bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Sunday 21 June 2015

عامل کامل ابوشامل( تالاب میں دھکا کس نے دیا) قسط 52


گُذشتہ سے پیوستہ۔

وجاہت دہلوی کی مدد سے کامل علی  نے پراپرٹی آفس جانا شروع کردیا تھا۔ وجاہت نے آفس میں بُہت ذمہ دار اسٹاف متعین کیا تھا۔ جس نے تھوڑے ہی دنوں میں  اپنا کام کافی حد تک پھیلا کر ادارے کے منافع میں اچھا خاصہ اضافہ کردیا تھا۔ تمام اسٹاف کے لوگ ہی اپنے کام سے  محبت کرنے والے تھے۔ اگر کبھی کبھار انویسٹمنٹ کی ضرورت پیش آجاتی۔ تو۔ وجاہت دہلوی خوش دِلی کے ساتھ مطلوبہ رقم مُہیا کردیا کرتا۔ وقت گُزرتا رہا۔ اُور رفتہ رفتہ کامل علی ماضی کی زندگی بھولتا جارہا تھا۔ اب اُسے نہ ابوشامل کی یاد ستاتی اُور نہ نرگس کی۔۔۔ جاناں کی محبت نے کامل کو نرگس  کے سراب سے اپنا قیدی بنالیا تھا۔ وقت بُہت آہستگی سے  سرکتا چلاجاہا تھا کہ،،چند ماہ بعد ایک صبح   عجیب واقعہ پیش آگیا۔ کامل آفس جانے کیلئے گھر سے نکلا۔ تو دروازے پر اِک دیہاتی نے کامل کو گھیر لیا۔ سائیں آپ کامل شاہ قادری ہیں نا؟۔۔۔ نام تو میرا ہی کامل ہے۔ لیکن آپکو مجھ سے کیا کام ہے۔ کیا کوئی مکان کرایہ پر چاہیئے؟ کامل نے دیہاتی کے حلیہ پر نگاہ ڈالنے کے بعد اندازہ لگایا۔۔۔ نہیں شاہ صاحب مجھے  مکان نہیں چاہیئے ۔! سائیں مکان  مُوں وٹ آھیی ۔ میرے گھر والی کو بچہ ہوا ہے سائیں بدین میں۔ لیکن سات دن سے بچہ نے ماں کا دودھ نہیں پیا۔ ابھی ڈاکٹر بولتے ہیں کہ،، ہسپتال میں جگہ نہیں اے۔ اُور بھوکا پیاسہ بچہ سائیں کتنے دن جیئے گا۔کسی نے آپکا پتہ بتایا اے سائیں۔۔۔ تو ہم بدین سے آپکی زیارت کیلئے آیا ہُوں۔۔۔۔۔ لیکن بھائی میں دم پھونک کا کام نہیں جانتا آپکو کسی نے غلط پتہ بتایا ہے۔

کامل آدھے گھنٹے بعد واپس گھر سے باہر نکلا۔۔۔ تب بھی وُہ دیہاتی گھر کے دروازے سے لگا کھڑا تھا۔کامل نے سُوچا کہ،،  یہ دیہاتی آدمی ہے۔ میں اِسے جتنا منع کروں گا۔یہ اتنی ہی ضد ذیادہ کرے گا۔ اگر چند گھنٹے کیلئے اِسے اسکے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ تو خود ہی دلبرداشتہ ہوکر چلا جائے گا۔ کامل یہی سُوچ کر آفس  کیلئے روانہ ہُوگیا۔۔۔ شام پانچ بجے جب کامل واپس گھر آیا۔ تو اُسی دیہاتی شخص کو گھر کے باہر منتظر دیکھ کر تلملا گیا۔۔۔ یار تُم عجیب انسان ہُو۔ میں نے تمہیں سمجھایا بھی تھا۔کہ،، تم غلط جگہ آگئے ہو۔ لیکن تم بجائے اسکے کہ،، اپنے بچے کا کہیں جاکر علاج کراوٗ۔ زبردستی میرے گھر کے باہر دہرنا دے کر بیٹھے ہو۔ ۔۔۔بھائی میں سچ کہتا ہُوں کہ مجھے علاج معلوم نہیں ہے۔ اگر مجھے دم پھونک کرنا آتا تو میں ضرور تمہارے بچے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کرتا۔ تم کم از کم مجھے اُس شخص کا نام تو بتاوٗ جس نے تمہیں یہاں کا رستہ دِکھایا ہے۔۔۔۔ سائیں شاہ صاحب جس نے مجھے آپکے پاس بھیجا ہے۔ اُس نے ۲ بات کہی تھی۔ نمبر ۱ کہ،، آپ اتنی آسانی سے علاج کیلئے راضی نہیں ہُونگے اور نمبر۲ میرا نام نہیں لینا۔ ورنہ سائیں مجھ پر خفا ہُوجائیں گے۔

