bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday, 21 May 2015

عامل کامل ابو شامل قصہ فرح کا قسط 32



انتساب۔ کہانی کی یہ قسط (جانِ عشرت کاشف وارثی) اُور محترمہ ڈاکٹر عنبل وارثی کے نام کرتا ہُوں۔
گُذشتہ سے پیوستہ۔
   
ابھی تک اُسی ڈھونگی کی مدد کے انتظار میں ہُو۔  جتنی شدت سے اُس ڈھونگی کو پُکار رہے ہو اتنی شدت سے اگر تُم خُدا کو پکارتے تو وُہ تمہیں کب کا  مِل گیا ہُوتا!!!  گاڑی سے باہر وہی فقیر کامل علی کا  مذاق اُڑاتے ہُوئے قہقہ لگارہا تھا۔۔۔۔  بند کرو اپنی بکواس اُور دفع ہُوجاوٗ یہاں سے۔ کامل علی فقیر کو دیکھ آپے سے باہر ہُونے لگا۔۔۔۔ کسے دیکھ کر چِلا رہے ہیں آپ ؟؟؟؟۔۔۔۔۔ کیا تُم اندھی ہُو؟ جو تمہیں یہ فقیر دِکھائی نہیں دے رہا۔جاناں کی حیرت پر کامل علی نے گردن موڑ کر درشت لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔ مجھے واقعی یہاں کوئی فقیر دکھائی نہیں دے رہا جانوں آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟؟!!! جاناں نے کار  کا شیشہ نیچے اُتارتے ہُوئے باہر جھانک کر ایکبار پھر تشویش بھرے انداز میں کامل کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔ کامل  علی نے حیرت سے پہلے جاناں کی طرف دیکھا ۔ اُور پھر فقیر کی طرف دیکھا ۔ فقیر بدستور کامل علی کو استہزائیہ نظروں سے دیکھ رَہا تھا۔۔۔۔ میں پھر کہتا ہُوں تُم سے کہ،، نکل آوٗ اِس دلدل سے۔ اِس سے پہلے کہ،، واپسی کی راستہ کھو بیٹھو۔ فقیر نے پھر کامل علی کو  تاکید کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ اتنی دیر میں سنگنل گرین ہُوچکا تھا۔پیچھے سے گاڑیوں کے ہارن شور مچانے لگے تھے ۔ کامل علی نے فقیر پر نگاہ رکھتے ہُوئے گاڑی فُٹ پاتھ پر ایک سائیڈ لگائی۔ اُور جونہی گاڑی سے اُتر کر باہر آیا۔ اتنی دیر میں وُہ فقیر ایک مرتبہ پھر کامل علی کی نگاہوں سے اُوجھل ہُوچکا تھا۔۔۔۔

اَب مزید پڑھیئے۔
کامل علی جُھلائے ہوئے انداز میں جب اپنے گھر پُہنچا تو  بنگلہ کے دروازے سے تالا غائب دیکھ کر چکرا گیا۔۔۔  لگتا ہے آج کوئی گھر کی بھی صفائی کرگیا ہے۔ کامل  کی بُڑبڑاہٹ سُن کر جاناں بھی ہراساں ہُوکر کہنے لگی۔پلیز آپ تنہا گھر میں داخل نہ ہُوں۔ ہوسکتا ہے ابھی تک کوئی گھر میں موجود ہُو۔ اُور کہیں وُہ آپ کو کچھ نقصان نہ پُہنچادیں۔۔۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے،، پہلے میں باہر سے ہی تسلی تو کرلوں ،، کہ،، کوئی گھر میں موجود بھی ہے یا نہیں کامل نے کار کا دروازہ کھول کر  دبے پاوٗں مین گیٹ کی طرف بڑھتے ہوئےسرگوشی میں  جاناں کوجواب دیا۔۔۔۔ کامل علی جب دبے قدموں گیٹ سے اندر داخل ہُونے کی کوشش کررہا تھا۔ تبھی اُسے ابوشامل کی چہکتی آواز سُنائی دی۔۔۔ عجیب انسان ہُو بیگم کو باہر گاڑی میں چھوڑ کر اپنے ہی گھر میں چوروں کی طرح داخل ہُو رہے ہُو۔ یار  بیچاری بھابی کو بھی اندر لے آوٗ یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔۔ اِس مرتبہ ابوشامل نے جملہ اتنی بُلند آواز میں کہا تھا کہ،، جاناں تک بھی اُس کی آواز پُہنچ چُکی تھی۔ اُور اب وُہ اطمینان سے گھر میں داخل ہُورہی تھی ۔  ابوشامل کو سامنے دیکھ کر جاناں نے شکوہ کیا۔۔۔ ابوشامل بھائی !!! بھلا یہ بھی  کوئی  طریقہ ہے اپنوں کو پریشان کرنے کا۔کہ،، بغیر بتائے پورا مہینہ غائب ہُوگئے۔۔۔ آپکو خبر بھی ہے کہ،، کامل آپکی وجہ سے کتنے پریشان تھے۔۔۔۔۔ جاناں کی موجودگی کی وجہ سے کامل کا  بس نہیں چل رہا تھا کہ ِ،، افلاطون کا چہرہ نُوچ   نُوچ کر لہولہان کردے۔ اِس لئے وُہ دِل پر جبر کرتے ہُوئے گاڑی  کار پُورچ میں داخل کرنے کیلئے انتہائی غصے میں باہر نکل گیا۔

رات کو بنگلے کی چھت پرتنہائی میسر آتے ہی کامل نے انتہائی غصہ کی حالت میں  ابوشامل پر سوالات کی یلغار کرتے ہُوئے آج کی ڈکیتی کے متعلق بتایا۔ ۔۔۔ تُمہارا غصہ اپنی جگہہ بجا ہے میرے دُوست لیکن جب تُمہیں اصل کہانی کا علم ہُوگا ۔ تو تُم مجھ پر غصہ کرنے کے بجائے مجھ سے ہمدردی کرنے لگو گے کیوں کہ میں کسی کی مدد کے چکر میں خُود ایک مصیبت میں گرفتار ہُوکرمُوت سے  بال بال بچا ہُوں۔۔۔۔ کامل کی خاموشی دیکھ کر ابو شامل نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔۔۔۔ میں دراصل اُس دن نفاست صدیقی سے مُلاقات کے بعد اپنے کسی کام سے سیالکوٹ گیا تھا۔۔۔۔۔ سیالکوٹ گئے تھے مگر کیوں اُور تمہارا کونسا ضروری کام تھا سیالکوٹ میں؟؟؟ کامل علی نے بیچ میں لقمہ دیتے ہُوئے کہا،۔۔۔۔۔  یہ ایک الگ کہانی ہے میرے دُوست مگر سچی بات یہ ہے کہ،، میرا بھی کوئی اپنا رہتا ہے سیالکوٹ میں جسکی وجہ سے مجھے   اس شہر سےبُہت محبت ہے۔ اُور میری اِس کمزوری کا گھنشام داس کو بھی علم تھا۔ جسکی وجہ سے ہمارے درمیان میں جنگ کی ابتدا ہُوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکا مطلب ہے۔کہ،، تم مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے ہُو۔ ورنہ جس طرح میں نے اپنی زندگی کا ایک ایک ورق تمہارے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔ اگر تم بھی مجھ پر اعتبار کرتے تو مجھ سے پردہ نہیں رکھتے۔  کامل علی نے دِل گرفتہ لہجے میں ابوشامل کی گفتگو کو کاٹتے ہُوئے کہا۔۔۔۔

نہیں یار کامل!! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ جسے میں تم سے چھپاوٗں۔۔۔ لیکن یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے میں جب بھی یاد کرتا ہُوں تو آتشی ہُونے کے باوجود میرے سینے میں بھی نابرداشت ہُونے والا ایک اَلاوٗ دہک جاتا ہے۔ اس لئے میں کم ہی اُن یادوں سے واسطہ رکھتا ہُوں۔۔۔ ابوشامل نے   اپنی آواز میں درد سموتے ہوئے  ایک لمحے کیلئے خاموشی اختیار کرلی۔ جیسے وُہ  کچھ یاد کررہا ہُو۔۔۔۔۔ دراصل بات یہ ہے میرے دوست کہ،، تُم سے ملنے سے  ۶ ماہ قبل میں اپنے چند دوستوں کیساتھ جھیل سیف الملوک پر تفریح کیلئے آیا تھا۔ ہم تمام دوست وہاں خُوب ہلا گُلا کرتے ہُوئے اپنا وقت گُزار رہے تھے۔کہ،، اچانک ایکدن سیالکوٹ سے ایک فیملی گھومنے کیلئے ناران آئی۔ تو میں نے  زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا حُسن کا شاہکار دیکھا۔ جسے دیکھ کر بیک وقت چاند کی چاندنی اُور گلاب کی پنکھڑیوں کی لطافت کا احساس  دِل میں پیدا ہُونے لگا۔۔۔ وُہ  لڑکی  جسکا نام فرح تھا۔بلاشبہ شہزادہ سیف الملوک کی بدیع الجمال کی طرح حسین تھی۔۔۔ اُسے دیکھ کر پہلی مرتبہ میرے دِل میں یہ احساس جاگا۔کہ،، زندگی کا سفر  دلپسند ساتھی کیساتھ   ہی گُزارنا چاہیئے۔ حالانکہ مجھے  میرے دوستوں نے اِس خیال سے باز رکھنے کیلئے بُہت جتن کئے۔اُور مجھے بُہت سمجھایا۔کہ وہ خاکی ہے۔ اُور ہم آتشی،،  اسلئے یہ مِلن کبھی ممکن نہیں ہُوگا۔لیکن کوئی نصیحت دِل پر کار گر نہیں گُزری۔ میں اُس فیملی کیساتھ ساتھ سیالکوٹ چلا آیا۔ جبکہ میرے تمام دوست میری ہٹ دھرمی اور ضد دیکھ کر واپس لُوٹ گئے۔

