bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 6 June 2013

جب گاما بن گیا ،،شاہ جی،،


چند دِن قبل صبح  فیکٹری کے آفس میں  داخل ہُوتے ہی اِحسان وارثی بھائی کو دیکھا۔ تو حیرت کیساتھ بے حد خُوشی بھی ہُوئی۔ میں نے سلام دُعا کے بعد خُوش مزاجی سے صبح اتنی جلدی آنے کا سبب دریافت کیا۔ تو فرمانے لگے۔ روحانی پیج کے سوالات کو نمٹانے کیلئے یکسوئی کی تلاش تھی۔ اُور کچھ سوالات کے جوابات دینے کیلئے آپکی مدد بھی درکار تھی۔ ۔۔سُو مجھے اِس سے بہتر جگہ اُور کہاں مُیسر آسکتی تھی۔۔۔؟  کچھ دیر تک احسان بھائی مشاورت کے بعد جوابات مرتب کرنے بیٹھ گئے۔۔۔ پھر اچانک کچھ یاد آنے کے سبب مجھ سے گُویا ہُوئے۔ عشرت بھائی ایک اُور معاملے میں بھی آپکی مدد  اُور رہنمائی کی ضرورت ہے۔۔۔ میں نے مُسکرا کر کہا۔ کیسی مدد چاہیئے۔۔۔؟

عشرت بھائی کافی لُوگ آپکی تحریروں کی مدد سے لوگوں کے علاج کی سعی کرتے ہیں۔۔۔ اُور اِس میں کامیاب بھی رِہتے ہیں۔۔۔ لیکن مجھے آج ایک اسلامی بہن اُور اِسلامی بھائی کے لئے خاص اِجازت درکار ہے۔۔۔ ویسے تو بیشمار لوگوں نے روحانی علاج کرنے کیلئے آپکی اِجازت طلب کی ہے۔ لیکن میں جِن ۲ لوگوں کا تذکرہ کررہا ہُوں۔ یہ دُونوں کافی دِن سے میرے رابطے میں ہیں۔ اور اپنے علاقے میں کافی لوگوں کے رُوحانی علاج میں کامیابی حاصل کرچُکے ہیں۔ اِن میں سے  ایک خاتون تو کراچی میں رِہائش پذیر ہیں۔ جبکہ اسلامی بھائی کا تعلق  خیبر پختونخواہ  کے ایک شہرسے ہے۔۔۔۔

اگر آپکو لگتا ہے ۔کہ،، وُہ مناسب لُوگ ہیں۔ تو آپ خود ہی اِجازت مرحمت فرمادیتے۔آپکی اجازت بھی تُو میری ہی اِجازت ہے۔ ۔۔میں نے ایکبار پھر احسان بھائی کو مُسکرا کر دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔بھائی یہ تو آپکی محبت ہے۔کہ،،آپ مجھے اِس قابل سمجھتے ہیں۔ لیکن میں آپکی رائے معلوم کرنا چاہتا ہُوں۔ اُس کے بعد ہی اُن لوگوں کو جواب دُونگا۔۔۔۔ میں نے  کچھ سُوچتے ہُوئے اِحسان بھائی کو مشورہ دِیا ۔کہ،، اِس معاملے میں استخارہ کرلیتے ہیں۔ اگر اجازت مِل گئی تو۔ اُنہیں بھی اِجازت دیدیں گے۔ اُور اگر وُہ اِس مقدس مِشن کے لائق نہ ہُوئے تو  اُنہیں محبت سے ٹال دیجئےگا۔۔۔ احسان بھائی کچھ لمحے خاموش رہے۔ پھر کہنے لگے ۔بھائی آپ تو ہمیشہ لوگوں کو بُہت آسانی سے اِجازت دیدیتے ہیں۔ لیکن آج آپ نے استخارے کی شرط لگادی ہے۔ میں نے اِحسان بھائی کی پریشانی بھانپتے ہُوئے اُنہیں  اپنی زندگی کا ایک سبق آموز  واقعہ سُنانے کا قصد کیا۔ تاکہ،، اُنکی پریشانی دُور ہُوسکے۔

