bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday, 5 April 2013

عشق کے رَنگ 2 ۔ج۔ فاتح اعظم کی آخری قسط


سیدنا عُمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جب بیت المقدس کے نذدیک پُہنچے۔ تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح اُور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر  امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا۔۔۔۔ تاریخ شاہد ہے۔ کہ یہ  داستان سفر  اپنے اندر اتنی رعنائی، دلکشی، حیرتوں کے مجموعے سمیٹے ہُوئے ہے۔ کہ اگر   ہمارے کسی حکمران کو کم از کم سرسری انداز میں ہی سہی اِسے پڑھنے کی توفیق مِل جاتی۔ اُور وُہ اِس داستان کے کسی ایک باب کا ہی مُطالعہ کرکے اُس پر عمل پیرا ہُوجاتا۔ تو آج مسلمانوں کی تاریخ کچھ اُور ہی منظر پیش کررہی ہُوتی۔

اِس سفر شام میں نصف دُنیا پر حکمرانی کرنے والی عَظیم ہستی نے  تمام سفر اِس شان سے کیا تھا۔ کہ کبھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ ایک اُونٹنی پر سوار ہُوتے جسکی مہار آپ کے ایک غلام کے ہاتھ میں ہُوتی۔ اُور کبھی غلام اُس اُونٹنی پر مالک کے اِصرار پر سوار ہُوجاتا۔ اُور دنیا کے عظیم ترین فاتح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ  کے ہاتھ میں اُس اُونٹنی کی مہار آجاتی۔۔۔ اللہ اللہ چشم فلک نے یہ نظارے کب دیکھے ہُونگے؟؟

بیت المقدس کے  مضافات میں  پُہنچنے سے پہلے ہی سیدنا بلال حبشی اِس قافلے میں جہاد کی نیت سے شریک ہُوچکے تھے۔ اللہ کریم کے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری وِصال کے بعد سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہُ نے مدینہ طیبہ سے ہجرت فرمالی تھی۔کہ،، فراق محبوب ﷺ کا غم آپ سے برداشت نہ ہُوتا تھا۔ اُور مدینہ طیبہ اَب جانِ جاناں کے ظاہری  جلووٗں سے محروم ہُوچُکا تھا۔ اُور مدینہ طیبہ کی گلیاں اُور در و بام محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے جلووٗں کو ذہن سے محو نہیں ہُونے دیتے تھے۔

بیت المقدس میں جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ کا قافلہ پُہنچا ۔ اُس وقت ظہر کی نماز کا وقت ہُوچکا تھا۔ بے شُمار صحابہ کرام علیہم الرضوان اِس موقع پر موجود تھے۔ نماز ظہر کی تیاری کا حکم مِلتے ہی چند صحابہ کرام علیہم الرضوان نے سیدنا بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ سے گُزارش کی،، سیدی آج وہی اذان سُنادیں کہ،،پھر سے بَزم مصطفی ﷺ کی یاد تازہ ہُوجائے۔ لیکن سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے صاف انکار فرمادیا کہ،، اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ،، اَذان دے سکوں۔۔۔ جب سے محبوب کریم ﷺ نے اپنے جلووٗں کو آنکھوں سے پھیرا ہے۔ دِل میں اتنی سکت ہی باقی نہ رہی کہ اُس منظر کی یاد تازہ کراسکوں۔

سیدنا بلال حبشی کے اِنکار نے عشاق کے  آتش شوق کو مزید ہَوا دی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ کی بارگاہ میں عرض کی گئی۔کہ،، ہمیں موذنِ رسولﷺ کی آواز میں آذان سننے کی سعادت سے نوازا جائے۔ سیدنا بلال حبشی نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ کے اِصرار پر جب  آذان دینی شروع کی تو گویا عشاق کی عید ہُوگئی۔ آج  سیدنا بلال کی وہی گُداز آواز مدینے کے چاند کی یاد کو دِلوں میں یُوں زندہ کررہی تھی۔ گویا جیسے وِصال یار کے جلوئے چاروں جانب رنگ و نُور کی برسات کے سہانے منظر بکھیر رہے ہُوں۔ اُور جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اشھداَن محمدًالرسول اللہ کی صدا بُلند کی۔ تو شمع رسالت کے پروانوں پر ایک وجد طاری ہُوگیا۔ بے شُمار اصحاب سسکیاں بھر کر یاد مصطفیﷺ میں آنسو بہانے لگے۔ جب کہ،، بے شمار اصحاب کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ جب بیت المقدس کے باہر موجود غازیان اسلام کے خیموں کے قریب پُہنچے تو مجاہدین اسلام نے نعرہ تکبیر و نعرہ رِسالت کے نعروں کی  فلک شگاف گونج میں اپنے امیر المومنین کا ایسا شاندار استقبال کیا۔ کہ،، بطریق قمامہ کو  ایک کلومیٹر کا فاصلہ ہونے کے باوجود یہ نعرے یوں سُنائی دینے لگے۔ جیسے گویا مسلمانوں کی فوج نے بیت القدس کے دروازوں کو اپنے آہنی ہاتھوں سے اُکھاڑ کر شہر کی ہر دَر دیوار پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہُو۔ بطریق قمامہ نے ہڑبڑا کر فصیل کا رُخ کیا۔ تو دوسری جانب سیدنا خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  نے جب امیرالومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ کو ایک ناتواں اُونٹنی پر رفو رَفو لباس میں دیکھا تو عرض کی۔۔۔ عالیجاہ ایک جانب دُنیا کے کتوں کے پاس زرق و برق  ریشمی لباس  و سواری کیلئے بیش قیمت گھوڑے اُور پالکی موجود ہیں۔ تو دوسری طرف آدھی دُنیا پر حکمرانی کرنے والے مسلمانوں کے امیر کا یہ حال ہے۔ کہ ،، نہ جسم پر سلامت لباس ہے۔ اُور نہ ہی کوئی خوبصورت سواری ہے۔

حضورِ والا سفارت کاری اُور برابری کی بنیاد پر مذاکرات کیلئے اگر کچھ مناسب لباس اُور سواری کا انتخاب فرمالیں۔ تو  اِن اہل کتاب پر آپکا ذیادہ اچھا تاثر پڑے گا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ تھوڑی سی بحث کے بعد لباس و سواری تبدئل کرنے پر رضامند ہُوگئے۔۔۔۔ آپ کی خدمت میں ایک بہترین پوشاک پیش  کی گئی۔ جو ایک سردار کو قتل کرنے کے بعد حاصِل کی گئی تھی۔۔۔ جب کہ آپ کی سواری کیلئے ایک انتہائی اعلی نسل کے گھوڑے کا اِنتظام کردیا گیا۔۔۔۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ کے بے مِثال حسن و جمال کو یہ لباس کیا مزید خوبصورتی بخشتے۔ البتہ آپ کے زیب تن فرماتے ہی وُہ لباس مزید جگماتے ہُوئے اپنی قسمت پر رشک کرنے لگا تھا۔۔۔ اُور سواری کا گھوڑا بھی اپنی قسمت پر نازاں تھا۔ کہ دُعائے رسول ﷺ آج اِسکی پیٹھ پر سوار تھے۔

ابھی خیموں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ نے بمشکل چند گز کا ہی فاصلہ طے کیا ہُوگا۔کہ اچانک گھوڑے کی باگ موڑ کر واپس خیمے کی جانب تشریف لے آئے۔۔۔۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ جب گھوڑے کی زین سے زمین پر تشریف لائے تو آپکی چشمان کریم نم تھی۔ جب آپ سے رُونے کا سبب معلوم کیا گیا۔ تو آپ نے اِرشاد فرمایا۔کہ مجھے اللہ کریم کے مدنی محبوب ﷺ کا ایک اِرشادِ مبارک یاد آگیا ہے۔ جسکا مفہوم کچھ یوں ہے۔ کہ،، جسکے قلب میں تکبر کا ایک ذرہ بھی موجود ہُوگا۔ وُہ دُوزخ میں ذلیل کرکے داخل کیا جائے گا۔۔۔۔ مجھے خُوف آتا ہے۔کہ کہیں یہ لباس و یہ سواری مجھ میں تکبر نہ پیدا کردیں۔۔۔ لہذا میں بیت القدس کے بطریق سے اپنے بوسیدہ لباس و کمزور سواری پر ہی مُلاقات کیلئے جانا پسند کرونگا۔۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ یہ ہیں  سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ۔۔۔۔۔ جنہیں جنت کی بشارت بھی حاصل ہے۔۔۔۔ اُور جنہیں دیکھ کر شیطان بھی اپنا رستہ بدل لیتا ہے۔۔۔۔ لیکن تقوی کا کیا اعلی مقام ہے۔۔۔ کہ جنہیں وجہ نزول آیات کہا گیا۔۔۔ وُہ اِس بات کی بھی پرواہ رکھتے ہیں۔۔۔۔ کہ تکبر کی ایک چھینٹ بھی اِنکے دامن پر نہ پڑجائے۔۔۔۔ کیونکہ بڑائی تو صرف اللہ کریم کیلئے ہے۔۔۔۔ اُور تکبر تو کبریا کے واسطے ہے۔

جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ اپنے سابقہ لباس کو زیب تن فرمائے اپنی اُونٹنی پر سوار ہُوکر بطریق قمامہ کے رُوبرو پُہنچے تو چند لمحوں میں ہی بطریق قمامہ فاتح اعظم اُور نائب رسول ﷺ کو دیکھ کر پُکار اُٹھا۔ کہ خدا کی قسم یہ وہی صاحب ہیں۔ جنکا حلیہ مبارک اُور انکے اُوصاف حمیدہ کی گواہی  اللہ کریم کی مقدس کتابوں میں مذکور ہیں۔ اُور یوں بیت المقدس کے عظیم الشان قلعے کی چابیاں بطریق قمامہ نے ازخود سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ کے ہاتھوں میں تھماتے ہُوئے اُنکا عظیم الشان استقبال کیا۔ جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرپائے گی۔۔۔۔ دُنیا کی نظر میں  سکندر اعظم کو عظیم فاتح کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔۔۔۔ لیکن کیا تاریخ کے متوالوں کی نِگاہ سے کوئی ایسا بھی واقعہ گُزرا ہے۔ جہاں اہل شہر کو اپنی فتح کا بھی یقین ہُو۔ اُور جس شہر کی فصیلیں بھی ناقابل تسخیر رہی ہُوں۔۔۔ اُس شہر کے مکینوں نے اپنی تمام تر برتری کے باوجود بھی خود سِپر ڈالی ہُو؟؟؟

اُور اِسی فتح بیت المقدس کی ایک کڑی وُہ واقعہ بھی ہے۔ جو مومن کو فراست کیساتھ آگہی اُور احترام انسانیت کا ایک عظیم الشان سبق سِکھاتی ہے۔۔۔کہ،، جب بطریق قماقمہ نے نماز کا وقت ہُونے پر کلیسائے بیت المقدس میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ سے نماز ادا کرنے کی فرمائش کی۔ تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہُ کلیسا سے یہ کہہ کر باہر تشریف لے آئے۔کہ،، نماز تو یہاں بھی اَدا ہُوجائے گی۔ لیکن مجھے خوف ہے ۔کہ میرے بعد آنے والے کہیں میری نسبت کی وجہ سے اِس کلیسا کو مسجد میں بدلنے کی کوشش نہ کریں۔۔۔۔ جبکہ میرے کریم آقاﷺ نے ہمیں دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں کے احترام کا درس دیا ہے۔

(ختم شُد) 

3 comments:


  1. TEREY Ikhityar mein kia nahi,mujhy iss tarah sy Nawaz dey

    Yoon duaein meri Qabool hoon,merey Lab pe koi Dua na hoo...

    Aameen

    ReplyDelete
  2. Asslam-o-Alykum
    Bhai sahaba ka adab our taqwa daikh ka bohat dar lagta hai.sahaba to sahaba hain meray ALA HAZRAT, HASAN RAZA KHAN, MUSTAFA RAZA KHAN kay
    klam main bhi bara adab hai.lekin phir bhi kehtay hain.

    SARKAR HAM GANWARON MAIN TARZ-E-ADAB KAHAN.
    HAM KO TO BAS TAMEEZ YHI BHEEK BHAR KI HAIN.

    Bhai dar to lagta hai magar jab yay kehtay hain.

    KHUDA SHAHID K ROZAY HASHR KA KHTKA NAHI REHTA.
    MUJHAY JAB YAAD ATA HAI K MERA KON VALI HAI.

    BAD KAR HON MUJRIM HON SIYSH KAR HON MAIN.
    IQRQR HAI IS KA K GUNAHGAR HON MAIN.
    BAIN HAMA NARI NAHI NOORI HOON HUZOOR.
    MOMIN HON TO FIRDOSS KA HAQDAR HOON MAIN.

    INSHA ALLAH.


    ReplyDelete