bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Wednesday 17 April 2013

عُورتوں کا سب سے بڑا دُشمن کُون۔۔۔؟


کتنی عجیب بات ہے۔ کہ میرا تعلق مردوں کی جنس سے ہے۔ لیکن چند دِن قبل میرے ایک لکھاری دُوست نے مجھے ،،خواتین کا رائیٹر،، کے خطاب سے نِواز ڈالا۔ جب میں نے اُن سے ایسا کہنے کا سبب معلوم کیا۔۔۔ تو بڑی معصومیت سے جواب دیا۔کہ،، آپکی تحریریں اتنی کثرت سے خواتین کے حقوق  اُور اُن سے ہمدردی کے اظہار پر لکھی جا چُکی ہیں۔۔۔ کہ،، اکثر مرد حضرات کی آپ کے متعلق یہی رائے ہے۔ جو کہ میں بیان کررہا ہُوں۔۔۔ جسکا ثبوت آپکا  فیس بُک کا پیج بھی دیگا۔ جہاں  قریبا ایک مرد کے مُقابلے میں نو خواتین آپکے پیج کو لایئک کررہی ہیں۔ جبکہ ہزاروں تو ایسی بھی خواتین موجود ہُونگی۔ جو آپکا پیج تو لایئک کرنا چاہتی ہونگی۔ لیکن اپنے فیملی بیک گراونڈ  کی وجہ سےلایئک نہیں کرپاتی ہُونگی۔ میں نے پہلی مرتبہ اپنے دوست کے انکشاف پر جب فیس بُک کی آڈیوئن کو چیک کیا۔ تو اُنکی بات کی تصدیق  بھی ہُوگئی۔ جہاں سولہ سُو خواتین کے درمیان صرف ایک سُو ستر مرد حضرات موجود تھے۔۔۔

 آج  دُوپہر  میری سُمیرا سسٹر سے بات ہُورہی تھی۔ جو کہ پیشے کے اعتبار سے ایک کامیاب وکیل بھی ہیں۔ تو اُنہوں نے درمیانِ گفتگو ایک عجیب خواہش کا اِظہار کیا۔۔۔ وُہ کہنے لگیں۔ وارثی بھائی آپ خواتین کے مسائل پر اتنا لکھتے ہیں۔ تو اِس موضوع پر کیوں نہیں لکھتے۔ کہ،، ہمارے معاشرے میں عورت کی سب سے بڑی دُشمن بھی ایک عورت ہی ہُوتی ہے۔ میں نے عرض کیا سسٹر ایک عرصہ سے اِس موضوع پر لکھنے کی خواہش دِل میں موجود ہے۔۔۔ لیکن خواتین کی بدگمانیوں سے محفوظ رہنے کیلئے نہیں لکھ پاتا۔۔۔۔ مگر  سُمیرا ایڈوکیٹ  سسٹر کا کہنا تھا۔کہ،، لُوگ آپکی تحریریں پسند بھی کرتے ہیں۔۔۔ اُور آپکے پڑھنے والوں کا حلقہ بھی وسیع ہے اِس لئے آپکو اِس موضوع پر ضرور لکھنا چاہیئے۔۔۔ سُو میں آج اپنا یہ آرٹیکل محترمہ  سُمیرا جنجوعہ  ایڈوکیٹ سسٹر کے نام منسوب کرتا ہُوں۔ جنہوں کی وجہ سے یہ کالم لکھنے کی تحریک ذہن و قلب میں بیدار ہُوئی۔


 لیکن دوسری طرف کچھ خواتین  ایسی بھی ضرور ہُونگی۔۔۔ جو یہ کالم پڑھ کر کہیں گی۔کہ،، آخر ہے  نہ مَرد ذاتی،، مَردوں کی لاج بچانے کیلئے عورتوں کیخلاف ہی  لکھ ڈالا۔۔۔۔ بہرحال ہر ایک انسان چاہے وُہ مَرد ہُو یا عورت اُسے حق حاصِل ہے۔کہ وُہ اپنے خیالات کا اِظہار برملا کرسکے۔۔۔ میں  اپنے بلاگ پر تمام آراء کا خیر مقدم انتہائی خوش اخلاقی سے کرنے کی سعی کرونگا۔


مجھے  بطور ایک رُوحانی معالج کے مہینے میں ہزاروں برقی خطوط اپنے قارئین سے موصول ہُوتے ہیں۔۔۔ جن میں پچانوے فی صد کی شرح سے خواتین کے خطوط ہُوتے ہیں۔ جبکہ کم و بیش جب سے اپنا  سیلولر نمبر فیس بُک پر شُو کیا ہے۔ پانچ سُو سے زائد ماہانہ کالز بھی مُوصول ہُوتی ہیں۔۔۔۔ جن میں خواتین اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہُوئے مَردوں کو موردِ الزام ٹہراتی ہیں۔۔۔۔ لیکن تعجب خیز اَمر یہ ہے۔ کہ اکثر خواتین کا یہی  اِظہارخیال سامنے آتا ہے۔ کہ اُنکے مَرد اتنے بُرے نہیں ہیں۔۔۔ وُہ تو شروع شروع میں اللہ کی گائے تھے۔۔۔ لیکن رفتہ رفتہ ،، کسی  نند  کی حاسِد نظر نے اُنکے ہنستے بستے گھر میں آگ لگا دی۔۔۔   کسی کی ساس نے اپنے بھولے بھالے بیٹے کے کان بھرنا شروع کردیئے۔ اُور نوبت طلاق تک آپُنچی ہے۔۔۔کبھی تمام جرم دیورانی، جیٹھانی کے کھاتے میں آتا ہے۔ یا کسی باہر والی نے اُنکے شوہر یا منگیتر کو  اپنی اَداوٗں  سے بھٹکا ڈالا ،بہکا ڈالا۔۔۔ یا اُن پر سفلی جادو کروا دِیا۔۔۔ 


متوسط گھرانوں میں جہاں ماسیاں گھر کی صفائی ستھرائی کرتی ہیں۔۔۔ وہاں بھی گھر کی مالکن کو  ملازموں میں سب سے ذیادہ  خطرہ صرف ایک خوبصورت مُلازمہ عورت سے ہی درپیش ہُوتا ہے۔ اِسی لئے تو چھانٹ چھانٹ کر بدصورت ماسیوں کو کام پر رکھا جاتا ہے۔۔۔ کہ مرد نہ بہک سکے۔۔۔لیکن  مَردوں سے تمام شکووٗں کے باوجود خطرہ یہاں بھی ایک عورت سے  ہی درپیش ہُوتا ہے۔


ہمارے معاشرے میں جتنی بھی طلاقیں واقع ہُوتی ہیں۔۔۔ اگر آپ ایماندای سے اُسکا تجزیہ کریں۔ اُور اسکی وجہ بھی مُطقہ خواتین سے معلوم کریں۔ تو  تقریبا ننانوے فیصد خواتین تمام فساد کی جڑ کسی ایک عورت کو ہی  بتاتی ہیں۔۔۔ اب چاہے وُہ   فسادی عورت ایک ساس ہُو۔یا  ایک نند ہُو۔ سسرال میں رہنے والی ہُو۔ یا باہر والی ہُو۔  صرف ایک فی صد خواتین بمشکل ایسی مُیسر آئیں گی۔ جو شائد طلاق کی وجہ سُسر ، جیٹھ، دیور، یا شوھر کے دُوست کو گردانتی ہُونگی۔۔۔۔


پھر اگر یہی مُطلقہ یا  کوئی بیوہ عورت ہمارے معاشرے میں پھر  اپنی زندگی کا اِک نئے سِرے سے آغاز کرنا چاہے۔۔۔ تب،، یقین کیجیئے کوئی بھی مرد اُسکی اتنی مخالفت نہیں کرتا۔ چاہے وُہ  لڑکا ہو۔ یا اُسکے بھائی ہُوں۔ یا اُسکا والد ہُو۔۔۔ لڑکا  اگرچہ رضامند ہو بھی جائے،، لیکن یہاں بھی  ایک عورت ہی  دیوار کی صورت  درمیان میں یہ کہتے ہُوئے حائل ہوجاتی ہے۔کہ،، کیا کنواریوں کا کال پڑگیا ہے۔ جو ایک کنواری یا مطلقہ کو اپنے گھر کی زینت بنائیں۔ اَب یہ عورت لڑکے کی بہنیں بھی ہُوسکتی ہیں  اور ماں  بھی ہُوسکتی ہے۔۔۔

آج صرف ہمارے مُلک میں ہی دیکھیں تو ایک کروڑ سے زائد غریب  بچیاں رِشتوں کے انتظار میں اپنے  سَروں کو چاندی کے کھیت بنا رہی ہیں۔ جبکہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے۔ دین اسلام میں خُوشحال مَردوں کو چار شادیوں کی اجازت حاصِل ہے۔۔۔ لیکن یہ مقولہ بھی کسی مرد کا نہیں ہے۔ کہ سُوکن تو لکڑی کی بھی بُری ہُوتی ہے۔۔۔ ہمارے یہاں بچیوں کی پرورش ہی اِس انداز میں کی جاتی ہے۔۔۔ کہ لفظ سوکن اور سُوتیلا گالی کے معنی میں مستعمل ہُونے لگا ہے۔ ۔۔صرف ہمارے مُلک پاکستان میں ایسے لاکھوں خوشحال  افراد  موجود ہیں۔۔۔ جو ایک سے زائد بیویوں کے حقوق  ایمانداری سے پورے کرسکتے ہیں۔۔۔ لیکن اِن غریب  بچیوں کے رشتوں میں لالچ و حرص کے علاوہ جو سب سے بڑی دیوار موجود ہے۔۔۔ وُہ بھی عورتوں کے حقوق پر مال بنانے والی خواتین  کی این جی اُوز ہیں۔۔۔ جنہوں نے غیر مُلکی ایجنڈے پر عمل کرتے ہُوئے ایک عورت کو ہی دوسری عورت کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے۔کہ،، ایک عورت اپنے مرد کو زانی تو برداشت کرلیتی ہے۔۔۔ لیکن اُسکی دوسری  جائز بیوی کو برداشت نہیں کرسکتی۔


 کیا ہمارے معاشرے میں بیٹے کو ڈالر سے تعبر کرنے والی بھی ایک عورت نہیں ہُوتی۔۔۔ جو اپنے بیٹے کی پرورش کا تمام خرچہ بھی اپنی بہو کے گھر والوں سے نِکلوانا چاہتی ہے۔۔۔۔ اُور اگر لفظ  سُوکن واقعی ایک عذاب ہوتا ہے۔ تو کیاوجہ ہے۔۔۔ جب بیٹی کے  لئے سوکن کو عذاب کہنے والی عورت ہی بیٹے کے شانوں کو تھپتپاتے ہوئے  اپنی بہو پر سوکن لانے میں خُود پیش پیش نظر آتی ہے۔۔۔۔ اُور بہو کو بیٹے کی نظروں سے گرانے کیلئے جادو ٹونے کا سہارا لینے میں بھی نہیں شرماتی۔۔۔۔۔؟


میں یہاں ایک لطیف نکتہ بھی پیش کرنا چاہوں گا۔۔۔ آج سے قریباً دس برس قبل کسی نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا۔ کہ،، عشرت بھائی کیا وجہ ہے۔ جو لڑکا شادی سے پہلے اپنی ماں اُور بہنوں کے پلو سے بندھا رِہتا ہے۔ وُہ بیوی کے آتے ہی اُسکا  غلام کیسے بن جاتا ہے۔۔۔ ؟؟؟ آخر  اِن  عورتوں کے پاس ایسی کونسی گیڈر سنگھی ہُوتی ہے۔ جو،،  یہ راتوں رات لڑکے کو  ماں اور بہنوں سے متنفر کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔۔۔ سوال اتنا دلچسپ تھا۔ کہ،، میں کئی دِن اِس سوال پر تحقیق کرتا رَہا۔۔۔ اور بلاآخر ایک نتیجے پر پُہنچ گیا۔۔۔ جب میں نے اپنا یہ خیال اہل علم حضرات کے سامنے  رکھا۔۔۔ تو اِس تحقیق کو کافی پزیرائی بخشی گئی۔۔۔


سائنس ہمیں بتاتی ہے۔کہ،، انسان کے خُون سے اُسکے جینز بچوں میں منتقل ہوتے ہیں۔۔۔ انہی جینز کی وجہ سے انسان اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے۔ اور بچے والدین سے انہی جینز  کی وجہ سے پیار دُلار کرتے ہیں۔۔۔ اِسی فارمولے کو دیکھتے ہُوئے مجھے یہ خیال آیا۔ کہ آخر بچوں کو نیک لوگوں کے ہاتھوں سے گھٹی کیوں دِلوائی جاتی ہے۔۔۔؟ اِسی لئے نا ! کہ،، ہمارا بچہ نیک آدمی کا جھوٹا کھائے گا۔۔۔ تو ایک دِن اِسکے اثر سے یہ بھی نیک بن جائے گا۔۔۔۔ تو معلوم یہ ہُوا ۔کہ انسانی لعاب (تھوک)  بھی محبت کی تاثیر پیدا کرتا ہے۔ ۔۔۔اُور  ہر انسان کے پسینے کی مہک جُدا ہوتی ہے۔۔۔  کیوں کہ مشاہدے میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ کہ سراغ رَساں کتوں کے ذریعے سے چُوروں کا اُنکی مہک سے ہی  پتہ لگایا جاتاہے۔ تو اِس پسینے کی بھی یقیناً خون اور  لعاب کی طرح ایک تاثیر ہوگی۔۔۔۔؟  شادی سے پہلے  لڑکا ماں کے ہاتھ کی بنی رُوٹی کھاتا رہا۔۔۔ انسانی جسم سے پسینے کا اخراج مسلسل جاری رِہتا ہے۔۔۔۔ جبکہ کچن میں گرمی کی وجہ سے اِس اخراج میں مزید اِضافہ ہوجاتا ہُوگا۔۔۔۔ اسلئے آٹے کو گوندھتے ہُوئے ماں کے ہاتھوں سے یہ پسینہ مسلسل بہتے ہُوئے آٹے میں جذب ہوتا رِہتا ہے۔۔۔ اور روٹی کیساتھ ساتھ یہ پسینہ بھی معدے کے ذریعے سے خون کی شریانوں تک پُہنچتا رِہتا ہے۔۔۔ اب ایک طرف  خون کے جینز کی تاثیر ہوتی ہے۔ تو دوسری جانب پسینے کی مہک بھی خُون میں رچ بس جاتی ہے۔۔۔ جسکی وجہ سے بریڈ کھانے والی قوموں کے مقابلے میں ہمارے یہاں ماں سے  قبل شادی ذیادہ محبت کی جاتی ہے۔


لیکن جیسے ہی بہو میکے سے سُسرال میں پُہنچتی ہے۔۔۔  ماں فوراً  کچن سے تمام ناطے توڑ کر اُس کچن کی تمام ذمہ داری بہو کے ہاتھوں میں تھمادیتی ہے۔۔۔ جِس کے نتیجے میں بیٹے کی شریانوں تک ماں کا پسینہ تو نہیں پہنچتا۔ البتہ اِس کمی کا اِزالہ بیوی کا لعاب اُور پسینہ کردیتا ہے۔ سُو دھیرے دھیرے محبت کا ایک نیا احساس اُس بیٹے کے جسم میں جنم لینے لگتا ہے۔۔۔ اور پرانا احساس کم ہُونے لگتا ہے۔۔۔ نتیجتاً   روٹی کے ہر نوالے  اور بوسہ فاحشہ کی بدولت  وہی لڑکا جو ہر وقت ماں کی محبت کے گیت گاتا تھا۔۔۔ اب ایک نئی محبت کی تجدید کررہا ہوتا ہے۔۔۔۔ اِس پر سونے پر سہاگہ،، کے مصداق وہی ماں جو اپنے بیٹے سے دِن رات محبت کی باتیں کیا کرتی تھی۔۔۔۔ اب صبح و شام  بیوی کی غلامی کے طعنوں سے نوازتی ہُوئے یہ بات بھول جاتی ہے۔کہ،، اگر کسی نئی آنے والی نے اُس کے بیٹے کو اپنی محبتوں کے محور میں جکڑ لیا ہے۔ تو کبھی اُس نے بھی اِسی راہ سے سفر کرتے ہُوئے کسی اُور ماں سے اُسکے بیٹے  کو چرایا تھا۔۔۔ اُور لاشعوری طور پر یہی  روزانہ کے مِلنے والے طعنے تشنے ایک دِن اولاد کو ماں سے دور جانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ لیکن احساسِ محبت کا یہ  سارا عمل اتنا چپکے چپکے  ہوتا ہے۔کہ،، اِس لاشعوری تبدئلی کو نہ بیٹا سمجھ پاتا ہے۔ اور نہ ہی ماں سمجھ پاتی ہے۔


مجھے یہ بات کہنے میں بالکل ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہورہی۔ کہ واقعتاً عورتوں کے استحصال میں مَردوں کا بھی ہاتھ ہے۔۔۔۔عورت کو غلام بنانے کی اُسے اپنے قدموں تلے مسلنے اُور روندنے  کی خاہش مَردوں  میں بھی پائی جاتی ہے۔۔۔۔لیکن! یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔ کہ ایک عورت کی تذلیل میں، اُسکے آشیانے کو خاکستر کرنے  اُور اُسے بے آسرا کرنے میں جتنا ہاتھ  ایک دوسری عورت کا ہُوتا ہے۔ اُس کے مقابلے میں مَردوں کا حصہ شائد ایک فی صد بھی نہ بنتا ہُو۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے۔کہ،، آپ میری رائے سے ایک فی صد بھی اتفاق نہ کریں۔۔۔ اُور اِسے عورت اور مَرد کی جنگ بنانے پر مُصر رہیں۔ لیکن ۔۔۔۔ میں نے خُدا گواہ ہے۔۔۔ صرف سچائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مردوں کی برتری ثابت کرنے کیلئے نہیں لکھا۔۔۔ کیونکہ رہنا تو  مجھے بھی آخر مُرشدی بیگم کے سائے میں  ہی ہے۔ اور بیلن و چمٹہ آخر کس گھر میں نہیں پائے جاتے!!! 

3 comments:

  1. السلام علیکم

    اللہ والے دلوں کے حالات سے واقف ہوتے ہیں اور ہم تو اپنا دل دے چکے۔ بہت دنوں سے اسی موضوع پر ایک کالم زیرِ التوا تھا، جب کہ ایامِ تنہائی کہ وجہ سے مرشدی بیگم کا بھی کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ ہزاروں میل دور سمندر پار بیٹھی ہیں، اس کے باوجود کوئی "غیبی طاقت" اس کالم کی تکمیل میں رکاوٹ تھی۔ استاد گرامی نے یہ کالم لکھ کر میرا بوجھ ہلکا کر دیا اور "خانہ جنگی" سے بھی بچا لیا۔
    اللہ کریم علم و حکمت کی اسی بہشتی آبشار کو ہمیشہ جاری و ساری رکھے۔ ہم سب کو قلوب و اذہان کی روحانی ٹھنڈک عطا فرمائے۔ آمین

    ReplyDelete
  2. بس خامہ ء خام نوائے رضا
    نہ یہ طرز مری نہ یہ رنگ مرا
    ارشاد احبا ناطق تھا
    نا چار اس راہ پڑا جانا
    :D

    ReplyDelete
  3. Asslam-o-alykum
    BHAI bohat achaa kalam likha our bohat tehqeeqi nikat byan kiyay.
    MASHAH ALLAH.

    ReplyDelete