bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 16 March 2013

عشق کے رنگ شیخ صنعان۔ حضرت بھائی قسط 6





گُذشتہ سے پیوستہ۔ 

شیخ فرید کے خاموش ہُوتے ہی یہودی نے سپاٹ لہجے میں کہا!!! مجھے  ایک  بات سمجھ  نہیں آئی۔کہ،، میرے لئے اِس بات میں کونسی سعادت مندی  اُور خُوش نصیبی پُوشیدہ  ہُوسکتی ہے۔ کہ،، ایک ایسا انسان جو جوانی کی سرحد کو عبور کرنے کے بعد بُڑھاپے کی دہلیز میں قدم رَکھ چکا ہے۔۔۔۔ وُہ میری بیٹی پر عاشق ہُوچکا ہے۔ اُور میری جوان بیٹی کو اپنی شریک حیات بنانا چاہتا ہے۔۔۔ جبکہ وُہ شخص  صرف بُوڑھا ہی نہیں۔ بلکہ اُسکا مذہب بھی ہمارے مذہب سے جُدا ہے۔۔۔۔ میرے خیال میں کسی شخص کے گھر  اُسکی بیٹی کیلئے ایسا رشتہ آنا،  شرمندگی کا تُو باعث ضرور ہُوسکتا ہے۔ لیکن سعادت و خُوش بختی کا پیش خیمہ نہیں۔۔۔


اَب مَزید پڑھ لیجئے۔۔


اسلئے میں آپ لوگوں پر صاف صاف واضح کردینا چاہتا ہُوں۔ کہ،، مجھے یہ رِشتہ کسی بھی قیمت پر منظور نہیں ہے۔۔۔۔ آپ لُوگ میرے مہمان ہیں۔ اِس لئے آپ لوگوں کی تعظیم مجھ پر واجب ہے۔ لیکن اب میری آپ لوگوں سے استدعا ہے کہ،، آپ  حضرات تشریف لے جائیں۔۔۔ اُور ہاں۔ آئندہ بھی اِس قسم کے کسی کام کیلئے برائے مہربانی۔ نہ خُود آئیےگا۔ اُور نہ کسی دُوسرے کو بھیجنے کی زحمت کیجئے گا۔۔۔ ورنہ ہُوسکتا ہے کہ،، میں اِس بات کا لحاظ بھی نہ کرپاوں کہ،، آنے والے مہمان ہیں۔۔۔ جنہیں ہم لوگ اپنی روایات کی وجہ سے فرشتوں جیسا سمجھتے ہیں۔ اتنا کہہ کر یہودی اُٹھ کر اندر چلا گیا۔۔۔ گویا اُس نے نشست کے بتخاست ہُوجانے کا اعلان کردیا تھا۔

شیخ محمود اُور شیخ فرید کو قطعی اندازہ نہیں تھا۔ کہ،، شیخ کے رشتے پر یہودی کا جواب اتنا جارحانہ بھی ہُوسکتا تھا۔۔۔ اُور وُہ پہلی ہی مُلاقات میں اتنی صاف گوئی سے انکار کی اتنی مضبوط دیوار کھڑی کردے گا۔۔۔ جسکی وجہ سے  گفتگو کی راہ ہمیشہ کیلئے  مَسدود ہُوجائے گی۔  شیخ فرید سُوچنے لگا۔۔۔ شائد ہم نے بُہت جلد بازی کا مُظاہرہ کیا ہے۔۔۔ رشتہ کی بات چلانے سے قبل یہودی  کو شیشے میں اُتارنا چاہیئے تھا۔۔۔۔لیکن اِب ہُو بھی کیا سکتا تھا۔۔ تیر کمان سے نِکل چُکا تھا۔ اُور نشانہ خطا جانے کی وجہ سے یہودی بِدک چُکا تھا۔۔۔ شیخ محمود اُور شیخ فرید افسردگی کی حالت میں ناکامی کے احساسات  سے دِل گرفتہ یہودی کے گھر سے باہر نِکل آئے۔۔۔ تبھی پیچھے سے وہی مترنم آواز گونجی۔ حضرت بھائی ذرا  سُنئے گا!!!

اگرچہ افسردگی اُور اِنکار کی تکلیف سے  دُونوں کے چہرے بُجھے ہُوئے تھے۔۔۔ لیکن یہ عجیب و غریب لقب سُن کر اِن دُونوں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اُور دُونوں نے مُڑتے ہُوئے بیک وقت کہا۔۔۔ حضرت بھائی!!!۔۔۔ جی بھائی میں اکثر مسلمانوں کو دیکھا ہے۔ کہ،، وُہ جب کسی کو تکریم سے مخاطب کرنا چاہتے ہیں۔ تو حضرت کا اضافہ کردیتے ہیں۔۔۔ آپ بھی چونکہ مسلمان ہیں۔ اُور میرے ہم عمر ہیں۔ اسلئے میرے بھائی جیسے ہُوئے۔ اسلئے میں نے آپ لوگوں کو بھی حضرت بھائی کے نام سےمخاطب کرلیا۔۔۔ لیکن اگر آپکو ناگوار گُزرا ہے تو میں معذرت چاہتی ہُوں۔ ٹریسا نے بھولپن سے جواب دیتے ہُوئے کہا۔۔۔

نہیں بہن ہمیں قطعی بُرا نہیں لگا ہے۔ بلکہ یہ تو بُہت منفرد تخاطب ہے جو سننے میں بُہت بھلا محسوس ہُورہا ہے۔آپ ہمیں حضرت بھائی سے مخاطب کرسکتی ہیں۔ ویسے میرا نام شیخ فرید ہے ۔ اُور میرےساتھی کا نام شیخ محمود ہے۔۔۔۔ شیخ فرید نے خُوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے کہا۔

حضرت بھائی آپ نے بابا سے ابھی جتنی بھی باتیں کی ہیں۔ میں نے وُہ  تمام باتیں دروازے کی اُوٹ سے سُنی ہیں۔۔۔ ویسے تو بابا آپ لوگوں کو جواب دے ہی چُکے ہیں۔ لیکن میں نے آپکے شیخ صاحب کی بُہت تعریفیں سُنی ہیں۔کہ،، وُہ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ اُور میں نے  آذان دیتے ہُوئے اُنکے نورانی چہرے کی زیارت کی ہے۔۔۔ نجانے اُنہوں  نے مجھ میں کیا خُوبی دیکھ کر مجھے اپنی شریک حیات بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔ لیکن میں اتنا جانتی ہُوں ۔کہ،،  اُنکی  زندگی میں آنے والی کوئی بھی خاتون   یقینا! بُہت  خوش  نصیب ہُوگی ۔لیکن میں آپکے شیخ کے قابل  ہر گز نہیں ہُوں۔ اسلئے اُن سے کہیئے گا۔کہ خُدارا مجھ جیسی ایک عام لڑکی کیلئے اپنے دِل کو رُوگ نہ لگائیں۔ اُور مجھ سے شادی کے خیال کو اپنے دِل سے جھٹک دیں۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد ٹریسا دوبارہ دروازے کے پیچھے پُوشیدہ ہُوگئی۔

ٹریسا کے گھر میں واپس چلے جانے کے بعد شیخ محمود اُور شیخ فرید بھی واپس اپنی رِہایشگاہ  کی طرف لُوٹنے لگے۔ مسجد کے قریب پُہنچ کر اُنکی نِگاہ ایک خُوبصورت باریش  نوجوان پر پڑی ۔جو اپنے گھوڑے کی زین درست کررہا تھا۔ اِن دونوں پر نِگاہ پڑتے ہی  اُس نوجوان نے سلام کرتے ہُوئے شیخ فرید سے  سرائے کے متعلق استفسار کیا۔۔۔ سلام کا جواب دینے کے بعد شیخ فرید نے اُس نوجوان کو بتایا۔کہ آجکل شہر کی واحد سرائے میں پہلے سے ہی ضرورت سے ذیادہ لُوگ موجود ہیں۔ جسکی وجہ سے سرائے میں جگہ مِلنے کا کوئی اِمکان نہیں ہے۔۔ اُس نوجوان کے چہرے پر شیخ فرید کے جواب سے پریشانی کے آثار نمایاں ہُونے لگے۔۔۔ شیخ فرید نے جب اُس نوجوان سے اُسکے وطن  کی بابت استفسار کیا۔ تو اُس نوجوان نے بتایا کہ،، اُسکا  نام   اَبو ریحان یوسف ہے۔ اُور اسکا آبائی شہر بغداد ہے۔جبکہ پیشے کے اعتبار سے وُہ ایک تاجر ہے۔ اُور اپنے کاروبار کو وُسعت دینے کیلئے شامکے سفر پر نِکلا ہے۔۔۔ بغداد کا نام  سپنتے ہی شیخ فرید نے اگلا سوال کیا۔ کیا تُم  نے کبھی سیدنا عبدالقاد گیلانی  (رحمتہ اللہ علیہ )کی صحبت پائی ہے۔

جوابا! یوسف نے بتایا کہ،، الحمدُللہ وُہ اکثر سیدنا غوث اعظم ( رحمۃ اللہ علیہ) کا درس سننے کیلئے جایا کرتا ہے۔۔ شیخ فرید نے یوسف کو پیشکش کی کہ،،  ہم لُوگ بھی مسافر ہیں ۔ اُور اپنے مُرشد کریم  کے ہمراہ  بیت المقدس کی زیارت کیلئے جارہے ہیں۔ چند دِن کیلئے تبوک میں ٹہرے ہیں۔ اگر وُہ چاہے تو ائیک رات کیلئے ہمارے ساتھ مسجد کے مسافر خانے میں ٹہر سکتا ہے۔۔۔ یوسف کو شیخ فرید کی یہ تجویز بُہت پسند آئی۔۔۔ لہذا وُہ گھوڑے کی لگام تھامے انکے پیچھے پیچھے چل پڑا۔۔۔

جاری ہے۔۔۔ 

0 comments:

Post a Comment