bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday, 23 May 2015

عامل کامل ابو شامل (قصہ فرح)قسط 33



گُذشتہ سے پیوستہ۔
   

کچھ ہی دِن بعد میرے والد صاحب نے میری غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہُوئے کچھ سپاہی مجھے طلب کرنے کیلئے بھیج دیئے۔ لیکن میں نے واپسی سے صاف انکار کردیا۔۔۔ یہ کھیل کئی ماہ چلتا رہا۔ میری والدہ کے  بھی مسلسل واپسی کیلئے پیغامات مجھے موصول ہُورہے تھے۔ ایک دِن میں اپنی والدہ سے مُلاقات کیلئے اپنی ریاست پُہنچ گیا۔ اُور اُنہیں اپنی تمام دِلی کیفیات سے آگاہ کردیا۔ اُنہوں نے بھی مجھے کافی خبردار کیا۔کہ،، انسانوں کی دوستی یا دُشمنی ہم جنات کیلئے کبھی سُود مند ثابت نہیں ہُوتی۔ لیکن میں نے منت سماجت کرکے اُنہیں اِس بات کیلئے آمادہ کرلیا۔کہ،، میں اُن سے مُلاقات کیلئے وقتاً فوقتاًً ریاست آتا جاتا رُہوں گا۔ اُور جیسے ہی میرے ہاتھ گوہرِ مُراد لگا میں ہمیشہ کیلئے واپس لُوٹ آونگا۔ میں والدہ سے مُلاقات کے بعد جب سیالکوٹ پُہنچا ۔ تو ایک قیامت میری منتظر تھی۔۔۔ فرح جس میڈیکل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہی تھی۔ اُسی یونیورسٹی کے ایک نوجوان  ڈاکٹر دلشاد احمد کی فیملی فرح کا رشتہ لیکر آئی تھی۔ فرح کی فیملی کو وُہ رشتہ اتنا پسند آگیا۔کہ،، اُنہوں نے  فرح کی رضامندی دیکھ کر فوراً ہی رشتہ کیلئے حامی بھرلی۔۔

اب مزید پڑھیئے۔

مجھے فرح کی فیملی سے ذیادہ فرح پر غصہ آرہا تھا۔ جسے میری تکلیف اُور محبت کا ذرہ سا بھی احساس نہیں تھا۔ ایک میں تھا جو اُس کیلئے شہزادوں جیسی زندگی چھوڑ کر جُوگی بن گیا تھا۔ اُور ایک وُہ بھی جس نے کتنی آسانی سے دلشاد کیلئے  شرماتے ہُوئےحامی بھر لی تھی۔۔۔ لیکن پھر مجھے  اپنی بے وقوفی کا احساس ہُوا۔کہ،، بھلا فرح میری تکلیف کو کیسے سمجھ سکتی ہے؟۔ اُس بیچاری کو  تویہ خبر ہی نہیں تھی کہ،، میں اُس کیلئے کیسے کیسے پاپڑ بیلتا پھر رَہا ہُوں۔ لیکن اب میں نے فیصلہ کرلیا تھا۔ کہ مجھے جلد از جلد فرح کو اپنی موجودگی کا احساس دِلوا دینا چاہیئے۔ سُو میں نے سب سے پہلے ایک چاندنی رات  میں  فرح کوسُوتے ہُوئے اغوا کرلیا۔ اُور اُسے ایک ایسی وادی میں لےگیا۔ جہاں کی خوبصورتی دیکھ کر انسان کو جنت کا گُمان ہُونے لگتا ہے۔ یہاں جا بجا پہاڑوں سے  بہتےچشمے اُور تمام زمین پر بچھی ریشمی گھاس، پھلوں سے لدے  قطار در قطار درخت ، اُور درختوں پر چہکتے پرندے ، انسانوں کو مدہوش کرنے کیلئے کافی تھے۔ جبکہ اُس رات بدر کامل کی چمک دمک نے ماحول پر عجیب سی رومانی کیفیت بھی  برپا کی ہُوئی تھی۔ میں نے خود کو سُنوار نے میں کوئی کسر نہیں اُٹھارکھی تھی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہُوں۔کہ،، اُس رات اگر  مجھے دُنیا کی  تمام مِس ورلڈ بھی دیکھ لیتیں۔ تو مجھے حاصل کرنے کیلئے وُہ ضرور ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتیں۔

اُس رات میں بُہت ذیادہ پُراُمید تھا۔ اِس لئے تمام تیاری کے بعد میں نے بڑے پُر اعتماد انداز میں  اُسے جگانے  اُور خُود کو اُس پر ظاہر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔ میں نے دھیرے سے کئی مرتبہ اُسکے قدموں پر بُوسے دیئے۔ وُہ ہر مرتبہ  کسمسا کر کروٹ بدلتی رہی۔ جسکے بعد میں  اُسکے قدموں پر مزیدایک بُوسہ کردیتا۔ یہاں تک کے اُس نے ایک اَدا سے آنکھوں کے دریچے ذرا سے وَا کردیئے۔ لیکن جونہی اُسکی نظر مجھ پر پڑی وُہ حیا سے سِمٹ کر  وحشت سے اپنے چاروں جانب دیکھ کر خوابناک لہجے میں گُویا ہُوئی!!! آپ کون ہیں، اُور میں یہاں کیسے آگئی ۔؟؟؟ میرا خیال تھا کہ،، وُہ جاگنے کے بعد   اس طلمسی  اُور رومانٹک ماحول میں خود سپردگی کی کیفیت میں ڈھل جائے گی۔ لیکن وُہ تو ایک ہراساں آہو ،،کی مانند سِمٹتی ہی چلی جارہی تھی۔۔۔ آپ پرستان  میں ہیں شہزادی فرح اُور میں یہاں کا شہزادہ ہُوں۔۔۔ میں نے حتی الامکان اپنے لہجے میں اپنایت اُور مٹھاس سمونے کی کوشش کی۔۔۔ اُس نے پہلی مرتبہ نارمل انداز میں میرے سراپے کا جائزہ کا  لیکر میری صداقت کو پرکھنے کی کوشش کی۔۔۔ وُہ رفتہ رفتہ ماحول سے متاثر ہُورہی تھی۔ لیکن  اُس کے اندر کی بے چینی بھی اُسکے چہرے پر مترشح تھی۔۔۔ آپ تو واقعی شہزادے لگ رہے ہیں۔ اُور یہ جگہہ بھی واقعی  کہانیوں کے پرستان ہی جیسی ہے۔۔۔ لیکن میں کوئی شہزادی نہیں ہُوں!!! اُور بائی دا ،وِے  آپکو میرا نام کیسے معلوم ہے؟؟؟ اُور میں اپنے گھر سے یہاں کیسے پُہنچ گئ؟۔۔۔۔۔۔۔ کس نے کہا۔کہ،، آپ شہزادی نہیں ہیں؟؟؟ آپ شہزادی فرح ہیں۔ اُور میرا نام شہزادہ ابوشامل ہے۔ اُور میں  اپنے دِل میں آپکو  اپنی ریاست کی ملکہ بنا کر دُنیا کی تمام نعمتوں کو آپکے قدموں میں ڈھیر کرنے کی خواہش کا ارادہ رکھتا ہُوں۔۔۔ میں نے اپنی خاہش کو الفاظوں میں سمونے کی کوشش کرتے ہُوئے اُسے بتایا۔


دیکھیئے  شہزادہ ابو شامل  صاحب میں واقعی آپکو نہیں جانتی۔ اُور نہ ہی میں کوئی شہزادی ہُوں۔ آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہُوئی ہے۔ میں میڈیکل کی طالبہ ہُوں۔ اُور ابھی چند دِن پہلے ہی ،میری منگنی ہُوچُکی ہے۔ اُور عنقریب میری شادی بھی ہُونے والی ہے۔ ۔۔۔۔ فرح کی گفتگو جاری تھی کہ ،،میں نے اُسک بات کاٹتے ہُوئے کہا،، کیا مجھ میں کوئی کمی ہے؟ جو آپ مجھے ٹُھکرا کر کسی عام سے انسان کیساتھ زندگی گُزارنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ دیکھیئے  میرا رشتہ میرے والدین کی  خُواہش اُور میری مرضی سے طے پایا ہے۔اسلئے میں کسی دوسرے مَرد کے متعلق سُوچنا بھی گناہ سمجھتی ہُوں۔ آپ پلیز جو بھی ہیں مجھے میرے گھر تک پُہنچادیں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہُو۔کہ،، بدنامی کا داغ ہمیشہ کیلئے میری رِدائے عصمت کو گہنا کر  میلا کردے۔ اِس مرتبہ فرح  کے آبگینے مکمل طور پر چھلکنے کیلئے بیقرار ہُورہے تھے۔۔۔۔ فرح کے جواب نے میرے اَرمانوں کے تاج محل کو چکناچُور کرڈالا تھا۔ مجھ میں مزید سکت نہیں تھی۔ اُسکی بے اعتنائیوں کو برداشت کرنے کیلئے۔ اِس لئے  میں نے دُوبارہ نیند کی وادی میں  داخل کرنے کے بعد اُسے اُسکے  بستر پر  واپس پُہنچا دیا۔ صبح جب اُسکی آنکھ اپنے بستر پر کھلی تو اُسے رات کے تمام واقعات خُواب  کی طرح محسوس ہُوئے۔ اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔کہ،، وُہ حقیقت کے بجائے خواب دیکھ رہی تھی۔

