bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday, 13 December 2012

تذکِرہ اِک پری کی مُحبت کا (حصہ دوئم)۔


محترم قارئین السلامُ علیکم
عمران، بابا وقاص سے مل کر جب اپنے آفس پُہنچا تو تمام دِن اِسی اُدھیڑ بَن میں سوچتے ہُوئے گُُزر گیا کہ آج کا دِن کس قدر عجیب و غریب واقعات کو خُود میں سَموئے ہُوئے تھا عمران ایک سِرا تھامتا تو دوسرا سِرا ہاتھ سے نکل جاتا کب دن ڈھلا اور کب شام کے سائے گہرے ہوگئے کچھ خبر ہی نہ ہوئی لیکن عمران ایک فیصلے پر پُہنچ چُکا تھا کہ اب وہ کِسی صورت اُس راستے سے نہیں گُزرے گا جس راستے پر بابا وقاص کا گھر موجود تھا۔

مغرب کی نَماز سے قبل عمران واک کرتا ہُوا ایک دوسرے راستے سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھا مگر جُوں جُوں عمران اپنے گھر کے نزدیک تر ہوتا چلا جارہا تھا۔ یوں محسوس ہُورہا تھا جیسے قدم من بھر کے ہوگئے ہُوں ہر قدم پر سینے پر وزن بڑھ رہا تھا جب عمران کی منزل صرف چند مزید قدموں کی دوری پر تھی تبھی عمران کے دِل میں ایک عجیب سے خیال نے جگہ بنانی شروع کردی کہ کہیں جو کچھ عمران نے آج دیکھا تھا کہیں وہ ایک خُوشنما سَپنا تو نہیں تھا کیونکہ اِس راہ سے عمران ہَزاروں مرتبہ اِس راہ سے گُزرا تھا لیکن کبھی بابا وقاص سے اِس راستے پر آمنا سامنا نہیں ہُوا تھا یقیناً یہ کوئی خُواب تھا کوئی سَراب تھا جسکا حقیقت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہُوسکتا۔ یہ خیال اتنی سرعت اور یقین سے عمران کے سینے میں موجود دِل کے راستے دِماغ میں جگہ بنانے لگا تھا کہ عمران کے قدم گھر جانے کے بجائے بابا وقاص کے گھر کی جانب خُود بَخُود اُٹھنے لگے تھے۔

اِس نئے تجسس نے عمران سے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحتیں جیسے چھین لی تھیں اور جب عمران بابا وقاص کے گھر کے نزدیک پُہنچا تو ایک ہجوم کو بابا وقاص کے گھر میں داخل ہوتے دیکھا عمران کو بھی تجسس ہُوا کہ دیکھوں آخر اس قدر لوگ بابا وقاص کے گھر میں آخر کرنے کیا جارہے ہیں عمران بھی اُن لوگوں کے پیچھے پیچھے بابا وقاص کے گھر میں داخل ہوگیا وہ لوگ اندر بِچھی دَریوں پر بیٹھ رہے تھے جبکہ کُچھ لوگ پہلے ہی سے اُن دَریوں پر بیٹھے ہُوئے تھے اور بابا وقاص سفید رنگ کے لِباس میں ملبوس مصلے پر مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔ چہرے پر موجود سفید داڑھی بھی اُنکی نورانیت میں مزید اِضافہ کئے دے رہی تھی ۔ تب عمران کو خیال آیا کہ اُس نے تُو ابھی تک نماز مغرب ادا ہی نہیں کی لہٰذا فوراً بابا وقاص کے پیچھے زمین پر بِچھی چَٹائی پر لوگوں کیساتھ نماز مغرب ادا کرنے میں مشغول ہوگیا عِمران نماز سے فراغت کے بعد لوگوں کے پیچھے آکر بیٹھ گیا جب کہ بابا وقاص کچھ وظائف پڑھنے میں مشغول رہے وظائف سے فارغ ہونے کے بعد بابا وقاص نے چہرہ لوگوں کی جانب گُھما کر سب کو سلام کیا اور لوگ بابا کے ہاتھ پر بوسہ دینے لگے بابا وقاص کے چہرے پر اِس وقت ایک عجیب سی آب و تاب تھی جو دِل کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔

عمران جب بابا وقاص کے ہاتھ پر بوسہ دینے کیلئے بڑھا تو بابا وقاص نے عمران کو کھینچ کر اپنے برابر بِٹھا لیا عمران ایک عجیب سا کیف بابا وقاص کیساتھ بیٹھنے میں محسوس کر رہا تھا آہستہ آہستہ لوگ اپنے مسائل بابا وقاص کو بتانے لگے جبکہ بابا وقاص اُن لوگوں کو کُچھ پڑھنے کیلئے بتا دیتے اور کسی پر کچھ پڑھ کے دَم کر دیتے کچھ لوگ صرف سلام کرتے ہُوئے روانہ ہورہے تھے جبکہ کچھ لوگ کچھ نذرانہ بھی پیش کر رہے تھے آخرکار یہ مرحلہ اپنے اِختتام کو پُہنچا اور عمران کے علاوہ صرف ایک دھان پان سا شخص اور باقی رہ گیا جو لوگوں کے جانے کے بعد دَریاں اور چٹائیاں سمیٹنے لگا۔

بابا وقاص نے اُس شخص کو پُکار کر اپنے پاس بُلایا اور تیز آواز میں اُس سے کہنے لگے خادم میاں ہمارے مہمان آئے ہیں اِنہیں چائے نہیں پِلاؤ گے؟ اُس دھان پان سے شخص نے اثبات میں سر ہلایا اور چائے بنانے چلا گیا۔ تب بابا وقاص نے عمران کو متوجہ کرتے ہُوئے کہا کیا بات ہے عمران میاں ہمارے پاس آنے میں یہ تردد کیسا؟ عِمران سوچنے لگا کہ کیا جواب دے اور جب کُچھ سمجھ نہیں آیا تو کہنے لگا مجھے یہ سب کُچھ بڑا عجیب سا لگ رہا ہے۔

اِسی وجہ سے ہمارے پاس نہیں آنا چاہ رہے تھے لیکن آنا تو پَڑ ہی گیا تُمہیں بابا وقاص کی اِس بات نے عمران کو مزید چُونکا دیا کہ آخر یہ تمام باتیں بابا وقاص کو ازخُود کیسے معلوم ہو جاتی ہیں۔ تبھی بابا وقاص دوبارہ گویا ہُوئے عمران میاں اپنے ذہن کو اِتنا مت تھکاؤ کہ ہم تُم سے وہ بات ہی نہ کرپایئں کہ جسکی خاطر تُہمیں تُمہاری مرضی کے بغیر دو مرتبہ یہاں لائے ہیں بس ایک بات جان لو کہ ہم تُمہارے خیر خُواہ ہیں تُمہارے دُشمن نہیں ویسے تُمہیں ایک بات اور بتانا چاہتے ہیں کہ اگرچہ ہم تُم سے عمر میں بڑے ضرور ہیں لیکن تُم ہمارے ایک رشتہ سے پیر بھائی بھی ہُو اور ہمارے پاس تُمہاری ایک امانت ہے جِسے ہَم تُمہیں سونپنا چاہتے ہیں لیکن پہلے تُمہیں ہم پر اعتبار قائم کرنا ہُوگا تبھی کُچھ بات بنے گی۔

