bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Tuesday 7 May 2013

کیا آپ کے پاس جواب ہے۔ اِس سُوال کا ۔۔۔؟


ایگزامنیشن  ھال میں حماد ، رضوان، اُور بابر نے   تقریباً ڈیڑھ گھنٹے سے ایک عجیب ھنگامہ کھڑا کئے ہُوا تھا۔ جسکی وجہ سے کمرہ امتحان میں ایگزامنر کیساتھ ساتھ تمام طلبہ میں بے چینی سے پھیلی ہُوئی تھی۔ کیونکہ اِن تینوں کی مسلسل چیخ و پُکار کی وجہ سے بقیہ تمام طالب علم بھی ڈسٹرب ہُورہے تھے۔ کیونکہ جب بھی طلبہ انہماک سے پرچہ حل کرنے کی کوشش کرتے۔ کبھی حماد اپنے مطالبات کا پرچار کرنے لگ جاتا۔ تو کبھی بابر  یہی راگ اَلاپنے لگتا۔۔۔اُور جب  یہ دُونوں خاموشی اِختیار کرلیتے۔ تو رِضوان  اُنہی ڈیمانڈ کا رُونا شروع کردیتا۔۔۔۔

  حماد ایک بہت بڑے زمیندار کا بیٹا تھا۔ اُور۔رِضوان ایک صنعتکار کا بیٹا تھا۔۔۔۔ جبکہ  بابر نہ کسی صنتکار کا بیٹا تھا۔۔۔ اُور نہ ہی کسی زمیندار گھرانے کا چشم چراغ تھا۔۔۔ لیکن رضوان اُور حماد کی وجہ سے پروٹوکول اُسے بھی  کالج میں  پُورا پُورا حاصل تھا۔۔۔۔ جب اِن تینوں کی ھنگامہ آرائی ناقابل برداشت ہُوگئی۔ تو  ایگزامنر نے اِنہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہُوئے کہا،، دیکھو بچوں آپ تینوں کی وجہ سے دوسرے بچوں کی بھی سال بھر کی محنت دَاوٗ پر لگی ہُوئی ہے۔۔۔ یہاں اِس کمرے میں آپ لوگوں کو صرف چار گھنٹے کی مہلت حاصل  ہے۔ جِس میں سے نصف وقت آپ لُوگ شُور شرابے  اُور اِحتجاج میں صرف کرچکے ہیں۔۔۔۔ اگر آپ لوگوں نے یہ وقت پرچہ حل کرنے میں گُزارا ہُوتا۔۔۔ تو آپ لوگ بھی نصف کامیابی حاصل کرچکے ہُوتے۔

لیکن آپ لوگ ابھی تک اِسی مسئلے میں اُلجھے ہُوئے ہیں۔۔۔ کہ کرسیاں آپ لوگوں کے اِسٹیٹس کے مُطابق نہیں ہیں۔۔۔ کمرہ امتحان کا رنگ بوسیدہ ہُوچُکا ہے۔  اُور یہاں آپ لوگوں کو فین کے بجائے ائر کنڈیشنر کی سہولت چاہیئے۔۔۔ یہ تمام سہولتیں تو آپکو گھر میں حاصل ہُوسکتی ہیں۔ اُور امتحان میں کامیابی کے بعدآپ مسقبل میں حاصل کرسکتے ہیں۔۔ لیکن آپ لوگ صرف چار گھنٹے کی معمولی سی تکلیف برداشت کرنے کیلئے بھی رضامند نہیں ہیں۔۔۔۔ ایگزامنر کے خاموش ہُوتے ہی حماد نے دہاڑ کر ایگزمنر کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ ماسٹر صاحب اپنی نصیحتیں اپنے پاس رکھیں۔۔۔۔ ہمارے ایک اِشارے پر ہمارے گھر والے ہماری ہر ایک خواہش کو پُورا کرنے میں جُٹ جاتے ہیں۔۔۔۔ اسلئے ہمیں کمرہ امتحان میں بھی تمام آسائشیں درکار ہیں۔۔۔ جب تک ہماری تمام  ڈیمانڈز پوری نہیں کی جاتیں۔۔۔ ہم قلم و کاغذ کو ہاتھ بھی نہیں لگانے والے۔۔۔۔

ذرا ٹہریئے۔۔۔
۔
۔
۔
آپ یہی سُوچ رہے ہیں نا کہ،، یہ حماد، رضوان، اُور بابر کتنے بڑے بے وقوف ہیں۔۔۔ جنہیں کمرہ امتحان کی قدر ہے۔نہ۔۔۔اپنے پُورے سال کی محنت کی۔۔۔ اُور اِنکی فرمائش بھی  بے جا ہے۔ اُور  اِنکا جُرم بھی ناقابل تلافی ہے۔۔۔ خود اپنا بھی نقصان کرنے پر تُلے ہیں۔۔۔ اُور دوسروں پر بھی اثر انداز ہُونے کی جراٗت کررہے ہیں۔۔۔۔ اگر آپ بھی واقعی ایسا  ہی سُوچ رہے ہیں۔ تو کچھ غلط بھی نہیں سُوچ رہے۔
۔
۔
۔
لیکن
۔
۔
۔
کیا ہم لوگ بھی مجموعی طُور پر۔ حماد، رضوان،اُور بابر جیسی سُوچ کے حامل نہیں ہیں۔۔۔؟؟؟
۔
۔
۔ کیونکہ سُوچ تو ہم لوگوں کی بھی  اکثریت میں ،،حماد، بابر، اُور رِضوان سے مِلتی جلتی ہی ہے۔ وُہ لوگ بھی کمرہ اِمتحان میں تمام آسائش کے متمنی ہیں۔ اُور آسائش و پروٹوکول تو ہمیں بھی  کمرہ اِمتحان میں درکار ہے۔۔۔۔ حالانکہ ہم سبھی جانتے ہیں۔ کہ،، یہ دُنیا کمرہ امتحان ہے۔ جہاں ہمیں آزمائش و اِمتحان کیلئے بھیجا گیا ہے۔۔۔ جو یہاں اچھے نمبر حاصل کرے گا۔۔۔۔ اُسے انعامات و پروٹوکول۔۔۔۔ قبر و حشر تا جنت عطا کیا جائے گا۔ جس نے  جسقدر صعوبت اُور تکلیف ذیادہ برداشت کی ہُوگی، صبر کیا ہوگا،، کم نعمت پر شُکر کیا ہُوگا۔۔۔ وہی ذیادہ انعام کا حقدار ٹہرے گا۔ وہی کامیاب ہُوگا۔ ۔۔ جس کے عمل میں اخلاص ہُوگا۔ وہی فاتح ٹہرے گا۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ ہم صبر نہیں کرسکتے۔۔۔ ہمیں آزمائش نہیں دینی۔۔۔ ہمیں دُکھ کا مُنہ نہیں دیکھنا۔ جو ہمیں اچھا لگے وُہ سب کچھ ہمیں چاہیئے۔۔۔۔ چاہے ہمارے عمل کی بیاض خالی سہی۔ لیکن ہمیں پروٹوکول چاہیئے۔۔۔۔


اگرچہ دُنیا دارالعمل ہے۔ دارالجزا نہیں۔۔۔۔ مگر ہمیں جزا یہاں چاہیئے۔ نہ ہم صبر کریں گے۔ نہ اپنے محبوب سے دُوری برداشت کریں گے۔۔۔۔ بس ہماری زُبان سے بات نِکلے اُور پوری ہُوجائے۔۔۔۔ ہمیں کوئی اِمتحان نہیں دینا۔۔۔ بغیر محنت اُور مشقت تمام سہولتیں درکار ہیں۔۔۔۔ اگر یہ دُنیا ایک کمرہ امتحان ہے۔ تو ٹھیک ہے۔ ہم امتحان دینے کیلئے تیار ہیں۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔ اِس امتحان گاہ کے وقت کا تعین ہم کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ امتحان کب دینا ہے۔ اُور کیسے دینا ہے۔ اِسکا اختیار بھی ہمیں مِلنا چاہیئے۔۔۔ ہمیں اِس کمرہ امتحان میں ہر ایک وُہ سہولت چاہیئے۔ جسکی خاہش دِل میں پیدا ہُو۔ یا جسکی طلب ہمارا نفس کرے۔۔۔۔۔
۔
۔
۔
دِل پر ہاتھ رکھ کر سچ کہیئے!!! کیا یہ ہمارے نفس کی آواز نہیں ہے۔۔۔؟ کیا ہمارا  بھی دِل اِس دُنیا کا طلبگار نہیں ہے۔
کیا ہم بھی امتحان کے چور نہیں ہیں۔۔۔؟؟؟
کیا ہم بھی وقت تباہ کرنے پر تُلے  ہُوئےنہیں ہیں۔۔۔؟
کیا ہم نے بھی شُور مچا مچا کر زمانے میں اُدھم برپا نہیں کیا ہُوا۔۔۔؟
کیا ہم کو بھی ہر ناصح پر غُصہ نہیں آتا۔۔۔؟ جو ہمیں صبر و شکر کی تلقین کرتا ہے۔
۔
۔
۔
اگر ایسا ہے۔۔۔۔ جو کہ یقیناً ہے۔۔۔ تو۔۔۔۔ کیا فرق ہے۔ اُن تینوں۔۔۔ اُور ہم میں۔۔۔۔
۔
جب کہ اللہ کریم کی مشیت تو یہی ہے۔ کہ،، ہر کام میں ترتیب ہُو۔ جو ذیادہ محنت کرے۔ وُہ ذیادہ انعام پائے۔ اُس کریم نے ہمیں  آزمانے کیلئے اِس کمرہ امتحان میں بھیجا ہے۔ تاکہ  خُوب محنت  کے ذریعےکامیابی ہم حاصل کریں۔۔۔۔  اُور وُہ  کریم عزوجل ،،حضرت انسان کی کامیابی کا تذکرہ  معصوم فرشتوں کے درمیان فرمائے۔۔۔ اُور کامیابی کا تاج حضرت انسان کے سر پہ سجا کر اُسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے انعامات  سے سرفراز کردے۔کہ،، امتحان لینا اگر مقصود نہ ہُوتا تو وُہ ہمیں اِس دُنیا میں بھیجتا ہی کیوں۔۔۔؟؟؟ پیدا فرماتے ہی جنت میں داخِل نہ فرمادیتا۔؟

1 comment:

  1. کاش ہم نادان اس نصیحت کو سمجھ کر اللہ سبحانہ تعالی کے عابد و صابر وشاکر بندے بن جائیں

    ReplyDelete