کامل سُوچنے لگا ۔ضرور کسی نے  میرے ساتھ گھٹیامذاق کیا ہے ۔ کامل کو جان چھڑانے کی ایک  ہی تدبیر سُجھائی دی۔ کامل نے جیب سے ایک سادہ کاغذ نکالا۔ اُور اُس کاغذ پر چند اُلٹی سیدھی لکیریں بناکر وُہ کاغذ اُس دیہاتی کے حوالے کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ دیکھو بھائی میں نے یہ تعویز  تمہارے کہنے پرلکھ دیا ہے۔ اِس کاغذ کو پانی کی بوتل میں ڈال کر ہلانا۔ اُور اس پانی کو اپنی بیوی اُور بچے کو پلانا۔ اگر اللہ چاہے گا۔تو  ماں کے پستان میں بچہ کیلئے دودھ آجائے گا۔ اُور تمہارا مسئلہ حل ہُوجائے گا۔ورنہ میں پہلے ہی بتا چُکا ہُوں کہ،، مجھے دَم پھونک نہیں آتی۔۔۔۔ وُہ دیہاتی اُس کاغذ کے ٹکڑے کو آنکھوں سے  لگا کر کامل کو ڈھیروں دُعائیں دیتا ہُوا ۔ روانہ ہُوگیا۔۔۔۔۔

دُو یا تین دِن ہی گُزرے ہُوں گے۔ کہ،، وہی دیہاتی شخص چار پانچ لوگوں کیساتھ کامل کے گیٹ پر پھر سے موجود تھا۔ کامل کی جونہی اِن لوگوں پر نظر پڑی۔ اُس کے دِل میں پہلا خیال یہی آیا۔ کہ،، خدانخواستہ زچہ یا بچے کو کوئی نقصان پُہنچ گیا ہے۔ جسکا بدلہ لینے کیلئے وُہ دیہاتی ہجوم کیساتھ آیا ہے۔  لیکن تمام لوگ انتہائی پرامن تھے۔ اُور اُنکے ہاتھ میں کوئی لاٹھی ڈنڈا بھی نہیں تھا۔ کامل علی ہمت جمع کرکے آگے بڑھا تو اُن دیہاتیوں نے کچھ گلاب کے ہار کامل کو پہناتے ہُوئے کامل کے ہاتھوں کو بوسہ دینا شروع کردیا۔ اُور وُہ دیہاتی جو پہلے کاغذ لیکر گیا تھا۔ لوگوں کو بڑی عقیدت سے بتا رہا تھا۔ کہ یہی وُہ سائیں ہیں۔جنکے تعویز کی برکت سے بچے کیلئے ماں کے سینے میں دودھ اُتر آیا ہے۔ وُہ دیہاتی ساتھ میں ایک بکری کا  چھیلا تحفے میں دینے کیلئے لایا تھا۔ کامل خود حیران تھا۔کہ،، یہ کیا عجیب ماجرا ہُوگیا۔ میں نے تو ٹالنے کیلئے کاغذ پر چند  ٹیڑھی ترچھی لکیریں بنائی تھیں۔ بھلا اُن لکیروں سے کسی کو کیا فائدہ حاصل ہُوسکتا ہے۔ جب جاناں  نے بکری کا بچہ دیکھا تو وُہ ایسے خوشی سے اُس چھلیے سے لاڈ کرنے لگی ۔جیسے وُہ خود کوئی چھوٹی سی بچی ہُو۔  کامل نے تمام واقعہ جب جاناں کو سُنایا تو۔ جاناں نے  فقط اتنا کہا۔ میں نے سُنا ہے۔جب اللہ کریم کسی سے کوئی کام لینا چاہتا ہے۔ تو وُہ کام اپنے اُس بندے کو سِکھادیتا ہے۔یا اُس کام کی محبت اسکے دل میں ڈال دیتا ہے۔ اگر آپ کے دم کرنے سے کسی کا بھلا ہوجاتا ہے۔ تو آپ کردیا کریں نا دَم ! ویسے بھی کسی کو پھونک مارنے میں ٹائم  ہی کتنالگتا ہے۔