بابا وقاص کی گُفتگو جاری تھی کہ خادم میاں چائے لیکر حاضر ہوگئے چائے کے ساتھ کُچھ بِسکٹ بھی تھے جِن سے تازگی کی مِہک اُٹھ رہی تھی، بابا وقاص نے چائے کی ٹرے اپنے پاس رکھی اور مصلے کے نیچے سے وہ تمام رقم جو نذرانے میں آئی تھی خادم میاں کو تھماتے ہُوئے کہا اس رقم سے صبح نیاز کی تیاری کرلینا اور اب تُم اپنے گھر جاسکتے ہو۔ عمران نے اپنا والٹ نکالتے ہُوئے کچھ رقم اِس میں بطور حصہ ملانے کیلئے کھولا ہی تھا کہ بابا وقاص نے ہاتھ کے اِشارے سے منع کردیا اور کہنے لگے عمران میاں ابھی نہیں پہلے اعتماد کا رشتہ بحال ہو لینے دیجئے اُسکے بعد ہم آپ سے رقم ضرور لیں گے، خادم میاں کے جانے کے بعد عمران چائے پینے لگا جبکہ بابا وقاص اُٹھ کر سامنے والے کمرے میں چلے گئے تمام گھر صبح کی طرح خالی ہوچُکا تھا بابا وقاص جس کمرے میں گئے تھے اُسکے سامنے والے کونے میں ایک بڑا سا چراغ جل رہا تھا جسکے اوپر کتابوں سے بھری ایک شیلف نظر آرہی تھی جس میں سے بابا وقاص کوئی کتاب نکال رہے تھے۔ کتاب نکال کر بابا وقاص نے کمرے کو دوبارہ کُنڈی لگائی اور یہ کتاب ایک چارپائی کے سرہانے رکھتے ہُوئے عمران سے کہنے لگے عمران میاں یہ کِتاب میں نے اپنی جوانی میں لکھی تھی تُم میری زندگی میں اُن چند اشخاص میں سے ایک ہو جنہیں میں نے یہ کِتاب پڑھنے کی اجازت دی ہے اِس کتاب کو پڑھنے کے بعد تُمہیں میری تمام باتیں با آسانی سمجھ آجائیں گی، چائے پی کر اِسے پڑھ لینا جب تک میں عشاء کی نماز ادا کرلوں، بابا وقاص نے جونہی نماز کی نیت باندھی عمران نے اُس کِتاب کا جائزہ لینا شروع کردیا یہ تقریباً دو سُو صفحات پر مُبنی کتاب تھی جو ہاتھ سے لکھی ہُوئی تھی کِتاب اگرچہ کافی اچھی حالت میں موجود تھی لیکن اِس کی بوسیدگی سے ظاہر ہُورہا تھا کہ کافی عرصہ پہلے لکھی گئی ہے یہ کِتاب انتہائی نفاست سے مُجلد کی گئی تھی جس کے سبب دور سے دیکھنے پر پبلش بُک ہی کی طرح نظر آرہی تھی اِس میں سات ابواب قائم کئے گئے تھے پہلے باب کو شروع کرتے ہی احساس ہوگیا کہ یہ قومِ اجنّہ کے موضوع پر لکھی ہُوئی کتاب تھی، کِتاب شروع کرتے ہی عمران مصنف کو داد دینے لگا کتاب کا اسلوب نہایت دلنشین انداز لئے ہُوا تھا عمران جونہی پہلے باب سے دوسرے باب کی جانب پیش قدمی کرنے لگا تو وہ اس بات کا قائل ہُوچکا تھا کہ بِلاشُبہ یہ ایک نایاب کِتاب تھی جو اِس موضوع پر لکھی گئی تھی مصنف کا انداز بیاں پڑھنے والے قاری کو ایک سحر میں جکڑے رکھتا ہے کہیں کوئی جھول نہیں، کوئی ربط ٹوٹا ہُوا نہیں تھا کہ جس سے پڑھنے والے کو تشنگی یا بُوریت کا اِحساس ہُو پہلے باب میں جنات سے متعلق بُہت اہم معلومات تھیں کہ کِس طرح جنّات اپنی غذا حاصل کرتے ہیں اُنکی پیدائش سے لیکر موت تک کے تمام حالات پر سیر حاصل گُفتگو کی گئی تھی اور اِسمیں بتایا گیا تھا کہ کن معاملات میں جِنّات کو انسانوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اِنکا مزاج انسانی مزاجوں سے کیوں اور کیسے مُختلف ہُوتا ہے، اور جِس طرح سے عام انسان جِنات سے خوفزدہ رہتے ہیں بِالکل اِسی طرح عام جِنات بھی انسانوں سے خُوفزدہ رہتے ہیں جس طرح انسانوں میں مذہبی اور غیر مذہبی لوگ ہوتے ہیں اِسی طرح قُومِ اَجِنّہ میں بھی مذہبی اور غیر مذہبی جنات ہوتے ہیں۔

اِسکے علاوہ جِناتوں کے کیا مشاغل ہُوتے ہیں، اور یہ کہاں رہنا پسند کرتے ہیں اور کس قسم کے اِنسانوں سے مانوس ہوتے ہیں علم دین کسطرح حاصل کرتے ہیں اور کیوں اَنسانوں کو تنگ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔

جبکہ دوسرے۔ تیسرے اور چوتھے باب میں اِنکی بے شُمار حِکایات درج تھیں اور جنہیں پڑھنے میں عمران اس قدر مشغول رہا کہ جب چوتھے باب کو پڑھ چُکنے کے بعد کِتاب سے نظر اُٹھا کر دیکھا تو بابا وقاص کو اپنے قریب بیٹھے پایا عمران شرمندہ سا ہوگیا، اور بابا وقاص سے عرض کرنے لگا کہ اس قدر خوبصورت اور نایاب کِتاب کو تُو مارکیٹ میں آنا چاہیے تھا مجھے یقین ہے کہ یہ کِتاب ریکارڈ بزنس کرے گی۔ کیا آپکو کوئی پبلشر نہیں مِلا جو اِس کِتاب کو چھاپتا؟ بابا وقاص نے سنجیدگی سے صرف اِتنا کہا کہ جِن پبلشروں کو اِس کِتاب کی بھنک پڑی وہ بھی بُہت مصر رہے کہ آپ ہمیں اِس کِتاب کو چھاپنے کی اِجازت دیدیں یہ کِتاب مارکیٹ میں دُھوم مچا دے گی، لیکن عمران میاں میں نے یہ کِتاب بزنس، یا اپنی شہرت کیلئے نہیں لکھی تھی بلکہ تشنہ کاموں کی پیاس بُجھانے کیلئے لِکھی تھی لیکن یار لوگ اِسے بھی کمائی کا ذریعہ بنانے میں مگن تھے سُو میری حمیت نے اِسے گوارہ نہیں کیا اور یہ کِتابیں میرے بُڑھاپے اور تنہائی کا آخری سہارا بن گئیں اور مجھے خوشی ہے کہ میری ریاضت اور میرا مُشاہدہ دُکانوں کی سَستی زینت اور نمائش بننے سے بچ گیا۔

عمران میاں مجھے معلوم ہے کہ تُم اِس کتاب کو آج ہی خَتم کرنے کے خُواہشمند ہونگے لیکن رات کافی ہُوچُکی ہے اور تُمہارے گھر والے بھی پریشان ہُورہے ہُونگے اور ابھی تُم نے عشاء کی بھی نماز قائم کرنی ہے لہٰذا تُمہیں گھر جانا چاہیے، عمران یہ سُن کر مایوس سا ہُوگیا کہنے لگا بابا میں اِس کِتاب کو مکمل پڑھنا چاہتا ہُوں اگر آپ اِجازت دیں تو میں ایک ڈیڑھ گھنٹے میں یہ کِتاب خَتم کرلونگا۔ 

بابا وقاص نے جواباً عمران کو سمجھاتے ہُوئے کہا عمران بیٹا میری یہ خُواہش نہیں ہے کہ تُم اِس کِتاب کو صرف پڑھ لو بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تُم اِس کِتاب کو سمجھ کر پڑھو تبھی اِس کتاب کی قیمت ادا ہوگی تبھی میری محنت وصول ہوگی اگرچہ میں اپنی ذاتی کِتابیں کسی کو پڑھنے کیلئے مُستعار ہرگز نہیں دیتا لیکن چُوں کہ تُم میرا عکس ہُو اسلئے میں تُمہیں یہ کِتاب ایک رات کیلئے دےسکتا ہُوں بشرطیکہ تُم مجھ سے یہ وعدہ کرو کہ اِس کِتاب کی حِفاظت امانت سمجھ کر کرو اور اِسے کِسی اور کو میری اِجازت کے بِنا پڑھنے کیلئے نہ دو گے کہو کیا میری یہ شرط تُمہیں منظور ہے؟ عِمران کو بے حد خُوشی تھی کہ بابا وقاص نے یہ نایاب کِتاب اُسے ایک رات پڑھنے کیلئے رضامندی ظاہر کردی تھی لہٰذا فوراً سے پیشتر وعدہ کرلیا کہ میں آپکے احکامات کی دِل وجان سے پاسداری کرونگا۔ اور اس کِتاب کو ایک لِفافے میں ڈال کر مُصافحہ کیلئے کھڑا ہوگیا۔

عمران جونہی بابا وقاص کے گھر سے نکل کر شاہراہ پر آیا تُو اُسے یاد آیا کہ بابا وقاص نے اُسے کسی ضروری بات کیلئے بُلوایا تھا وہ ضروری بات تو رہ ہی گئی عمران کو واپس جانا بھی مُناسب نہیں لگا لیکن آخر ایسی کیا ضروری بات ہے جس کیلئے بابا وقاص نے مجھے بُلایا تھا اور آخر اُس بات کو سمجھنے کیلئے اِس کِتاب کا مُطالعہ کیوں ضروری ہے؟ یہ ایسے سوالات تھے جنکا جواب عمران جلد از جلد جاننے کا خُواہشمند تھا لیکن عمران کو ایک بات کا یقین ضرور ہوگیا تھا کہ بابا وقاص جو بھی ہُو ایک دیندار شخص ہے اور اب اُسے بابا وقاص سے کوئی خُوف مِحسوس نہیں ہُورہا تھا نہ ہی اِس مُلاقات کے بعد اجنبیت کا اِحساس باقی رہا تھا بلکہ اِس مُلاقات کے بعد عمران کے اعتماد میں اِضافہ ہُوا تھا۔

(جاری ہے)

0 comments:

Post a Comment