یہ ۲۰۰۸ کا واقعہ ہے۔ مجھ سےمیرے ایک   راجپوت دُوست نے ایک شخص کا ماجرا بیان کیا۔ اُنکے بقول ۔ پنجاب سے ایک فیملی نے دُو سال قبل نقل مکانی کرتے ہُوئے۔ ہمیشہ کیلئے میرپورخاص میں سکونت کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔ اُن لوگوں کی پنجاب میں کچھ آبائی زمین تھی۔ جِس پر خاندانی تنازعے کی وجہ سے کئی افراد قتل ہُوچکے تھے۔ بلاآخر یہ صاحب اپنا حصہ اُونے پُونے داموں بیچ کر میرپورخاص شفٹ ہُوچکے تھے۔۔۔

  اُور اچھا خاصہ بزنس بھی سیٹ کرچکے تھے۔لیکن گُذشتہ چند ماہ سے اُن پر جنات قابض ہیں۔۔۔ ایک ہندوٗ سے رُوحانی علاج بھی چل رہا ہے۔ لیکن اِس چکر میں لاکھوں روپیہ وُہ ہِندو عامل اینٹھ چُکا ہے۔۔۔ جبکہ مسلسل بیماری کی وجہ سے کاروبار بھی ختم ہُوچکا ہے۔۔ سِوائے ذاتی مکان کے کچھ بھی باقی نہیں بچا۔۔۔گھر کا خرچ پُورا کرنے کیلئے اُنکے بچے جگہ جگہ نوکری کررہے ہیں۔۔۔۔ بیچارے زمیندار لُوگ تھے۔۔۔ اُنہیں کیا معلوم تھا۔کہ،، ہجرت کے بعد بھی سکون نہیں مِلے گا۔۔۔  دُوسری طرف بھابی جی کا بُہت بُرا حال ہے۔۔۔ ایک طرف شوھر کی بیماری۔۔ دوسری طرف گھر کے بے پناہ خرچے آج بھابی نے میری بیوی سے کہا کہ،، گھر کے اخراجات پُورے کرنے کیلئے اگر کسی بڑے گھر میں ماسی کی نوکری مِل جائے ۔تو میں خوشی خُوشی وُہ بھی  کرنے کیلئے تیار ہُوں۔۔۔جب میری بیوی نے مجھے یہ بات بتائی تو نجانے کیوں۔ میرے دِل میں یہی خیال آیا۔ کہ ،، میں عشرت بھائی کو سارا ماجرا سُناوٗں گا۔ شائد کوئی سبیل نِکل آئے۔ ۔۔ عشرت بھائی اگر آپ ایک نظر اُنکے گھر چل کر تمام معاملہ دیکھ لیں تو بڑی مہربانی ہُوگی۔


کچھ تو یہ قصہ بڑا دردناک تھا۔ پھر آنے والا بھی  میرابڑا خودار  مُخلص دُوست تھا۔ ۔۔۔اسلئے انکار کی کوئی گُنجائش ہی نہیں تھی۔۔۔ ورنہ  عموماًمیں کسی کے گھر جا کر علاج نہیں کرتا۔ بہرحال قصہ مختصر میں حسب وعدہ اُس شام اپنے دُوست کے گھر جا پُہنچا۔ جو کہ،، شہر کے مضافات میں واقع تھا۔ میرے وُہ دُوست مجھے مریض کے گھر لےگئے۔۔۔ گھر کی  اندرونی حالت سے مجھے اندازہ لگانے میں بالکل مشکل پیش نہیں آئی۔کہ،، اُنکا واقعی بُہت غریبی حال چل رہا تھا۔ مریض کا نام رفیق تھا۔  مگر  میرا دُوست  رفیق کو گامے کے نام سے مخاطب کررہا تھا۔۔۔۔ حالانکہ اکثر لوگ رفیق کو فیقے سے بدل دیتے ہیں۔ جو کہ صریح غلط طریقہ ہے۔کہ انسان پر اچھے نام کے اچھے اثرات جبکہ بُرے نام کے بُرے اثرات مُرتب ہُوتے ہیں۔۔۔

گامے کی حالت دیکھ کر بظاہر ایسا لگ رہا تھا۔ جیسے وُہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں گِن رہا ہُو۔ گھر کی لائٹ شائد بِل نہ بھرنے کے سبب کٹ چکی تھی۔۔۔ اُور گامے کے جسم پر مکھیاں بھنبنا رہی تھی۔ ۔۔ جبکہ قریب ہی ایک دوسری چارپائی پر بیٹھا  ایک بوڑھا شخص حقے کی نِے سے شغل میں مصروف تھا۔ ۔۔  میں نے ایک خالی گوشے میں بیٹھ کر استخارہ کیا۔ تب مجھے معلوم ہُوا۔کہ گامے پر کوئی جن قابض نہیں تھا۔۔۔ بلکہ اُس پر شدید قسم کا کالا عِلم کیا گیا تھا۔۔۔ جو کہ،، عموماً جانی وار کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ دوسری بات میرے عِلم میں جو آئی۔ وُہ میرے لئے بھی حیران کُن تھی۔ کہ،، جس ہندو عامل سے گامے کا علاج کروایا جارہا تھا۔۔۔ وُہ بھی دَرپردہ گامے کے دُشمنوں سے مِلا ہُوا تھا۔۔۔ اُور بجائے کالے علم کا توڑ کرنے کے وُہ خُود اُس جادو کو تقویت بخش رَہا تھا۔جوکہ،، گامے کو ہلاک کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔

میں نے تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد۔ پہلے تو گامے اُور اپنے دُوست کو سمجھایا۔ کہ آپ لوگ کیسے مسلمان ہیں۔۔؟ جو ایک مسلمان کا روحانی علاج کرنے کیلئے ایک ہندو سے رابطہ کررہے ہیں۔ اگر آپ یہ سوچ کر علاج کروارہے ہیں۔ کہ وُہ ہِندو عامل آپکی کچھ مدد کرپائے گا۔ تو  آپ لُوگ غلط  سُوچ رہے ہیں۔۔۔اُور یہ بالکل غلط طریقہ ہے۔۔۔ کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ اور اللہ کریم کے کلام اور اسکے اسمائے مبارکہ میں ایسی قوت ہے۔کہ دُنیا کا کوئی عِلم اسکا مقابلہ نہیں کرسکتا۔۔۔ دوسری بات یہ ہے۔کہ،، گامے پر جنات کے اثرات نہیں ہیں۔ بلکہ ایک غلیظ قسم کا جادو کیا گیا ہے۔۔۔ جسکا علاج انشاءاللہ عزوجل میں  قران مجید کی آیات سے کردونگا۔۔۔ اسلئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آپ لوگوں کو اسکے عوض مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہُوگا۔ کہ،، چاہے کچھ بھی ہُوجائے آپ لوگ آئندہ اُس ہندو عامل سے رابطہ نہیں کروگے۔۔۔۔۔ میں نے جان بُوجھ کر ہِندوٗ عامل کی شرارت کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ ورنہ گامے کی فیملی کیساتھ  ساتھ گاما  خود بھی ذیادہ ڈر سکتا تھا۔۔۔

پہلے ہی ہفتے کے علاج کی برکت سے گامے نے بفضل خُدا چارپائی چھوڑ دی۔۔۔ میں صرف اپنے دُوست کے اِصرار پر ایک سے زائد مرتبہ خود اسکے علاج  کیلئے گامے کے گھر پر جاتا رہا۔ نتیجتاً صرف ایک ہی ماہ میں گاما بالکل ہشاش بشاش نظر آنے لگا۔۔۔ اُور کچھ کام دھندے کی ترکیب بھی بن گئی۔ علاج مکمل ہُونے کے باوجود گامے نے میری فیکٹری پر آنا جانا نہیں چھوڑا۔۔ ایک دِن کافی لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر گاما مجھے کہنے لگا۔ اقبال بھائی آپ لُوگوں سے کچھ نذرانہ کیوں نہیں لیتے۔۔۔۔؟ میں نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔ اللہ کریم نے مجھے محتاج اُور لاچار پیدا نہیں کیا ہے۔ پھر اِس فیکٹری سے مجھے ضرورت سے ذیادہ آمدنی ہُوجاتی ہے۔۔۔ پھر بھلا میں کیوں لُوگوں سے روحانی علاج کیلئے  رقم مانگوں۔۔۔۔میرا جواب سُن کر اُس سے کوئی دلیل نہ بن پڑی تو وُہ خاموش ہُوگیا۔۔۔ اِس واقعہ کے چند دِن بعد گامے نے مجھ سے فرمائش کی۔۔۔ کہ،، میں گامے کو اپنی شاگردی میں لے لُوں۔ میں نے گامے کا دِل رکھنے کیلئے اُسے اپنی شاگردی میں قبول کرلیا۔۔۔۔  میں پُوری ایمانداری سے گامے کی تربیت کرنے میں مشغول تھا۔لیکن گامے کو بُہت جلدی تھی۔۔۔ وُہ دیگر  ابتدائی وظائف کے بجائے ڈائریکٹ آخری سیڑھی تک پُہنچنا چاہتا تھا۔ پھر اُس نے ضد کی کہ،، پہلے مجھے استخارہ کرنا سِکھا دیں۔ اور جادو کے علاج کا طریقہ سِکھادیں۔۔۔ باقی وظائف میں بعد میں کرلوں گا۔

