bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 13 June 2015

تذکرہ اک پری کا (بُلاوے پر بُلاوہ)قسط 31.tipk



گُذشتہ سے پیوستہ

اگلے چند دِن  عمران کے اتنی مصروفیت و پریشانی میں پڑوسی شہر میں اسطرح گُزرے کہ،، نہ اُسے صابر پاک کی یاد  ہی آئی۔ اُور نہ ہی کوثر کا کوئی خیال   اُسکے دِل میں گُزرا۔۔۔پھر ایک صبح نماز فجر پڑھ کرعمران جب صابر پاک سے ملنے باغ پُہنچا تو اُسے یہ رُوح فرسا خبر سُننے کو ملی کہ صابر پاک کا وصال تین دن پہلے ہُوچکا ہے۔اور آپکی تدفین آپکے حکم کے مطابق شہر کے وسطی قبرستان میں کی جاچُکی ہے۔صابر پاک کے پردہ فرمانے کی خبر نے عمران پر ایسی بجلی گرائی۔کہ،، اُسے اپنی سانس تھمتی دکھائی دینے لگی اُور عمران اپنا سر پکڑے  زمین پر بیٹھ کر اسطرح رُونے لگا۔جیسے کسی چھوٹے بچے کے سر سے اچانک اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہُو۔

 اَب مزید پڑھ لیجئے۔

صابر پاک کے وصال نے عمران کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیئے تھے۔بابا احمد وقاص کے پردہ فرمانے کے بعد عمران کی زندگی میں  یہ دوسرا جھٹکا تھا۔جس نے عمران کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔میاں صاحب کی بارگاہ میں یُوں بھی عمران کوثر کے معاملے   کی وجہ سے شرمندہ اُور خُوفزدہ تھا۔اُور آپکے جلال کے پیشِ نظر ایک مُدت سےحاضری کی سعادت سے محروم تھا۔اگرچہ عمران جانتا تھا۔کہ،، میاں صاحب آج بھی اُسے بُہت عزیز رکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی  اپنے اعمال پرشرمندگی اُور خوف کی وجہ سے عمران کے بڑھتے قدم ہر بار نہ جانے کیوں اُسے رستے سے ہی واپس لُوٹ آنے پر مجبور کردیا کرتے تھے۔عمران اکثر سُوچا کرتا تھا۔کہ،، کسی دِن صابر پاک اچانک اُسکا ہاتھ پکڑ کر میاں صاحب کے رُوبرو پیش کردیں گے۔ اُور میاں صاحب عمران کی تمام غلطیوں کو صابر پاک کی وجہ سے یکسر نظرانداز فرماتے ہُوئے اُسے اپنے سینے سے میرا عمران کہتے ہُوئےلپٹا لیں گے۔ لیکن اب یہ خاب بھی بابا صابر کے وصال  کی وجہ سے اُسے ریزہ ریزہ ہُوتا دکھائی دے رہا تھا۔

عمران اب اپنے دِل کی بات کسی سے نہیں کہہ پارہا تھا۔ اُس کے اندر جو طوفان کوثر کی محبت کی وجہ سے برپا تھا۔ وُہ بھی  صابر پاک کے چلے جانے کے بعد تھم سا گیا تھا۔۔۔۔ اُسے اکثر خُود پر بُہت حیرت ہُوتی جب اُسے بیتے دِن یاد آتے۔کہ،، کسطرح اُسکی سادہ سی زندگی میں  پے در پے آنے والےحادثات کی کثرت نے اُس کی زندگی کو ایک فلمی کردار سے بھی ذیادہ دلچسپ بنادیا تھا۔  اُور اُسکی زندگی میں کتنے ہی خُوبصورت کرداروں نے قوس و قزح کے رنگ بھردیئے۔اُور کتنے ہی عجیب وغریب واقعات اُسکی زندگی میں رُونما ہُوتے چلے گئے۔جنہیں سُن کر کوئی آسانی سے یقین نہ کرپائے۔ اگرچہ عاشقان خُدا کی قربت نے اُس کے دِل کو اپنی باتوں سے حکمت و دانشمندی کا گہوارہ  بھی بناڈالا تھا۔اُور دوسری طرف کُوثر کی محبت نے اُسکی برسوں کی پیاس بھی  مِٹا  دِی تھی۔ لیکن اِن تمام باتوں کے باوجود وُہ میاں صاحب سے دُور ہُوتا چلاگیا تھا۔اُور اب یہی خلش عمران کو ایکبار پھر اندر سے کھوکھلا کیئے جارہی تھی۔

عمران اکثر نمازوں کے بعد خُدا سے التجا کرتا۔ اے میرے پروردیگار تو قادر مطلق ہے۔کیا ایسا نہیں ہُوسکتا۔کہ،، اچانک میری آنکھ کھلے اُور مجھے معلوم ہُو۔کہ،، کوثر سے ملن ،اُور بابا احمد وقاص کی مُلاقات صرف ایک خاب تھی۔؟ نہیں چاہیئے مجھے ادراک و فہم نہیں بننا چاہتا میں لوگوں سے منفرد۔۔۔اُور نہ ہی مجھے کسی پری کی محبت کا سہارا درکار ہے۔۔۔بس مجھے میری  وُہ سادگی لُوٹادے۔جِسے دیکھ کر میاں صاحب کی آنکھوں میں  ہمیشہ اپنائت اُورچاہت کی چمک نظر آجاتی کرتی تھی۔۔۔ وُہ اکثر یہ دُعا مانگا کرتا۔لیکن عمران کو یوں محسوس ہُوتا جیسے اُسکی دُعا کے پر ہمیشہ کچھ اُونچائی پر پُہنچنے کے بعدبےجان ہُوکر واپس دُعا کو نیچے لے آتے ہیں۔

عمران میں اگرچہ میاں صاحب کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔لیکن عمران کو جب جب موقع مِلتا۔ وُہ میاں صاحب کے ڈیرے پر ضرور جاتا۔البتہ یہ الگ بات ہےکہ،، میاں صاحب کے سامنے جانے کی ہمت تب بھی عمران کے وجود میں نہ ہُوتی۔جسکی وجہ سے عمران دُور ہی دُور سے میاں صاحب کی دید سے اپنی تشنگی مٹانے کی کوشش کرتا رہتا۔ اِن دید کے مواقع میں اُس دِن عمران کی عجیب کیفیت ہُوگئی۔جب ایک دن اچانک میاں صاحب کی نگاہ عمران پر پڑ گئی۔ عمران نے جب میاں صاحب کو اپنی طرف ہی آتے دیکھا۔ تو وُہ بھی احترام سے گردن جھکا کر کھڑا ہُوگیا۔عمران کا خیال تھا کہ،، میاں صاحب اُسے نظرانداز کرتے ہُوئے وہاں سے گُزر جائیں گے۔ لیکن میاں صاحب نے اُسے بازو سے پکڑ کر یہ کہتے ہُوئے اپنے سینے سے لگالیا۔آہا  !!! آج میرا عمران آیا ہے۔۔۔

عمران کے کانوںمیں صابر پاک کے الفاظ گونجنے لگے۔کہ،، بابا فرید (رحمتہ اللہ علیہ) حضرت جمال ہانسوی سے اکثر اپنی والہانہ محبت کا اظہار فرماتے ہُوئےکہتے تھے۔کہ،، جمال میرا ہے۔ اِس واقعہ نے عمران کے اندر اتنی ہمت پیدا کردی تھی۔کہ،، وُہ اب میاں صاحب سےچُھپنے کے بجائے میاں صاحب کے سامنے محفل میں بیٹھ سکتا تھا۔ لیکن قسمت کو شائد عمران کی معافی ابھی قبول نہیں تھی۔اس لئے عمران کو بزنس کی وجہ سے آئے دِن کبھی پنجاب اُور کبھی بدین کی ساحلی پٹی پر  متواتر جانا پڑرہا تھا۔یُوں  ایک طویل عرصہ بیت گیا۔۔۔۔ اِس  تمام دورانیہ میں نہ کبھی کوثر نے ملاقات کی کوئی کوشش کی۔اُور نہ ہی عمران کو  ہی کُوثر کی یاد آئی۔ کچھ عرصہ بعد جب عمران میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہُوا تو میاں صاحب کی صحت کافی ناساز ہُوچکی تھی۔ آپ جذب کی سی کیفیت میں تھے۔ عمران کافی دیر تک میاں صاحب کی چارپائی سے لگا آپ کے قدم دباتا رہا۔ میاں صاحب نے دُو ایک مرتبہ آنکھ کھول کر عمران کی جانب دیکھا۔لیکن نا آپ نے عمران کو مخاطب فرمایا ۔اُور نہ ہی آپکی آنکھوں میں کسی قسم کی شناسائی کی چمک دکھائی دی۔

میاں صاحب کی بیماری طول کھینچتی جارہی تھی۔ عمران دُوران علالت کئی بار میاں صاحب کے سامنے آیا لیکن میاں صاحب نے کبھی اپنی باتوں سے ایساظاہر نہیں فرمایا۔جس سے عمران کو یہ تسلی ہُوجاتی کہ،، میاں صاحب اُسے پہچان رہے ہیں۔ یا وُہ اب عمران سے خفا نہیں ہیں۔عمران کا خیال تھا۔کہ،، میاں صاحب  اگرچہ ۱۴۰ برس کی طویل عمر پا چُکے ہیں ۔لیکن آپ جلد صحتیاب ہُوجائیں گے۔تو تمام معملات پھر سے معمول پر آجائیں گے۔لیکن میاں صاحب کی علالت اِس مرتبہ کوئی وقفہ حاصل نہیں کرپارہی تھی۔۔۔اُور بلاآخر ایک دن  عمران کو ایک کال موصول ہُوئی۔جس میں عمران کو جلد ہسپتال آنے کی تاکید کی گئی۔اُور اُسے بتانے والے نے رُوتے ہُوئے بتایا۔کہ،، میاں صاحب کی طبیعت بُہت ذیادہ نازک ہُوتی جارہی ہے۔

عمران بدحواسی کے عالم میں ہسپتال پُہنچا ۔تو زندگی کی سب سے تکلیف دہ خبر اُسکی منتظر تھی۔کہ،، میاں صاحب تمام مُریدین کو رُوتا بلکتا چھوڑ کر ہمیشہ کیلئے اپنے حقیقی محبوب عزوجل کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت سے سرفراز ہُورہے ہیں۔۔۔۔ تمام مُریدین  نم آنکھوں سےمیاں  صاحب کو دُولہا کی طرح سجانے سنوارنے میں مصروف تھے۔ کوئی پالکی سجارہا تھا۔ تو کوئی  مرقد مبارک کو حجلہ عروسی کی طرح تیار کرنے میں مگن تھا۔عمران سب لوگوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔کہ،، کسطرح اُسکے پیر بھائی اپنے جذبات  پر قابو رکھتے ہُوئے  میاں صاحب کی آخری وصیت کو پُورا کرنے میں مصروف ہیں۔۔۔

عمران کئی دن تک اِسی سحر میں مبتلا تھا۔کہ،، اب آنکھ کھلی کہ،، تب آنکھ کھلی۔۔۔ سپنا ٹوٹے گا۔تو پھر سے میاں صاحب اُسکے سامنے جلوہ گر ہُوں گے۔اُور فرمائیں گے۔بھلا میں اپنے عمران کو تنہا دُنیا کے حوالے کرکے کیوں جانے لگا تھا؟؟؟ لیکن جاگتے تو وُہ ہیں نا! جو سوجاتے ہُوں۔  میاں صاحب جاتے جاتے بھی اپنی یادوں کے حسین تر واقعات اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ آپ کی نماز جنازہ کرکٹ اسٹیڈیم میں ادا کی گئی تھی۔ جس میں شریک ہزاروں لوگوں  نے گواہی دی تھی۔ کہ،، میاں صاحب کے جنازے میں جتنے بھی لُوگ شریک ہُوئے اُن سبھی کے گھر تین دِن تک خُوشبووٗں سے مہکتے رہے ہیں۔

عمران میاں صاحب کے مزار پر حاضری اُس وقت دیا کرتا ۔جب وہاں لُوگ موجود نہ ہُوتے ہُوں۔۔۔ پھر وُہ بلک بلک کر میاں صاحب سے سوال کرتا۔ میاں صاحب کیا میں آپکا  وہی عمران نہیں ہُوں۔جسے آپ میرا عمران کہہ کر بُلایا کرتے تھے؟ کیا میں آپکا بیٹا نہیں ہُوں۔؟؟؟ کیا آپ میرے روحانی باپ نہیں ہیں؟؟؟ کیا آپ میرا کُل اثاثہ نہیں ہیں؟۔۔۔ پھر میاں صاحب آپ مجھے جواب کیوں نہیں دیتے۔کہ،، عمران بیٹا تسلی رکھو۔ ہم اب بھی تُم سے دُور نہیں ہیں۔۔۔۔آپ ایک مرتبہ فرمادیں کہ،، عمران ہم تجھ سے راضی ہیں ۔خفا نہیں ہیں۔۔۔ دِن، ماہ، سال گُزر گئے۔ عمران عرضی پر عرضی پیش کررہا تھا۔ لیکن میاں صاحب نے ایک مرتبہ بھی جواب عطا نہیں فرمایا۔ حالانکہ جب سے میاں صاحب نے پردہ فرمایا تھا۔ سینکڑوں لوگوں نے میاں صاحب کو اپنے مزار مبارک اُور آستانے کے احاطے میں دیکھا تھا۔ کئی لُوگوں کو آپ نے تسلی بھی دی۔ تو کئی لوگوں کو بہت سی نعمتیں بھی عطا فرمائی۔بس ایک عمران تھا۔جسے نہ دید کا جام پلایا گیا۔اُور نہ کسی سوال کا جواب دیا گیا۔


لوگوں  پر میاں صاحب کی مسلسل کرم فرمائیوں کے تذکرے سُن سُن کر عمران کے ذہن میں رفتہ رفتہ یہ بات بیٹھتی چلی گئی۔کہ،، یقیناً اُس سے کوئی ایسی خطا سرذد ہُوگئی ہے۔جسکی وجہ سے وُہ ابتک میاں صاحب کی دید اور محفل میں حاضری سے محروم ہے۔ پھر اُس کے ذہن میں ایک تدبیر سمائی کیوں نا میں اُس ہستی کی بارگاہ میں حاضر ہُوکر اپنی سفارش کیلئے عرض کروں۔جنہیں خُدا نے سلطان الفقر کے تاج سے نوازا ہے۔ سُو عمران  بیس برس سے جنکے عشق میں غیبی طور پر  گرفتار تھا۔ اُن کی بارگاہ میں اپنا مسئلہ لیکر حق باہو (رحمتہ اللہ علیہ) کے ڈیرے پر  اس یقین کیساتھ پُہنچا۔ کہ،، پہلی ملاقات میں ہی کشف کے تمام بند راستے کھول دیئے جائیں گے۔

لرزہ بدن اُور بیقرار روح کیساتھ عمران جب دربار باہو سلطان پُہنچا۔تو کئی گھنٹے ہچکی باندھے سلطان الفقر کی بارگاہ میں  اپنی معافی کیلئےعرض کرتا رہا۔ لیکن  عمران کو ماسوائے اِس تبدئلی کے۔کہ،، عمران کے جسم پر ایک لرزہ سا طاری ہُوگیا تھا۔ بظاہر اُور کوئی تبدئلی نظر نہیں آئی۔ البتہ آپ کے ڈیرے پر ایک عجیب بات عمران نے محسوس کی کہ،، عمران کی تواضع جان پہچان نہ ہُونے کے باوجود بھی ایک زائر سے ذیادہ مہمان کی طرح کی گئی۔عمران نے جو تصویر اپنے ذہن میں اِس مُلاقات کیلئے  سجائی ہُوئی تھی۔ جب اُس خاکے کیمطابق اُسے چیزیں ہوتی دکھائی نہ دیں۔ تو وُہ دلبرداشتہ ہُوکر واپس سندھ لُوٹ آیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اگلے مہینے کی اُنہی تاریخوں میں ایکبار پھر عمران دربارِ باھو پر حاضری کیلئے موجود تھا۔

عمران کی آج بھی وہی گُزارشیں تھیں۔ البتہ اِس مرتبہ وُہ اپنی معافی کیساتھ عشق حقیقی کی بھیک بھی طلب کرتا رہا۔جسکی طلب پچھلی مرتبہ آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کی تصانیف کو پڑھنے کی وجہ سے ایکبار پھر عمران کو رات دن ستانے لگی تھی۔ لیکن اِس مرتبہ بھی بظاہر کوئی رنگ، کوئی تبدئلی عمران کو خود میں نظر نہیں آئی۔ لیکن جونہی عمران اپنے شہر پُہنچا تو  اچانک مدینے کا بُلاوہ اُسکا منتظر تھا۔۔۔ عمران کو یقین آگیا۔کہ،، یہ بُلاوہ ضرور اپنے اندر کوئی خاص پیغام رکھتا ہے۔ شائد سرکار باہو انعامات کی بارش مدینے میں فرمائیں گے۔ لیکن مدینے کی اِس حاضری  میں  بیحد  کیف و سرور کے  باوجود بھی  اُس گوہر عظیم کی جھلک   عمران کواپنے قلب میں دکھائی نہیں دی۔جسکی تڑپ اُسے یہاں سے وہاں اُڑائے  پھر رہی تھی۔

