bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday 11 March 2013

یہ عشق نہیں آسان. !!!.


بابا آپ جو کہیں گے میں آپکے قدموں میں لاکر ڈال دُونگی۔ چاہیں تو مجھ سے  ابھی یہ سُونے کے کنگن لے لیں۔ لیکن خُدا کیلئے  فرزاد کو میرا بنادیں۔۔۔ اُس نے اپنے  ایک ہاتھ میں پہنے خُوبصورت سُونے کے  کنگن کی طرف اِشارہ کرتے ہُوئے  اُسے اپنی کلائی سے اُتارنے کی کوشش کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ بابا وقاص کافی دیر سے  نظریں جھکائے ۔اُسکی دُکھ بھری گفتگو سُننے میں ایسے منہمک تھے۔ کہ،، وُہ  دیکھ ہی نہیں پائے۔ کہ کب اُس بیس برس کی انتہائی حسین دُوشیزہ نے اپنی کلائی سے سُونے کا قیمتی کنگن اُتار کر اُنکی جانب بڑھادیا ہے۔

اُس کےقیمتی لباس اُور  اُسکے رکھ رکھاوٗ سے صاف ظاہر ہُورہا تھا۔ کہ وُہ کسی مالدار شخص کی بیٹی ہے۔ جسکی نِگاہوں میں لاکھ دُو لاکھ روپیہ  کی کوئی وقعت ہی نہیں تھی۔ اُس نے اپنا نام عنادِل بتایا تھا۔جب اُس نے بابا وقاص کے سامنے کنگن کو کئی مرتبہ لہرایا۔ تو بابا صاحب نے چُونک کر اپنی گردن اُٹھا کر اُسے دیکھ کر کہا۔ بیٹا یہ کنگن  میرے کسی کام کا نہیں ہے۔  لِہذا یہ کنگن واپس  اپنی کلائی میں ڈال لُو۔ کیونکہ ہمارے یہاں بیٹیوں کو کنگن پہنانے کا رواج ہے۔ اُنکی کلائیوں کو سُونی کرنے کا ہرگزنہیں ہے ۔

نہیں بابا جی !یہ کنگن میں اپنی خُوشی سے آپ کو دے رہی ہُوں۔۔۔ آپ چاہیں تو اِسے اپنی کسی بیٹی کو تحفہ میں دے دیجئے گا۔ اُس نے دوبارہ اِصرار کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔ تُمہارا مطلب ہے کہ ایک بیٹی کا حق چھین کر دُوسری بیٹی کو سُونپ دُوں۔۔۔ ویسے خُوشی اُور مجبوری میں جو ذرا سا فرق ہُوتا ہے۔ میں اُسے تُم سے بہتر جانتا ہُوں۔۔۔ اِس لئے اِسے واپس رکھ لو۔۔۔۔ اُور یقین رکھو جب  احمد وقاص نے تُمہیں بیٹی کہا ہے۔ تو یہ باپ ہُونے کا حق بھی ضرور اَدا کرے گا۔بابا وقاص کے اپنایت بھرے لہجے نے اُس دُوشیزہ کے چہرے پر تفکرات کی لکیروں کو خاطر خواہ کم کردیا تھا۔ بابا وقاص کے سمجھانے پر  عنادِل نے وُہ کنگن واپس اپنی کلائی میں چڑھالیا تھا۔ پھر تھوڑی دیر تک وُہ مزید بابا صاحب کی خدمت میں حاضر رہنے کے بعد واپس لُوٹ گئی۔

