bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 16 March 2013

نا سنبھال سنبھال کر رکھ اِسے۔کہ،،عجب ہتھیار ہیں آنسو ۔


دُنیا میں آج جنگ جیتنے کیلئے  جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیکرنجانے کیسے کیسے ہتھیار ایجاد کئے جارہے ہیں۔ کوئی ٹینک بنارہا ہے۔ تو کوئی بارودی سُرنگیں، کوئی  لڑاکا طیارے  بنارہا ہے۔ تو کوئی آبدوز بنانے  میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ جبکہ کوئی کیمیائی ہتھیار بنارہا ہے۔ تو کوئی ایٹمی ہتھیار کی جانب توجہ مرکوز کئے جارہا ہے۔۔۔۔ لیکن جنگ جیتنے کیلئے ایک موٗثر ہتھیار آنسو بھی تو ہے۔۔۔!  اُور اگر یہی آنسو کسی خاتون کی آنکھوں میں ہُوں۔۔۔؟ تو سمجھ لیجئے کہ سامنے والا  انسان کبھی نہیں جیت پائے گا۔  اپنی بے بسی  اُور بے کَسی کے باعث میں ہمیشہ ہی  اپنے موبائیل نمبر کو چھپاتا چلا آیا ہُوں۔۔۔ مگر پھر بھی اپنے مہربانوں کی مہربانی کے باعث مجھے دِن میں کئی کالوں کا سامنا کرنا پڑ جاتا  تھا ۔۔۔ اُور جب کال کرنے والوں سے دریافت کرتا   کہ ،،آپکو یہ نمبر کہاں سے مِلاہے۔۔۔؟  تو ہمیشہ یہی سننے کو مِلتا ہے۔ کہ جس نے نمبر دیا ہے۔ اُس نے اپنا نام بتانے سے منع کیا ہے۔۔۔  اب میں کہوں تو کیا کہوں۔۔۔۔ کیا وعدہ خلافی کا سبق پڑھاوٗں۔۔۔ کسے منع کروں کسے سمجھاوٗں۔۔۔؟ لِہذا بہتر یہی لگا کہ کیوں نہ میں خود ہی فیس بُک پر اِس نمبر کو عام کردوں۔۔۔  کہ،،جب تک دَم میں دَم ہے۔۔۔ کام کرنا چاہیئے۔۔۔ کہ،، نہ جانے کونسے کام سے ہمارا کام بھی بن جائے۔۔۔ اُور وہی خالق کی جانب سے وجہ انعام ہُوجائے۔

خیر میں بات کررہا تھا ۔ آنسووٗں کی تو جناب قصہ کچھ یُوں ہے۔ کہ کل شام ہفتہ وار کاٹ سے پہلے۔فیس بُک پر اسٹیسس اپ ڈیٹ کرنے کی وجہ سے میسجز کا تانتا بندھ گیا۔ مجھے کیا خبر تھی۔ کہ،، اِک ذرا سی خبر لگانے کے بعد میرا یہ حال ہُونے والا ہے۔۔۔۔ بہرحال جب میں کاٹ سے فارغ ہُو کر۔ آفس سے باہر نکلنے لگا۔۔۔ تب تک بھی مجھے  لوگوں کے متواتر میسج موصول ہُورہے تھے۔ کہ،، ہماری بھی کاٹ کردیں۔(حالانکہ میں نے ۵ بجے کا اختتامی وقت بتا بھی دِیا تھا۔۔۔ اُور اب میں مجبوراً  سب کو ایک ہی جواب دے رہا تھا۔ کہ اب کاٹ کا  وقت ختم ہُوچکا ہے۔ اسلئے مزید کاٹ اگلی جمعرات کو ہُونگی۔۔۔ اِسی اثنا میں  آفس سے باہر نکلتے ہُوئے۔میرے موبائیل کی بیل بجنے لگی۔ اگرچہ مسلسل کاٹ کے عمل کی وجہ سے جسم پر تھکن طاری تھی۔ اُور موبائیل کال ریسیو کرنے کو بھی دِل نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن پھر نجانے کس جذبے کے تحت بے اختیار میرا ہاتھ جیب میں چلا گیا۔ کال ریسیو کرتے ہی  دوسری جانب سے ایک خاتون کی آواز سُنائی دی۔ میں سمجھ گیا کہ میری شامت آنےوالی ہے۔۔۔اِس لئے مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہُوئے کہا۔کہ،، سِسٹر آپ ہفتے کی دوپہر میں کال کرلیجئے گا۔ میں ابھی چونکہ اپنے گھر واپس جارہا ہُوں ۔ اِس لئے معذرت کیساتھ فی الحال آپ سے گفتگو نہیں کرپاوٗں گا۔

بس جناب اتنا کہنا تھا میرا۔ اُور اُن خاتون  (جنکا فرضی نام ہم ،،دیباج،، رکھ لیتے ہیں۔) نے ایکدم رُوتے ہُوئے کہا،، ہاں  بھائی آپ میری مدد کیوں کریں گے۔۔۔۔؟ آپ تو اُن لوگوں کا کام کریں گے نا!۔۔۔جو نوٹوں کے بنڈل لیکر آپ کے پاس آتے ہُوں گے۔۔۔ مجھے ایک لمحے کیلئے ایسے محسوس ہُوا۔ جیسے کسی نے بھرے بازار میں مجھے ننگی گالیاں دیتے ہُوئے میرے جسم سے کپڑے اُتار لئے ہُوں۔۔۔ وقتی طور پر میرے چہرے پر شائد غصے کی وجہ سےسُرخی پھیل گئی ۔۔۔لیکن تبھی ایک سرگوشی کرنے والے نے میرے کان میں کہا۔۔۔ نجانے یہ دیباج کتنے ٹھگوں کی شکل دیکھ چُکی ہُوگی۔ اُور نجانے کتنی رقم دینے کے باوجود بھی اب تک دھکے کھاتی آرہی ہُوگی۔۔۔جسکی وجہ سے اسکے لہجے میں زہریلی تلخی دَر آئی ہے۔ اگر آج تم نے بھی اِسے جھٹک دِیا تو۔ نجانے اُور کتنے   جعلی عامل ٹھگوں کی منحوس شکلیں برداشت کرتی رہے گی۔

اِس سرگوشی نے عجب کمال دِکھایا۔ اُور میرا چہرہ  ُدوسرے ہی لمحے پرسکون ہُوتا چلا گیا۔  میں نے ہر ممکن کوشش کرتے ہُوئے اپنے لہجے کو نرم بناتے ہُوئے کہا۔۔۔ دیکھیں  دیباج بہن آپ کو شائد کچھ غلط فہمی ہُوئی ہے۔۔۔  کیونکہ میں کسی سے بھی روحانی عملیات کی فیس نہیں لیتا۔۔۔ یہ کام میں صرف اپنے پروردیگار کو راضی کرنے کیلئے کرتا ہُوں۔۔۔۔۔ ایسا کسطرح ممکن ہے بھائی۔ پھر آپ کے گھر کا خرچ کیسے نکلتا ہُوگا۔۔۔؟  اُسکی آواز کی لغزش سے صاف پتا چل رہا تھا۔کہ،، وُہ ابھی تک آنسوٗ بہا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ دیباج بہن اللہ کریم کا بے حد احسان ہے۔۔۔۔ میری ایک چھوٹی سی آئل فیکٹری  ہے۔ جو میری فیملی کے گُزر بسر کیلئے کافی سے ذیادہ ہے۔۔۔۔۔ اب آپ بھی  ایک کام  کریں۔۔۔ کہ،، یہ رُونا دھونا بند کردیں ۔۔۔ اُور جلدی جلدی اپنا مسئلہ مجھے سُنادُیں۔ تاکہ ہم اس مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ اُور ویسے بھی میں کسی خاتون کی آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔ میں یہ کہتا ہُوا  دُوبارہ آفس میں داخل ہُوکر ایک کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا۔۔۔