میرے کافی سمجھانے کے بعد بھی جب گامے کی سمجھ میں میری بات نہیں آئی۔ تو میں نے گامے کو استخارہ کرنے کا طریقہ ، اور جادو کی کاٹ کا طریقہ سِکھا دیا۔۔۔ میں نے اُسے جانچنے کیلئے کئی مرتبہ اپنے سامنے استخارہ کروایا۔ ایک  دو لوگوں کی کاٹ بھی کروائی۔ جِسکے بعد گامے نے نہایت احسن انداز میں میرے سامنے  ہی اُن لوگوں کی کاٹ کا عمل کیا۔۔۔ گامے کا باادب انداز دیکھ کر میرے دِل میں کبھی یہ خیال نہیں گُزرا کہ،، گاما اپنے دِل میں کیسے کیسے پلان مرتب کررہا ہے۔۔۔۔ وُہ میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی مجھے عجیب عجیب القاب سے پُکارتا۔۔۔ جِسے سُن کر دوسرے لوگ بھی اُسکے عشق و ادب کے گرویدہ ہُوجاتے تھے۔ کبھی  وُہ مجھے وڈی سرکار، کبھی مُرشد کہہ کر پُکارتا۔۔ کبھی میری چپل اپنے سینے سے لگا لیتا۔۔۔ تو کبھی اپنے سر پہ رَکھ لیا کرتا۔۔۔ اُسکے عشقیہ انداز دیکھ دیکھ کر کبھی کبھی تو میں بھی شرمندہ ہُوجاتا۔ کہ کہاں مجھ جیسا مجرم و گنہگار ۔اُور کہاں اُسکے القاب و انداز۔۔۔!

کچھ عرصہ مزید گذرنے کے بعد ایک دن گامے نے مجھ سے روحانی علاج کی اجازت طلب کی۔ اُس کا کہنا تھا۔کہ،، ہندو عامل کی وجہ سے کالونی کے اکثر لُوگ پریشان ہیں۔۔۔ اگر آپ مجھے اجازت عطا کردیں گے تو میں کالونی کے لُوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہُوں۔۔۔ میں نے گامے کو اِجازت دینے کے بعد پیار سے سمجھایا کہ،، لوگوں کا علاج ضرور کرنا۔ مگر اُن سے کسی قسم کا فائدہ مت اُٹھانا۔۔ اور نہ ہی کوئی نذرانہ وصول کرنا۔۔۔ ورنہ لالچ کا پودا دِل میں جگہ بنا لے گا۔۔۔۔ گامے نے استفسار کیا۔ حضرت صاحب کیا روحانی علاج کا نذرانہ لینا گناہ ہُوتا ہے۔۔۔ ہمارے پنجاب میں تو بڑے نذرانے کا رواج ہے۔۔۔ میں نے اُسے محبت سے سمجھاتے ہُوئے کہا،، رواج تو ہمارے سندھ میں بھی ہے۔ اُور نذرانہ لینے میں کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ مگر اِس سے بندے کے دِل میں حرص  پیدا ہُوجانے کا خدشہ ہے۔۔۔ جس طرح میں نے تُمہارا علاج فی سبیل اللہ کیا تھا۔ تم بھی ہمیشہ لوگوں کا فی سبیل اللہ علاج کرنا۔

