bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Tuesday 18 February 2014

فریبی



صبا۔۔صبا۔۔۔کہاں ہُو بھئی۔۔۔؟  ۔کامران نے گھر میں داخل ہُوتے ہی چلانا شروع کردیا تھا۔۔۔ آرہی ہُوں۔۔۔ آرہی ہُوں۔۔۔ابھی مری نہیں ہُوں میں!  کیوں گلا پھاڑ کر   پُورے محلے کو سر پہ اُٹھا رہے ہُو۔۔۔۔؟ صبا  نے کمرے سے  ٹی وی  لاونج میں قدم رکھتے ہُوئے تیکھے انداز میں  اُونچی آواز  سے جواب دیا۔۔۔ لگتا ہے تمہارا غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہُوا۔۔۔؟ اب  تم خُود ہی دیکھ لُو۔کہ،، میں تُمہیں کتنی محبت سے پُکار رَہا تھا۔۔۔ جسکے جواب میں تُم پھر مجھ پر  پھنکار رہی ہُو۔۔ حالانکہ میں اپنی چاہت کا اظہار کرنے کیلئے تُمہارے لئے تحفہ بھی لایا تھا۔۔۔ لیکن لگتا ہے کہ،، مجھے یہ تحفہ واپس لیجانا پڑے گا۔۔۔ کامران نے مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہُوئے چہرے پر مسکراہٹ قائم رکھی۔۔۔

میں نے آپ سے کسی تحفے کی فرمائش نہیں کی۔۔۔ اُور مجھے آپ سے کوئی تحفہ چاہیئے بھی نہیں۔۔۔ ضرور ۔۔۔آپکو پھر کوئی مطلب ہُوگا  مجھ سے۔ یا پھر دُو چار دِن کیلئے  آپکا شہر سے باہر جانے کا اِرادہ ہُوگا۔۔۔ ورنہ آپ اُن شوہروں میں سے نہیں ہیں۔ جو بغیر مطلب کے بھی اپنی بیگموں کو تحفے دیدیا کرتے ہیں۔یا آوٹنگ پر لیجاتے ہیں۔ صبا نے ایک بار پھر ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہُوئے کہا۔ لیکن  تحفہ کا ذکر سُن کراِس مرتبہ صبا کے لہجے میں پہلے کی طرح گھن گرج نہیں تھی۔ ۔۔۔

نجانے تُمہیں ہمیشہ یہ وہم کیوں رہتا ہے۔کہ،، میں تم سے اپنے مفادات کیلئے محبت کرتا ہُوں۔۔۔لڑائی جھگڑے آخر کس گھر میں نہیں ہُوتے ۔۔۔ میں مانتا ہُوں۔کہ،، کبھی کبھی مجھے کچھ ذیادہ غصہ آجاتا ہے۔۔۔ لیکن ہمیشہ میں ہی لڑائی کی ابتدا نہیں کرتا۔۔۔ کبھی کبھی تُمہارے بےجا شک ، اُور میری خُوامخواہ کردار کشی کی تمہاری عادت کی وجہ سے بھی میں جھنجلا جاتا ہُوں۔۔۔ لیکن ہمیشہ صلح کیلئے پہل بھی میں ہی کرتا ہُوں۔۔ اَب یہی دیکھ لُو کہ،، میں تو تمام باتوں کو پرسوں ہی بھلا چکا  تھا۔لیکن تُمہارا غصہ ابھی تک  تمہاری ناک پر دھرا ہے۔۔۔ خیر چھوڑو اِن باتوں کو میں ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی صلح میں پہل کرنا چاہتا ہُوں۔۔۔ اُور دیکھو اِس مرتبہ میں تُمہارے لئے کتنا بیش قیمت تحفہ لایا ہُوں۔ اتنا کہہ کر کامران نے جیب سے کاغذ کا ایک لفافہ نکال کر زبردستی صبا کے ہاتھ میں رکھتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔  بھئی تُمہارے تحفے کی خریداری کے چکر میں بُہت ذیادہ تھک گیا ہُوں۔۔۔ اسلئےمیں تو فریش ہُونے کیلئے نہانے جارہا ہُوں۔اگر تمہیں تحفہ پسند آجائے تو مجھے بس ایک کپ چائے پلوا دینا۔۔۔

