شیخ و زاہد کی تمنا بھی یہی ہے۔ کہ عبادت کے عوض حُور جنت ہاتھ
آجائے۔ تو ہر گنہگار و اَبرار بھی حُوروں کا طلبگار نظر آتا ہے۔۔۔ کیونکہ دُنیا کی
عورت کی جوانی ایک نہ ایک دِن ڈھل ہی جاتی ہے۔۔۔ اُسکا حسن مانند پڑ ہی جاتا
ہے۔۔۔ اگر نہانے سے باز رہے۔ تو جسم بدبو دینے لگتا ہے۔ اگر سر کی صفائی نہ کرے تو
بالوں میں جوئیں پیدا ہُوجاتی ہیں۔۔۔مرض حیض بھی اِسمیں موجود ہے۔۔۔ کھانے پینے کے
بعد جسم سے غلاظت کا اخراج بھی ہُوتا ہے۔۔۔۔جبکہ حُوریں اِن تمام کثافتوں سے
غلاظتوں سے پاک ہیں۔ حُوروں کے ذکر ہی سے بندے کی طبیعت میں اُن سے مُلاقات کی
خاہش انگڑائی لیکر جاگنے لگتی ہے۔۔۔ اِن کی طلب بعض مَردوں کو گناہوں سے
رُوک کر نیکی کی جانب متوجہ کردیتی ہے۔ کہ،، حوریں،، صرف مومنین کیلئے ہیں۔۔۔۔
گنہگاروں کیلئے نہیں۔۔۔ جب تک کہ وُہ اپنے گناہُوں کی سزا نہ پالیں۔
قران مجید میں حوروں کا تذکرہ آتا ہے۔۔۔
ان میں عورتیں ہیں عادت کی نیک صورت کی اچھی ﴿۷۰﴾
تو اپنے رب کی کونسی نعمت جھٹلاؤ گے، ﴿۷۱﴾ حوریں ہیں خیموں میں
پردہ نشین ﴿۷۲﴾ تو اپنے رب کی کونسی نعمت جھٹلاؤ گے، ﴿۷۳﴾
ان سے پہلے انہیں ہاتھ نہ لگایا کسی آدمی اور نہ کسی جِن نے، ﴿۷۴﴾
تو اپنے رب کی کونسی نعمت جھٹلاؤ گے ﴿۷۵﴾ تکیہ لگائے ہوئے سبز
بچھونوں اور منقش خوبصورت چاندنیوں پر، ﴿۷۶﴾ تو اپنے رب کی کونسی
نعمت جھٹلاؤ گے، ﴿۷۷﴾ بڑی برکت والا ہے تمہارے رب کا نام جو عظمت اور بزرگی والا،
﴿۷۸﴾
سورہ الرحمن۔
اور سورہ واقعہ میں اِرشاد ہُوتا ہے۔۔۔
اور بڑی آنکھ والیاں حوریں ﴿۲۲﴾ جیسے چھپے رکھے ہوئے
موتی ﴿۲۳﴾
صلہ ان کے اعمال کا ﴿۲۴﴾ اس میں نہ سنیں گے نہ کوئی بیکار با ت نہ گنہگاری ﴿۲۵﴾
ہاں یہ کہنا ہوگا سلام سلام ﴿۲۶﴾
بیشک ہم نے ان عورتوں کو اچھی اٹھان اٹھایا ﴿۳۵﴾
تو انہیں بنایا کنواریاں اپنے شوہر پر پیاریاں، ﴿۳۶﴾
انہیں پیار دلائیاں ایک عمر والیاں ﴿۳۷﴾ دہنی طرف والوں کے
لیے، ﴿۳۸﴾
جبکہ احادیث مبارکہ میں بھی حوروں کا کثرت سے ذکر آیا ہے۔ حصول
برکت کیلئے ایک بخاری شریف کی حدیث کا حصہ پڑھیں۔
اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت (حُور) زمین کی طرف رخ کرے
تو وہ تمام فضا کو جو آسمان اور زمین کے بیچ میں ہے روشن کردے گی، اور اس کو خوشبو
سے بھردے گی، اور بے شک اس کا دوپٹہ جو اس کے سر پر ہے تمام دنیا و مافیہا سے
اعلیٰ و افضل ہے۔ (صحیح بخاری باب جہاد و السیر)
جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں
ترجمہ:جنت میں ایک حور ہے جس کا نام لعبۃ ہے اگروہ اپنا لعاب دہن
(کڑوے) سمندر میں ڈالدے توسمندر کا تمام پانی شیریں ہوجائے، اس کے سینے پریہ لکھا
ہوا ہے: جوشخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کومیرے جیسی حور ملے تواس کوچاہئے کہ میرے پروردگار
کی فرمانبرداری والے اعمال کرے۔
اسلاف رحم اللہ اجمعین کی کتب سے حوروں کے واقعات۔
حضرت عطاء سلمی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ
سے فرمایا: اے ابویحییٰ ہمیں (نیک اعمال کرنے کا) اور جنت میں جانے کا شوق دلائیں؟
توانہوں نے فرمایا: اے عطاء! جنت میں ایک حور ہے۔ جس کے حسن پر جنتی مرتے ہوں گے
اگراللہ تعالیٰ جنت والوں کے لیے زندہ رہنے کا فیصلہ نہ کردیتا۔ تووہ اس کے حسن
کودیکھ کرہی مرجاتے۔ چنانچہ حضرت عطاء حضرت مالک کی اس بات کوسننے کے بعد چالیس
سال تک رنجور اور غمگین رہے۔
(حلیۃ ابونعیم:۶/۲۲۱۔ حادی الارواح:۳۰۵)
حضرت ابوسلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عراق میں
ایک نوجوان بہت عبادت گزار تھا وہ ایک مرتبہ ایک دوست کے ساتھ مکہ مکرمہ کے سفر
پرنکلا، جب قافلہ کہیں پڑاؤ کرتا تھا تویہ نماز میں مصروف ہوجاتا تھا اور جب وہ
کھانا کھاتے تھے تویہ روزہ دار ہوتا تھا۔ سفر میں جاتے آتے وقت تک اس کا وہ دوست
خاموش رہا۔ جب اس سے جدا ہونے لگا تواس سے پوچھنے لگا ۔اے بھائی! مجھے یہ توبتاؤ
میں نے جوتجھے اتنا ذیادہ عبادت میں مصروف دیکھا ہے۔ اس پرتمھیں کس بات نے
برانگیختہ کررکھا ہے۔۔۔؟ اُس نے بتایا کہ،، میں نے نیند میں جنت کے محلات میں سے
ایک محل دیکھا ہے۔ جس کی ایک اینٹ سونے کی تھی۔ اور دوسری چاندی کی تھی۔ جب
اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ تواس کا ایک کنگرا زبرجد کا تھا تودوسرا یاقوت کا ان
دونوں کے درمیان حورعین میں سے ایک حور کھڑی تھی۔ جس نے اپنے بالوں کوکھول رکھا
تھا۔اس کے اوپر چاندی کا لباس تھا ۔جب وہ بل کھاتی تھی تواس لباس میں بھی بل
پڑجاتے تھے۔ اس نے (مجھے مخاطب کرکے) کہا،، اے خواہش پرست!اللہ عزوجل کی طرف میری
طلب میں کوشش کر۔۔۔ اللہ کی قسم! میں تیرے طلب میں روز بروز نئے نئے طریقوں سے زیب
وزینت کیے جارہی ہوں۔۔۔ چنانچہ یہ محنت جوتم نے دیکھی ہے۔ اس حور کی طلب کے لیے
ہے۔ حضرت ابوسلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ نے (یہ حکایت بیان کرکے) فرمایا یہ اتنی
ساری عبادت توایک حور کی طلب میں ہے۔ اب اس شخص کی عبادت کی کیا حالت ہونی
چاہئے جو اس سے زیادہ کا طلبگار ہو۔
(صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۵۴)
حور کی طلب میں کوئی ملامت نہیں
حضت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کوان کے شاگردوں نے شدت خوف اور کثرت
مجاہدہ میں دیکھا توعرض کیا: اے شیخ! اگرآپ اس مجاہدہ کوکچھ کم کریں گے توبھی اپنی
مراد کوپہنچ جائیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ، فرمایا کیونکر میں پوری کوشش نہ کروں
میں نے سنا ہے کہ اہل جنت اپنی منزل میں ہوں گے کہ ان پرایک بہت بڑا نور ظاہر ہوگا
اور اس کی رونق اور شدت روشنی کی وجہ سے آٹھوں جنتیں روشن ہوجائیں گی اور اہل جنت
سمجھیں گے کہ یہ نور اللہ کی جانب سے ہے اور سجدہ میں گرپڑیں گے اس وقت ایک منادی
آواز دے گا کہ اپنے سراٹھاؤ یہ وہ نور نہیں ہے جس کا تمھیں گمان ہوا، یہ ایک حور
کے چہرہ سے نورچمکا ہے جواپنے خاوند کے سامنے مسکرائی ہے اور اس کے مسکرانے سے یہ
نور ظاہر ہوا ہے۔
تواے بھائیو! جوشخص خوبصورت حور کے لیے مجاہدہ کرے اسے توملامت نہیں
کی جاتی، وہ شخص جوخدا کا طالب ہے اس کے مجاہدہ پرکیا ملامت ہے؟
بُہت سے لُوگ دُنیا میں اِس طرح کے عہد وپیمان کرلیتے ہیں۔۔۔ کہ اگر
ہم دُنیا میں نہیں مِل سکے۔ اُور ہماری شادی کسی دوسرے انسان سے ہُوگئی ۔ تو
ہم کم از کم جنت میں ضرور ایک دوسرے کے شریک بنیں گے۔۔۔ علماٗ کرام ایسے عہد و
پیمان کو جائز قرار نہیں دیتے ۔۔۔ کیونکہ کنواری لڑکی تو جنت میں کسی شادی شُدہ
انسان کو مِل سکتی ہے۔۔۔۔ لیکن جنت میں بیوی اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہے گی۔۔۔
اور جنت کی حوروں کی سردار ہوگی۔۔۔ البتہ یہ ممکن ہے ۔کہ،، کسی خاتون کے ایک سے
زائد نِکاح ہُوئے ہُوں۔ تو اللہ کریم اپنے خاص فضل سے اُسے اُن شوھروں میں سے کسی
ایک کو چننے کی اجازت عطا فرمادے۔ یا اُن دونوں میں جو ذیادہ متقی اور پرہیز گار ہُو۔ اُسکی خاہش کا لحاظ رکھا جائے۔ ویسے جنت میں رہنے والوں میں نہ سفلی خواہشات ہُونگی۔نہ حسد ہُوگا۔اُور نہ ہی رقابت کا جذبہ ہُوگا۔۔۔ جنت میں سب کی عمر اور قد یکساں ہوگا اور بدن
نقائص سے پاک، شناخت حلیہ سے ہوگی، جن خواتین کے شوہر بھی جنتی ہوں گے وہ تو اپنے
شوہروں کے ساتھ ہوں گی اور حورِ عین کی ملکہ ہوں گی اور جن خواتین کا یہاں عقد
نہیں ہوا ان کا جنت میں کسی جنتی مَرد سے عقد کردیا جائے گا۔بہرحال دنیا کی
جنتی عورتوں کو جنت کی حوروں پر فوقیت ہوگی۔
چُنانچہ مدنی تاجدار ہم غریبوں کے غمخوار و مددگار کریم آقاﷺ سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں ۔ وہ فرماتی ہیں کہ"میں نے رسول اللہﷺ نے پوچھا، یارسول اللہ، دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟حضورﷺ نے جواب دیا، دنیا کی عورتوں کو حوروں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ابرے کو استر پر ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کس بنا پر؟ فرمایا اس لیے کہ ان عورتوں نے نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھےہیں اور عبادتیں کی ہیں۔"(طبرانی)۔
چُنانچہ مدنی تاجدار ہم غریبوں کے غمخوار و مددگار کریم آقاﷺ سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں ۔ وہ فرماتی ہیں کہ"میں نے رسول اللہﷺ نے پوچھا، یارسول اللہ، دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟حضورﷺ نے جواب دیا، دنیا کی عورتوں کو حوروں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ابرے کو استر پر ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کس بنا پر؟ فرمایا اس لیے کہ ان عورتوں نے نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھےہیں اور عبادتیں کی ہیں۔"(طبرانی)۔
اِن تمام باتوں سے ایک مسئلہ تو خُوب واضح ہُوگیا۔کہ،، دُنیا کی
مُومن عورت حُوروں سے بھی افضل ہُوگی۔۔۔ اُور دُنیا کی یہی موٗمنہ عورت جسے
دُنیا میں نقص بدن کیساتھ دُنیا کی تمام غلاظتوں سے جنت میں پاکی
حاصل ہُوجائے گی۔ اُور دُنیا میں جتنے بھی نقص عورتوں میں پائے جاتے ہیں۔ اُن
نقائص میں سے ایک بھی نقص عورت میں باقی نہیں بچے گا۔۔۔ اُور جنت میں اُسکا مرتبہ
حوروں سے بھی افضل ہُوجائے گا۔۔۔ تو ہم کیوں اِن جیتی جاگتی حوروں کی قدر نہ
کریں۔۔۔۔ جنہیں اللہ کریم نے اپنی خاص عطا سے بغیر نیک اعمال کئے بھی ہمیں انعام
میں سُونپ دِیا ہے۔
لیکن شائد ہمیں اِن دُنیاوی حوروں کی اِسی لئے قدر نہیں ہے۔ کہ نہ
ہمیں اِنہیں پانے کیلئے مشقت کرنی پڑتی ہے۔۔۔ اور نہ ہی تقویٰ ، و زُہد کی راہ
اپنانی پڑتی ہے۔۔۔ بلکہ ہمیں یہ تھوڑے سے حق مہر کے عوض آسانی سے حاصل
ہُوجاتی ہیں۔۔۔۔ جسکی وجہ سے ہم اِنکی قدر نہیں کرپاتے۔ اِنکے احسانات کو جانچ
نہیں پاتے۔۔۔کہ کسطرح صبح اُس وقت جب ہم بستر پر خواب غفلت میں پڑے ہُوتے
ہیں۔۔۔ وُہ کتنی خاموشی سے نرم بستر کو چھوڑ کر اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے
کیلئے تیاری میں خاموشی سے مگن ہُوجاتی ہے۔۔۔ کسطرح ہمارے جاگنے سے قبل
ناشتہ کا اہتمام کرتی ہے۔ اُور کسطرح بکھرے ہُوئے گھر کی ایک ایک شئے
کو اپنے سلیقے سے ہنرمندی سے ایک نئی زندگی بخش دیتی ہے۔ اُور جب ہم مَرد
حضرات رزق کی تلاش میں گھر سےباہر نِکل جاتے ہیں۔ تو کس طرح وُہ ہمارے
شریر بچوں کی نگہداشت میں اپنی خوشیوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی زندگی
کا ایک ایک لمحہ نثار کردیتی ہیں۔۔۔
مانا کہ،، جنت کی یا اُس میں رہنے والی حور کی تحقیر سے کفر
لازم آتا ہے۔۔۔ لیکن کیا ہم جس طرح دُنیا کی اِن حوروں کے چہروں پر
طمانچے ، کردار پر کیچڑ، اُور کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔۔۔ کبھی سر
بازار اور کبھی بند کمروں میں اِنہیں اِیذا دیتے ہیں۔۔۔۔ کفر نہ سہی گناہ کا کوئی
ادنی سا احساس بھی ہمارے ضمیر کے آئینے کو جھنجوڑنے کیلئے دِل کے کسی نہاں خانے
میں ارتعاش کا باعث بنتا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ یا ہم اُنکی خواہشات کا گلا گھونٹ کر۔ اُور
اُنکے جذبات کو پامال کرتے ہُوئے گُزر جاتے ہیں۔۔۔؟؟ کیا دُنیا کی اِن حوروں
کو ایذا دینے والوں کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ،، جب حوروں کی ملکہ کا ہی آبگینہ
دِل زخموں سے تار تار ہُوگا۔۔۔۔ تو جنت کی حوریں تو اِن مومنہ حوروں کی تابع
ہُونگی۔ وُہ کس طرح اپنی ملکہ کو ایذا دینے والوں کو خوشی کا ساماں دیں گی۔۔۔۔ کاش
حوروں کی طلب میں رات دِن شمع کی طرح پگھلنے والوں کو یہی ایک نکتہ سمجھ آجائے۔۔۔
Asslam-o-alykum
ReplyDeleteBHAI ab tu aik dou shadiyan our karni parhin gi ta k ziyada huron ki sardar apnay hissay main aa jain. leykin agar dunya ki in huron nay aik dosray ko bardasht nahi kia to yay dunya jahannam our yay hurein churail lagnay lagin gi.
ha ha ha....
السلامُ علیکم
ReplyDeleteصحیح فرمایا اُویس بھائی آپ نے کہ اِن حوروں کی ملکاوٗں کو ہی اپنی اہمیت و مقام کا اِدراک نہیں ہے۔
انکی بے قدری میں انکی آگہی کے فقدان کا بڑا ہاتھ ہے۔
کاش یہ جذباتیت کے بجائے اللہ کریم کی رضا کو پیش نظر رکھیں، اپنی اہمیت کو جانیں، بیلنوں سے اجتناب کریں۔ اُور آپس کی چپقلش سے اپنے قلوب کو محفوظ رکھیں۔۔۔ تو واقعی ہمیں بھی چار والا آپشن میسر آسکتا تھا۔ مگر یہ ملکائیں تو دوسری ملکاوٗں کو اپنے اردگرد برداشت ہی نہیں کرسکتیں۔ جب کہ یہ ملکائیں کل قیامت میں سینکڑوں کنیزوں کو برداشت کرلیں گی۔۔۔ ہے نا سوچنے کی بات۔۔۔؟؟؟
:D