bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 20 June 2015

عامل کامل ابو شامل (خاب در خاب) قسط 51.AKAS


گُذشتہ سے پیوستہ۔

غصے اُور بے بسی کے احساس نے اگرچہ کامل سے سُوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی تھی۔لیکن تھکن کا احساس کامل کو نیند کی وادیوں میں لیجانے  کیلئے اصرار کررہا تھا۔۔۔۔۔صبح سورج کی کرنیں نمودار ہُونے سے قبل کامل کی آنکھ کھل گئی تھی۔ جاناں نجانے کب کی چھت سے نیچے جاچُکی تھی۔ وضو کرتے ہُوئے کامل کو احساس ہُواکہ،، ٹنکی میں پانی  بھی بُہت کم باقی بچا ہے۔ اگر آج بھی بجلی بحال نہ ہُوسکی تو گھر میں پینے کیلئے بھی پانی میسر نہیں ہُوگا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے فجر کامل نے گھر پر ہی ادا کی۔ دُعا کے دوران وُہ بڑی عاجزی سے اللہ کریم سے آسانی کا سوال طلب کرنے میں مشغول تھا۔کہ،، اچانک اُسے رات کا خواب یادآیا۔جس میں مولوی رمضان سے مُلاقات کے دوران مولوی صاحب اُسے دہلی جانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ کافی دیر تک کامل اِس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتا رہا۔لیکن کوئی سِرا کامل کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ پھر اچانک اُسے لگا کہ،، شائد مولوی رمضان  صاحب نے جو دہلی جانے کا اِشارہ دیا تھا۔کہیں وُہ وجاہت دہلوی سے رابطہ کا تو اِشارہ نہیں تھا۔۔۔ہاں شائد مولوی صاحب یہی کہنا چاہتے تھے۔ کامل نے بُڑبڑاتے ہُوئے خُود کو تسلی دی۔۔۔۔ لیکن اتنی صبح وجاہت کو اُٹھانا مناسب نہیں ہُوگا۔ وُہ کہاں گیارہ بجے سے پہلے اُٹھتا ہُوگا؟۔۔ کامل سُوچوں کے دھارے میں گُم تھا۔کہ،، کمرے سے موبائیل کی آنے والی بیل نے اُسکے خیالات کو منتشر کردیا۔

اب مزید پڑھ لیجئے۔

کامل نے موبائیل کی اسکرین پر وجاہت دہلوی کا نام پڑھا۔ تو حیرت اُور خوشی کی ملی جُلی کیفیت سے کال ریسیو کرتے ہُوئے کہا، السلام علیکم وجاہت صاحب کیسے ہیں؟ کتنا عجب حسین اتفاق ہے۔کہ،، میں آپکو کال کرنا چاہ رَہا تھا۔ اُور آپکی کال موصول ہُوگئی۔۔۔۔ وعلیکم السلام حضور والا!  یہ تو میری خُوش نصیبی ہے۔ کہ،، آپکو میری یاد آئی!! دراصل میں نے آج ایک عجیب و غریب خاب دیکھا ہے۔ جسکی وجہ سے کچھ پریشان سا ہُوگیا تھا۔ اُور پھرمیں نے بے اختیار ہُوکر آپکو کال مِلادی ۔۔۔ کیسا خواب دیکھا ہے وجاہت صاحب آپ نے۔ جس نے آپکو اتنی صبح اُٹھنے پر مجبور کردیا،؟۔۔۔۔۔ حضور والا میں نے دیکھا کہ،، میں ایک بہت بڑی کشتی پر سوار ہُوں۔ کشتی میں  تاجر بھی ہیں، کچھ صوفی ٹائپ کے لُوگ ہیں۔ جبکہ کچھ عالم بھی موجود ہیں۔پھر میری نگاہ آپ جناب پر پڑتی ہے۔تو میں دیکھتا ہُوں کہ،، آپ کشتی کی مُنڈیر پر جابیٹھتے ہیں۔۔۔ پھر ہماری کشتی سمندر کے ایک ایسے حصے سے گُزرتی ہے۔ جہاں مگرمچھوں کی بہتات ہُوتی ہے۔ اور یہ تمام مگرمچھ یکایک ہماری کشتی پر حملہ کردیتے ہیں۔ اِس حملے سے کشتی ڈولنے لگتی ہے۔


لیکن کشتی کی اُونچی دیواروں کی وجہ تمام لُوگ محفوظ رہتے ہیں۔ لیکن کشتی کے ہچکولے کھانے کی وجہ سے ایک خدشہ پیدا ہوتا ہے۔کہ،، کہیں آپ اُس منڈیر سے سمندر میں  گر کر مگرمچھوں کا نوالہ نہ بن جائیں۔ اسلئے  علماٗ کے گروہ سے کچھ علماٗ  آپکو سمجھانے آتے ہیں۔ لیکن آپ اُنہیں دلیل دیتے ہیں۔ کہ،، اگر آج میری موت واقع ہونا لکھی ہے۔ تو میں کشتی کے وسط میں بھی ہلاک ہُوجاوٗنگا۔ وگرنہ مجھے  کشتی کی منڈیر   پر بھی مگرمچھوں سے  کوئی خطرہ نہیں۔ وُہ عالم آپکی دلیل سُن کر آپکو چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ پھر جماعت صوفیا میں سے تاجروں کے درمیان سے مجھے طلب کیاجاتا ہے۔ اُور مجھے کہا جاتا ہے۔کہ،، میں نہایت نرمی سے آپکو عرشے سے اُتارلاوٗں۔پہلے میں سُوچتا ہُوں۔ کہ،، جب آپ نے صاحبان علم کی بات نہیں مانی۔ تو حضور میری بات کیونکر سُنیں گے۔ ۔۔ اُور آخر یہ صوفی خود جاکر آپکو کیوں نہیں سمجھاتے۔لیکن میں صوفیا کے کہنے پر آپکی خدمت میں حاضر ہوتا ہُوں ۔تو آپ مہربانی فرماتے ہُوئے میری بات مان لیتے ہیں۔ اُور کشتی کی منڈیر سے صوفیا کے درمیان چلے آتے ہیں۔حضور والا یہ تھا میرا خواب جس نے مجھے بےچین کرڈالا۔ اب میں اسکی تعبیر جاننے کیلئے بےچین ہُوں۔ اگر آپ مہربانی فرمائیں۔

وجاہت بھائی اِس خاب میں  کچھ اشارے ہیں۔ جنہیں بیان کئے دیتا ہُوں۔ باقی علم اللہ کریم کو ہے وہی بہتر جاننے والا ہے۔۔۔۔ جیسے سمندر بمثل کائنات ہے۔ اور کشتی  کی مثال ہماری دنیا ہُوسکتی ہے۔ مگرمچھ اس دنیا کی مشکلات اور مصائب ہیں۔ علما کی باتیں دلیل ہیں ۔ جبکہ  صوفیا کا طریقہ  حکمت ہے۔ اور میرا منڈیر پر بیٹھنا دُنیا کی مشکلات میں گرفتار ہونا ہے۔ جو تمہاری وجہ سے آسان ہُوسکتی ہیں۔۔۔جناب والا اب آپ حکم کریں۔کہ،، کیوں مجھے یاد فرمایا تھا۔ اے کاش حضور والا میں آپ کے کسی کام آسکوں تو  یہ میرے لئے خوش نصیبی ہُوگی۔۔۔۔ کامل علی نے مختصرا ً بتایا کہ،، گذشتہ  ۲ دن  سے گھر کی بجلی منقطع ہے۔ اُور اُسے کام کی تلاش ہے اگر وجاہت  کیلئے ممکن ہُو تویہ مسئلہ حل کردے۔ جواب میں وجاہت دہلوی نے گھر کا ایڈریس معلوم کیا۔ صرف ۲۰ منٹ بعد کامل کے گھر کا کنکشن بحال کیا جاچکا تھا۔ اُور ۲ گھنٹے بعد جب وجاہت دہلوی تحائف اُور پھلوں سے لدا پھندا کامل کے  گھر میں داخل ہُورہا تھا۔ تو ایس پی رفیع دُرانی بھی شرمندہ شرمندہ سا دکھائی دے رہا تھا۔

گھر میں چونکہ کچھ بھی سامان موجود نہیں تھا۔اسلئے جاناں نے مہمانوں کی تواضع اُنہی کے  لائے سامان سے کردی۔  وجاہت دہلوی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہُوئے عرض کیا۔ حضور والا میں آپکی روحانی قوت سے غافل نہیں ہُوں۔ اگر آپ اشارہ فرمادیں۔ تو دنیا کی دُولت کے ڈھیڑ آپکے قدموں  میں موجود ہُوجائے۔ لیکن آپ ہی بہتر جانتے ہُوں گے۔ کہ،، بادشاہ ہُوتے ہوئے آپ نے غلامی والی زندگی کیوں پسند فرمائی ہے۔ حضور والا آپ نے فون پر ارشاد فرمایا تھا۔کہ،، آپ ملازمت کرنا چاہتے ہیں۔ ۔۔۔ حضور والا میری کنسٹریکشن فرم بھی آپ ہی کی فرم ہے۔ میری جانب سے اُسکی ملکیت قبول فرمائیں۔۔۔۔۔۔ نہیں وجاہت دہلوی ہمیں کوئی فرم نہیں چاہیئے۔ بس  میں چاہتا ہُوں کہ،، کوئی ایسا معقول کام حاصل ہوجائے۔ جس سے گھر کے اخراجات باآسانی پورے ہوجائیں۔

کامل نے بات کو واضح کرتے ہُوئے وجاہت کو سمجھایا۔۔۔۔ کافی بحث و تکرار کے بعد وجاہت دہلوی پر ایک با ت بالکل صاف ہُوچکی تھی۔ کہ کامل  علی کوئی احسان لینے کے بجائے کوئی باعزت رُوزگار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آخر کار وجاہت دہلوی کامل کو پراپرٹی ڈیلر میں شراکت کیلئے راضی کرنے میں کامیاب ہُوگیا تھا۔۔۔۔ رفیع دُدرانی نے بتایا کہ،، گڑیا بالکل ٹھیک ہُوچکی ہے۔ اُور آجکل ایگزام کی بھرپور تیاری میں مصروف ہے۔۔۔۔  رفیع درانی  جاتے ہُوئےکراچی کی مشہور مٹھائی کا پیکٹ کامل کے حوالے  کرگئے تھے۔  رفیع کے جانے کے بعد جب کامل نے مٹھائی کا ڈبہ کھولا تو اُسکی ہنسی نکل گئی۔ رفیع دُرانی نے ثابت کردیا تھا۔کہ،، وُہ بھی آخر پولیس والا ہے۔ مٹھائی کے ڈبے میں ایک لفافہ موجود تھا۔ جس میں دولاکھ کی رقم کیساتھ ایک معذرت نامہ  بھی موجود تھا۔ جس  پر لکھا تھا کہ،، بخُدا   یہ رقم حلال ذرایع  سے حاصل کی گئی ہے۔ کامل علی یہ جملہ پڑھ کر کافی دیر تک مُسکراتا رہا۔


وجاہت دہلوی کی مدد سے کامل علی  نے پراپرٹی آفس جانا شروع کردیا تھا۔ وجاہت نے آفس میں بُہت ذمہ دار اسٹاف متعین کیا تھا۔ جس نے تھوڑے ہی دنوں میں  اپنا کام کافی حد تک پھیلا کر ادارے کے منافع میں اچھا خاصہ اضافہ کردیا تھا۔ تمام اسٹاف کے لوگ ہی اپنے کام سے  محبت کرنے والے تھے۔ اگر کبھی کبھار انویسٹمنٹ کی ضرورت پیش آجاتی۔ تو۔ وجاہت دہلوی خوش دِلی کے ساتھ مطلوبہ رقم مُہیا کردیا کرتا۔ وقت گُزرتا رہا۔ اُور رفتہ رفتہ کامل علی ماضی کی زندگی بھولتا جارہا تھا۔ اب اُسے نہ ابوشامل کی یاد ستاتی اُور نہ نرگس کی۔۔۔ جاناں کی محبت نے کامل کو نرگس  کے سراب سے اپنا قیدی بنالیا تھا۔ وقت بُہت آہستگی سے  سرکتا چلاجاہا تھا کہ،،چند ماہ بعد ایک صبح   عجیب واقعہ پیش آگیا۔ کامل آفس جانے کیلئے گھر سے نکلا۔ تو دروازے پر اِک دیہاتی نے کامل کو گھیر لیا۔ سائیں آپ کامل شاہ قادری ہیں نا؟۔۔۔ نام تو میرا ہی کامل ہے۔ لیکن آپکو مجھ سے کیا کام ہے۔ کیا کوئی مکان کرایہ پر چاہیئے؟ کامل نے دیہاتی کے حلیہ پر نگاہ ڈالنے کے بعد اندازہ لگایا۔۔۔ نہیں شاہ صاحب مجھے  مکان نہیں چاہیئے ۔! سائیں مکان  مُوں وٹ آھیی ۔ میرے گھر والی کو بچہ ہوا ہے سائیں بدین میں۔ لیکن سات دن سے بچہ نے ماں کا دودھ نہیں پیا۔ ابھی ڈاکٹر بولتے ہیں کہ،، ہسپتال میں جگہ نہیں اے۔ اُور بھوکا پیاسہ بچہ سائیں کتنے دن جیئے گا۔کسی نے آپکا پتہ بتایا اے سائیں۔۔۔ تو ہم بدین سے آپکی زیارت کیلئے آیا ہُوں۔۔۔۔۔ لیکن بھائی میں دم پھونک کا کام نہیں جانتا آپکو کسی نے غلط پتہ بتایا ہے۔

کامل آدھے گھنٹے بعد واپس گھر سے باہر نکلا۔۔۔ تب بھی وُہ دیہاتی گھر کے دروازے سے لگا کھڑا تھا۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

  

0 comments:

Post a Comment