کامران کے واش رُوم میں داخل ہُونے کے بعد ۔۔۔صبا واپس اپنے کمرے میں داخل ہُو کر لفافہ کھولنے لگی۔۔۔ لفافے میں موجود تحفہ کو دیکھ کر صبا کی گھٹی گھٹی سی چیخ ہی نِکل گئی۔۔۔  قریباً ایک ماہ قبل  بھی کامران اُور صبا کی نُوک جھوک ہُوئی تھی۔۔۔ اِس لڑائی کے خاتمے پر کامران صبا کو شاپنگ مال لیکر گیا تھا۔ جہاں اُنہوں نے خُوب خریداری کی تھی۔  شاپنگ مال میں جیولری کارنر پر ایک خوبصورت  کنگن کا سیٹ ڈسپلے کیا گیا تھا۔ جس پر انتہائی خوبصورت کام کے ساتھ یکتا  ہیرے کے نَگ بھی آویزاں تھے۔۔۔ اُس دِن صبا نے بُہت کوشش کی تھی۔کہ کامران اُسے یہ سیٹ دِلوادے لیکن کامران نے ساڑھے چار لاکھ روپیہ کا یہ کنگن سیٹ اُسے  یہ کہہ کر  نہیں دِلوایا تھا۔ کہ فی الحال میرا بجٹ نہیں ہے۔۔۔ لیکن آج وہی بیش قیمت کنگن سیٹ صبا کے ہاتھ میں تھا۔ البتہ کامران نے سرپرائز کی خاطر کنگن کا کیس گاڑی میں ہی چھوڑ دیا تھا۔یا شائد وُہ جیولر کی دُوکان پر چھوڑ آیا تھا۔۔۔ چند لمحے صبا کنگن اُلٹ پلٹ کر دیکھتی رہی۔پھر اچانک کسی خیال کے تحت اپنے موبائیل پر نمبر پنچ کرنے لگی۔ دوسری جانب سے جیسے ہی کال رِیسیو کی گئی۔ صبا نے خُوشی سے بھنچی بھنچی آواز میں  اطلاع  دیتے ہُوئے کہا۔۔۔ ھیلو  گل رُخ مجھے وُہ کنگن مِل گئے ہیں۔۔۔ ارے ہاں بھئ   وہی   کنگن جنکا میں نے اُس دِن تُم سے تذکرہ کیا تھا۔۔۔ ہاں کامران نے ہی گفٹ کئے ہیں اُور کہاں سے آتے۔۔۔ بس تُم کل صبح ضرور آجانا۔ میں سب سے پہلے تمہیں وُہ کنگن دِکھانا چاہتی ہُوں۔۔۔آف کورس  بھلا تُم سے ذیادہ مجھے  کُون عزیزہے۔ جسکے ساتھ میں اپنی خاص خُوشی سیلیبریٹ کروں۔

  دوسرے دِن صبا   کامران کے چلے جانے کے بعد گلرُخ کو اپنے کنگن دِکھا رہی تھی۔۔۔ گُل رُخ بظاہر بُہت ذیادہ خُوشی کا اِظہار کررہی تھی۔ لیکن اُسکے اندر جو بے چینی   سانپ کی طرح اُسے ڈس رہی تھی۔ وُہ ذیادہ دیر صبا سے مخفی نہ رِہ سکی۔۔۔ بلاآخر صبا نے پُوچھ ہی لیا۔۔۔ یار گُلرُخ تُم اتنا دسٹرب کیوں نظر آرہی ہُو۔۔۔؟ کیا تُم کو  میرےکنگن پسند نہیں آئے۔۔۔ یا کوئی اُور بات ہے۔جِسے تُم مجھ سے چھپانے کی کُوشش کررہی ہُو۔۔۔؟

نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں تو بس یہ سُوچ رہی تھی۔کہ،، تُم کتنی خُوش قسمت ہو۔ جِسے اتنا چاہنے والا شُوہر مِلا ہے۔ جو تمہاری ذرا ذرا سی ناراضگی کو دُور کرنے کیلئے لاکھوں کے تحائف تُمہاری نظر کردیتا ہے۔۔۔ اُور ایک میں ہُوں۔کہ،، جس سے محبت کرتی ہُوں۔۔۔ وُہ برملا شادی کے تذکرے کو بھی پسند نہیں کرتا۔۔ بس یہی موازنہ کررہی تھی۔ اسکے سِوا کچھ نہیں۔ گُل رُخ نے ہُونٹ چباتے ہُوئے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔

یار ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ تم مجھ سے ہزار گُنا ذیادہ خوبصورت ہُو۔ دیکھنا جب تُمہاری شادی ہُوجائے گی نا! تب تُمہارا شوہر تمہیں مجھ سے بھی زیادہ قیمتی تحائف دیگا۔ بلکہ میں تو  سُوچتی ہُوں۔کہ،، کس کافر کا دِل چاہے گا کہ،، اتنی حسین بیوی کو چھوڑ کر کام پر جائے ۔۔۔مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ،، وُہ شادی کے بعد تمہارے ہی قدموں میں پڑا رَہا کرے گا۔۔۔صبا نے قہقہ لگاتے ہُوئے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی۔۔۔ اُور ہاں ابھی ایک ماہ قبل تمہیں بھی تو تُمہارے منگیتر نے اتنی قیمتی ہیرے کی انگوٹھی دی تھی۔۔۔ صبا نے  گُلرُخ  کو یاد دِلاتے ہُوئے کہا۔۔۔ جواب میں گُل رُخ نے پھیکی سی مسکراہٹ بکھیرنے کے بعد چہرہ دوسری جانب پھیر کر  چپکے سےآنکھوں کے گوشوں کو خشک کرلیا۔

 تھوڑی ہی دیر بعد صبا کے گھر سے نِکل  کر گُل رخ  ایک ٹیکسی والے کو ایڈریس سمجھا کر ٹیکسی میں پچھلی نشست سے ٹیک  لگائے،موبائیل پر کسی سے  مختصر گفتگو کرنے کے بعد ،آنکھ موند کر  کسی نتیجے پر پُہنچنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔  ٹیکسی ایک خوبصورت  اپارٹمنٹ کے سامنے  جا کر ٹہر گئی۔۔۔ گُل رُخ نے جیبی آئینہ نکال کر اپنے چہرے پر نگاہ  ڈالی ٹشو پیپر سے چہرے کو صاف کیا۔ ۔۔ٹیکسی کا کرایہ اَدا کرنے کے بعد دروازہ کھول کر وُہ اپارٹمنٹ میں داخل ہُوگئی۔۔۔

گُل رُخ خیریت تو ہے نا۔۔؟ مجھے فوراً یہاں کیوں بُلوایا ہے۔۔۔ جبکہ میں نے تُم کو سمجھایا بھی تھا۔کہ،، ہمارا اِس طرح دِن دِہاڑے سرعام مُلاقات کرنا ہم دُونوں کو کسی پریشانی میں مبتلا کرسکتا ہے۔۔۔ اُور یہ بھی ممکن ہے کہ،، کوئی صبا کے  کان بھردے۔۔۔ اگر ایسا ہُوا تو بہت مشکل ہُوجائے گی۔۔۔۔
 کامران صاحب گھبرایئے مت!!! میں آج آپکو ہمیشہ کیلئے اِس پریشانی سے نجات دِلانے کیلئے ہی یہاں آخری مرتبہ آئی ہُوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری مرتبہ؟؟؟ کیا مطلب۔۔۔؟؟؟ تم کہنا کیا چاہتی ہُو۔۔۔ کیا کسی نے کچھ کہا ہے تُم سے۔۔۔؟ کامران نے پریشانی کے عالم میں گُلرخ کو دیکھتے ہُوئے استفسار کیا۔

مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔ لیکن آج مجھے اپنی  حیثیت کا خوب اندازہ ہُوگیا ہے۔۔۔ اُور اسکے ساتھ مجھے یہ معلوم ہُوگیا ہے۔کہ آپ کے نذدیک میری  ذات ایک کھلونے سے ذیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔۔ جب آپکی قانونی بیوی آپکو ٹھکرا دیتی ہے۔تب آپ کتے کی طرح دُم ہِلاتے ہُوئے دُوچار دِن کیلئے میری زندگی میں مجھے بھنبوڑنے کیلئے آجاتے ہیں۔۔۔۔ اُور مجھے یہ یقین دِلانے کی کُوشش کرتے ہیں۔کہ،، آپکے نذدیک  میں دُنیا  کی سب سے اہم ہستی ہُوں۔۔۔ لیکن دُوچار دِن بعد جب آپکا دِل مجھ سے بھر جاتا ہے۔تب آپ ضمیر کے قیدی بن کر واپس اپنی قانونی بیوی کے پاس لُوٹ جاتے ہیں۔۔۔

اُور اپنے گناہوں کے اِحساس کو مٹانے کیلئے۔ یا اپنی رُوح کو دھوکہ دینے کیلئے۔  اپنی جائز بیوی کیلئے بیش قیمت تحائف لے جاتے ہیں۔۔۔ کچھ دِن بعد یہ احساس جُرم کم ہُوجاتا ہے۔ تب آپ پھر  ایک نئے فساد کا جواز تلاش کرنے کی کوشش میں مگن ہُوجاتے ہیں۔۔۔ اُور اِس طرح یہ کھیل چلتا رِہتا ہے۔۔۔میں بھی کتنی بےوقوف تھی۔۔۔ جو یہ بات نہ سمجھ سکی کہ،، جو شخص اپنی جائز بیوی کو دھوکہ دے سکتا ہے۔ وُہ ناجائز رِشتے کو بھلا کب اہمیت کے قابل سمجھے گا۔۔۔۔صبا کی آواز اُسکے سینے میں دَم توڑنے لگی تھی۔۔۔ یا شائد  اُسکے آنسووٗں نے حلق کے ذریعے سے  باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرلیا تھا۔

دیکھو گُل رُخ مجھے معلوم ہے۔کہ،، آج تم اپنی سہیلی سے مِلی ہُو۔۔۔ اُور میرے خیال میں اُس نے شک کی بنا پر تمہارے سامنے میرا ایسا نقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہُوگی۔ جسکی وجہ سے تم مجھ سے دِلبرداشتہ  ہُوئی ہُو۔۔۔ لیکن یقین جانو میرے دِل میں تمہارا جو مقام ہے۔۔۔ تُم اُسکا تصور بھی نہیں کرسکتیں۔۔۔۔ کامران نے بات سنبھالنے کی آخری کوشش کی۔۔۔۔

نہیں کامران صاحب میں اِن  فریبی تصورات کی دُنیا  سے نکل کر حقیقت کی دُنیا میں قدم رَکھ چکی ہُوں۔ خُدا کیلئے مجھ سے  جھوٹی اور جذباتی باتیں نہ کریں۔۔۔۔ آپ مجھے کہتے ہیں۔کہ،، دُنیا میں آپ کو مجھ سے ذیادہ پیارا کوئی نہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ میرے مقدر میں پھر بھی جائز رِشتہ نہیں۔۔۔  جبکہ بقول آپکے جو عورت آپکو پسند نہیں اسکے بستر پر آپکی ستائس راتیں بسر ہوتی ہیں۔۔۔۔
جو  عورت آپکو پسند نہیں۔۔۔ وہی عورت فخر سے دُنیا والوں کے سامنے آپکے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کا حق  بھی رَکھتی ہے۔۔۔ وہی اپنے گھر میں رہتی ہے۔۔۔ وہی خود کو منوانے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔۔۔ وہی لاکھوں کے تحائف لیکر بھی ناراضگی کا حق بھی رکھتی ہے۔۔۔۔ تو  کامران صاحب ! آخر میں کُون ہُوں۔۔۔؟ آپکی داشتہ۔۔۔؟ جو اپنی چاہت کا برملا تذکرہ بھی نہیں کرسکتی۔۔۔

جسے خوش کرنے کیلئے آپ ہیرے کی انگوٹھی کہہ کر نقلی زرقون تھمادیتے ہیں۔۔۔۔ کتنا تضاد ہے کامران صاحب آپکی باتوں میں۔ اُور کتنی بے وقوف تھی میں۔ جو محبت اُور ہَوس میں تمیز نہیں کرپائی۔ اُور ایک فریبی شخص کی باتوں میں آکر اپنی ایسی سہیلی کو دھوکہ دینے کیلئے چل پڑی ۔جسے اپنی خوشیوں کو شئیر کرنے کیلئے بھی مجھ سے بہتر کوئی سجھائی نہیں دیتا۔۔۔۔ لیکن اب میں ایسا نہیں ہُونے دُونگی۔۔۔۔ نہیں ہُونے دُونگی۔۔۔۔ میں آج کے بعد صبا سے بھی کبھی نہیں مِلوں گی۔۔۔ کیونکہ میں نے اسکی پشت میں خنجر گھونپا ہے۔۔۔ مجھ میں اب اتنی اخلاقی سکت بھی نہیں ۔کہ،، اُسکی آنکھوں میں دیکھ کر اُسکا   سَامنا کرسکوں ۔۔۔ لیکن اتنی دُعا ضرور کروں گی کہ،، کاش وُہ  تمہارے تحفوں میں چھپی تمہاری شرمندگی اور ندامت کے  کینچلی میں بند سانپوں کو پہچاننے کے قابل ہُوجائے۔۔۔ اے کاش وُہ جان جائے کہ،، فساد کے بعد جو تحفے تُم اُسے دیتے آئے ہُو۔ وُہ محبت نہیں بلکہ گناہ کا کفارہ تھے۔

0 comments:

Post a Comment