مدینہ کریم کی حاضری کی سعادت سے بہرہ مند ہو کر پلٹتےہوتے عمران ایک بچے کی طرح بلکتے ہُوئے سید دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں فریاد کررہا تھا۔ حضور! آپکو تو اللہ کریم نے تمام خزینوں کی کنجی عطا فرمادی ہے۔اگر میں یہاں سے بھی خالی چلا گیا۔ تو پھر آپ کے سِوا کون ہے؟ جو میری جھولی کو بھرسکے۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں آپ سے دُنیا کی کسی نعت کا سوال نہیں کرتا۔بس مجھے شراب دید کا جام پلا کر ہمیشہ کیلئے اَمر فرمادیں۔۔۔۔شہدائے بدر کی آخری زیارت کے وقت بھی عمران سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہُوکر عرض کررہا تھا۔کہ،، یا سیدی آپ جانتے ہیں۔کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں آپکی طرف میرا دِل کسقدر مائل ہے۔حضور میں تشنہ ہُوں۔ اُور واپسی کی گھڑی آگئی ہے۔ خُدارا مجھے مدینے سے نہ جانےدیں۔

عمران رُوتا بلکتا واپس پاکستان آگیا۔ اب اگلے برس سے پہلے ممکن ہی نہیں تھا۔کہ،، مدینے کی حاضری کیلئے ویزا مِل جائے۔ لوگ عمران کو مبارکباد دے رہے تھے۔لیکن عمران آج بھی اپنے اندر کے سُونے پن کی وجہ سے دل گرفتہ تھا۔ کہاں تو عشق حقیقی کے نام سے ہی خُوف آتا تھا۔کہ،، عمران  نہ تو خود کو اتنا عالی ہمت سمجھتا تھا۔اُور نہ خُود کو اِس راہ کے قابل۔لیکن جب کُتب باھو (رحمتہ اللہ علیہ) نے عشق کی آتش کو خُوب دہکادیا۔تو دُور دُور تک اِس نعمت کے ملنے کے آثار مفقود نظر آرہے تھے۔۔۔پھر ایک دن جب  عمران کو مدینے سےآئے صرف ایک ہفتہ ہی ہُوا تھا۔ خبر ملی ۔کہ،، عمران کو اپنے بیٹے کی خاطر صرف ایکدن کیلئےمدینے کا سفر کرنا ہے۔ اُور مدینہ ائرپورٹ سے اگر عمران چاہے تو اگلی فلائٹ سے واپس آسکتا ہے۔۔۔۔ عمران نے حیرت سے بوکھلا کر استفسار کیا۔صرف ایکدن کیلئے ہی کیوں۔۔۔۔اگر آپکی صحت اجازت دے تو ذیادہ دِن بھی رُک سکتے ہیں۔۔۔۔ اِسکا مطلب ہے اِس مرتبہ میری تشنگی مٹانے کا مکمل انتظام کردیا گیا ہے۔ عمران بُڑبڑاتے ہُوئے سجدہ شکر کیلئے تیار ہُوگیا۔


جاری ہے۔۔۔

۲۸ اقساط کو صرف (۲)اقساط میں سمیٹ  کر  اختتام پذیر کرنے سے  اس کہانی  کے کئی پہلو تشنہ رِہ جانے کا خطرہ پیدا ہُوگیا تھا۔ اِس لئے قسط ۳۰ آخری قسط کے طور پر پیش نہیں کرسکا۔ لیکن انشا اللہ حسب وعدہ رمضان سے قبل  یہ کہانی اختتام پذیر ہُوجائے گی۔انشااللہ۔

پلکوں سے دَر یار پر دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا

0 comments:

Post a Comment