bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 10 January 2013

تماشہٗ ابلیس قسط ۲

 گُذشتہ سے پیوستہ۔
فریال اُور جبران دُونوں نا صرف آپس میں کزن تھے۔ بلکہ ایک دوسرے کے بُہت اچھے دُوست بھی تھے۔ اُن کے سبھی جاننے والے اِس بات پر متفق تھے۔ کہ وُہ دُونوں ہی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رِہ سکتے تھے۔ جبکہ کُچھ لُوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ اُن دُونوں  کے سینوں میں دوستی سے ذیادہ ایک دوسرے کیلئے پسندیدگی کے جذبات پنہاں ہیں جسکا اِظہار کرتے ہُوئے دُونوں ہی کتراتے ہیں۔ یہ دُونوں اِک دِن  ایک رَشین پروفیسر کمیاب لیسنگی کے لیکچر میں شریک ہُوتے ہیں۔ جہاں فریال کا دَم گُھٹتنے لگتا ہے۔ اُور فریال جب یہ دیکھتی ہے کہ پروفیسر کی جوان سال بیٹی کِم جبران میں کُچھ ذیادہ ہی دِلچسپی لے رہی ہے۔ اُور جبران بھی کِم کے آگے بِچھا جارہا ہے۔ تو فریال جبران سے درخواست کرتی ہے کہ مجھے گھر جانا ہے۔ لیکن جبران زِندگی میں پہلی مرتبہ اُسے ٹال دِیتا ہے۔ جسکی وجہ سے فریال اکیلے ہی گھر کی جانب لُوٹ جاتی ہے۔

اب مزید پڑھیئے۔
جبران نے بنگلے کے داخلی گیٹ سے اندر دَاخل ہُوتے ہُوئے رَسٹ واچ پر نِگاہ ڈالی۔تُو اُسے احساس ہُوا کہ رات کے قریباً ۲ بجنے کو ہیں۔  رمضان خان  نے   گیٹ اندر سے لاک کرنے کے بعد واپس اپنی پُوزیشن سنبھال لی ۔جبکہ جبران یہ دُعا دِل میں مانگتے ہُوئے گلاس ڈور کر دھکیل کر بنگلے میں داخل ہُوا۔ کہ کہیں حسام انکل یا رضیہ آنٹی اُسکے انتطار میں  جاگ  نہ رہے ہُوں۔۔۔ کیونکہ جبران کے والد اعتصام خان ایک مُدت سے کافی علیل رہنے لگے تھے۔ اُور جبران کی والدہ زبیدہ خانم کے وصال کو کم وبیش پندہ برس کا عرصہ گُزر چکا تھا۔ اب تو جبران کی یاداشت میں اُسکی اَمی کے خَدوخال بھی دھندلانے لگے تھے۔ اُس کی پرورش درحقیقت حسام انکل اُور رضیہ آنٹی نے ہی کی تھی۔ اُور ڈیفینس جیسے پُوش علاقے میں رِہنے کے باوجود بھی حسام انکل نے گھر میں یہ اصول لاگو کیا ہُوا تھا۔ کہ گھر کا کوئی بھی فرد بغیر کسی  ایمرجنسی کے رات کو دس بجے کے بعد گھر میں داخل نہیں ہُوگا۔۔۔ جبران گھر میں لاڈلا اُور اکلوتا بیٹا ہُونے کی وجہ سے اکثر آدھا پُون گھنٹے کا ایڈوانٹیج اُٹھا لیا کرتا تھا۔ جِسے حسام انکل رضیہ آنٹی کی وجہ سے ہمیشہ نظر انداز کردیا کرتے تھے لیکن آج تو وُہ پُورے چار گھنٹہ لیٹ تھا۔ اسلئے  وُہ کُچھ نروس بھی ہُورہا تھا۔

بنگلے کی خاموشی بتارہی تھی کہ حسام انکل سمیت   غالباًرضیہ آنٹی بھی اُسکا انتظار کرتے کرتے  تھک ہار کر سُو چُکی ہیں۔ جبران کے ذہن میں صبح کے ہنگامے کیلئے ایک پَلان موجود تھا۔ جِس کے ذریعے اُسے رضیہ آنٹی کو صِرف اِتنا باور کرانا تھا۔ کہ رات کو علاقے میں بڑھتی ہُوئےاسٹریٹ کرائم کی وجہ سے اُسے معقول سواری نہ مِل سکی تھی۔اُور جبران کو قوی اُمید تھی۔ کہ رضیہ آنٹی یہ عُذر سُننے کے بعد ذیادہ شُور شرابہ نہیں کریں گی۔ جبران دبے قدموں جونہی لاونج سے گُزرنے لگا ۔ تُو وُہ یہ دیکھ کر ٹھٹک گیا کہ،،، فریال ابھی تک اُس کے انتظار میں صُوفہ سے ٹیک لگائے جاگ رہی ہے۔۔۔ جبران کی چھٹی حِس اُسے خبردار کررہی تھی کہ،، اگرچہ انکل اُور آنٹی کا خطرہ فی الوقت ٹَل چُکا ہے۔۔۔ لیکن فریال کا مُوڈ دیکھتے ہُوئے اُسے قَوی یقین تھا وُہ ضرور کوئی ہنگامہ کھڑا کرنے والی ہے۔

جبران نے حکمت عملی سے اُسکے آگے ہاتھ جوڑ کر تقریباً مِنمناتے ہُوئے دھیمے لہجے میں فریاد کی کہ فی الحال وُہ اِسے اِس وقت معاف کردے۔ صبح یونیورسٹی جاتے ہُوئے ہم بات کرلیں گے۔۔۔۔ فریال نے اُسکے بندھے ہاتھوں کی جانب دیکھتے ہُوئے  پیر پٹخ کر   اپنےکمرے کا رُخ کرتے ہُوئے صرف اتنا ہی کہا۔ اگر پاپا اُور مما کا اتنا ہی خیال تھا۔ تو اَپنی اُس کِم کیساتھ اتنی رات بِتانے کے بجائے دِن میں وقت گُزار لینا چاہیئے تھا۔۔۔۔

صبح یُونیورسٹی جاتے ہُوئے رضیہ آنٹی نے حسام انکل کی وجہ سے  جبران سے کوئی باز پُرس نہیں کی۔ اُور انکل کے رویے سے بھی بطاہر یہی مِحسوس ہُورہا تھا۔ کہ شائد حسام انکل  کو بھی جبران کی رات میں بنگلے سے تاخیر سے آمد کی اِطلاع نہیں ہے۔ جبران نے گھر کا ماحول سازگار دیکھ کر جلد وَہاں سے نِکلنے میں ہی اپنی عافیت جانی ۔اسلئے شائد وُہ وقت سے پہلے ہی تیار ہُوکر کار میں آبیٹھا تھا۔ فریال حسبِ معمول پندرہ مِنٹ کی تاخیر سے آئی۔۔۔۔ اُسکی سُرخ و مُتورم آنکھوں کو دیکھ کر ہی جبران کو اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ،، فریال رات بھر غصے کی وجہ سے سُو نہیں پائی ہے۔

تمام راستے جبران ہلکے پھلکے انداز میں فریال پر جُملے  کَستا رَہا۔ لیکن فریال نے خِلاف توقع ایک مرتبہ بھی پلٹ کر جواب نہیں دِیا تھا۔ اُور جبران کیلئے یہی بات تشویش کاباعث تھی۔ کیونکہ یہ بالکل انہونی رَویہ تھا فریال کا۔۔۔ ورنہ فریال کی طبیعت سے وُہ بُہت اچھی طرح واقف تھا۔ کہ وُہ ایک کے بدلے سُو سُنانے والوں میں سے تھی۔۔۔ سفر ختم ہُوچکا تھا۔ اُور وُہ یونیورسٹی میں داخل ہُوچُکے تھے۔ لیکن فریال نے نجانے ہُونٹوں پر کیسا قُفل لگایا تھا۔ جُو کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔

کلاس کے دُوران فوزیہ  کی نِگاہوں سے فریال کی بے چینی چھپی نہ رِہ سکی۔ اِسلئے پریڈ ختم ہُوتے ہی فوزیہ نے فریال کو کینٹین چل کر کافی پینے کی پیشکش کرڈالی۔ جِسے کافی پَس و پیش کے بعد فریال نے قبول کرلیا۔۔۔ کافی کا سِپ لیتے ہُوئے فوزیہ نے ایک مرتبہ پھر فریال کے سُتے ہُوئے چہرہ پر نِگاہ ڈالتے ہُوئے گفتگو کی ابتدا کی۔۔۔ فَری کیا بات ہے۔۔۔ آج تُم بُہت اَپ سیٹ نظر آرہی ہُو۔۔۔؟  میں نے تُمہارے چہرے پر آج تک ایسی اُداسی اُور بیچارگی نہیں دیکھی۔جیسی آج دیکھ رَہی ہُوں۔۔۔۔ نہیں ایسی تُو کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ فریال نے اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہُوئے جواب دِیا۔۔۔

دیکھو فَری مجھ سے جھوٹ مت بُولو۔۔۔ میں ساری دُنیا میں تُمہیں اپنی سب سے بیسٹ فرینڈ مانتی ہُوں۔۔۔ اِس لئے کم از کم مجھ سے جھوٹ ہرگز مت بُولو۔۔۔ کہتے ہیں کہ اگر من میں غم  اپنا پرچھاوَاں ڈالنے کی کوشش کرے تو اُسے دوستوں سے شئیر کرلینا چاہیئے۔ وَرنہ یہ دھیرے دھیرے ایک ناسور کی شِکل اختیار کرلیتا ہے۔ اُور مجھے لگتا ہے کہ ہم اچھے دُوست ہی نہیں بلکہ بُہت اچھے دُوست ہیں۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ تُم بھی مجھے اپنا دُوست سمجھتی ہُو یا نہیں۔۔۔ یہ جملہ ادا کرتے ہُوئے نجانے فوزیہ کے لہجے میں کیا بات تھی کہ،، فریال نے تڑپ کر  کافی کا مگ ٹیبل پر رکھ کر فوزیہ کے ایک ہاتھ کو اپنے دُونوں ہاتھوں میں تھامتے ہُوئے کہا تم ایسا کِس طرح سُوچ سکتی ہُو۔۔۔؟ تُم واقعی میری بیسٹ فرینڈ ہُو۔۔۔ اُور شائد تُم سچ کہتی ہُو کہ اپنا دُکھ دوستوں کو بتادینا چاہیئے اسلئے میں تُم سے کُچھ بھی نہیں چھپاوٗنگی۔ اتنا کہنے کے بعد فریال نے گُذشتہ رات کا تمام قصہ فوزیہ کو سُنا ڈالا ۔لیکن کم میں جبران کی دلچسپی کا تذکرہ کرتے ہُوئے فریال ایک مرتبہ پھر آبدیدہ ہُوگئی۔

فریال کی تمام کہانی کو دلچسپی سے سُننے کے بعد فوزیہ نے ہلکا سا قہقہ لگاتے ہُوئے کہا۔۔۔ بس اتنی سی بات کا تُم نے ہَوَّا بنا کر کھڑا کردیا۔ بے وقوف لڑکی اِس عُمر میں تقریباً سبھی لڑکے ایسے دِل پھینک واقع ہُوتے ہیں۔ پھر تُم نے بتایا کہ وُہ پروفیسر مذہبی انسان ہیں تو اُنکی بیٹی بھی کوئی گئی گُزری لڑکی نہیں ہُوگی کہ،، دیس بدیس میں معاشقے لڑاتی پھرے۔۔۔ آج نہیں تو کل وُہ اپنے پاپا کیساتھ رشیا چلی ہی جائے گی۔ اِس میں اتنی پریشانی کی کیا بات ہے۔۔۔ ویسے بائی دا وے آپ نے تُو شرط لگائی تھی کہ ایک ہفتے جبران سے بات نہیں کروگی۔۔۔ مگر ہمارا اندازہ دُرست تھا۔۔۔ اسلئے آپ شرط ہار چُکی ہیں۔۔۔ مگر فی الحال چُونکہ تُم ابھی کافی اَپ سیٹ ہُو ۔ اسلئے تُم سے ٹریٹ کسی اُور دِن سہی۔۔۔ فوزیہ نے فریال کا دھیان بٹانے کیلئے جان بُوجھ کر  شرط کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔

یار فوزیہ ٹریٹ جب چاہے لے لینا مگر فار گاڈ سیک میری بات کو مذاق میں مت ٹالو۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہُوں کہ،، وُہ کمیاب لیسنگی چاہے بظاہر کتنا ہی بڑا اسلامی اسکالر نظر آتا ہُو۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہ اِسکا اصلی چہرہ نہیں ہے۔ اُور وُہ ضرور کسی خاص مقصد  کے تحت ہی روس سے پاکستان آیا ہے۔۔۔ اگر تمہیں میری چھٹی حس پر ذرا بھی شک ہے۔ تُو تُم میرا اِمتحان لے لُو۔ تُمہیں بھی یقین آجائے گا۔ کہ میں خُوامخواہ شک ہر گزنہیں کررہی ہُوں۔۔۔

فوزیہ جانتی تھی کہ فریال جب کسی بات پر اٹک جاتی ہے۔ تو وُہ آسانی سے ہار نہیں مانتی ہے۔ جب تک کہ اُسے کوئی مضبوط دلیل یا مستند حوالہ نہ دِیا جائے۔۔۔ فوزیہ انہی خیالات میں اُلجھی ہُوئی تھی۔ کہ اچانک اُسکے ذِہن میں ایک آیئڈیا آیا۔ اگرچہ اِس ترکیب سے اُسکی اپنی ساکھ کے مُتاثر ہُونے کا خطرہ تھا۔ لیکن فریال کو اِس صورتِ حال سے نِکالنے کا ایک یہی بہترین طریقہ تھا۔ جسکے ذریعے سے وُہ فریال پر ثابت کرسکتی تھی۔ کہ ہر مرتبہ چھٹی حِس صحیح کام نہیں کرتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھار انسان اپنے خُوف کے سبب بھی اپنے من میں کہانی تراش لیا کرتا ہے۔

ٹھیک ہے فریال میں ابھی ثابت کرسکتی ہُوں کہ تُمہاری چھٹی حِس  غلط بھی ہُو سکتی ہے۔۔۔ فوزیہ نے حتمی لہجے میں  فریال کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ اُوکے میں تیار ہُوں۔۔۔ فریال نے بے پرواہی سے کافی کے خالی مگ کو گھماتے ہُوئے سپاٹ لہجے میں فوزیہ کو جواب دِیا۔

چلو تو پھر مجھے یہ بتاوٗ کہ،، میں کیسی لڑکی ہُوں۔۔۔؟ میرا مطلب ہے کہ  میں سچی ہُوں  یا جُھوٹی لڑکی ہُوں۔۔۔؟ فوزیہ نے فریال کی جانب دیکھتے ہُوئے اپنے ہاتھوں کے پیالے میں اپنا چہرہ سجا لیا۔

فریال نے چند لمحے کی خاموشی اختیار کرلی۔۔۔ جیسے وُہ اپنے من میں کوئی فیصلہ کررہی ہُو۔۔۔ پھر اُسکے چہرے پر اطمینان سا پھیل گیا جیسے وُہ کسی نتیجے پر پُہنچ گئی ہُو۔۔۔ دیکھ فوزی ہُوسکتا ہے کہ میرا تمام تجزیہ بالکل بکواس ہُو۔۔۔ اسلئے پہلے مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر میری بات غلط بھی ثابت ہُوجائے ۔تو بھی تُم میری جانب سے اپنے من کو میلا نہیں کروگی۔ کیونکہ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ میں جو کچھ بھی اکثر و بیشتر  سُوچتی ہُوں۔ وُہ سب کُچھ بالکل پرفیکٹ ہُوتا ہے۔ حالانکہ بعض اُوقات واقعات بالکل مُخالف نظر آتے ہیں۔ لیکن انجام بلاآخر وہی ہُوتا ہے جسکا میرے دِل میں خدشہ ہُوتا ہے۔ اِسلئے آج میں اِس اِمتحان سے ضرور گُزرنا چاہُونگی۔۔۔


 میری جان میں تُم سے وعدہ کرتی ہُوں کہ میں تُمہاری کسی بھی بات کا بُرا نہیں مَناونگی۔۔۔ بلکہ میں تُمہار ا ٹیسٹ بھی صرف اِس نقطہ نظر کے تحت لے رہی ہُوں۔ کہ تمہیں واہموں کی دُنیا سے باہر نِکال سَکوں۔

تھینکس فوزی میں بھی وعدہ کرتی ہُوں کہ اگر آج میں تُم کو مطمئین نہ کرپائی تُو آئیندہ اپنے دِل میں کوئی وسوسہ نہیں پالونگی۔۔۔ ہاں تو اب میں تُمہارے سوال کا جواب تُمہاری اجازت سے دینا چاہتی ہُوں۔۔۔ سُنو فوزی تُم مجھے یُونیورسٹی میں پہلے  دِن سے ہی بُہت پسند ہُو۔ اُور میرے خیال میں تُم ایک مخلص اُور سچی لڑکی ہُو۔ سب کا خیال رکھنے والی اُور نہایت سُوچ سمجھ کر نپی تُلی گفتگو کرنے والی  لڑکی ہُو۔ مگر تم جب بھی اپنے اِسٹیسس کی بات کرتی ہُو۔ تب مجھے پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے ۔جیسے تُم کُچھ چھپانے کیلئے جھوٹ بُول رہی ہُو۔ تُم ہمیشہ اپنے خُوبصورت  اُور عالیشان گھر کا تذکرہ کرتی ہُو۔ لیکن میں جب بھی اُس عالیشان گھر کو اپنے تصور میں لانے کی کوشش کرتی ہُوں ۔تب ہمیشہ میرے تصور میں ایک کچی بستی کا ٹوٹا پُھوٹا گھر ہی نجانے کیوں نظر آتا ہے۔ تُم کہتی ہُو کہ تُمہارے پاپا کا گرم مصالحہ جات کا بزنس ہے۔ جبکہ مجھے ایسے لگتا ہے۔ کہ تُمہاری گاڑی کا شوفر ہی تُمہارا والد ہے۔ اُور مجھے تُو  وُہ گاڑی بھی تُمہاری ذاتی نہیں بلکہ کوئی ٹیکسی نظر آتی ہے۔

فریال نے ایک لمحے کیلئے  ٹہر کر اپنی گُفتگو کا رِی ایکشن دیکھنے کیلئے فوزی کا چہرہ دیکھا۔۔۔ تو۔۔۔ اُسکو فوزی کی آنکھوں میں بے شُمار جھلملاتے آنسو دِکھائی دیئے۔ جو  آہستہ آہستہ آنکھوں کے کنارے سے بہتے ہُوئے چپکے چپکے اُسکے دامن کو تر کررہے تھے۔ سُوری فوزی مجھے معاف کردینا۔ نجانے میں جذبات میں بِہہ کر تُم سے کیا کُچھ کہہ گئی۔۔۔ فریال نے گھبرا کر فوزی کو اپنے سینے سے لگاتے ہُوئے کہا۔۔۔ نہیں فریال تُمہاری زُبان سے نِکلا ہُوا ایک ایک لفظ سچ ہے۔ اُور اب مجھے اِس بات کو قبول کرنے میں ذرا بھی تامُل نہیں ہے۔ کہ تُمہاری چھٹی حس واقعی لاجواب ہے۔ فوزیہ نے رندھی ہُوئی آواز میں فریال کو خُود سے مزید لِپٹاتے ہُوئے جواب دِیا۔

جاری ہے۔۔۔


3 comments:

  1. MashAllah ..
    boht achi qist...next ka intezar rhy ga

    ReplyDelete
  2. شُکریہ کاشف بھائی انشاٗاللہ مزید بہتری کا طلبگار ہُوں اُور کوشش کررہا ہُوں کہ اِس میں مزید دلچسپی کا سامان پیدا ہُوجائے

    ReplyDelete
  3. MashaALLAH...Bohat khoob...aap hamesha enda aisa kerty hein k dil kerta hae k agli qist subha hee aa jaey...

    ReplyDelete