میں خاموشی سے رات دِن فرح کی نظروں سے اُوجھل ہُوکر اُسکے قریب ہی رہتا۔۔۔ اُسکی قربت نے مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری کردی تھی۔۔ اُسکے پسینے کی خُوشبو، اُسکی سانسوں کا لمس، اُسکا ہر ایک انداز قاتلانہ تھا۔۔۔ میں اُس کے سامنے آکر اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ایک خُوف میرے دِل سے نکلنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ کہ،، کہیں وُہ میری اصلیت جان کر  بھڑک نہ جائے،، یا کہیں مجھ سے خُوفزدہ نہ ہُوجائے۔ میں کسی ایسے موقعے کی تلاش میں تھا۔کہ،، کاش اُسے خُود میری ضرورت آپڑے۔ یا  وُہ خُود کسی نادیدہ ہستی کو  مدد کیلئے پُکارے تو میں لپک کر اُس کے سامنے ظاہر ہُوکر کہوں۔ کہ،، اے جان تمنا میں حاضر ہُوں تمام زندگی آپکی غلامی کا دَم بھرنے کیلئے۔۔۔۔ پھر  وُہ مجھے قبول کرلے۔ جسکے بعد میں تمام دُنیا کی خُوشیوں کو اُسکے قدموں میں ڈھیر کرتا چلا جاوٗں۔۔۔۔

کچھ ہی دِن بعد میرے والد صاحب نے میری غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہُوئے کچھ سپاہی مجھے طلب کرنے کیلئے بھیج دیئے۔ لیکن میں نے واپسی سے صاف انکار کردیا۔۔۔ یہ کھیل کئی ماہ چلتا رہا۔ میری والدہ کے  بھی مسلسل واپسی کیلئے پیغامات مجھے موصول ہُورہے تھے۔ ایک دِن میں اپنی والدہ سے مُلاقات کیلئے اپنی ریاست پُہنچ گیا۔ اُور اُنہیں اپنی تمام دِلی کیفیات سے آگاہ کردیا۔ اُنہوں نے بھی مجھے کافی خبردار کیا۔کہ،، انسانوں کی دوستی یا دُشمنی ہم جنات کیلئے کبھی سُود مند ثابت نہیں ہُوتی۔ لیکن میں نے منت سماجت کرکے اُنہیں اِس بات کیلئے آمادہ کرلیا۔کہ،، میں اُن سے مُلاقات کیلئے وقتاً فوقتاًً ریاست آتا جاتا رُہوں گا۔ اُور جیسے ہی میرے ہاتھ گوہرِ مُراد لگا میں ہمیشہ کیلئے واپس لُوٹ آونگا۔ میں والدہ سے مُلاقات کے بعد جب سیالکوٹ پُہنچا ۔ تو ایک قیامت میری منتظر تھی۔۔۔ فرح جس میڈیکل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہی تھی۔ اُسی یونیورسٹی کے ایک نوجوان  ڈاکٹر دلشاد احمد کی فیملی فرح کا رشتہ لیکر آئی تھی۔ فرح کی فیملی کو وُہ رشتہ اتنا پسند آگیا۔کہ،، اُنہوں نے  فرح کی رضامندی دیکھ کر فوراً ہی رشتہ کیلئے حامی بھرلی۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment