bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Tuesday, 19 May 2015

عامل کامل ابو شامل( فقیریا افلاطون)قسط 30



گُذشتہ سے پیوستہ۔
  
یہ بات جب عائقہ کو معلوم ہُوئی تو۔ وُہ ایک دن وجاہت کے آفس پُہنچ گئی۔۔۔۔ وجاہت اِس تمام معاملے کو ختم کرنا چاہتا تھا۔کیونکہ اگر یہ معاملہ کورٹ میں چلا جاتا ۔یا گھر سے باہر نکل جاتا۔ ہر دُو صورت میں وجاہت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔۔۔ لیکن اب عائقہ بضد تھی۔ کہ،، معاہدے کے مطابق وُہ عدیمہ کا طلاق دیدے۔ اُور کچھ عرصہ بعد وُہ   سب کچھ سمیٹ کر کینیڈا شفٹ ہُوجائیں۔۔۔۔ لیکن وجاہت جانتا ہے کہ ،، عدیمہ  کو طلاق دینے کا مطلب تھا ۔کہ ،، وجاہت سیدھا فُٹ پاتھ پر آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔اُف میرے خُدایا یہ کہانی ہے یا کوئی مکڑی کا جالا؟؟؟  کامل علی نے ابوشامل کے خاموش ہُوتے ہی  دُونوں ہاتھوں سے اپنا سَر تھام لیا۔۔۔۔۔ یار سیدھی سادھی گُتھی تو ہر ایک گھر میں سُلجھالی جاتی ہے۔ عامِلوں سے لوگ تب ہی رجوع کرتے ہیں ۔جب اُنہیں یہ محسوس ہُونے لگتا ہے۔کہ،، اب ڈُور اُن کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اب تُم دیکھنا ہم اِس اُلجھی ڈُور کو کیسے سُلجھاتے ہیں ۔ جسکے بعد حُکومت میں ہمارا پہلا مُہرہ وجاہت دہلوی ہمارے لئے کیسے راہ ہموار کرتا چلاجائے گا۔ ابوشامل نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہُوئے کامل علی کو  اپنےمخصوص انداز میں آنکھ ماری۔

اَب مزید پڑھیئے۔
اگلے دُو دِن کامل علی نے ابو شامل کے ایماٗ پر جاناں کیساتھ خُوب گھومتے پھرتے ہُوئے گُزارے۔ ابو شامل خُود بھی ۲ دِن سے نجانے کہاں غائب تھا عصر کے وقت وُہ جاناں کیساتھ سمندر کے نظاروں سے لُطف اندوز ہُونے کے بعد گھر کی جانب لُوٹ رَہا تھا۔۔۔۔ جاناں کا مزاج سیر و تفریح کی وجہ سے کافی خُوشگوار  ہُوگیا تھا۔ اُور وُہ بات بات پر اپنی مسکراہٹ کے جلوے بکھیر رہی تھی۔ اچانک کامل علی کو یاد آیا کہ،، آج نفاست صدیقی نے وجاہت کو لیکر آنا ہے۔ جبکہ  ابوشامل کی ابھی تک  کوئی خیر خبر نہیں تھی۔۔۔ حالانکہ اُسے یقین تھا۔کہ ابوشامل نے ضرور آستانے پر انتظامات  مکمل کررکھے ہُونگے۔ لیکن ابوشامل نے ابھی تک یہ نہیں بتایا تھا ۔کہ،، وجاہت کا مسئلہ کسطرح سے حل کرنا ہے۔ اُور یہی بات اُسکے  لئے پریشانی کا باعث بنی ہُوئی تھی۔

مغرب کے وقت آستانے پر پُہنچتے ہی کامل علی کے اُوسان خطا ہُوگئے۔ کوٹھی پر پڑا تالہ کامل علی کو مُنہ چڑا رَہا تھا۔ کامل علی نے فوراً کچھ سُوچ کر کُوٹھی کا ذیلی دروازہ  کھول   کر اپنے مخصوص کمرے میں خُود ہی  اپنا میک اپ کیا۔ اُور ایک خُوبصورت شال لپیٹ کر  کار پُورچ میں چہل قدمی شروع کردی۔ اچانک کسی گاڑی کے رُکنے کی آواز سُنائی دی۔۔۔ کامل علی نے پریشانی کے عالم میں  دروازے کی جانب دیکھا۔  لیکن نفاست صدیقی کیساتھ ایک خُوبرو جوان کو آتا دیکھ کر خُود کو سنبھالتے ہُوئے اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجالی۔

حضور !!! آج آستانے شریف پر اتنی خاموشی کیوں ہے۔؟؟؟ نفاست صدیقی نے کامل علی کے ہاتھوں پر بُوسہ دیتے ہُوئے حیرت سے استفسار کیا۔ ۔۔۔دراصل آج ہماری طبیعت کچھ ناساز تھی۔ اسلئے یہاں آنے کا اِرادہ  بھی نہیں تھا۔۔۔ لیکن چونکہ آپ سے مُلاقات کا وعدہ بھی کیا تھا۔سُو وعدہ نبھانے کیلئے آنا پڑا۔۔۔ آنے والے جُوان نے بھی کامل علی کی دست بُوسی کی تو نفاست صدیقی نے تعارف کراتے ہُوئے عرض کیا۔ حضور یہی میرے وُہ دوست ہیں جنکا میں نے آپ سے تذکرہ کیا تھا۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں۔ یہ وجاہت دہلوی ہیں۔ کامل علی نے لہجے کو پُراسرار بناتے ہُوئے اپنی ناک پر انگلی پھیری۔۔۔۔۔۔ جی ۔جی ۔ حضور والا میں دراصل بھول گیا تھا۔کہ،، آپ جیسی  باخبر ہستی  کو بھلا میں کیا کوئی خبر و تعارف دے سکتا ہُوں۔ نفاست صدیقی نے لجاجت سے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہُوئے کہا۔

وجاہت دہلوی نفاست صدیقی سے کامل  علی شاہ کے متعلق کافی کچھ سُن چکا تھا اُور اب نہایت اشتیاق   و عقیدت سے  اُسکی نگاہیں کامل علی کے چہرے کا طواف کررہی تھیں۔۔۔ کامل علی نے کن انکھیوں سے نفاست صدیقی کو  باہر ٹہرنے کا اشارہ کیا۔ اُور وجاہت کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنے خاص کمرے میں لے آیا۔ نشست پر براجمان ہُوتے ہی کامل علی نے گفتگو شروع کردی۔۔۔ ہمیں نفاست نے بتایا تھا۔کہ ،، میرا ایک دوست مشکل میں ہے۔۔ ہمیں اِس سے ذیادہ معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔کیونکہ ہم وجاہت دہلوی کو بھی اتنا ہی جانتے ہیں۔جتنا کہ خُود کو جانتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے ۔کہ،، آپ  صرف ایک غلطی کی وجہ سے نہیں۔بلکہ ایک کبیرہ گُناہ میں متواتر ملوث رہنے کی وجہ سے اِس آفت میں گھرے ہیں۔۔۔ وجاہت دہلوی کا شرمسار چہرہ  جھک گیا۔ اُسکی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو دیکھ کر کامل علی نے مزید چُوٹ لگانے کا اِرادہ کرتے ہُوئے اپنی گفتگو جاری رکھی۔

دیکھو میاں آپ خُود کو اِس معاملے چاہے کتنا ہی بے قصور ٹہراوٗ۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ کہ باوجود اِس کے کہ،، آپکو عائقہ نے بِہلایا اُور پُھسلایا ہے۔ لیکن آپ کو بہکنا نہیں چاہیئے تھا۔ کیونکہ آپ ایک شادی شُدہ زندگی گُزار رہے تھے۔ جبکہ  عائقہ اپنی نفسانی ضرورتوں کی وجہ سے پستی میں گر رہی تھی۔۔۔ جس طرح ایک کنوارے   مردسے  لاکھ درجہ خطرناک  رنڈوا، مرد ہُوتا ہے۔ بالکل اِسی طرح ایک مطلقہ  یا بیوہ بھی  حدودِ جوانی میں ہمیشہ آتش فشاں کے دہانے پر موجود ہُوتی ہے۔ کیونکہ وُہ شراب پی چکے ہُوتے ہیں۔ اُور تشنگی کا احساس اُنہیں متواتر نشے کی دستیابی کیلئے اُکساتا رہتا ہے۔۔۔ لیکن آپ کو کیا ہُوا تھا؟؟؟ کیوں کہ،، نہ ہی آپ تشنہ تھے۔ اُور نہ ہی میخانے میں شراب کا ،کال  پڑا تھا۔ آپ نے  بجائےیہ کہ،، اُس کی  جسمانی ضرورتوں کو سمجھتے ہُوئے پھر سے اُسکا گھر آباد کرتے۔ خُود ہی بہتی گنگا سے ہاتھ دُھونے شروع کردیئے۔ سالی تو بہن کی طرح ہُوتی ہے وجاہت صاحب  لیکن افسوس کہ،، آپ نے اُسے بھی اپنی ہوس کا آلہ بنالیا۔۔۔ کامل علی کی گفتگو جاری تھی۔ اُور خُود کامل کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔کہ،، وُہ کیا کہہ رَہا ہے۔ اُور کیوں کہہ رہا ہے۔۔۔ کامل علی  گفتگو رُوکنا چاہتا تھا۔ لیکن الفاظ خُود بخود اُسکی زبان سے پِھسل رہے تھے۔ کہ،، اچانک وجاہت علی ، کامل کے قدموں سے لپٹ کر بےاختیار رُونے لگا۔

وجاہت دہلوی کے اچانک اِس طرح بِلک بِلک کر رُونے کی وجہ سے کامل علی پہلے تو خُود نروس ہُوگیا۔لیکن پھر خُود کو سنبھالتے ہُوئے وجاہت کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ جسکی وجہ سے وجاہت دھیرے دھیرے نارمل ہُوکر  واپس اپنی نشست پر بیٹھ کر کامل علی سے کہنے لگا،، حضور مجھ سے جانے انجانے میں بُہت بڑا گناہ سرزد ہُوگیا ہے۔  لیکن میں  آج اللہ کریم کی بارگاہ میں آپکو گواہ بناتے ہُوئے سچی توبہ کرتا ہُوں۔کہ آئندہ ایسے کسی بھی گُناہ کا ارتکاب نہیں کرونگا۔۔۔آپ اللہ کے نیک بندے ہیں۔ اسلئے آپ بھی اللہ کے حضور میری معافی اور استقامت کیلئے دُعا فرمادیں۔ اُور مجھے اِس مصیبت سے نکلنے کا راستہ بتادیں۔۔۔ ورنہ  کئی زندگیاں اُور میرا سب کچھ میری اِن غلطیوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہُوجائے گا۔ اُور میں کسی کو مُنہ دِکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔۔۔

کامل علی اگرچہ یہاں ڈھونگ کیلئے آیا تھا۔لیکن وجاہت کی توبہ نے اُس کے دِل میں گُداز پیدا کردیا تھا۔ اب وجاہت علی اُسکے لئے صرف ایک گاہک نہیں تھا۔بلکہ وُہ دِل  ہی دِل میں اُسکے لئے اللہ کریم سے آسانی کا سوال کررہا تھا۔۔۔  دیکھو وجاہت بھائی انسان تمام زندگی نیکی اُور بدی کی کے درمیان موجود مہین سے پُل پر سفر کرتا رہتا ہے۔ جب اپنے پروردیگار کی  رحمت و محبت کی جانب متوجہ ہُوتا ہے ۔ تو فلاح کی جانب گامزن رہتا ہے۔ لیکن ذرا بھی دھیان بہکنے لگے۔ تو ابلیس لعین اُسے  ذلالت  کی خُوفناک گھاٹی اتنے پُرکشش انداز میں دِکھانے لگتا ہے کہ،، بندہ خُود اِس    سراب کو حقیقت سمجھنے پر مجبور ہُوجاتا ہے۔اُور خُود کو ہلاکت میں ڈالنے کیلئے  بیقرار ہُوجاتا ہے۔۔۔۔  لیکن جہاں اللہ کریم نے ابلیس کو بے پناہ قوت عطا فرمائی ہے۔ وہاں یہ بات بھی اظہر من شمس کی طرح واضح ہے۔کہ،، احساس ندامت اُور توبہ مومن  کا وُہ ہتھیار ہے۔جو شیطان کی تمام محنت پر یکلخت پانی پھیر دیتا ہے۔۔۔ جہاں وُہ کریم  ،،مجرموں پر عتاب نازل فرماتا ہے۔ وہیں یہ بھی اعلان فرماتا ہے۔کہ اے ابن آدم اگرچہ تونے اپنے گناہوں کے سبب تمام سمندر کو آلودہ کردیا ہُو۔ یا تمام زمین و فلک تیرے گناہوں سے بھر جائیں۔ مجھے قسم ہے اپنی رحمت کی۔جب بھی بندہ ندامت  کیساتھ سچے دِل سے توبہ کرے گا۔ مجھ سے بڑھ کر کسی کو قبول کرنے والا مہربان ،،نہیں پائے گا۔

کامل علی کی گفتگو نے وجاہت کے چہرے کی مایوسی کو اُمید کے دِیوں سے رُوشن کردیا تھا۔۔۔۔ کامل علی نے اُس سے وعدہ کرلیا تھا ۔کہ ،، وُہ  ہر حال میں اپنی توبہ پر قائم رہے۔ انشااللہ ایک ماہ میں اُسکی جان  اِن تمام چکروں سے آزاد ہُوجائے گی۔۔۔۔۔۔وجاہت اور نفاست صدیقی کے  جانے کے بعد کامل علی بھی   کوٹھی  کو تالہ ڈال کر تھکے تھکے قدموں سے گھر کی جانب روانہ ہُوگیا۔گھر  کے دروازے کے باہر ایک فقیر جیسے کامل علی کا ہی منتظر تھا۔ جیسے ہی کامل علی دروازے کے قریب پُہنچا وُہ فقیر بُڑبڑاتے ہوئے وہاں سے پلٹ گیا۔ کامل علی کے کان میں فقیر کے صرف  دُو   جملے ہی سمجھ آسکے  تھے،، تیری آج کی مزدوری تیرے پچھلے گناہوں کا کُفارہ بن گئی ہے،، ابھی بھی وقت ہے بدل لے خُود کو اُور نِکل جا اُس پاکھنڈی کے چکر سے۔۔۔۔
(جاری ہے)۔

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment