bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 18 June 2015

عامل کامل ابوشامل (بے بسی) قسط 50.akas




گُذشتہ سے پیوستہ۔

فرنانڈس کا بھائی ڈیوڈ آجکل شکار کھیلنے کیلئے کراچی آیا ہُوا ہے۔ ۔۔اُسی نے تیری جورو کے بدن کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے۔۔۔ اُور ڈیوڈ کے زہر کا تریاق اِن بیچارے ڈاکٹروں کے پاس کہاں سے آئے گا۔۔۔ اتنا کہہ کر سلطان تبریزی  زُور زُور سےقہقہے لگانے لگا۔۔۔ حضور اِن ڈاکٹروں کے پاس تریاق ہُو نہ ہُو۔آپ کے پاس تو ہر موذی کے کاٹے کا منتر ضرور ہُوگا۔ پھر آپ ہی کچھ مہربانی فرمادیں۔۔۔کامل نے التجائیہ لہجے میں درخواست کی۔۔۔ شفا دَوا میں نہیں ہُوتی بچے عطا میں ہُوتی ہے۔ مہربانی بھی وہی فرماتا ہے۔ہم تو مزدور لوگ ہیں۔ دوا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں صرف!!!  ایسا کر  فوراً اپنی جورو کو  سمندر کنارے غازی کے دربار پر لیجا۔اُور صبح ہونے تک  ہرگز احاطے سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرنا۔ جب تک اِس ڈیوڈ سے ہم نپٹ لیں گے۔  سلطان تبریزی نے اتنی آہستگی سے کامل کے کان میں سرگوشی کی۔ جیسے  ذرا بھی تیز آوازہُوئی تو کوئی دوسرا  سُن لےگا۔

اب مزید پڑھ لیجئے۔
کامل علی نے ڈاکٹر کی تجویز کردہ ،ادویات کا پرچہ جیب میں رکھا۔ اُور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر ساحل سمندر پر موجود حضرت عبداللہ شاہ غازی (رحمتہ اللہ علیہ) کے مزار کی جانب روانہ ہُوگیا۔تمام راستے میں کامل کو یُوں محسوس ہُوتا رہا۔جیسے کوئی نادیدہ قوت اُسے روکنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ یہاں تک کہ،، کامل کو اپنے کاندھے بھی بےجان محسوس ہُونے لگے تھے۔جسکی وجہ سے ڈرائیونگ کرتے ہُوئے کامل کو یہی خدشہ رہا۔کہ،، کسی بھی وقت کار کو حادثہ پیش آسکتا ہے۔ لیکن نجانے وُہ کونسی طاقت تھی۔ جو خُوف کی اِس گھڑی میں بھی  دِل کو باربار یہی دلاسہ دے رہی تھی۔کہ،، گھبراوٗ مت  گاڑی چلانا تمہاری ذمہ داری ہے۔اُور اِسے منزل مقصود تک پُہنچانا ہماری!!!۔۔ اللہ اللہ کرتے  ہُوئے بلاآخر کامل کار کو  احاطہ حضرت عبداللہ شاہ غازی (رحمتہ اللہ علیہ) میں پُہنچانے میں کامیاب ہُو ہی گیا تھا۔ احاطے میں داخل ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد جاناں کی طبیعت میں بحالی آنے لگی تھی۔

 وہی جاناں جو ایک  گھنٹے قبل موت کی دہلیز پر کھڑی نظر آرہی تھی۔ بُہت پرسکون انداز میں پھول خرید رہی تھی۔ کامل کو اپنا بدن بھی بُہت ہلکا پھلکا  محسوس ہُورہا تھا۔۔۔جاناں نے حاضری کے وقت تمام جسم اُور چہرے کو اپنی  بڑی سی چادر میں نہایت ادب سے ڈھانپ لیا تھا۔ حاضری کے بعد جب جاناں خواتین کے حصے میں بیٹھ کر قران خوانی کرنے لگی۔ تو کامل بھی تسبیح سنبھالے واپس احاطہ مزار میں داخل ہُوگیا۔  تسبیح پڑھتے ہُوئے کامل کو اُونگھ آگئی ۔ پھر اُسے یوں محسوس ہُوا۔جیسے اُسکی جھولی میں کوئی چیز آن گری ہُو۔ کامل نے آنکھیں کھولیں تو ۲ تازہ گلاب کے پھول اُسکے دامن کو مہکارہے تھے۔ کامل نے ادب سے اُن پھولوں کو آنکھوں سے بوسہ دینے کے بعد جیب میں رکھ لیا۔۔۔فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد کامل   ماحول کا جائزہ لینے کیلئے سیڑھیاں اُتر کر نیچے کی  جانب آرہا تھا۔ جبکہ جاناں  پہلے ہی نیچے پُہنچ چکی تھی۔

ابھی کامل نے نصف سیڑھیاں ہی طے کی ہُونگی۔کہ،، ایک ملنگ نے کامل کر راستہ رُوک کر سرگوشی کرتے ہُوئے کہا،،  آسمان کُھل چکا ہے۔ سیاہ بادل چاندکی رُوشنی سے شکست کھا کر  اِدہر اُدہر چَھٹ چُکے ہیں۔ اسلئے اب بے فکر ہُوکر واپس گھر جاسکتے ہُو۔۔۔۔کامل کے دِل میں خیال گُزرا،  کیا یہ ملنگ سلطان تبریزی کا بندہ ہے؟ ۔یا  ۔کامل کو مزار کے احاطے سے باہر نکالنے کیلئے یہ ڈیوڈ کی کوئی چال ہے۔؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر کسی پر شک کرنا اچھی بات نہیں ہوتی!!!۔ ہم فقیروں کے غلام ہیں۔ اُس خبیث  سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ ویسے بھی ۲ پھولوں کی صورت میں جو ہتھیار تمہارے پاس  ہیں۔ اُنکی موجودگی میں کوئی بدبخت تمہارے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا۔یہ کہتے ہُوئے وُہ ملنگ اُوپر کی جانب چڑھنے لگا۔۔۔۔۔اُور کامل مطمئین ہوکر نیچے اترنے کے بعد جاناں کیساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی جانب روانہ ہُوگیا۔

اِس واقعہ کے بعدچند ماہ تو بُہت پرسکون گُزر گئے۔لیکن اب ایک نیا مسئلہ کامل کو درپیش تھا۔کہ،، ابوشامل کی دی ہُوئی تمام رقم دھیرے دھیرے خرچ ہُوچکی تھی۔ اُور اب کامل کی جیب میں اتنی رقم بھی موجود نہیں تھی۔کہ،، وُہ یوٹیلٹی  بلز بھی ادا کرسکے۔اِسی کشمکش میں پندرہ دِن مزید گُزر گئے۔ اور ایکدن اچانک  بل نہ بھرنے کی وجہ سے کامل کے گھر کی بجلی منقطع کردی گئی۔۔۔بجلی کٹ جانے کے بعد چوبیس گھنٹے بھی نہیں گُزرے تھے۔ مگر جاناں اور کامل کو یُوں محسوس ہُورہا تھا۔جیسے  وُہ دونوں صدیوں سے کسی قید خانے میں بند ہُوں۔۔۔۔ جاناں نے پریشان ہُو کر کامل سے شکوہ کیا۔ آخر آپ  بل بھر کر بجلی کا کنکشن کیوں بحال نہیں کروالیتے؟۔۔۔دراصل وُہ ابو شامل یہاں موجود نہیں ہے نا!  اور رقم کا حساب کتاب اُسی کے پاس ہُوتا ہے۔ کامل نے بات بناتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ مطلب آپ  اپنی تمام زندگی ابو شامل بھائی کے اشاروں پر گُزاریں گے۔اُور اگر وُہ ایک سال تک واپس نہیں آئیں گے۔تو ہم ایک سال اندھیرے میں گُزاریں گے۔ اور اگر کل کو گھر کا راشن ختم ہُوگیا۔ تو کیا پڑوسیوں سے بھیک مانگ کر کھائیں گے۔ جاناں کے لہجے میں ناچاہتے ہُوئے بھی درشتگی دَر آئی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ تُم  خُومخواہ بات کا بتنگڑ مت بناوٗ ۔ میں جلد کوئی انتظام کرلوں گا۔ کامل نے جان چھڑانے والے انداز میں جواب دیا۔

دوسرا دِن بھی  یونہی بیت گیا۔لیکن کامل کو کوئی تدبیر سجھائی نہیں دی۔کہ،، جس کے ذریعے کوئی معقول آمدنی حاصل ہُوسکے۔۔۔  رات کی سیاہی میں چھت کے ننگے فرش پر کامل لیٹا ہُوا سُوچ رہا تھا۔کہ،،جاناں کا کہنا بھی بجا تھا۔وُ ہ بیچاری   میرے نکمے پن کی وجہ سے آج پریشانیوں میں گرفتار ہے۔کاش میں نے ابو شامل پر تکیہ کرنے کے بجائے کوئی کام دھندا کرلیا ہُوتا۔تو آج اچانک یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔۔۔ نجانے میرے  ہی مقدر میں یہ سب کچھ کیوں ہے؟  بچپن میں باپ مرگیا۔تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ماں چل بسی۔ نرگس کو دِل میں بسایا تو اُسکے گھر والے دیوار بن گئے۔۔۔۔ اُور اب ایک ہی دوست  بچاتھا ابوشامل، وُہ بھی زمانے کی بھیڑ میں نجانے کہاں کھوگیا  ہے۔  کامل نے بُڑبڑاتے ہُوئے زمین پر کئی بار غصے میں  اپنی ہتھیلی ماری۔ جسکی وجہ سے ہاتھ سے  خون کی ایک باریک لکیر جاری ہُوگئی۔ لیکن کامل کا  غصہ تھمنے کے بجائے مسلسل بڑھتا ہی چلا جارہا تھا۔

غصے اُور بے بسی کے احساس نے اگرچہ کامل سے سُوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی تھی۔لیکن تھکن کا احساس کامل کو نیند کی وادیوں میں لیجانے  کیلئے اصرار کررہا تھا۔۔۔۔۔صبح سورج کی کرنیں نمودار ہُونے سے قبل کامل کی آنکھ کھل گئی تھی۔ جاناں نجانے کب کی چھت سے نیچے جاچُکی تھی۔ وضو کرتے ہُوئے کامل کو احساس ہُواکہ،، ٹنکی میں پانی  بھی بُہت کم باقی بچا ہے۔ اگر آج بھی بجلی بحال نہ ہُوسکی تو گھر میں پینے کیلئے بھی پانی میسر نہیں ہُوگا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے فجر کامل نے گھر پر ہی ادا کی۔ دُعا کے دوران وُہ بڑی عاجزی سے اللہ کریم سے آسانی کا سوال طلب کرنے میں مشغول تھا۔کہ،، اچانک اُسے رات کا خواب یادآیا۔جس میں مولوی رمضان سے مُلاقات کے دوران مولوی صاحب اُسے دہلی جانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ کافی دیر تک کامل اِس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتا رہا۔لیکن کوئی سِرا کامل کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ پھر اچانک اُسے لگا کہ،، شائد مولوی رمضان  صاحب نے جو دہلی جانے کا اِشارہ دیا تھا۔کہیں وُہ وجاہت دہلوی سے رابطہ کا تو اِشارہ نہیں تھا۔۔۔ہاں شائد مولوی صاحب یہی کہنا چاہتے تھے۔ کامل نے بُڑبڑاتے ہُوئے خُود کو تسلی دی۔۔۔۔ لیکن اتنی صبح وجاہت کو اُٹھانا مناسب نہیں ہُوگا۔ وُہ کہاں گیارہ بجے سے پہلے اُٹھتا ہُوگا؟۔۔ کامل سُوچوں کے دھارے میں گُم تھا۔کہ،، کمرے سے موبائیل کی آنے والی بیل نے اُسکے خیالات کو منتشر کردیا۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔



0 comments:

Post a Comment