bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday, 14 March 2013

عشق کے رنگ شیخ صنعان کے سنگ 5







گُذشتہ سے پیوستہ ۔ 


شام کا اندھیرا پھیلنے کے بعد شیخ محمود اُور شیخ فریدخُود کو چادر میں چھپائے یہودی کے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔۔ شیخ محمود نے  مکان تک پُہنچنے کے بعد  چادر گردن میں حائل کرتے ہُوئے دروازے پر آہستہ سے دستک دِی ۔۔۔جسکے نتیجے میں اندر سے  کسی نوجوان لڑکی نے نہایت رسیلے اُور ششتہ لہجے میں دریافت کیا۔۔۔ کُون ہے۔۔؟؟؟ جواب میں شیخ محمود نے گھر کے مالک سے مِلنے کی خُواہش کا اِظہار کیا۔۔۔۔۔ چند لمحے بعد یہودی  اپنے مکان کے دروازے سے باہر برآمد ہُوا۔۔۔ اُور شیخ محمود  اُور شیخ فرید سے مصافحے کے بعد آنے کی وجہ دریافت کرنے لگا۔۔۔ جناب ہم لُوگ عرب سے آنے والے عظیم قافلےکے اِہم  رُکن ہیں۔ اُور ایک معاملے میں آپ سے گفت و شنید کے خُواہشمند ہیں۔ اگر آپ ہمیں کچھ وقت عنایت کردیں تو جناب کی ہم مسافروں پر بُہت نوازش ہُوگی۔

اب مزید پڑھ لیجئے۔

یہودی بُوڑھے نے آنے والوں کے حُلیے سے اندازہ لگانے میں دیر نہ لگائی کہ آنے والے  مہمان جو کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ یہودی نے اِن دُونوں کو مہمان خانے میں بٹھانے کے بعد آواز لگاتے ہُوئے کہا۔ بیٹی ٹریسا ! دُو مہمانوں کیلئے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کردو۔۔۔۔ اندر سے ایک مرتبہ پھر وہی رسیلی آوازسُنائی دی۔۔ جی بابا میں تھوڑی دیر میں انتظام کئے دیتی ہُوں۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد ٹریسا  ایک برتن میں دُودھ کے ساتھ خشک انجیر اُور تازہ کھجوریں مہمانوں کے سامنے سجارہی تھی۔۔۔ شیخ محمود اُور شیخ فرید نے صرف ایک نگاہ پڑتے ہی اپنی نظروں کو زمین کی طرف جھکا لیا تھا۔۔۔ لیکن وُہ ٹریسا کے قیامت خیز حسن کی ایک جھلک دیکھ کر ہی اپنے شیخ کی  مجبوری اُور بے چینی کی وجہ سمجھ چُکے تھے۔ بِلاشبہ قُدرت  نے ٹریسا کی شکل میں ایک شاہکار تراش  کر دُنیا میں بھیج دیا تھا۔

 یہودی منتظر تھا کہ،، مہمانوں کی تواضع کا مرحلہ گُزرے ۔تو وُہ مہمانوں کی آمد کا مقصد معلوم کرے۔۔۔ لیکن شیخ محمود اُور شیخ فرید بجائے کچھ کھانے کے خُشک انجیر ہاتھ میں لئے ایک دوسرے کی جانب سوالیہ نطروں سے دیکھ رہے تھے۔ جیسے زُبان حال سے ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہُوئے کہہ رہے ہُوں۔کہ،، گفتگو کو کہاں سے شروع کیا جائے۔ یہودی نے اِن دُونوں کی پریشانی بھانپتے ہُوئے کہا۔ میرے مہمان تذبذب کا شِکار نظر آتے ہیں۔ آخر ایسی کیا بات ہے۔ کہ،، جسکے خوف سے آپ حضرات کسی شئے کو بھی نہیں کھا رہے ہیں۔۔۔ اگر آپ لوگ  مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ تو بِلا جھجک کہہ دیں۔ ہم لُوگ  اپنے مہمانوں کی باتوں کا ذرا بھی بُرا نہیں مناتے۔ چاہے وُہ بات ہمیں ذلیل کرنے کیلئے ہی کیوں نہ کہی گئی ہُو۔ بُوڑھے یہودی نے شیخ محمود اُور شیخ فرید کا حُوصلہ بڑھاتے ہُوئے کہا۔۔۔

نہیں جناب ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ جسے کہنے کا مقصد آپکی اِہانت ہُو۔ لیکن  یہ بھی سچ ہے کہ بات اتنی آسان بھی نہیں ہے۔۔۔۔ جبکہ کہے بنا چارہ بھی نہیں ہے۔۔۔ شیخ فرید نے تہمید باندھتے ہُوئے گفتگو کی ابتدا کی۔۔۔۔ دراصل یہ تو آپ کو معلوم ہی ہُوگا ۔کہ اَرض مقدس کی زیارت کیلئے ایک قافلہ مُلک عرب سے سرزمین شام پر اُترا ہے۔ ہمارے اِس قافلے کی قیادت وقت کے عظیم بُزرگ   یعنی ہمارے مُرشد شیخ صنعان فرمارہے ہیں۔  اُور ہمارے ساتھ ہمارے ہزاروں پیر بھائی بھی اِس سعادت کو حاصل کرنے کیلئے بیت المقدس کی جانب جارہے ہیں۔۔۔ لیکن گُزشتہ دِن تبوک میں ایک ایسا معاملہ ہمارے ساتھ پیش آگیا ہے جِس نے ہم سب کو ایک اِمتحان میں ڈال دیا ہے۔۔۔ جسکی ہمیں بالکل توقع نہیں تھی۔ اُور اِسی  آزمائش کی وجہ سے ہم اپنا سفر شروع نہیں کرپارہے۔۔۔  ہم آپکے پاس  اُسی امتحان سے نکلنے کیلئے حاضر ہُوئے ہیں۔ کیونکہ آپ ہی ہمیں اِس امتحان سے نِکال سکتے ہیں۔۔شیخ فرید  کو اتنی بات کرنے  سے ہی اپنا گلا خُشک ہُوتا محسوس ہُونے لگا۔ اسلئے شیخ فرید نے دُودھ کے گلاس کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ اُور چند سانوں میں گلاس خالی کردیا۔

میں نے اِس قافلہ کے متعلق سُنا ضرور ہے۔ اُور میں نے آپکے شیخ کی بھی بُہت تعریف سُنی ہے۔۔۔ لیکن بھلا میں آپکی کیا مدد کرسکتا ہُوں۔کیوں کہ نہ ہی میں کوئی بُہت ذیادہ مالدار آدمی ہُوں۔ اُور نہ ہی  آپکا ہم مذہب یعنی کہ مسلمان ہُوں۔۔ میں ایک سیدھا سادھا سا یہودی ہُوں جو صرف اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔۔۔ آپ لوگوں کو میرے متعلق شائد کوئی غلط فہمی ہُوئی ہے۔ بُوڑھے یہودی نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے کہا۔

ہمیں آپ سے کسی قسم کی کوئی مالی مدد نہیں چاہیئے۔ اُور نہ ہمیں  آپ سے کوئی سرکاری کام ہے۔بلکہ ہم آپ سے کچھ اُور ہی مانگنے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔   شیخ فرید نے گفتگو کو آگے بڑھانا چاہا لیکن الفاظ اُسکے حلق میں جیسے اَٹک سے گئے ہُوں۔۔۔

آپ لوگ مجھ سے کیا مانگنے آئے ہیں۔۔۔ خُدارا جو کچھ بھی کہنا ہے جلدی کہدیں۔۔۔ آپکی بار بار خاموشی نے مجھ بُوڑھے کے دِل کی دھڑکن بلاوجہ بڑھادی ہے۔۔۔ بوڑھے یہودی کے لہجے سے پریشانی صاف مترشح تھی۔

شیخ محمود نے  اپنا ہاتھ شیخ فرید کے زانوں پر رکھتے ہُوئے آنکھ کے اِشارے سے  گفتگو آگے بڑھانے کیلئے  کہا۔۔۔۔۔۔۔ جسکے بعد شیخ فرید نے گلا کھنکارتے ہُوئے گفتگو کی ابتدا کی۔۔۔۔ جناب والا مجھے بھی اِس بات کا احساس ہے۔ کہ گفتگو کی طوالت ہمیشہ ذہنی کوفت کا پیش خیمہ ہُوتی ہے۔ اِس لئے میں کوشش کرونگا کہ،، غیر ضروری گفتگو سے احتراز برتتے ہُوئے جلد اپنا مقصد  آپکے گوش گُزار کردوں۔۔۔۔ جیسا کہ،، میں پہلے ہی عرض کرچُکا ہُوں۔ کہ ہم  لُوگ ہزاروں کی   تعداد میں اپنے شیخ کے ہمراہ بیت المقدس کی پاکیزہ سرزمین پر عبادت کی خاطر اپنے گھروں سے نکلے ہیں۔۔۔ ہمارے درمیان ایسے صاحب ثروت لُوگ بھی موجود ہیں۔جو شیخ کے ایک اِشارے پر سُونے چاندی کے ڈھیر لگانے پر قادر ہیں۔  اِس کے علاوہ  ہر طبقہ زندگی  کے ماہر حضرات بھی اِس قافلے میں شامل ہیں۔ جو وقت آنے پر اپنے اپنے شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔

اسلئے ہمیں معاشی یا معاشرتی مسائل کا کوئی خوف دامن گیر نہیں ہے۔۔۔۔ دراصل ہمارے شیخ محترم نے اپنی تمام زندگی نہایت پاکیزگی کے ساتھ بَسر کی ہے۔ مکہ کی سرزمین میں ایک طویل عرصہ آپ نے کعبۃ اللہ کے سائے میں معتکف رہے ہیں۔۔۔ اصفہان سے لیکر سرزمین عرب تک ہمارے شیخ کی کرامات کے قصے مشہور ہیں۔۔۔۔ شیخ صنعان اِمام مکہ کی نگاہ میں بھی بُلند پائے کے عارف ہیں۔ آپ کا عبادت کا ایسا ذُوق حاصل ہے کہ آپ نے کبھی شادی کے متعلق سُوچا بھی نہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔کہ انسان کو  اِس دُنیا میں اتنی مختصر زندگی مِلی ہے۔ کہ،،  تمام زندگی  خلوت  نشین رِہ کر بھی عبادت کا حق پُورا کرنا ہی مشکل اَمر ہے۔ تو بندہ دُنیا کے معملات میں اُلجھ کر یہ حق کسطرح اَدا کرپائے گا۔۔۔۔ اِس لئے آپ کبھی کسی عورت کی طرف  ملتفت ہُونا تو کجا،، چہرہ عورت کو دیکھنے کے بھی رَوادار نہیں ہُوئے۔

لیکن۔گُذشتہ دِنوں جب شیخ محترم پہلی مرتبہ تبوک شہر میں داخل ہُوئے، اُور جب آذان دینے کیلئے مینار پر تشریف لائے۔ تب آپکی خُوش  بختی کا ستارہ جاگ اُٹھا۔ اُور ہمارے شیخ محترم کی نِگاہ آپکی صاحبزادی پر پڑگئی۔۔۔ نجانے قُدرت کو کیا منظور ہے۔ لیکن آپ  واقعی بُہت خُوش نصیب ہیں۔ کہ،، ہمارے شیخ کو آپکی صاحبزادی پسند آئی ہیں۔ اُور آپ نے فیصلہ کیا ہے۔کہ،، بقیہ زندگی مجرد رِہنے کے بجائے نِکاح کی سُنت پر عمل پیرا  رَہینگے۔

شیخ فرید کے خاموش ہُوتے ہی یہودی نے سپاٹ لہجے میں کہا!!! مجھے  ایک  بات سمجھ  نہیں آئی۔کہ،، میرے لئے اِس بات میں کونسی سعادت مندی  اُور خُوش نصیبی پُوشیدہ  ہُوسکتی ہے۔ کہ،، ایک ایسا انسان جو جوانی کی سرحد کو عبور کرنے کے بعد بُڑھاپے کی دہلیز میں قدم رَکھ چکا ہے۔۔۔۔ وُہ میری بیٹی پر عاشق ہُوچکا ہے۔ اُور میری جوان بیٹی کو اپنی شریک حیات بنانا چاہتا ہے۔۔۔ جبکہ وُہ شخص  صرف بُوڑھا ہی نہیں۔ بلکہ اُسکا مذہب بھی ہمارے مذہب سے جُدا ہے۔۔۔۔ میرے خیال میں کسی شخص کے گھر  اُسکی بیٹی کیلئے ایسا رشتہ آنا،  شرمندگی 
کا تُو باعث ضرور ہُوسکتا ہے۔لیکن سعادت و خُوش بختی کا پیش خیمہ نہیں۔۔۔

جاری ہے۔

0 comments:

Post a Comment