکا مذاق بنا دے کیونکہ وہ اکثر عمران سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے احساس برتری کے مرض میں مُبتلا ہوجاتی تھی اُسکا خیال تھا کہ عمران جیسے بندے سے کوئی لڑکی عشق تو کجا محبت کا اظہار بھی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ عمران کے پاس پیسہ تو تھا لیکن اِتنا سادہ طبعیت کہ اُسے فرق ہی نہیں پڑتا کہ اُس نے جو کپڑے پہن رکھے ہیں وہ استری شُدہ ہیں یا سلوٹ زدہ ہیں اور اِسٹائل تو جیسے عمران کو کبھی چُھو کر بھی نہیں گُزرا بھلا ایسے مرد میں کون بے وقوف عورت انٹرسٹ لے سکتی ہے۔

عمران نے موقع کی نزاکت کے پیش نظر اس طنزیہ سوال کا مُبہم سا جواب دیتے ہوئے کہا یہ بات تو تُم مجھ سے بہتر جاتی ہو کہ میں کسی کے عشق کے قابل کہاں!

ہاں یہ بات تو ہے! مگر چچا غالب کا وہ شعر ہے نا ۔ بےوقوفوں کی کمی نہیں غالب ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ بیگم نے بھی تُرکی بہ تُرکی جواب دیا ۔

عمران جانتا تھا کہ اِس گُفتگو کا انجام خطرناک ہونے والا تھا، لہٰذا جلد جلد لقمے مُنہ میں ڈالے اور ہاتھ مُنہ دھو کر لائٹ آف کی اور بستر پر دراز ہو کر آنکھیں موند لیں اور تصور میں اُس مہ جبیں شیریں کلام حسینہ کا جلوہ تلاش کرنے لگا جو ہمیشہ خُوابوں میں اُسکے ساتھ رہا کرتی تھی اِس ناکام کوشش میں کب عمران کو نیند آگئی پتہ ہی نہیں چلا ۔

عمران بڑی بے تابی سے دِنوں کے گُزرنے کا انتظار کر رہا تھا اللہ اللہ کرتے جب تیسرا دِن آیا تو عمران خلافِ معمول صبح سات بجے ہی بابا وقاص کے آستانے پر حاضر ہوگیا بابا وقاص کسی کتاب کا مُطالعہ کر رہے تھے عمران کو دیکھتے ہی مُسکرا کر کہنے لگے بیٹا لگتا ہے تُم رات بھر نہیں سوئے ہُو بھائی تھوڑا سا صبر مزید کرلو بس آج دوپہر تک تُمہاری مُلاقات اُس سے ہو جائے گی۔

عمران خجل سا ہو کر کہنے لگا نہیں بابا ایسی بات نہیں وہ تُو میں یہاں سے گُزر رہا تھا سوچا آپ کو سلام کرتے ہوئے جاؤں۔

اچھا بیٹا اب تُم اپنے کام پر جاؤ اور ظہر کے وقت مطلوبہ سامان کے ساتھ آجانا اور دوپہر کا کھانا بھی ہمارے ساتھ ہی کھانا عمران سلام کرتے ہوئے واپس پلٹ آیا آفس پہنچ کر کام تو خیر کیا کرتا گھڑی کا طواف نظروں سے کرتا رہا جونہی گھڑی نے دوپہر کے 12 بجنے کا اعلان کیا عمران نے موٹر بائیک نکالی اور بازار روانہ ہوگیا سب سے پہلے عمران نے مطلوبہ پرفیوم خریدا اُسکے بعد موتیا کا ایک گجرا بنوایا پھر ایک خیال کے تحت دو عدد موتیا کے کنگن بھی بنوا لئے یہاں سے فارغ ہونے کے بعد عمران شہر کی مشہور مٹھائی کی دُکان سے مٹھائی خرید کر بابا وقاص کے آستانے پُہنچ گیا جس وقت عمران بابا وقاص کے آستانے پر پُہنچا تو گھر سے لذیذ کھانوں کی مہک آرہی تھی بابا وقاص نے عمران کو دیکھتے ہوئے شُوخی سے کہا بس میاں ایک گھنٹہ اور باقی ہے تُم ظہر کی نماز پڑھ آؤ واپسی میں یا باسِطُ کا ورد کرتے ہوئے نظریں جھکائے واپس آجانا تب تک کھانا بھی تیار ہوجائے گا اور مہمان بھی آجائیں گے۔

عمران ظہر کی نماز سے سوا ایک بجے تک فارغ ہوگیا اُسکے بعد نجانے عمران کے دِماغ میں کیا سمائی کے بابا وقاص کے گھر سے دور راستہ پر ایک پُرانی کوٹھری بنی ہوئی تھی موٹر سایئکل اندر کھڑی کرنے کے بعد عمران بابا وقاص کے مکان کی جانب تکنے لگا عمران کا مقصد اگرچہ صرف اِتنا ہی تھا کہ وہ اُس مہ جبین کو ایک نظر مُلاقات سے قبل دیکھنا چاہتا تھا اور اُسکی راہ کا تعین کرنا چاہتا تھا ۔ تقریباً ایک گھنٹہ گُزر گیا مگر وہ نہ آئی عمران مجبوراً کوٹھری سے باہر آیا اور بابا وقاص کے گھر کی جانب چَل دَیا بابا وقاص کے آستانے پر پُہنچ کر جونہی عمران بابا وقاص کے سامنے آیا تو عمران کے پیروں تلے زمیں نکل گئی بابا وقاص غضبناک آنکھوں سے عمران کو گُھور رہے تھے۔

بابا وقاص گرجتے ہوئے لہجے میں عمران سے گُویا ہوئے کر آئے جاسوسی تُمہیں اگر جاسوسی ہی کرنی تھی تو کیوں بُلایا تھا اُسے۔ کِس پر شک کر رہے اُس پر یا مجھ پر، وہ روتی ہوئی چلی گئی ہے اب شائد کبھی نہ آئے لہٰذا تُم بھی اپنا سامان اُٹھاؤ اور یہاں سے چلے جاؤ اور آئندہ اپنی صورت مجھے پھر کبھی نہ دِکھانا۔

بابا وقاص اِسکے بعد ایک کمرے میں چلے گئے جبکہ عمران حیران و پریشان گُم سُم سا کھڑا تھا کہ کسی نے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔

(جاری ہے)

0 comments:

Post a Comment