 اُسے شائد ایسا لگا ہُو کہ جیسےوُہ ایک لمحے کیلئے بھی رُونا بند کرے گی۔ ۔۔تو میں لائن ڈسکنکٹ کردُوں گا۔۔۔ اسلئے اُس نے اپنی تمام کتھا مجھے رُوتے ہُوئے ہی سُنائی۔ جو کچھ یُوں تھی۔۔۔۔۔ دیباج کے والد ایک ٹیکسٹائل ملز میں کام کرتے تھے۔ جہاں ایک حادثے میں چار سال قبل اپنا ہاتھ گنوا بیٹھے۔۔۔ جسکے بعد وُہ کام کرنے کے قابل نہ رہے۔۔۔ ٹیکسٹائل ملز کے مالکان نے دیباج کے والد کو دُو لاکھ روپیہ دے کر نوکری سے فارغ کردیا۔ جو کہ دیباج کے والد کی دس ماہ کی تنخواہ کے مساوی رقم تھی۔۔۔۔ جس میں سے ایک سال میں چوراسی ہزار روپیہ کرایہ مکان کی مد میں چلا گیا۔ اُور باقی رقم سے ایک سال تک کسی نہ کسی طرح علاج و گھر کا خرچ چلا لیا گیا۔۔۔۔   دیباج کے ابو ہاتھوں کی معذوری کے باوجود  کچھ کام کرنا چاہتے تھے۔ لیکن کسی بھی فیکٹری میں اُنہیں اِس معذوری کیساتھ قبول نہیں کیا گیا۔ دیباج کے والد گھر کے واحد کفیل تھے۔ گھر میں دیباج کے والدین کے علاوہ دیباج کی ۲ عدد بہنیں بھی تھیں۔ دیباج کی عُمر اِس حادثے کے وقت ۲۴ برس تھی۔ جبکہ ایک بہن کی عمر ۱۹ برس اُور دوسری کی ۲۳ برس تھی۔

دیباج کی والدہ نے اِن تینوں بہنوں کی شادی کیلئے قریباً نو تولہ سُونا ایک ایک پیسہ بچا کر جمع کیا تھا۔۔۔  ابو کی معذوری کے بعد کوئی رشتہ تو اِن بہنوں کا نہیں آیا۔ البتہ  گھر کے اخراجات   اُور  کرایہ کی رقم ادا کرتے کرتے وُہ نو تولہ سُونا بھی بازار میں فروخت کردیا گیا۔  جسکے بعد  حالات  کو دیکھتے ہُوئے مجبوراً دیباج کی بہنوں کو اپنی تعلیم سے دستبردار ہُونے پڑا۔ اُور رِہائش بھی  ایک کچی آبادی میں منتقل کرنی پڑگئی۔۔۔۔ والدہ  سے دیباج نے کسی پرائیویٹ فرم میں جاب کی اجازت طلب کی۔۔۔ جسکے جواب میں دیباج کو تو اِجازت نہیں مِلی۔۔۔ البتہ دیباج کی والدہ نےضرور   ایک  بنگلے میں پانچ ہزار  رُوپیہ  ماہوار کی  مُلازمت حاصل کرلی۔۔۔ لیکن مہنگائی کے عفریت نے  جلد ہی اُنہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا۔ کہ،، پانچ ہزار روپیہ میں گھر چلانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

والدہ نے مجبوراً دیباج کو  بھی مُلازمت کی اجازت دیدی۔۔۔ لیکن دیباج کو   چند ماہ میں  ہی اِس بات کا احساس ہُونے لگا کہ،، آفس منیجر سے لیکر چپڑاسی تک  کی  نظریں دِن میں کئی بار  اُسکے جسم کا چپکے چپکے طواف  کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔۔۔۔ جب دیباج کو یہ احساس مسلسل ستانے لگا۔ تو اُس نے ایک دِن  فرم کے مالک سے شِکایت کرتے ہُوئے اپنی پریشانی کا اظہار کرڈالا۔ ۔۔۔جسکے جواب میں فرم کے ادھیڑ عمر  مالک نے بھی اسکی حوصلہ شکنی کرتے ہُوئے اُسے یہ باور کرانے کی کوشش کی۔۔۔ کہ،، اُسے یہ مشکل اسلئے پیش آرہی ہے۔۔۔ کیونکہ  لوگوں کو اُس کے پیچھے کوئی مظبوط ہاتھ دِکھائی نہیں دیتا۔ اسلئے دن بدن اُنکی ہمت بھی بڑھتی جارہی ہے۔۔۔۔ اَب اِسکا ایک آسان حل یہ ہے۔کہ،، تم مجھ سے دوستی قائم کرلو۔۔۔ جب اسٹاف کے لوگوں کو علم ہُوگا کہ دیباج مالک کی  ملازم نہیں بلکہ فرینڈ بن چکی ہے ۔ تو کسی کی بھی ہمت نہیں ہُوگی۔ کہ وُہ تُم پر ہاتھ یا میلی نظر ڈال سکے۔۔۔ فرم کے اُونر کی گھٹیا سُوچ کی وجہ سے دیباج نے اُسی ماہ   اِس فرم کو خیر آباد کہہ دیا۔۔۔

لیکن اسکے بعد کی زندگی دیباج کیلئے مزید  امتحانات کو  سامنے لاتی چلی گئی۔۔۔۔اُسے اپنی عصمت نہایت عزیز ہے۔۔۔ وُہ عزت  اُور محنت سے اِس معاشرے سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ معاشرہ  نہ اُسے عزت سے جینے کا حق دے رِہا ہے۔ اُور نہ ہی معاشرتی طور پر ایک کارکن کی طرح قبول کرپارہا ہے۔ جسکی وجہ سے وُہ کئی  فرموں میں ملازمت کے بعد ایک نفسیاتی مریضہ کا رُوپ دھار چُکی ہے۔۔۔ وُہ خود اگرچہ ستائیس برس کی ہُوچکی ہے۔ لیکن وُہ اب اکثر اپنی چُھوٹی بہنوں کے متعلق سُوچتی ہے۔۔۔ کہ اُنکا  مستقبل میں کیا بنے گا۔۔۔؟  جہاں لالچ کا بازار گرم ہُو۔۔۔۔ جہاں حقدار ہُونے کے باوجود بھی محنت و مشقت کیساتھ کچھ مزید کا بھی تقاضہ کیا جاتا ہُو۔ ۔۔۔اُور جہاں بچیاں  مناسب رشتوں کے انتظار میں اپنے سر کے بالوں میں چاندی سجالیتی ہُوں۔۔۔ ایسے معاشرے میں اِن بہنوں کا کیا انجام ہونے والا ہے۔۔۔۔؟ بس یہی سُوچ سوچ کر دیباج  نے اپنی آنکھوں میں خواب کے بجائے خوف کے سائے  سجالیئے ہیں۔۔۔۔

میں نے اُسکی تمام کہانی اطمینان سے سُن لینے کے بعد اُسے متوجہ کرنے کیلئے ایک سوال کیا۔۔۔ تاکہ اُسکی سُوچ منفی اثرات کے سحر سے آزاد ہُوکر تعمیری  اُور مثبت راہ کی جانب گامزن ہُوسکے۔۔۔ دیباج سسٹر کیا آپکو معلوم ہے۔ کہ دُنیا بھر میں پائے جانے والے  آزاد پرندوں کی تعداد کتنی ہے۔۔۔؟ دیباج نے میرے سوال پر حسب توقع ری ایکٹ کیا۔۔۔۔ نہیں عشرت بھائی مجھے نہیں معلوم۔۔۔ آپ ہی بتادیں کتنی تعداد ہے۔۔۔؟  لیکن اب دیباج کی آواز میں کسی سسکی کا شائبہ نہیں تھا۔ کیونکہ اُسکے دِماغ نے منفی لہروں کے حصار سے نِکل کر واقعی سُوچنا شروع کردیا تھا۔

دیباج سسٹر یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم کہ،، اُنکی صحیح تعداد کیا ہُوگی۔۔۔ لیکن میرا اندازہ ہے کے یہ ےتعداد اَربوں میں ہُونی چاہیئے۔۔۔۔ لیکن دیباج ایک حیرت انگیز بات ہے۔۔۔ جو مجھے بھی حیران کردیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ وُہ کیا بات ہے بھائی۔۔۔؟  دیباج نے میرے  خاموش ہُونے پر سوال کیا۔ ۔۔ میں اکثر یہ بات سُوچتا رِہتا ہُوں کہ،،  دُنیا میں اِن اَربوں پرندوں کیلئے آخر اناج کُون اُگاتا ہُوگا۔۔۔۔ اُور جب  اُس اناج کی فصل تیار ہُوجاتی ہُوگی۔۔۔ تو ڈسٹری بیوشن کی خدمات کُون انجام دیتا ہُوگا۔۔۔۔؟ کیونکہ جب  ہم اپنے لئے فصل اُگاتے ہیں۔ تو اُس فصل کا ایک ایک دانہ سمیٹ کر اپنے گھروں یا گوداموں میں ذخیرہ کرلیتے ہیں۔۔۔۔ پھر یہ اَربوں پرندے کہاں سے اپنے لئے اناج کے دانے حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔؟  میرے خاموش ہُونے پر دیباج کی آواز اُبھری ۔۔۔واقعی بھائی یہ تو میں نے بھی کبھی نہیں سُوچا تھا۔ کہ اتنے پرندے اناج کہاں سے حاصل کرتے ہُونگے۔۔۔۔ دیباج کی آواز میں اب  اگرچہ حیرت ضرور تھی۔۔۔ لیکن اُسکی آواز پرسکون ہُوچکی تھی۔

لیکن  دیباج  بہن مجھے اِس راز کا کچھ کچھ اندازہ ہے۔۔۔۔۔ میرے اِس جملے پر دیباج نے بے ساختہ کہا۔ بھائی مجھے بھی بتایئے نا!۔۔۔۔ ضرور بتاوٗں گا میری بہن۔۔۔۔ میں نے ایک دِن ایک درویش سے اپنے  اِس پریشان سوال کا جواب مانگا تھا۔۔۔۔۔ جسکے جواب میں اُس نے موتیوں سے میری جھولی بھردی تھی۔وُہ درویش کہنے لگا۔ کہ،، ا نسان اگرچہ اپنی لگائی ہُوئی فصل کا ایک ایک دانہ زمین سے چُن لیتا ہے۔۔۔ اُور پرندوں کیلئے اپنے حرص کی وجہ سے کچھ بھی نہیں چھوڑتا۔۔۔ لیکں بیٹا! جب جب یہ پرندے زمین پر اُترتے ہیں۔۔۔ تب تب وُہ رازق اِن پرندوں کیلئے بنا محنت زمین پر اناج کے دانے بکھیر دیتا ہے۔ جسکے سبب یہ پرندے  زِندہ رِہ پاتے ہیں۔۔۔ کیونکہ اُس نے ہر جاندار کو پیدا کرنے سے قبل اُسکا جُوڑا بھی پیدا کردیا ہے۔۔۔ اُور اُسکے لئے رزق کا بھی انتظام فرمادیا ہے۔۔۔۔ پرندے تک اِس راز کو جانتے ہیں۔۔۔۔ اگر کوئی نہیں جانتا تووُہ  انسانوں میں سے ہے پرندوں اُور جانوروں میں نہیں ہے۔۔۔۔ بس جسکا یقین کم از کم پرندوں جتنا بھی ہُوجاتا ہے۔۔۔ وُہ نہ خود کو تنہا سمجھتا ہے۔۔۔ اُور نہ ہی بے بس۔۔۔۔۔۔! بس ایکبار یقین سے پُکارنے کی ضرورت ہے۔۔۔
اگر آپکو میری تحریروں میں معاشرتی فلاح کا رنگ نظر آتا ہُو۔۔۔ تو اِسے شوشل میڈیا پر شئیر کردیا کریں۔

نہ سنبھال سنبھال کر رَکھ اِسے کہ یہ آئینہ ہے وُہ آئینہ
جُو شکستہ ہُو تو عزیز تر ۔۔۔۔۔۔ ہے نِگاہِ آئینہ ساز میں




10 comments:

  1. ASSALAM ALE KUM.SIR BHOT KHOB ALLAH TALA APKO MAKKA MADINE KI ZIYARAT KARAYE...AMEEEEN

    ReplyDelete
  2. SIR ap ka SAMJANE ka tareka bhoot acha hai......ALLAH TALA APKO SAHAT Day OR LAMBiii ZINDAGI DAYYY.....AMEEENN

    ReplyDelete
  3. SALAM BHAI BOHAT KHOB ...... ALLAH AP KO SAHAT KA SATH LAMBI ZINDAGI ATTA FARMAY ....(AMEEN)

    ReplyDelete
    Replies
    1. thanks irum sis... ALLAH karemm aapko bht aasaniyan atta farmaey aameen

      Delete
  4. Asslam-o-alykum
    JAZAK ALLAH WA RASOOLU
    ISHRAT BHAI aap ki har tehrer mani khaiz our musalmanu ki rahnumai karti hai tawakkal ILALLAH
    bohat bari chez hai.
    ALLAH aap kay ILM, UMER our AMAL main izafa farmayay.
    aameen.

    ReplyDelete
  5. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  6. Oh my sweet sister sana , behna g main wo wali anadil nhi hn main ... Mjhe anadil name psnd aya es liay aasma khan k sth add kr lya ... Thnx g aap ne anjany mein hi mre liay dua kr di thnx

    ReplyDelete
    Replies
    1. This comment has been removed by the author.

      Delete
    2. sorry sister Aasma khan iss baat k leay ,khush raho aap.

      Delete