اِس واقعہ کے بعد میں نے کئی مرتبہ اُسے  حالت نیند سےاغوا کرکے دُنیا کی خُوبصورت ترین وادیوں میں اپنی محبت کا احساس دِلانے کی کوشش کی۔ لیکن اُس نے ہمیشہ مجھ پر دلشاد کو فوقیت دی۔۔۔  وُہ ہر مرتبہ صبح جاگنے کے بعد گُزری رات کے واقعات کو خُواب سے تشبیہ دیتی ۔ البتہ اَب وُہ اِن مُسلسل خوابوں کی وجہ سے پریشان رہنے لگی تھی۔۔۔۔اُسکے مُسلسل انکار کی وجہ سے میری طبیعت میں بھی بُہت ذیادہ جھلاہٹ رہنے لگی تھی۔ کبھی  کبھی دِل چاہنے لگتا۔کہ،، اُسے ہمیشہ کیلئے اغوا کرکے لیجاوٗں۔ لیکن پھر  جب یہ خیال آتا۔کہ،، زبردستی اپنے خیالات کسی پر تھوپنے سے کسی کے دِل میں محبت کے بجائے نفرت کا ذیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ تو میں اپنے ارادے سے باز آجاتا۔۔۔ لیکن ایک بات مجھے بُہت اچھی طرح سے سمجھ  آچکی تھی۔کہ،، جب تک دلشاد کا کانٹہ ہمارے درمیان رہے گا۔میں کبھی بھی فرح کو حاصل نہیں کرپاوٗں گا۔۔۔ اسلئے میں نے فرح کے بجائے اَب دِلشاد کو اپنی توجہ کا مرکز بنالیا تھا۔ ۔۔۔ البتہ رات ڈھلتے ہی میں فرح کے رُوم میں داخل ہُوجاتا۔ اُور رات کا بیشتر حصہ اُس ہرجائی محبوب کی دید میں بسر ہُوجاتا۔

ایک دِن دلشاد کی نگرانی کرتے ہُوئے مجھے یہ بات معلوم ہُوئی۔کہ،، موصوف ویک اینڈ منانے کیلئے  اپنے  ایک جگری دوست کو مانسہرہ سے لیکر وادی کاغان  میں گُزارنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ یہ سفر دلشاد سے ذیادہ میرے لئے اہمیت کا باعث تھا۔۔۔ اُور اِس سفر میں سب سے بڑی بات یہ تھی۔کہ،،  سفر کے دوران دلشاد نے اکثر  سفرپہاڑوں پر بنی تنگ گُزرگاہوں پر کرنا تھا۔جہاں لینڈ سلائیڈنگ معمول کی بات تھی۔ اُور اکثر گاڑیاں دریائے کُنہار کے عشق میں ڈوب جایا کرتی تھیں۔پھر وُہ وقت بھی  جلد آگیا،، جب دلشاد خُوب تیار ہُوکر عازم سفر ہُوا۔۔۔ میرا ارادہ تھا کہ وادی کاغان کو ہی ہمیشہ کیلئے دلشاد کا دائمی ٹھکانہ بنادوں۔ لیکن مانسہرہ آنے سے قبل ہی دلشاد نے جونہی فرح کے نمبر کی پیڈ پر پنچ کرنے شروع کئے ۔تو میرا دماغ اُلٹ گیا۔ اُور ساتھ ہی دلشاد کی گاڑی بھی سینکڑوں فٹ گہری کھائی کی نذر ہُوگئی۔ میں نے جب نیچے جا کر دیکھا تو وُہ  باقی ماندہ گاڑی میں خُون میں لت پت زندگی کی آخری سانسیں گِن رہا تھا۔ میرے جگر سے اُور میری زندگی سے کانٹا نکل رَہا تھا۔ اُور میں خُوشی سے یاھو ،،کا نعرہ بُلند کررہا تھا۔ وادیوں میں میرے نعرے کی گُونج سے ایکو پیدا ہُورہا تھا۔ جیسے تمام وادی بھی میرے ساتھ جشن مناتے ہُوئے یا ھو، یاھو ۔۔۔۔کے نعرے بُلند کررہی ہُو۔
(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment