بچپن سے لیکر اپنی جوانی تک میں نے ایک جُملہ اتنی
مرتبہ سُنا تھا کہ وہ جُملہ میرے ذِہن کے کِسی ایک گُوشے کے بجائے ہر ہر گوشے میں
محفوظ ہُوگیا تھا بالکل اُسی طرح کہ جِس طرح کبھی کبھار کوئی ایک ہی فائل کمپیوٹر
کے بے شُمار فولڈر میں جمع ہُوجاتی ہے۔
اور وہ جُملہ تھا کہ ،، پنجابیوں میں وفا نام کی کوئی شئے نہیں ہُوتی،، اور وجہ معلوم کرنے پر بھی ہمیشہ ایک ہی جواب مِلا کہ،، چُونکہ یہ پانچ دریاؤں کا پانی پیتے ہیں،، اسلئے یہ کبھی بھی کِسی ایک کے نہیں ہُوسکتے۔ اِنکی طبیعت میں دریا کی سی رَوانی اور سیلانی موجود رِہتی ہے۔
شاید خُدا کی بھی یہی رضا رَہی ہُو کہ وہ چاہتا ہُو کہ میں اس قُوم کی اِن بے وفائیوں پر گواہ بن جاؤں۔ شائد اِسی واسطے مجھے اتنی بار پنجاب بھیجا گیا ہُو۔ تاکہ ایک دِن گواہی کیلئے پُکارا جاؤں۔ اور اپنا بیان قلمبند کراسکوں۔ لِہذا ان مسلسل اَسفار کے باعث اَب میں بھی پنجاب کے لوگوں کی بے وفائی کا نہ صرِف قائل ہُو چُکا ہُوں بلکہ اپنے بیان پر حَلفاً قسم بھی کھا سکتا ہُوں۔ اور یہ بھی نہایت عجیب معاملہ ہے کہ بیشتر مرتبہ میں پنجاب کے کِسی نہ کِسی شہر میں مشکل کا ضرور شِکار رَہا ہُوں۔ اور اُس مشکل میں پڑنے کے بعد میں اُنکی بے وفائی کا مزید قائل ہُوتا چلا گیا ہُوں ۔
میں نے اپنی زندگی کا پہلا طویل ترین اکیلے سفر حیدرآباد سے لاہور کی طرف کیا تھا۔ اُس وقت میری عُمر صرف 15 برس تھی ۔ وہ جُمعہ کا دِن تھا ۔ لاہور اسٹیشن پُہنچنے پر مجھے معلوم ہُوا کہ میری جیب میں صرف واپسی کا کرایہ موجود ہے جو اُس وقت مبلغ 100 روپیہ ہُوا کرتا تھا۔ میں نے عافیت اِسی میں جانی کہ اسٹیشن سے واپس میرپورخاص چلا جاؤں ۔لیکن جب میں نے اُس نُوٹ کو جیب سے باہر نِکالا تو مجھے معلوم ہُوا کہ مسلسل پسینہ جذب کرنے کی وجہ سے وہ نُوٹ بھی چیتھڑوں کی شِکل اِختیار کر چُکا ہے۔ وہ نُوٹ اس قابل نہیں تھا کہ اُس سے ٹکٹ خریدا جاسکے۔ لِہذا میں اسٹیشن سے باہر نکل آیا۔اِسٹیشن کے باہر اُس وقت ایک لَسی کی دُکان ہُوا کرتی تھی جہاں پچاس برس کا ایک ادھیڑ عُمر شخص لسی بِلو رہا تھا۔ میں نے جیب سے نُوٹ نکال کر اُس بُوڑھے شخص کی طرف بڑھاتے ہُوئے اُسے بدلنے کی خُواہش کا اظہار کیا۔ اُس نے پہلے نُوٹ کی خستہ حالت دیکھی پھر مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔ کاکا میں انّا نہیں آں جے تینوں ایس سڑے نوٹ دے بدلے نواں نوٹ دیدیاں۔
لیکن دوسرے ہی لمحے اُس نے میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مجھ سے رونے کی وجہ پُوچھی۔ اور جب میں نے اُسے اپنی تمام کہانی سُنائی تو اُس نیک دِل انسان نے نوٹ تبدیل کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ بیٹا یہ نوٹ تو شائد مجھے کوئی بدل کر نہ دے۔ لیکن تم اپنے گھر خیریت سے پُہنچ جاؤ میرے لئے اِس سے زیادہ خُوشی کو کوئی بات نہیں ہُوسکتی۔ قارئین کرام یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب پٹرول سات روپے لیٹر اور بکرے کا گوشت غالباً 15 روپے کلو ہُوا کرتا تھا۔ اُس وقت 100 روپے کی قربانی دینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
بہرحال اس طرح صاحبو ۔!ہمیں ایک پنجابی کی بے وفائی کے باعث اپنے گھر واپس آنا نصیب ہُوا۔ اور میں خُوب جان گیا کہ واقعی پنجاب کے لوگ بڑے بے وفا ہُوتے ہیں۔
پھر میرا پنجاب کی سرزمین پر دوسرا پھیرا تقریباً 2 سال بعد ہُوا ۔ تب میری عُمر قریباً 17 برس تھی اور میرا ٹھکانہ چھتری چوک فیصل آبادکے عین سامنے والی مسجد کے ساتھ ملحق مدرسہ تھا۔ میں اُن دِنوں مذہبی رُجحان کے باعث گھر والوں کا نشانہ تھا۔ پھر ایک دِن میں دلبرداشتہ ہوکر سندھ کی زمین سے اپنا ناطہ تُوڑ کر انہی بے وفا لوگوں کے درمیان پُہنچ چُکا تھا۔ فیصل آباد میں جس وقت میں نے قدم رکھا اُس وقت میرے جسم پر صرف ایک لباس تھا اور جیب میں فقط پانچ سو روپے کا ایک نُوٹ تھا۔
یہاں بھی اِن پنجاب کے باسیوں نے میرے ساتھ بے وفائی کی انتہا کردی۔ اور 15 دِن میں اللہ کے اِن بندوں نے مجھے اپنی جیب سے ایک دھیلا بھی خرچنے کا موقع نہیں دِیا۔ البتہ لباس کے مُعاملے میں مجھے کامیابی حاصِل رہی وَہاں ایک صاحب آیا کرتے تھے ۔ نام تُو مجھے اُنکا یاد نہیں رَہا مگر اُن کی بازار میں کپڑے کی دُکان تھی۔ اور وہ ہر جُملے کے بعد سبحان اللہ ضرور کہا کرتے تھے۔ اُنہوں نے بھی میرے ساتھ بے وفائی کرنے کی بُہت کوشش کی وہ مُصِر تھے کہ میں اُنکی دُکان سے دو تین جُوڑے لباس کے مفت حاصِل کرلوں۔ مگر اب میں ہُوشیار ہُوچُکا تھا۔ میں نے اُنہیں خُود سے بے وفائی کا ذرا موقع نہیں دِیا۔ بلکہ غُسل خانے میں اپنا اکلوتا لباس صابن سے دُھوکر پہن لیا کرتا۔ اور وہ ہاتھ ملتے رِہ جاتے۔ البتہ وہ مجھے اکثر کھانا کھلادِیا کرتے اور اسطرح وہ بھی بے وفائی کے مرتکب ہُوتے رہے۔
پھر میں نے وہاں سے لاہور کُوچ کا پروگرام بنایا ۔ لاہور جانے سے پہلے میں نے گھنٹہ گھر والی مسجد میں بیان کیا میرا بیان سُن کر وہاں موجود ایک بدمعاش مسجد میں داخل ہُوگیا۔ اور پھر اُس نے بےوفائی کا مُظاہرہ کرتے ہُوئے مجھ پر بُوسوں کی بارش کردی۔ اُسکی دیکھا دیکھ اور لوگوں کے مزاج میں بھی بے وفائی دَر آئی اور اُنہوں نے بھی مجھے اپنے سینے سے خوب لگایا۔ اور بعد ازاں بیان ۔ مجھے پھر آنے کی دعوت دِی۔ اور جب میں نے اُنہیں بتایا کہ میرا فیصل آباد میں آج آخری دِن ہے تُو وہ بے وفا لوگ مجھ سے لپٹ کر روتے رہے۔
اُسی رات ہم نے ایک کرسچن لڑکے کو کلمہ پڑھایا اور سُو گئے ۔ مگر صبح جب آنکھ کُھلی تو معلوم ہُوا کہ کہ رات ہمارے کمرے میں چُور تشریف لائے تھے۔ جو میری جیب میں موجود اکلوتا 500 روپے کا نُوٹ بھی ساتھ لے گئے اور میرے مہربان و محسن سید ریحان عطاری لانڈھی(کراچی) والے کا قیمتی سامان بھی چُرا کر لے گئے ہیں۔ اُن کے ہاتھ کی گھڑی اور نظر کا چشمہ بھی غائب تھا۔ روانگی کا وقت قریب تھا مگر میرے پاس سوائے جسم پر پہنے لباس کے کوئی دھیلا تھا نہ پُھوٹی کُوڑی۔ یہاں بھی اِن فیصل آبادیوں نے خُوب جم کر بے وفائی کا مُظاہرہ کرتے ہُوئے ڈھیر سارے رُوپے میری جیب میں زبردستی ٹھونس دیئے۔
یہاں سے میں اسکیم موڑ لاھور پُہنچا۔ اور مسجدوں میں جا جاکر اِصلاحی بیانات کا سلسلہ قائم کرنے لگا۔ اسکیم موڑ پر ایک ڈیکوریشن کی دُکان ہُوا کرتی تھی۔ جگہ اگرچہ بُہت چھوٹی سی تھی مگر میں رات کو اُس ڈیکوریشن کی دُکان میں سُوجایاکرتا تھا۔ یہاں میرے ساتھ بین الاقوامی شہرت کے حامل باعمل نعت خُواں زاہد عطاری ساتھ ہُوا کرتےتھے۔ لاہوری فیصل آبادیوں سے بھی بڑے بے وفا ثابت ہُوئے ۔ یہاں ماڈل ٹاؤن سے ایک نوجوان محمد اقبال عطاری روزانہ کسی کام کے سلسلے میں آیا کرتے تھے۔ ایک مسجد میں میرا بیان تھا۔ جِسے سُننے کے بعد وہ میرے ساتھ ہی ہُولئے جب اُنہیں معلوم ہُوا کہ میں ایک چھوٹی سی دُکان میں رات گُزارتا ہُوں تُو اُنکی رَگِ بے وفائی بھی پھڑک اُٹھی۔ اور وہ مجھے ماڈل ٹاؤن اپنے بنگلے میں لے آئے۔ اور رات دِن میری اتنی زیادہ مہمانداری کرتے کہ بعض اوقات میں بالکل ہی بھول جاتا کہ میں لاھوری نہیں بلکہ سندھ کا میرپوری ہوں۔
ماڈل ٹاؤن کے لوگ بھی بے وفائی میں کِسی سے پیچھے نہ تھے۔ مجھے آج بھی اُن بُوسوں کا لَمس اپنی کمر اور کاندھوں پر محسوس ہُوتا ہے جو میرے بیان کے بعد ماڈل ٹاؤن کے لوگ جوق در جُوق ثبت کیا کرتے تھے۔ لاھوریوں کی بے وفائی کے یوں تُو ہزاروں قصے بیان کرسکتا ہُوں۔ مگر مجھے آج بھی وہ دِن نہیں بھولے جب لاھور کے کُچھ لوگ میرے مُرشد کے پاس کراچی پُہنچے تھے ۔وہ مجھے ہمیشہ کیلئے لاھور لیجانا چاہتے تھے۔ میں نے اُنکی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر ہی اندازہ لگالیا تھا کہ وہ اِنتہائی درجے کے بے وفا لوگ ہیں ۔ جو اِک ذرا سی مُلاقات پر اپنا دل بچھا بیٹھے ہیں۔
پنجاب والوں کی بے وفائی کے ۔ کیا کیا قصے میں آپ کو سُناؤں اگر لکھتا رہوں تُو شائد کئی رات دِن بیت جائیں ۔مگر واقعات ختم نہ ہُوں ۔مگر چلتے چلتے شہر ملتان والوں کی بے وفائی کا بھی تذکرہ کرتا چلوں۔ کیوں کہ زندگی رہی تُو باقی شہر والوں کی بے وفائیوں کا تذکرہ بھی اپنے کالموں میں کرتا ہی رہوں گا۔
ملتان میں ایک صبح میں چوک شاہ عباس پر چائے کی تلاش میں سرگرداں تھا ۔مگر مجھے کوئی چائے کی ہُوٹل نظر نہیں آئی۔ یہاں تک کہ ایک کھانے کے ہُوٹل میں بھی دو تین مرتبہ گُھوم آیا۔ مجھے یہاں سے وہاں چکر لگاتا دیکھ کر اُس کھانے کی ہُوٹل کے منیجر نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بُلا کر پُوچھا۔ باؤ جی کِسے تلاش کررہے ہو۔۔۔؟ میں نے اپنا مُدعا عرض کرتے ہُوئے کہا،، جناب چائے کی بے انتہا طلب ہُورہی ہے مگر کوئی چائے کا ہُوٹل کُھلا نظر نہیں آرہا۔ وہ منیجر یا ہُوٹل کا مالک مجھے کہنے لگا۔ لُو جی۔ آپ نے ہم سے تُو پُوچھا ہی نہیں۔۔ میں نے بڑی بیتابی سے پُوچھا۔۔ کیا آپ کے پاس چائے کا انتظام ہے۔۔؟ منیجر نے کہا کیوں نہیں باؤ جی آپ شائد کراچی سے آئے ہیں۔۔؟
میرپور خاص کو لوگ پُورے پاکستان میں بھلے نہ پہچانیں ۔ مگر سندھ والے پنجاب میں کراچی کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ لہذا میں نے بھی صرف اتنا ہی کہنے میں بھلائی جانی کہ کراچی میں تُو نہیں رِہتا۔ البتہ کراچی کے نزدیک ہی میرا شہر ہے۔ بہرحال کچھ منٹ بعد ہی چائے میری ٹیبل پر آگئی میں نے رس کیک کی فرمائش کی تو ویٹر چند لمحوں میں رس کیک بھی لے آیا ۔
چائے اور کیک رَس سے انصاف کرنے کے بعد جب میں بِل اَدا کرنے کیلئے کاؤنٹر پر پُہنچا تو اُس منیجر یا مالک نے پیسے لینے سے صاف انکار کردیا۔ میں نے حیرت سے وجہ پُوچھی تو مجھے بتایا گیا کہ وہ لوگ سِرے سے اُس ہوٹل میں چائے بیچتے ہی نہ تھے۔ میں نے شرمندگی سے کہا کہ ،، جب آپ چائے فروخت ہی نہیں کرتے تُو مجھے صاف منع کردیتے۔۔! وہ صاحب کہنے لگے واہ۔۔ جی۔۔ واہ۔۔ آپ اتنی دُور سندھ سے ملتان آئے ہیں ۔ اب اگر آپ کو چائے نہ مِلتی۔ تو آپ نے سندھ جاکر ہمارا گِلا ہی کرنا تھا لوگوں سے۔ اور ویسے بھی آپ ہمارے مہمان ہیں۔ آپ چائے کیلئے پریشان تھے ۔ اور نجانے کتنی دِیر مزید پریشان پھرتے رہتے۔ اسلئے آپکو چائے پلوا دی۔
میں وہاں سے چلتے ہُوئے سوچنے لگا کہ یار واقعی پنجاب کا تُو چپہ چپہ بے وفا لوگوں سے بھرا ہُوا ہے۔
اور آج یہ کالم لکھتے ہُوئے میرے دِل سے یہی دُعا نِکل رہی ہے کہ لوگوں نے شائد وفا کا نام بدل کر بے وفائی رکھ دِیا ہے۔ اسلئے اے میرے خُدا جیسے بےوفا پنجابی لوگ تُو نے مجھے زندگی بھر دِکھائے ہیں۔ جن میں سے شائد میں دس فیصد کا بھی ذکر نہیں کرپایا ہُوں جیسے کہ میرے انتہائی مہربان احسان الحق وارثی بھائی جنکا تعلق جھنگ سے ہے۔ اُور محمد ارسلان گجر دُونوں ہی میرے ایسے رفیق و مہربان ہیں کہ میں اُن پر جتنا بھی ناز کروں کم ہے۔
اے کاش میرے وطن کا بچہ بچہ ایسا ہی بے وفا ہُوجائے تو خُدا کی قسم یہ معاشرہ جہاں چہار سُو نفرت کے سِوا کُچھ دِکھائی نہیں دیتا ۔ یہی مُلک جنت کا نقشہ دِکھائی دے۔ اگرچہ یہ کالم اپنوں کی اِصلاح کیلئے لکھا ہے ۔ پھر بھی میرے کِسی جُملے یا عنوان سے اگر کِسی کی بھی دِل شکنی ہُوئی ہُو تو ہاتھ جوڑ کر مُعافی کا خُواستگار ہُوں اللہ کریم تمام پاکستانیوں سے عصبیت کے عفریت کو دُور فرمائے (آمین)
اور وہ جُملہ تھا کہ ،، پنجابیوں میں وفا نام کی کوئی شئے نہیں ہُوتی،، اور وجہ معلوم کرنے پر بھی ہمیشہ ایک ہی جواب مِلا کہ،، چُونکہ یہ پانچ دریاؤں کا پانی پیتے ہیں،، اسلئے یہ کبھی بھی کِسی ایک کے نہیں ہُوسکتے۔ اِنکی طبیعت میں دریا کی سی رَوانی اور سیلانی موجود رِہتی ہے۔
شاید خُدا کی بھی یہی رضا رَہی ہُو کہ وہ چاہتا ہُو کہ میں اس قُوم کی اِن بے وفائیوں پر گواہ بن جاؤں۔ شائد اِسی واسطے مجھے اتنی بار پنجاب بھیجا گیا ہُو۔ تاکہ ایک دِن گواہی کیلئے پُکارا جاؤں۔ اور اپنا بیان قلمبند کراسکوں۔ لِہذا ان مسلسل اَسفار کے باعث اَب میں بھی پنجاب کے لوگوں کی بے وفائی کا نہ صرِف قائل ہُو چُکا ہُوں بلکہ اپنے بیان پر حَلفاً قسم بھی کھا سکتا ہُوں۔ اور یہ بھی نہایت عجیب معاملہ ہے کہ بیشتر مرتبہ میں پنجاب کے کِسی نہ کِسی شہر میں مشکل کا ضرور شِکار رَہا ہُوں۔ اور اُس مشکل میں پڑنے کے بعد میں اُنکی بے وفائی کا مزید قائل ہُوتا چلا گیا ہُوں ۔
میں نے اپنی زندگی کا پہلا طویل ترین اکیلے سفر حیدرآباد سے لاہور کی طرف کیا تھا۔ اُس وقت میری عُمر صرف 15 برس تھی ۔ وہ جُمعہ کا دِن تھا ۔ لاہور اسٹیشن پُہنچنے پر مجھے معلوم ہُوا کہ میری جیب میں صرف واپسی کا کرایہ موجود ہے جو اُس وقت مبلغ 100 روپیہ ہُوا کرتا تھا۔ میں نے عافیت اِسی میں جانی کہ اسٹیشن سے واپس میرپورخاص چلا جاؤں ۔لیکن جب میں نے اُس نُوٹ کو جیب سے باہر نِکالا تو مجھے معلوم ہُوا کہ مسلسل پسینہ جذب کرنے کی وجہ سے وہ نُوٹ بھی چیتھڑوں کی شِکل اِختیار کر چُکا ہے۔ وہ نُوٹ اس قابل نہیں تھا کہ اُس سے ٹکٹ خریدا جاسکے۔ لِہذا میں اسٹیشن سے باہر نکل آیا۔اِسٹیشن کے باہر اُس وقت ایک لَسی کی دُکان ہُوا کرتی تھی جہاں پچاس برس کا ایک ادھیڑ عُمر شخص لسی بِلو رہا تھا۔ میں نے جیب سے نُوٹ نکال کر اُس بُوڑھے شخص کی طرف بڑھاتے ہُوئے اُسے بدلنے کی خُواہش کا اظہار کیا۔ اُس نے پہلے نُوٹ کی خستہ حالت دیکھی پھر مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔ کاکا میں انّا نہیں آں جے تینوں ایس سڑے نوٹ دے بدلے نواں نوٹ دیدیاں۔
لیکن دوسرے ہی لمحے اُس نے میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مجھ سے رونے کی وجہ پُوچھی۔ اور جب میں نے اُسے اپنی تمام کہانی سُنائی تو اُس نیک دِل انسان نے نوٹ تبدیل کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ بیٹا یہ نوٹ تو شائد مجھے کوئی بدل کر نہ دے۔ لیکن تم اپنے گھر خیریت سے پُہنچ جاؤ میرے لئے اِس سے زیادہ خُوشی کو کوئی بات نہیں ہُوسکتی۔ قارئین کرام یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب پٹرول سات روپے لیٹر اور بکرے کا گوشت غالباً 15 روپے کلو ہُوا کرتا تھا۔ اُس وقت 100 روپے کی قربانی دینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
بہرحال اس طرح صاحبو ۔!ہمیں ایک پنجابی کی بے وفائی کے باعث اپنے گھر واپس آنا نصیب ہُوا۔ اور میں خُوب جان گیا کہ واقعی پنجاب کے لوگ بڑے بے وفا ہُوتے ہیں۔
پھر میرا پنجاب کی سرزمین پر دوسرا پھیرا تقریباً 2 سال بعد ہُوا ۔ تب میری عُمر قریباً 17 برس تھی اور میرا ٹھکانہ چھتری چوک فیصل آبادکے عین سامنے والی مسجد کے ساتھ ملحق مدرسہ تھا۔ میں اُن دِنوں مذہبی رُجحان کے باعث گھر والوں کا نشانہ تھا۔ پھر ایک دِن میں دلبرداشتہ ہوکر سندھ کی زمین سے اپنا ناطہ تُوڑ کر انہی بے وفا لوگوں کے درمیان پُہنچ چُکا تھا۔ فیصل آباد میں جس وقت میں نے قدم رکھا اُس وقت میرے جسم پر صرف ایک لباس تھا اور جیب میں فقط پانچ سو روپے کا ایک نُوٹ تھا۔
یہاں بھی اِن پنجاب کے باسیوں نے میرے ساتھ بے وفائی کی انتہا کردی۔ اور 15 دِن میں اللہ کے اِن بندوں نے مجھے اپنی جیب سے ایک دھیلا بھی خرچنے کا موقع نہیں دِیا۔ البتہ لباس کے مُعاملے میں مجھے کامیابی حاصِل رہی وَہاں ایک صاحب آیا کرتے تھے ۔ نام تُو مجھے اُنکا یاد نہیں رَہا مگر اُن کی بازار میں کپڑے کی دُکان تھی۔ اور وہ ہر جُملے کے بعد سبحان اللہ ضرور کہا کرتے تھے۔ اُنہوں نے بھی میرے ساتھ بے وفائی کرنے کی بُہت کوشش کی وہ مُصِر تھے کہ میں اُنکی دُکان سے دو تین جُوڑے لباس کے مفت حاصِل کرلوں۔ مگر اب میں ہُوشیار ہُوچُکا تھا۔ میں نے اُنہیں خُود سے بے وفائی کا ذرا موقع نہیں دِیا۔ بلکہ غُسل خانے میں اپنا اکلوتا لباس صابن سے دُھوکر پہن لیا کرتا۔ اور وہ ہاتھ ملتے رِہ جاتے۔ البتہ وہ مجھے اکثر کھانا کھلادِیا کرتے اور اسطرح وہ بھی بے وفائی کے مرتکب ہُوتے رہے۔
پھر میں نے وہاں سے لاہور کُوچ کا پروگرام بنایا ۔ لاہور جانے سے پہلے میں نے گھنٹہ گھر والی مسجد میں بیان کیا میرا بیان سُن کر وہاں موجود ایک بدمعاش مسجد میں داخل ہُوگیا۔ اور پھر اُس نے بےوفائی کا مُظاہرہ کرتے ہُوئے مجھ پر بُوسوں کی بارش کردی۔ اُسکی دیکھا دیکھ اور لوگوں کے مزاج میں بھی بے وفائی دَر آئی اور اُنہوں نے بھی مجھے اپنے سینے سے خوب لگایا۔ اور بعد ازاں بیان ۔ مجھے پھر آنے کی دعوت دِی۔ اور جب میں نے اُنہیں بتایا کہ میرا فیصل آباد میں آج آخری دِن ہے تُو وہ بے وفا لوگ مجھ سے لپٹ کر روتے رہے۔
اُسی رات ہم نے ایک کرسچن لڑکے کو کلمہ پڑھایا اور سُو گئے ۔ مگر صبح جب آنکھ کُھلی تو معلوم ہُوا کہ کہ رات ہمارے کمرے میں چُور تشریف لائے تھے۔ جو میری جیب میں موجود اکلوتا 500 روپے کا نُوٹ بھی ساتھ لے گئے اور میرے مہربان و محسن سید ریحان عطاری لانڈھی(کراچی) والے کا قیمتی سامان بھی چُرا کر لے گئے ہیں۔ اُن کے ہاتھ کی گھڑی اور نظر کا چشمہ بھی غائب تھا۔ روانگی کا وقت قریب تھا مگر میرے پاس سوائے جسم پر پہنے لباس کے کوئی دھیلا تھا نہ پُھوٹی کُوڑی۔ یہاں بھی اِن فیصل آبادیوں نے خُوب جم کر بے وفائی کا مُظاہرہ کرتے ہُوئے ڈھیر سارے رُوپے میری جیب میں زبردستی ٹھونس دیئے۔
یہاں سے میں اسکیم موڑ لاھور پُہنچا۔ اور مسجدوں میں جا جاکر اِصلاحی بیانات کا سلسلہ قائم کرنے لگا۔ اسکیم موڑ پر ایک ڈیکوریشن کی دُکان ہُوا کرتی تھی۔ جگہ اگرچہ بُہت چھوٹی سی تھی مگر میں رات کو اُس ڈیکوریشن کی دُکان میں سُوجایاکرتا تھا۔ یہاں میرے ساتھ بین الاقوامی شہرت کے حامل باعمل نعت خُواں زاہد عطاری ساتھ ہُوا کرتےتھے۔ لاہوری فیصل آبادیوں سے بھی بڑے بے وفا ثابت ہُوئے ۔ یہاں ماڈل ٹاؤن سے ایک نوجوان محمد اقبال عطاری روزانہ کسی کام کے سلسلے میں آیا کرتے تھے۔ ایک مسجد میں میرا بیان تھا۔ جِسے سُننے کے بعد وہ میرے ساتھ ہی ہُولئے جب اُنہیں معلوم ہُوا کہ میں ایک چھوٹی سی دُکان میں رات گُزارتا ہُوں تُو اُنکی رَگِ بے وفائی بھی پھڑک اُٹھی۔ اور وہ مجھے ماڈل ٹاؤن اپنے بنگلے میں لے آئے۔ اور رات دِن میری اتنی زیادہ مہمانداری کرتے کہ بعض اوقات میں بالکل ہی بھول جاتا کہ میں لاھوری نہیں بلکہ سندھ کا میرپوری ہوں۔
ماڈل ٹاؤن کے لوگ بھی بے وفائی میں کِسی سے پیچھے نہ تھے۔ مجھے آج بھی اُن بُوسوں کا لَمس اپنی کمر اور کاندھوں پر محسوس ہُوتا ہے جو میرے بیان کے بعد ماڈل ٹاؤن کے لوگ جوق در جُوق ثبت کیا کرتے تھے۔ لاھوریوں کی بے وفائی کے یوں تُو ہزاروں قصے بیان کرسکتا ہُوں۔ مگر مجھے آج بھی وہ دِن نہیں بھولے جب لاھور کے کُچھ لوگ میرے مُرشد کے پاس کراچی پُہنچے تھے ۔وہ مجھے ہمیشہ کیلئے لاھور لیجانا چاہتے تھے۔ میں نے اُنکی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر ہی اندازہ لگالیا تھا کہ وہ اِنتہائی درجے کے بے وفا لوگ ہیں ۔ جو اِک ذرا سی مُلاقات پر اپنا دل بچھا بیٹھے ہیں۔
پنجاب والوں کی بے وفائی کے ۔ کیا کیا قصے میں آپ کو سُناؤں اگر لکھتا رہوں تُو شائد کئی رات دِن بیت جائیں ۔مگر واقعات ختم نہ ہُوں ۔مگر چلتے چلتے شہر ملتان والوں کی بے وفائی کا بھی تذکرہ کرتا چلوں۔ کیوں کہ زندگی رہی تُو باقی شہر والوں کی بے وفائیوں کا تذکرہ بھی اپنے کالموں میں کرتا ہی رہوں گا۔
ملتان میں ایک صبح میں چوک شاہ عباس پر چائے کی تلاش میں سرگرداں تھا ۔مگر مجھے کوئی چائے کی ہُوٹل نظر نہیں آئی۔ یہاں تک کہ ایک کھانے کے ہُوٹل میں بھی دو تین مرتبہ گُھوم آیا۔ مجھے یہاں سے وہاں چکر لگاتا دیکھ کر اُس کھانے کی ہُوٹل کے منیجر نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بُلا کر پُوچھا۔ باؤ جی کِسے تلاش کررہے ہو۔۔۔؟ میں نے اپنا مُدعا عرض کرتے ہُوئے کہا،، جناب چائے کی بے انتہا طلب ہُورہی ہے مگر کوئی چائے کا ہُوٹل کُھلا نظر نہیں آرہا۔ وہ منیجر یا ہُوٹل کا مالک مجھے کہنے لگا۔ لُو جی۔ آپ نے ہم سے تُو پُوچھا ہی نہیں۔۔ میں نے بڑی بیتابی سے پُوچھا۔۔ کیا آپ کے پاس چائے کا انتظام ہے۔۔؟ منیجر نے کہا کیوں نہیں باؤ جی آپ شائد کراچی سے آئے ہیں۔۔؟
میرپور خاص کو لوگ پُورے پاکستان میں بھلے نہ پہچانیں ۔ مگر سندھ والے پنجاب میں کراچی کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ لہذا میں نے بھی صرف اتنا ہی کہنے میں بھلائی جانی کہ کراچی میں تُو نہیں رِہتا۔ البتہ کراچی کے نزدیک ہی میرا شہر ہے۔ بہرحال کچھ منٹ بعد ہی چائے میری ٹیبل پر آگئی میں نے رس کیک کی فرمائش کی تو ویٹر چند لمحوں میں رس کیک بھی لے آیا ۔
چائے اور کیک رَس سے انصاف کرنے کے بعد جب میں بِل اَدا کرنے کیلئے کاؤنٹر پر پُہنچا تو اُس منیجر یا مالک نے پیسے لینے سے صاف انکار کردیا۔ میں نے حیرت سے وجہ پُوچھی تو مجھے بتایا گیا کہ وہ لوگ سِرے سے اُس ہوٹل میں چائے بیچتے ہی نہ تھے۔ میں نے شرمندگی سے کہا کہ ،، جب آپ چائے فروخت ہی نہیں کرتے تُو مجھے صاف منع کردیتے۔۔! وہ صاحب کہنے لگے واہ۔۔ جی۔۔ واہ۔۔ آپ اتنی دُور سندھ سے ملتان آئے ہیں ۔ اب اگر آپ کو چائے نہ مِلتی۔ تو آپ نے سندھ جاکر ہمارا گِلا ہی کرنا تھا لوگوں سے۔ اور ویسے بھی آپ ہمارے مہمان ہیں۔ آپ چائے کیلئے پریشان تھے ۔ اور نجانے کتنی دِیر مزید پریشان پھرتے رہتے۔ اسلئے آپکو چائے پلوا دی۔
میں وہاں سے چلتے ہُوئے سوچنے لگا کہ یار واقعی پنجاب کا تُو چپہ چپہ بے وفا لوگوں سے بھرا ہُوا ہے۔
اور آج یہ کالم لکھتے ہُوئے میرے دِل سے یہی دُعا نِکل رہی ہے کہ لوگوں نے شائد وفا کا نام بدل کر بے وفائی رکھ دِیا ہے۔ اسلئے اے میرے خُدا جیسے بےوفا پنجابی لوگ تُو نے مجھے زندگی بھر دِکھائے ہیں۔ جن میں سے شائد میں دس فیصد کا بھی ذکر نہیں کرپایا ہُوں جیسے کہ میرے انتہائی مہربان احسان الحق وارثی بھائی جنکا تعلق جھنگ سے ہے۔ اُور محمد ارسلان گجر دُونوں ہی میرے ایسے رفیق و مہربان ہیں کہ میں اُن پر جتنا بھی ناز کروں کم ہے۔
اے کاش میرے وطن کا بچہ بچہ ایسا ہی بے وفا ہُوجائے تو خُدا کی قسم یہ معاشرہ جہاں چہار سُو نفرت کے سِوا کُچھ دِکھائی نہیں دیتا ۔ یہی مُلک جنت کا نقشہ دِکھائی دے۔ اگرچہ یہ کالم اپنوں کی اِصلاح کیلئے لکھا ہے ۔ پھر بھی میرے کِسی جُملے یا عنوان سے اگر کِسی کی بھی دِل شکنی ہُوئی ہُو تو ہاتھ جوڑ کر مُعافی کا خُواستگار ہُوں اللہ کریم تمام پاکستانیوں سے عصبیت کے عفریت کو دُور فرمائے (آمین)
0 comments:
Post a Comment