bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 18 April 2013

توبہ ۔ ۔ ۔ تحریر عنادِل عاصمہ خان





توبہ
ہمیشہ گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کی خوبی ہے اور ہمیشہ گناہوں میں گھرے رہنا ابلیس کی خصلت ہے اور انسان تو اشرف المخلوقات ہے جو گناہ بھی کرتا ہے مگر اﷲتعالیٰ سے معافی بھی مانگتا ہے اور اسے توبہ کرنے کی توفیق بھی ملتی ہے۔انسان کو گناہ کرنا بے حد آسان لگتا ہے اور نیکی کرنا بے حد مشکل ۔۔۔۔۔جبکہ شیطان انسان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔۔۔۔کوئی بھی انسان گناہوں سے بچ کر نہیں رہ
سکتا مگر جیسے اﷲعزوجل توفیق دے۔۔۔۔ قرآن پاک میں شیطان کو انسان کا کھلا دشمن کہا گیا ہے۔

ترجمہ: ابلیس نے کہا : اے پروردگار :!اس سب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیامیں بھی یقینناان کے لے زمین میں(گناھوں اور نافرمانیوں کو)خوب آراستہ وخوشحال بنا دوں گا۔ اور ان سب کو ضرورگمراہ کر کے رہُوں گا۔۔


حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہُ سے مروی ہے کہ حدیث قدسی میں  شیطان مردود کی اس قسم کا جواب اس طرح دیا گیاکہ۔۔۔۔۔۔۔

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!

شیطان نے بارگاہ الہیٰ میں کہا !(اے اﷲ) مجھے تیری عزت کی قسم ! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رھیں گی۔۔۔۔ گمراہ کرتا رھوں گا۔اﷲعزوجل نے فرمایا!مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم !جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے ر ہییں گے میں انہیں بخشتارہُوں گا۔

ہمارا پروردیگار تو ہم پر بہت مہربان ہے۔۔۔ وہ تو اپنے بندوں کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ھے جیسے کسی کو اپنا کھویا ہوا خزانہ واپس مل جائے۔۔۔۔اور اﷲتعالیٰ کی طرف اگر انسان ایک قدم چلے تو وہ ستر(
۰۷) قدم اس بندے کی طرف بڑھ  کر آتا ہے ۔۔۔۔ وہ غفوررحیم ہے .بخشنے والا مہربان ہے .وہ  بے نیاز ہے.ہم  اس سے جو مانگیں عطا کر دیتا ہے۔چاہے مانگی جانے والی چیز توبہ ہی کیوں نہ ہو۔

قرآن پاک میں ارشاد ہوا کہ۔۔۔۔۔۔

 جو کوئی برائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اﷲعزوجل سے بخشش چاہے تو اﷲعزوجل کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔،،

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ۔۔۔۔۔ِ،،سارے انسان خطاکار ہیں اور خطاروں میں سے بہتر وہ ہیں جو تو بہ کر لیتے ہیں،،
اکثر جب انسان کے اندر گناہوں کی کثرت بڑھ جاتی ہے تو شیطان اسکے دل میں مایوسی پیدا کر دیتا ہے کہ اب تو توبہ کی کوئی امید ہی نہیں ہے تو ایسے میں بندہ مزید گناہوں کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ اُور شیطان اِس مایوسی کی وجہ سے دھیرے دھیرے اُسے کفریہ کلموں کی طرف مائل کرتا چلا جاتا ہے۔

مگر گنہگاروں کو قرآن پاک میں اﷲعزوجل اس طرح امید دلاتا ھے کہ،، ۔۔۔۔۔۔...ِاے میرے وہ بندوں !جو اپنی جانوں پر زیادتی کر بیٹھے ہو،خدا کی رحمت سے ہر گز مایوس نہ ہونایقینناخدا تمہارے  سارے گناہ معاف فرمانے والا اور بڑا ہی مہربان ہے،،

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ۔۔۔،،،جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اﷲعزوجل اسکے لکھنے والے فرشتوں کو اسکے گناہ بھلا دیتا ھے۔۔۔ اسی طرح ااسکے اعضاء(یعنی ہاتھ،پاؤں) کو بھی بھلا دیتا ہے،اور اسکے زمین پر نشانات بھی مٹا دیتا ہے۔۔۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اﷲعزوجل سے ملے گا تو اﷲعزوجل کی طرف سے اسکے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہو گا،،(سبحان اﷲ) ذرا سوچیئے تو سہی وُہ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتا ہے۔

کچھ لوگ اپنی زندگی کی رنگینیوں میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ سوچتے ھیں کہ ابھی توبہت لمبی زندگی پڑی ھے پھر توبہ کر لیں گیاابھی تو جوانی ہے ابھی کونسا موت آرہی ہے۔۔۔تو ایسے لوگوں کو یہ سوچنا چاہے کہ موت کا وقت تو اﷲتعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور یہ تو سب شیطان کے وسوسے ہیں کہ وہ انسان کو گناہوں میں الجھائے رکھے اور توبہ کرنے سے روکے رکھے۔ ایسی حا لت میں لوگوں کو یہ حدیث مبارکہ یاد رکھنی چاہیے کہ۔۔۔۔۔،،توبہ میں تاخیر کرنے سے بچو. کیونکہ موت اچانک آ جاتی ہےِ۔۔۔

انسان صبح سے شام تک نہ جانے کتنے گناہ کرتا ہے اسلیئے انسان کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ توبہ استغفار کرے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا۔۔۔۔
بلاشبہ میں روزانہ ۰۷ مرتبہ اﷲعزوجل سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں،،

اور پھر فرمایا کہ ۔۔۔۔،،میرے دل پر کبھی (انوار اِلٰہی کے غلبہ سے ابر چھا جاتا ہے)اور میں روزانہ 
۱۰۰ بار استغفار کرتا ہوں،،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صدقے تو اگلے پیچھلے لوگوں نے بھی مغفرت پائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس قدر توبہ کرتے تھے۔۔۔۔ تو ہم گنہگار تو انکی نعلین پاک کے تصدق میں مغفرت کے طلبگار ہیں ۔ اُنہی کی شفاعت کے محتاج ہیں۔۔۔ تو ہم کیوں توبہ استغفار نہ کریں ؟؟؟

اگر کوئی بندہ توبہ کر کے اپنی زندگی کو سدھار لے اسکو کبھی بھی حقیر نہ سمجھیئے۔حضرعمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ اﷲعزوجل کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں ایک عورت حاضرہوئی،اسے زنا کا حمل تھا،وہ عرض کرنے لگی ؛ ،،یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  ، میں وہ کام (زنا)کر بیٹھی ھوں جس پر حد واجب ہو تی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مجھ پر حد واجب فرما دیں،، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے ولی کو بلا کر فرمایا : اسکے ساتھ اچھا سلوک کرو۔۔۔ اور جب وضع حمل ھو جائے تو اسے میرے پاس لے آنا ،، پھر ایسا ہی ھوا(یعنی وضع حمل کے بعد ولی حاضر خدمت ھوگیا) تو رسول پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حُکم فرمایا کہ : اسے اسکے کپڑوں کے ساتھ باندھ دیا جائے،پھر اسے رجم کر دیا گیا۔پھر سرور دو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسکی نماز جنازہ پڑھی

 تو حضرت سیدنا عمر فاروقؓ عرض گزارھوئے :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ! آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھ دی،حالا نکہ اس نے گناہ کا ارتکاب کیا تھا،، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ،،یقننا آج  اس نے ایسی توبہ کی ہے ۔۔۔۔ کہ،، اگر اسکی یہ توبہ اہل مدینہ کے ستر(
۰۷) افراد پر تقسیم کر دی جائے تو انھیں کافی ھو  جاتی(یعنی انکی مغفرت ھو جائے) اور کیا تم اس سے افضل کوئی عمل پاتے ہو کہ اس نے اپنی جان خود اﷲعزوجل کے لئے پیش کر دی۔،،


حضرت سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اﷲعزوجل کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا۔۔۔

،،گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا اس نے گناہ کیا ہی نہیں،،
جس انسان نے صدقِ دل سے تو بہ کر لی ہو۔۔۔ پھر وہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر کبھی گناہ کا مرتکب ہو جائے اسے چاھیئے کہ دوبارہ توبہ کرنے میں تاخیر نہ کرے کیونکہ ایک بار تو انسان گناہ کر کہ اپنا نقصان کر چکا ہے مگر اگر اب وہ توبہ نہیں کرے گا تو اپنا مزید نقصان کر بیٹھے گا۔

حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ:،،جب کوئی بندہ گناہ کر لیتا ہے ،تو اسکے قلب پر ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے،لیکن جب وہ توبہ کر لیتا ہے اور اﷲعزوجل سے طلب مغفرت کرتا ہے ،تو اسکا قلب صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہ کرتا رہے تو (یعنی درمیان توبہ نہ کرے)تو یہ سیاہی بڑھتی رہتی ہے،یہاں تک کہ اسکا دل سیاہ پڑھ جاتا ہے۔۔۔

پس یہ وہی زنگ ہے جسکا ذکر اﷲعزوجل نے اس طرح فرمایا ہے:
ترجمہ:،،کوئی نہیں بلکہ ان ک دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ان کی کمائیوں نے،،
اب جب ایک انسان گناہ کر بٹھتاہے تو پہلے تو اسے توبہ کرنی چاہیے اور جب اﷲعزوجل توبہ کی توفیق دے دیں تو پھر انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو نیک کاموں میں مشغول کر ے تاکہ اسکے گناہوں کا ازالہ ہو سکے۔رسول پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:،،گناہ کے پیچھے نیکی لاؤ یہ اسے مٹا دے گی۔،،

حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:،،اس آدمی کی مثال جو پہلے برائیوں میں مشغول تھا پھر نیک اعمال کرنے لگا ،اس شخص کی طرح ہے جسکے بدن پر تنگ زرہ ہوجو اسکی گردن گھونٹ رہی ہو،پھر اس نے ایک نیک عمل کیا تو اس زرہ کا ایک حلقہ کھل گیا۔پھر دوسرا نیک کام کیا تو دوسری کڑی کا حلقہ کھل گیا(پھر نیک اعمال کرتا چلا گیا)حتی کہ وہ تنگ زرہ کھل کر زمین پر آ گری۔۔۔

کبھی کبھی شیطان دِل میں ایسے وسوسے پیدا کر دیتا ہے کہ اگر ہم توبہ تو بہت ساری لذتیں اور گناہ چھوڑنے پڑ جائیں گے۔۔۔ اور پتہ نہیں کہ توبہ پر استقامت بھی رہے گی یا نہیں ۔۔۔ایسے میں انسان کو سوچنا چاہئے کہ چند لمحوں کی لذت کی خاطر اپنی زندگی کیوں برباد کر رہے ہیں ؟؟ٓاور یہ لذت بھی ایسی ہے جو ختم ہو جائے گی مگر اس کے نتیجہ میں ہونے والے گناہ ختم نہیں ہو سکتے اور ہمیں یہ بھی تو سوچنا ہے کہ آخر ہمیں اﷲ کو حساب بھی تو دینا ہے پھر وہاں کس منہ سے پیش ہونگے؟؟ان سب چیزوں کو سوچنے کے بعد اگر اﷲعزوجل ہمیں سچی توبہ کی توفیق دے دیں تو ہمیں توبہ پر استقامت بھی رہے گی انشاء اﷲ اور ہمیں اﷲ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔

حضرت سیدنا ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ ۔۔۔،،رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:،،جب کوئی بندہ گناہ کر لیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ،،اے مولا میں گناہ کر لیا ،مجھے معاف کر دے،، تو اﷲعزوجل فرماتاہے، ،،میرا بندہ جانتا ہے کہ اسکا کوئی رب عزوجل ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور اس پر پکڑ بھی کر لیتا ہے،(اے فرشتوں گواہ ہو جاہ کہ ) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ۔پھر جتنا رب عزوجل ! چاہتا ہے بندہ ٹھرتاہے ، اسکے بعد پھر کوئی گناہ کر لیتا ہے پھر عرض کرتا ہے ،،یا الہیٰ عزوجل ! میں نے پھر گناہ کر لیا ،بخش دے ،،تو رب کریم عزوجل فرماتا ہے کہ میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اسکا کوئی رب عزوجل ہے جو گناہ پر پکڑ بھی لیتا ہے اور معاف بھی کر دیتاہے ،(اے فرشتوں گواہ رہنا کہ)میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ،، پھر جتنا رب عزوجل چاہے وہ بندہ ٹھہرا رہتا ہے اور پھر مزید گناہ کر بیٹھتا ہے ، اور پھر دوبارہ عرض کرتا ہے ، ،، یا رب کیریم عزوجل مجھے معاف کر دے ، ،،تو رب عزوجل فرماتا ہے کہ میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اسکا کوئی رب عزوجل ہے ،جو گناہ معاف بھی کرتا ہے ۔۔۔ اُور اس پر پکڑ بھی لیتا ہے (اے فرشتوں گواہ ہو جاؤ کہ ) میں نے اپنے بندے کی بخشش فرما دی ،اب جو چاہے کرے۔(سبحان اﷲ)


ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا کہ۔۔۔۔،،،جس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور وہ یقین رکھے کہ اﷲعزوجل میری اس خطا پر مطلع ہے ہے تو اسکی مغٖفرت کر دی جاتی ہے اگرچہ وہ استغٖار بھی نہ کرے،،(سبحان اﷲ) 


ایک حکایت ہے کہ ایک جوان تھا وہ جب بھی گناہ کرتا تھا تو اسے اپنے دفتر میں لکھ لیتا تھا ایک دفعہ اس نے کوئی گناہ کیا ، جب لکھنے کے لیے دفتر کھولا تو دیکھا کہ اس آیت کے سوا کچھ بھی نہیں لکھا ہوا تھا :۔

ترجمہ:۔ ،،تو ایسوں کی برائیوں کو اﷲ(عزوجل) بھلائیوں میں بدل دے گا،، شرک کی جگہ ایمان ، بدکاری کی جگہ بخشش، گناہ کی جگہ عصمت اور نیکوکاری لکھ دی جاتی ہے۔

امیر المومنین حضرت سیدنا علی مرتضیؓ نے ارشاد فرمایا۔۔،،تعجب ہے اس شخص پر جو سامان نجات رکھنے کے باوجود ہلاک ہو جاتا ہے ۔،،پوچھا گیا: ،،سامان نجات کیا ہے؟،، فرمایا : ،،استغٖفار۔۔۔۔

اﷲتعالیٰ ہم سب کو سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور سچی توبہ سے مراد تو یہی ہے کہ ہم اپنے کردہ تمام گناہوں پر سچے دل سے شرمندہ ہوں اور آئندہ ان سے بچنے کا پختہ ارادہ بھی رکھتے ہوں اور ان گناہوں کے ازالہ کے لیے بھی کوشش کریں تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارا پروردیگار بہت مہربان اور غفوررحیم ہے اسکے رحمت کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے وہ اپنی رحمت سے ہمارے گناہ معاف کر دے گا۔۔۔۔ انشاء اﷲعزوجل۔۔۔۔

ﷲکریم ہم سب کو سچی توبہ کی توفیق کے ساتھ نیک اعمال کی بھی توفیق دے۔۔۔ آمین بجاہ النبی الامین  صلی اللہ علیہ وسلم وَ آلہ  واَصحابہ وبارک وسلم



3 comments:

  1. ماشا اللہ اچھی کوشش ہے۔۔۔ بس تھوڑی بُہت الفاظوں کی کانٹ چھانٹ کی ضرورت ہے۔ انشا اللہ تصیح آج ہی کردوں گا۔۔۔ اسی طرح مثبت تحریر لکھتی رہیئے۔۔۔۔۔ جزاک اللہ

    ReplyDelete