اُسکی آمد سے قبل میں بابا صاحب سے  رَب کی محبت  سے متعلق ہی استفسار کررہا تھا۔۔۔ پھر جب وُہ آئی تو ماحول ہی بدل گیا۔ کیونکہ اُسکی کہانی ہی ایسی تھی۔ کہ میری آنکھوں میں بھی آنسو اُمڈ آئے تھے۔۔۔ اگرچہ وُہ اپنے والدین کی اکلوتی اُولاد تھی۔ لیکن اُس دوشیزہ کے والد کسی  بازاری عورت پر عرصہ دراز سے فریفتہ تھے۔جسکی وجہ سے اُنکے  گھر میں دُنیا بھر کی نعمتوں و آسائشوں کے باوجودبھی ۔ ہر وقت ایک سرد جنگ کا ماحول قائم رِہتا تھا۔ جسکی وجہ سے کبھی کبھار اُسے گھر میں اپنے والدین کے درمیان ایسی گفتگو بھی سُننے کو میسر آجاتی تھی۔ کہ ،،اُسکا سر شرم سے جھک جاتا۔ اُور وُہ خاموشی سے اپنے کمرے کا رُخ کرلیتی۔ اُسکی والدہ  عائشہ بیگم بھی اگرچہ ایک بُہت بڑے گھر کی بیٹی ہُونے کے باوجود اپنی صابر طبیعت کی وجہ سے کسی کرشمے کی منتظر تھیں۔ لیکن وُہ کرشمہ کبھی رُونما نہیں ہُوا۔۔۔ جسکے بعد اُسکے والد نے اُس عورت کے چکر میں  رفتہ رفتہ گھر آنا بھی موقوف کردیا تھا۔

اِن حالات نے اسکے ذہن پر عجیب سے اثرات مرتب کئے تھے۔۔۔ بقول اُسکے وُہ اپنے کالج کی ذہین ترین طالبات میں سے تھی۔ لیکن والد کے گھر چھوڑ جانے کے بعد اُس پر ایک عجیب سی وحشت سوار رہنے لگی تھی۔ وُہ اکثر رات کو چونک کر اُٹھ جاتی۔۔۔ اُور پھر تمام رات خوف سے اُسکی آنکھ نہ لگتی تھی۔ اُن کے  پڑوس میں ایک  نئی فیملی  آکر شفٹ ہُوئی تھی۔۔۔ جنکا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس تھا۔ فرزاد  یوسفی اُنہی کا اکلوتا   بیٹا تھا۔

فرزاد یوسفی  مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا۔ وُہ اپنی والدہ کیساتھ جب پہلی مرتبہ عنادِل کے گھر آیا تھا۔۔۔ تب ہی وُہ اِسکی نگاہوں میں رچ بس گیا تھا۔ فرزاد کی والدہ رضوانہ بیگم بھی کافی ملنسار اُور خوش اخلاق واقع ہُوئی تھیں۔۔۔ پھر اکثر یہ دُونوں فیملیاں ایک دوسرے کے گھر  آنے جانے لگی تھیں۔ جسکی وجہ سے فرزاد کا بھی اکثر اُنکے گھر آنا جانا لگا رِہتا تھا۔ پھر نجانے کب اُور کیسےفرزاد نے عنادِل کو اپنے من کی بات سے آگاہ کردیا۔ جسکے بعد اِن دُونوں کے مابین ایک خاموش جذبہ پروان چڑھتا رہا۔

لیکن ایک دِن جب عنادِل کالج سے واپس گھر لُوٹی۔۔۔ تو اُسے اپنی والدہ کی زبانی یہ اندوہناک خبر سُننے کو مِلی۔ کہ اُسکے والد نے جس بازاری عورت کے گھر کو اپنا مستقل نشیمن بنا لیا ہے ۔ وُہ کوئی اُور نہیں بلکہ رضوانہ بیگم کی  خالہ زاد بہن ہے۔ جسکی وجہ سے عائشہ بیگم نے آج اپنے گھرسے رضوانہ بیگم کو بے عزت کرکے نکالتے ہُوئے ہمیشہ کیلئے اُن سے قطع تعلق کرلیا تھا۔۔۔۔ اگرچہ عائشہ بیگم کو اِس قطع تعلقی سے کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ لیکن اِس واقعہ کے بعد عنادِل فرزاد کیلئے ذیادہ بیتاب رہنے لگی تھی۔

فرزاد کی آمد سے عنادِل کے  مَن سے جو خُوف نکل چُکا تھا۔۔۔ اِس قطع تعلقی کے فیصلے کے بعد وُہ خوف واپس لُوٹ آیا تھا۔۔۔ پھر ایک دِن کالج  کے گیٹ سے نکلتے ہُوئے عنادِل کی نظر فرزاد پر پڑی ۔ جو بڑی بیتابی سے کالج کے باہر اُسی کی آمد کا منتظر تھا۔۔۔ لیکن عنادِل کیلئے ممکن ہی نہ تھا۔ کہ وُہ کالج کے باہر فرزاد سے مُلاقات کرکے اپنے لئے ایک اسکینڈل کو خوامخواہ پنپنے کا موقع دے۔

 لیکن چند دِن بعد ہی عنادِل کو یہ احساس ستانے لگا۔ کہ،، اسکا عمل مناسب نہیں تھا۔ اُسے فرزاد سے ایک مرتبہ ملاقات ضرور کرنی چاہیئے تھی۔اُور یہیں سے عنادِل کی بدقسمتی کی داستان شروع ہُوگئی تھی۔ جسے عنادِل اپنی ناپختہ عمر کی وجہ سے اپنی خُوش قسمتی سے تعبیر کررہی تھی۔۔۔ عنادل کے بقول چند دن تک فرزاد یُوسفی  کالج کے باہر ملاقات نہ کرنے پر اُسے اپنی خفگی کا احساس دِلاتا رَہا۔۔۔ لیکن پھر اچانک ہی  ایک دِن اُس پر مہربان ہُوگیا۔۔۔۔ ایک برس تک عنادل اُور فرزاد   اپنی اپنی فیملی سے چھپ کر مُلاقاتیں کرتے رہے۔۔۔ اِس دوران عنادِل نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ،، وُہ عائشہ بیگم کے دِل سے فرزاد کی فیملی کیلئے موجود نفرت کو کسی طرح باہر نکال سکے۔ لیکن عائشہ بیگم اپنی سُوتن کی بہن کا نام سننے کیلئے بھی رضامند نہ تھیں۔

پھر ایک دِن فرزاد نے  مشورے کے بہانےعنادِل کی مُلاقات اپنے ایک مولوی نما دُوست سے کروائی۔ جس نے اِن دونوں کو  بتایا کہ،، شادی صرف لڑکی لڑکے کی رضامندی کا نام ہے۔ اِسمیں والدین کی شمولیت یا باقاعدہ اعلان کی ضرورت نہیں ہُوتی۔۔۔۔ اُور اُس شخص کا تمام تر زُور اِسی بات پر تھا۔ کہ،، اصل چیز ایجاب و قبول ہیں۔ جو کہ،، فرض ہے۔ باقی نکاح میں کسی شرط کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ عنادل کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ جِس سے وُہ اِس مسئلہ کی تصدیق  کسی عالم دین سے کرواپاتی۔ لہذا  عنادل کو اگرچہ بُہت عجیب محسوس ہُورہا تھا۔ ۔۔۔لیکن فرزاد پر اعتبار کرنے کے سِوا اُسے کوئی راستہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ اِس طرح چند دِن بعد عنادل نے یہ شرط قائم کرتے ہُوئے ایک ریسٹورنٹ میں ایجاب و قبول کے مراحل طے کرلئے۔۔۔ کہ ،، فی الحال ایک برس تک وُہ اپنی والدہ کو منانے کی مزید کوشش کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔ اگر اُسکی امی جان رضامند ہُوگئی تو ٹھیک ہے۔ ورنہ وُہ امی کا گھر چھوڑ کر اسکے ساتھ اپنی دُنیا بسا لے گی۔۔۔ اُس وقت اگرچہ فرزاد  اِس شرط پر رضامند ہوگیا تھا۔۔۔۔ لیکن ایک مہینہ بھی نہیں گزر پایا تھا۔ کہ،، فرزاد اُسے  دِن میں کئی مرتبہ کبھی کالز  اور کبھی میسج کے ذریعے سے  ازدواجی حقوق سے محروم رکھنے کیلئے طعنے اُور آخرت میں عذاب کی نوید سُنانے لگا۔

لیکن نجانے عنادل کے ذہن میں ایسی کیا بات سمائی تھی۔ جو اُسے اِس حد سے گزرنے سے روکے ہُوئے تھی۔۔۔ نتیجتاً مزید پندرہ  یوم گزرنے کے بعد اُس کی کالز آنا بھی موقوف ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ اُور اسکا موبائیل بھی مسلسل آف جارہا تھا۔۔۔۔ پھر اچانک ایک دِن اُسے اطلاع مِلی کہ،، فرزاد کی اپنی ایک کزن سے منگنی ہُوچکی ہے۔۔۔۔ اُور اگلے ماہ  اُسکی شادی ہُونے جارہی ہے۔۔۔۔ تب سے رُو رُو کر عنادل نے اپنا بُرا حال کرلیا تھا۔۔۔ آج اُسکی ایک سہیلی نے اُسے بابا وقاص کا پتہ بتادیا تھا۔ سُو وُہ بیچاری اپنا  دُکھڑا لیکر بابا وقاص کی خِدمت میں چلی آئی تھی۔۔۔۔ کیونکہ میں نے خُود بھی اُس کی کہانی سُن لی تھی۔ اسلئے میرے دِل میں اُسکے لئے ہمدردی پیدا ہُوچکی تھی۔ اُور  دِل ہی سے اُسکے لئے دُعائیں نکل رہی تھیں۔ کہ اُسکا گھر وہیں بس جائے جہاں اُسکی دِلی خواہش ہے۔۔۔ لیکن  اُس وقت میں یہ  بالکل نہیں سمجھ پارہا تھا۔کہ،، عنادل کو دُعا دیتے ہُوئے درحقیقت میں کسی اُور لڑکی کیلئے بددعا کا ذریعہ بن رہا ہُوں۔۔۔ جو بیچاری اِس تمام معاملے سے بےخبر اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوگی۔

بابا  جی عنادِل نے جو طریقہ بتایا ہے۔ کیا اِس طریقے سے نکاح ہُوجاتا ہے۔۔۔؟ اُور آپکو کیا لگتا ہے۔کیا فرزاد واپس لُوٹ آئے گا۔۔۔؟ میں نے بابا وقاص کو مخاطب کرتے ہُوئے سوال کیا۔۔۔۔۔۔۔ عشرت میاں کیا ناپاک کپڑوں سے نماز ہُوجاتی ہے۔۔۔؟ بابا وقاص نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے  خُود ایک سوال کرڈالا۔۔۔۔۔۔ میں نے حیرت سے بابا صاحب کو دیکھتے ہُوئے جواب دیا۔۔۔۔ حضرت بھلا ناپاک کپڑوں سے نماز کیسے ممکن ہے۔۔۔۔۔؟ کیوں ممکن نہیں ہے۔ کیا پاک کپڑے پہن کر نماز پڑھنا فرض ہے۔یا واجب ہے۔۔۔۔۔؟ بابا وقاص نے اگلا سوال داغتے ہُوئے مسکرا کر میری جانب دیکھا۔


حضرت فرض و واجب تو نہیں ہیں۔۔۔۔ لیکن نماز کی شرط میں جسم کپڑے اُور جگہ کا پاک ہُونا شرط ہے۔۔۔ جسکے بغیر نماز شروع نہیں کی جاسکتی۔ میں نے اپنی معلومات کے مطابق جواب دیتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔۔ بس عشرت میاں تمہارے جواب میں ہی تمہارے سوال کا جواب بھی موجود ہے۔کہ،، جس طرح نماز کے فرائض کی ادائیگی کیلئے نماز کی شرائط کا پایا جانا لازمی ہے۔۔۔۔ اِسی طرح نکاح کے فرض بلاشبہ ایجاب و قبول ہی ہیں۔۔۔۔ لیکن نکاح کی شرائط میں کم از کم دُو گواہوں کی لازمی موجودگی ۔اُور نکاح کا اعلان بھی ایسی شرائط ہیں۔۔۔۔ کہ جن کے بنا نکاح قائم ہی نہیں ہُوسکتا۔۔۔ کہ شادی کا اعلان اُور اُس میں لوگوں کی موجودگی ہی نکاح اُور زنا کے فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔۔۔۔ ورنہ  لوگ یُوں ہی چھپ چھپ کر نکاح کرتے رہیں۔۔۔ اور بعد میں انکاری ہُوجائیں۔۔۔۔ تب بھلا نکاح اُور زِنا میں کس طرح تمیز قائم رکھی جاسکے گی۔۔۔۔۔۔ دوسری مثال یہ  بھی دِی جاسکتی ہے۔۔۔ کہ اگر نکاح ایک کرسی کی مانند ہے۔ تو نکاح  کی شرائط اُس کے چار پائے ہیں۔۔۔ جن کے بغیر کوئی کرسی مکمل نہیں ہُوسکتی۔

بابا وقاص نے اتنے خُوبصورت  انداز سے  اِس معاملے کوسمجھانے کی کوشش کی تھی۔ کہ،، آج تک اُنکی زُبان سے نکلی ہُوئی یہ بات مجھے ازبر ہے۔۔۔۔ بابا آپکو کیا لگتا ہے۔۔۔۔ کیا فرزاد واپس لُوٹ آئے گا۔۔۔۔؟ میں نے اگلا سوال پھر سے دُہراتے ہُوئے عرض کی۔ عشرت میاں۔۔۔ یہ آگہی بھی کبھی کبھی عذاب کی طرح محسوس ہُوتی ہے۔۔۔۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ مجھے معلوم نہیں ہے۔ تو یہ بھی جھوٹ ہوجائے گا۔۔۔۔ اُور تمہیں بھی نہ بتاوٗں تو میرا دِل راضی نہ ہُوگا۔ لیکن جو کچھ میں تمہیں بتانے جارہا ہُوں۔۔۔۔ اگر عنادل سے کہتا تو وُہ کبھی بھی میری بات کا اعتبار نہ کرتی۔۔۔۔ اِس لئے میں نے اُسے اُمید  و یقین کے سہارے چھوڑ دیا ہے۔۔۔ لیکن وقت کا مرہم اُسکے ذخموں کو بھی جلد بھر دے گا۔۔۔۔لیکن اللہ کریم کا خاص فضل ہے۔ کہ،، اُسکی عصمت مھفوظ ہے۔۔۔۔ بابا آپ صاف صاف بتائیں نا ۔کہ آپ  کوکیا دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ میں نے عاجزی سے بابا وقاص کی گفتگو کاٹتے ہُوئے عرض کیا۔

فرزاد واپس لُوٹ کر نہیں آئے گا۔۔۔۔ یہ بات میں جانتا ہُوں۔۔۔۔وُہ صرف اُسے وقتی طور پر اپنی تسکین کیلئے حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اُور تم کو شائد سُن کر حیرت ہو۔۔۔۔ لیکن سچ یہی ہے۔ کہ اُسکی والدہ رضوانہ بیگم بھی اِس جرم میں اُسکے ساتھ برابر کی شریک تھیں۔۔۔ بس یہ تو اللہ کریم کا خاص فضل شاملِ حال تھا۔ جو وُہ لُوگ اپنے ناپاک اِرادوں میں کامیاب نہ ہُوسکے۔۔۔ ورنہ بعد میں  عنادل اُور عائشہ بیگم کسی کو مُنہ دِکھانے کے قابل نہ رہتے۔ جب عنادل نے واضح طور پر فزیکل ریلیشن کیلئے ایک برس کی شرط عائد کردی تو۔۔۔ وُہ عنادل کی طرف سے نا اُمید ہُوگئے۔۔۔ اُور اسکا پیچھا چھوڑ دیا۔

بابا آپ نے فرزاد کا  یہ اصلی چہرہ عنادل کو کیوں نہیں دِکھایا۔۔۔۔میں نے استعجابی کیفیت میں بابا وقاص سے استفسار کیا۔۔۔۔۔ اصلی چہرہ! تُم کیا سمجھتے ہُو ۔ کہ اگر میں اُسے یہ تمام باتیں بتادیتا ۔تو وُہ اُن پر یقین کرلیتی۔۔۔؟ بابا وقاص نے گفتگو کو جاری رکھتے ہُوئے خُود ہی نفی میں سر ہلاتے ہُوئے کہا۔۔۔ وُہ ہرگز میری کسی بات کا اعتبار نہیں کرتی۔۔۔۔ کیونکہ عنادل کی نظروں میں فرزاد جیسا نیک شریف۔ اُور سچی محبت کرنے والا  با اِخلاق انسان ساری دُنیا میں کوئی اُور نہیں ہے۔۔۔۔ یہ نقاب جو بھی اُتارنے کی کوشش کرے گا۔ عنادل کی نگاہوں میں وہی انسان دھوکہ باز اُور حاسد محبت ہے۔۔۔ اسلئے یہ نقاب  تقدیر خُود ایک دِن فرزاد کے ہاتھوں اسکے چہرے سے اُتروائے گی۔۔۔ تب ہی عنادل اُسکا اصل چہرہ پہچان پائے گی۔

لیکن بابا تب تک عنادل کا کیا ہُوگا۔۔۔؟ میں نے بابا وقاص کی طرف خُوفزدہ نظروں سے دیکھتے ہُوئے سوال کیا۔۔۔۔ ہُونا کیا ہے۔۔۔۔ یہ عشق آسان نہیں ہے۔۔۔ چنگاری جو بھی ہاتھوں میں اُٹھانے کی کوشش کرے گا۔۔۔۔ ہاتھ و دامن دونوں ہی کے جل جانے کا خدشہ بنا رہے گا۔۔۔ لیکن اتنا مجھے معلوم ہے۔کہ،، جسطرح اُسکا دامن چنگاری سے محفوظ ہے۔۔۔ ہاتھ بھی جلنے سے بچا رہے گا۔۔۔۔کیونکہ میں کوشش کرونگا ۔ کہ وُہ عشق مجازی کی راہ سے ہٹ کر عشق حقیقی کے راستے پر آجائے۔۔۔ اُور مجھے اپنے پروردیگار کی رحمت پر یقین کامل ہے۔کہ،، وُہ میری محنت کو رائیگاں نہیں جانےدیگا۔

آج قریبا ً ۱۳ برس کے بعد یہ واقعہ قلم بند کرتے ہُوئے۔ ہزاروں عنادل کے برقی خطوط میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔اللہ کریم ہر چمن کی بُلبل کو  اِن عُقاب نُما   گِدہوں کی  ہوس ناک منحوس نِگاہوں سے محفوظ رکھے۔۔۔ آمین آمین آمین۔ بجاہِ النبی الکریم وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم


3 comments:

  1. Sir aap ne hmri society ki bht bhri reality likhi ha but aap kch aesa b zror likhein jis sy young generation mein thora shaor paida ho jae or es mamly ko roka ja sky ... Ta k kch tu nuqsan sy bcha ja sky ... Mjhe yqeen ha k apki tehreer sy bht faida ho ga.

    ReplyDelete
  2. Very interesting and moral story, Dil ka madni guldaste main sajanay ka lia aik bohat acha madni phool, Allah kra ke ham tamam braioon sa bach jain, Ameen

    ReplyDelete
  3. اللہ کریم ہر چمن کی بُلبل کو اِن عُقاب نُما گِدہوں کی ہوس ناک منحوس نِگاہوں سے محفوظ رکھے۔۔۔ آمین آمین آمین۔ بجاہِ النبی الکریم وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم

    ReplyDelete