اِس واقعہ کے بعد گامے نے رفتہ رفتہ میرے پاس آنا کم کردیا۔۔۔ یہاں تک کہ،، مجھے اُسے دیکھے ہُوئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گُزرگیا۔۔۔ کام کی مصروفیت کی وجہ سے میرے ذہن سے بھی گامے کا خیال دھندلا گیا۔ البتہ کبھی کبھار لوگوں کی زُبانی معلوم ہُوجاتا تھا۔ کہ،، گامے نے گھر میں آستانہ قائم کرلیا ہے۔ اُور کافی لُوگ روحانی علاج کے سلسلے میں گامے کے پاس آتے ہیں۔

ایک دِن میں شہر سے باہر تھا۔ کہ،، مجھے اپنے شہر سے ایک کال موصول ہُوئی۔۔۔  فون کرنے والا مجھ سے فوری طور پر ایک مریض کے سلسلے میں مِلنا چاہتا تھا۔ جبکہ مجھے واپس جانے میں کئی دِن لگ سکتے ہیں۔۔۔ میں نے اُس بندے کا عِلاقہ معلوم کیا۔ تو مجھے معلوم ہُوا۔کہ،، وُہ شخص گامے کی کالونی سے متصل علاقے کا رہنے والا ہے۔۔ سُو میں نے اُسے گامے کا پتہ بتاتے ہُوئے کہا۔۔۔ کہ گاما میرا شاگرد ہے۔ اُسے میرا سلام دینا۔ اُور فی الحال  آپ اُس سے رابطہ کرلو۔۔۔ اُس شخص نے کہا۔ ہم گامے شاہ جی کے پاس پاس جاچُکے ہیں۔۔۔ لیکن وُہ بُہت تگڑی رقم مانگ رہے ہیں۔ جو کہ ہم  غریب لُوگ نہیں دے سکتے۔ ہمیں کسی نے آپکا بتایا تھا۔کہ،، آپ فری علاج کرتے ہیں۔۔۔ سُو  آپ سےرابطہ کرلیا لیکن آپ بھی شہر سے باہر ہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے  اُسے پیار سے سمجھاتے ہُوئے کہا۔۔۔ بھائی آپکو ضرور کچھ غلط فہمی ہُوئی ہے۔ میں جس گامے کے متعلق آپکو بتا رہا ہُوں۔۔۔ وُہ شاہ جی نہیں ہے۔بلکہ ذات کا جٹ ہے۔ جب آپ میرا سلام دے کر اُسکے پاس جاوٗ گے۔ تو میرا والا گاما آپ سے انشاءَ اللہ ایک پیسہ بھی نہیں مانگے گا۔

میں چند دِن بعد جب اپنے شہر پُہنچا تو وہی شخص جس نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا تھا ۔ اگلے ہی دِن آدھمکا ۔۔۔ میں نے جب گامے سے مُلاقات کا احوال معلوم کیا۔ تو وُہ شخص نہایت افسردہ انداز میں کہنے لگا۔۔۔ جناب ہم آپ کے کہنے پر گامے شاہ جی کے گھر دُوبار گئے تھے۔۔۔ لیکن جب ہم نے آپکا نام بتا کر اپنا مسئلہ بیان کیا تو گامے شاہ جی  نےآپکو پہچانا ہی نہیں۔۔۔۔ وُہ کہتے ہیں،، میں کسی عشرت اقبال وارثی کو نہیں جانتا،، اُور نہ ہی  کوئی وارثی میرا اُستاد ہے۔میرے  رُوحانی اُستاد تو میرے ماموں ہیں۔ یا  میرے مُرشد ہیں۔ جو پنجاب میں ہُوتے تھے۔ اُور چند سال پہلے ہی وصال فرماچکے ہیں۔۔۔  اگر تُم لُوگ دس ہزار روپیہ دے سکتے ہُو۔ تو میں علاج کیلئے تیار ہُوں۔۔۔ ورنہ اپنی راہ لُو۔۔۔۔پتا نہیں مجھے کیوں ایسا لگا۔ کہ،، یہ شخص مجھ کو میرے  رُوحانی بیٹے گامے سے متنفر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کیونکہ گامے کے ادب و عشق کا سارا منظر آج بھی میری آنکھوں میں تازہ تھا۔۔۔

میں نے اُن  لُوگوں سے مریض کی بابت معلوم کیا۔تو اُنہوں نے بتایا کہ،، مریض کی حالت ایسی ہرگز نہیں ہیں۔کہ،، اُسے گھر سے یہاں تک لایا جاسکے۔ اگر آپ کرم فرمادیں تو ہم رکشہ لے آتے ہیں۔ آپ گھر چل کر دیکھ لیں۔۔۔۔ شائد کوئی اُور وقت ہُوتا تو میں اُن لوگوں سے گھر چلنے سے معذرت کرلیتا۔ لیکن آج میرا بھی بُہت دِل چاہ رہا تھا۔کہ،، اپنے گامے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر تمام شکوک و شبہات کو دِل سے کھینچ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باہر نِکال دُوں۔۔۔ میں نے اُن سے کہا رکشہ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنی سواری پر عصر کی نماز  کے بعد گامے کے گھر پُہنچ جاوٗنگا۔۔۔ اُور مغرب کے بعد آپ لوگوں کے ساتھ چلدوں گا۔ اسلئے آپ لُوگ بھی مغرب سے قبل گامے کے گھر آجانا۔۔۔

میں جب عصر کی نماز کے بعد گامے کے گھر پر پُہنچا تو حیرتیں میری منتظر تھیں۔۔۔ گامے کا گھر ایک عالیشان کوٹھی کا منظر پیش کرہا تھا۔ جبکہ اِس کوٹھی کے ڈرائینگ رُوم کے اندر  تا باہر مَرد و خواتین کی الگ الگ قطار لگی ہُوئی تھی۔ جو کہ اپنی باری پر اندر موجود گامے سے ملاقات کیلئے بے چین نظر آرہے تھے۔ جبکہ ڈرائنگ رُوم کے باہر ایک تختی پر نظم و ضبط سے متعلق ہدایات موجود تھیں۔۔۔ لیکن جس بات نے مجھے سب سے ذیادہ حیرت میں مُبتلا کیا۔ وُہ گامے کے نام کیساتھ ،،شاہ جی،، کا جلی حروف میں اضافہ تھا۔۔۔ میں ورطہ حیرت میں مُبتلا تھا۔ کہ  ،،گاما رَاتوں رات سَیّد کیسے بن گیا،، اچانک میری نظر گامے کے چودہ سالے بیٹے پر پڑی۔ جو مجھے پہچان کر میرے نذدیک آگیا تھا۔۔۔ مجھے چونکہ مغرب کے بعد علاج کیلئے بھی جانا تھا۔ سُو میں نے گامے کے بیٹے کو پیار کرتے ہُوئے کہا۔ کہ،، بابا سے کہو ۔۔۔ مجھے کہیں جانا ہے۔ اِس لئے جلد مُلاقات کرلیں۔۔۔ میرا خیال تھا۔کہ،، جیسے ہی گاما میرے متعلق سُنے گا۔ وُہ اُستاد جی کہتا ہُوا۔ ننگے پاوٗں دوڑتا ہُوا چلا آئے گا۔

 کافی دیر گُزر گئی لیکن گاما نہیں آیا۔۔۔ کچھ دیر بعد وہی بچہ اندر کوٹھی سے برآمد ہُوا۔ اُور میرے پاس آکر کہنے لگا۔۔۔  شاہ جی فرمارہے ہیں۔کہ،، ابھی میں بُہت مصروف ہُوں۔۔۔آپ یا تو اپنی باری کا انتظار کرلیں۔ یا کسی اُور دِن وقت لے کر آجائیں۔۔۔۔۔۔ مجھے اگر لُوگوں کی موجودگی کا اِحساس نہ ہُوتا۔ تو میں شائد وہیں صدمے سے ڈھیر ہُوجاتا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وُہ لُوگ بھی وہیں پُہنچ گئے۔ جنکے گھر مجھے علاج کیلئے جانا تھا۔۔۔ میں مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے خاموشی سے اُن لُوگوں کیساتھ یہ سُوچ کر چل دیا۔۔۔ کہ،، آج چاہے جو بھی ہُوجائے۔ میں گامے سے ملاقات کئے بغیر واپس  اپنے گھرنہیں جاوٗنگا۔

مریض پر دَم کرنے کے بعد میں واپس تنہا گامے کی کوٹھی پر چلا آیا۔ مجھے مریض کے اہل خانہ کی زُبانی معلوم ہُوا کہ،، گامے شاہ  ظہر کے بعد سے لیکر عشا کی نماز تک لوگوں پر  لگاتار دَم کرتا ہے۔ لیکن ایک بھی نماز پڑھنے کیلئے اپنی نشست سے اُٹھ کر نہیں جاتا۔ اُور گامے شاہ کے چمچوں نے لوگوں میں یہ بات مشہور کردی ہے کہ،، گامے شاہ رُوحانی طور پر تمام نمازیں حرمِ پاک میں ادا کرتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔اُس وقت کہیں کہیں سے اَذان عشاء بُلند ہُونے لگی تھی۔۔۔۔ گامے کے گھر سے لُوگوں کا رَش چھٹ چُکا تھا۔۔۔ ڈرائینگ رُوم میں  داخل ہُونے کے بعد میری نِگاہ    چند خواتین اُور گامے پر پڑی  جو بڑے انہماک سے ایک خاتون کے علاج میں مصروف تھا۔۔۔ میں خاموشی سے ایک کُونے میں بیٹھ گیا۔ گاما عجیب انداز سے اُس خاتون کی کمر اُور پسلیوں میں چٹکیاں بھر کر،، باہر نِکل، باہر نِکل ،، کی صدائیں بُلند کررہا تھا۔ دُوران علاج ایک مرتبہ گامے کی نِگاہ مجھ پر پڑی لیکن اُس نے مجھے کوئی خاص اہمیت نہیں دِی۔

تھوڑی دیر بعد جب وُہ خواتین  گامے کے سامنے اچھے خاصہ نزرانہ رکھ کر چلی گئیں۔۔۔ تب گامے نے خالی کمرے میں ایک طائرانہ نِگاہ دُوڑانے کے بعد مجھے مُخاطب کرتے ہُوئے کہا،، وارثی صاحب  آج ساڈی ضرورت کیوں پئے گی  تُہاں نُوں۔۔۔ میرا خیال تھا کہ،، مجھے پہچاننے کے بعد وُہ میرے قریب آجائے گا۔ لیکن وُہ اپنی مسند سے ٹس سے مَس نہ ہُوا۔۔۔ مجبوراً مجھے ہی آگے بڑھ کر اُسکی مسند کے  قریب جانا پڑا۔۔۔  گامے یہ سب کیا کررہے ہُو۔۔۔؟  کیا میں نے اِجازت دیتے ہُوئے تُم کو نذرانوں  اُور خواتین سے بالمشافہ ملاقات سے منع نہیں کیا تھا۔۔۔۔؟ میں نے گامے سے استفسار کیا۔۔۔۔۔ کیہڑی اِجازت وارثی صاحب۔۔۔ میں کوئی لاوارث نئیں آں۔۔۔ میرے  تےاپنے ماموں  بُہت وڈے عامل ہیں۔ میں اپنے ماموں دی اجازت لیکر لوکاں دا علاج کرریا واں۔۔۔۔ میں گامے کے بدلے تیور دیکھ کر حیران تو تھا ہی۔ لیکن میں جانتا تھا۔ کہ میں جتنے سوالات کرتا جاوٗں گا بات اُتنی ہی آگے بڑھتی چلی جائے گی۔۔۔ ورنہ  گاما میرے اِس ایک سوال کا بھی جواب دینے کے قابل نہیں تھا۔۔۔ کہ جب تُمہارے ماموں اتنے بڑے اُور پُہنچے ہُوئے عامل کامل تھے۔۔۔ تو اُس وقت تُمہاری مدد کو کیوں نہیں آئے۔۔۔۔؟ جب تُم بستر مَرگ پر پڑے ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔۔۔ اور ماموں خود تجھے ہندو جوگی کے در پر لیجاتے تھے۔

لیکن میں جانتا تھا۔کہ میرے سوالات اُسے مزید جھوٹ کی دلدل میں غرق کرتے چلے جائیں گے۔۔۔ کیونکہ گامے کے مُنہ کو خُون لگ چکا تھا۔۔۔ دولت کی چمک نے اُس کی آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا۔۔۔۔ لوگوں کی بھیڑ نے اُسکے قلب کی چمک چھین لی تھی۔۔۔ اسلئے اُسے آج اپنے محسن سے بھی خطرہ محسوس ہُونے لگا تھا۔۔۔۔

گامے ،،تُم مجھے یہ بتانا چاہ رہے ہُو۔۔۔ کہ یہ تمام  کرامتیں  اُور کمالات تُم میں تُمہارے ماموں نے ڈالی ہیں۔۔۔ اُور تُمہیں رُوحانی عِلاج کیلئے میری اجازت کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ ۔۔؟میں نے بڑے دِل گرفتہ انداز میں گامے سے آخری مرتبہ استفسار کیا۔۔۔۔ جی وارثی صاحب  تُساں سہی سمجھے ہُو۔۔۔ نہ مجھے پہلے تمہاری اجازت کی ضرورت تھی۔۔۔ اُور نہ آج ہی ضرورت ہے۔۔۔ گامے نے دُو ٹوک انداز میں جواب دیتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ میں نے  الوداعی مُصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا۔ تو گامے نے بھی بحث سے جان چھڑانے کیلئے دیوار سے ٹیک لگائے ہُوئے ہاتھ بڑھا دیا۔


میں نے  ایک لمحے کیلئے گامے کے ہاتھ کو مضبوطی سے دباتے ہُوئے کہا،، چُونکہ   آپکو میری اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ اُور نہ ہی آپکو میرا طریقہ پسند ہے۔ سُو آج میں اپنی اِجازت واپس لیتا ہُوں۔ اتنا کہنے کے بعد میں نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ گامے کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔۔۔  اِس واقعہ نے مجھے اجازت کے معاملے میں بُہت محتاط بنا دیا تھا۔۔۔۔ کئی دِن تک میں بُہت افسردہ رَہا تھا۔۔۔ پھر دھیرے دھیرے  تمام معملات معمول پر آتے چلے گئے۔

میں نے کہانی ختم کرنے کے بعد احسان بھائی کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔ تو اُنکی آنکھوں سے موتی ٹپک ٹپک کر زمین پر بِکھر رہے تھے۔۔۔۔ عشرت بھائی پھر گامے کا کیا ہُوا۔۔۔؟ احسان بھائی نے رُومال سے اپنی آنکھوں کو پُونچھتے ہُوئے کہا۔۔۔ 

گاما تین مہینے بعد اُسی مقام پر پُہنچ گیا۔۔۔ جس جگہ سے میں نے اُسے تھاما تھا۔۔۔۔ وُہ  ایکبار پھر میرے پاس آیا تھا۔۔۔ مجھ سے بُہت معافی مانگی اُور پھر سے   اپنے علاج  اُور اپنی شاگردی میں لینے کی درخواست کی۔۔۔ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد تھی۔ کہ،، مومن ایک ہی سُوراخ سے ۲ بار نہیں ڈسا جاتا۔۔۔ سُو میں نے علاج کا وعدہ کرتے ہُوئے۔ سختی کیساتھ دُوباہ آنے کیلئے منع کردیا۔۔۔ میں نے ایکبار پھر اُسکی کاٹ ضرور کی۔ لیکن اُسے پھر کبھی شاگردی میں قبول نہیں کیا۔۔۔ کیونکہ مجھے پھر  کبھی استخارے میں اسکی اجازت نہیں مِلی۔۔۔ اے کاش میں نے اُسے  پہلی مرتبہ اجازت دیتے ہُوئے استخارہ کرلیا ہُوتا۔ تو مجھے  یہ صدمہ کبھی سہنا نہیں پڑتا۔۔۔ 

2 comments:

  1. Asslam-o-alykum
    Bhai bara dukh howa yay waqia parh kar ALLAH PAK AAP ko our tamam MUSALMANO ko dhokey bazon say bachayay. BHAI koi baat buri lagi ho to may us k liyay muafi chahta hon. DUA main yaad rakhyay ga.
    JZAK ALLAH

    ReplyDelete
    Replies
    1. جزاک اللہ۔۔ اُویس بھائی اللہ کریم آپکو اُور تمام دوستوں کو دارین کی بھلائیاں عطا فرمائے۔

      Delete