اِس واقعہ کے بعد تو یُوں محسوس ہُونے لگا۔ جیسے کسی ہار کا تاگا ٹوٹ گیا ہُو۔ اُور جسطرح ایک موتی کے پیچھے پیچھے دوسرے موتی چلے آتے ہیں۔ ہر شام کوئی نہ کوئی کامل کے گھر اپنے بچوں کو دَم کروانے کیلئے کھڑا نظر آتا۔ کامل علی چونکہ کسی سے کوئی رقم طلب نہیں کرتا تھا۔ اس لئے اب علاج کیلئے کراچی کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک کامل کی خوب پبلسٹی ہُورہی تھی۔۔۔ دِن کے اوقات میں کامل علی پراپرٹی آفس چلا جاتا۔جہاں سے ایک معقول آمدنی اُسے حاصل  ہُورہی تھی۔۔۔ اُور عصر تا مغرب دم  دَرُود کا معاملہ بھی ہفتے میں تین دِن جاری تھا۔ تمام معملات بخیر و خوبی چل رہے تھے۔ کہ ،، ایکدن آفس میں کامل کو جاناں کی کال موصول ہُوئی ۔ اُور جاناں نے کامل کو بتایا کہ،، ہمارے گھر ہماری پڑوسن آئی ہُوئی ہے۔ جسکی سولہ سالہ بیٹی پر جنات کا اثر ہے۔ بیچارے شہر بہ شہر بچی کو لئے پھر رہے ہیں۔آج انہیں کسی نے آپ کے متعلق بتایا۔ تو بیچاری بچی کو لیکر ہمارے گھر آگئی ہیں۔۔۔۔ آپ ایسا کریں فوراً گھر آجائیں۔اُور اِس بچی کا جن اُتار دیں۔ اتنا کہہ کر جاناں کی شائد بیٹری جواب دے گئی تھی۔

کامل جاناں کی اِس حرکت پر بِھنَّا کر رِہ گیا۔۔۔۔ بات صرف دَم کی ہُوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔۔۔لیکن  دَم کرنا کچھ اُور بات تھی۔ اُور جنات سے مقابلہ کرنا کچھ اُور بات تھی۔پھر جنات بھی ایسے کہ،، جو شہر بہ شہر کے عاملوں کے قبضے نہیں آرہے ہُوں۔اب ابو شامل تو موجود نہیں تھا۔ جو جنات کی پھینٹی لگا کر اُنہیں بھاگنے پر مجبور کردیتا۔  کامل آفس سے گھر کیلئے نکل تو گیا تھا۔لیکن اُسے جاناں پر سخت غصہ آرہا تھا۔ جس نے بےوقوفی کی انتہا کردی تھی۔ بندہ کم از کم پوچھ ہی لیتا ہے۔کہ،، علاج کرنا ہے یا نہیں۔یا کیا آپ جنات کا علاج کرسکتے ہیں یا نہیں۔ یہاں تو اس خُدا کی بندی نے نا صرف پڑوسن کو دعوت دے ڈالی تھی بلکہ اُسے یقین بھی دلایا تھا۔ کہ جنات کی اب خیر نہیں۔ حالانکہ کامل کو اپنی خیر خطرے میں دکھائی دے رہی تھی۔ وُہ دِل ہی دِل میں ،، یا لجپال بیڑہ کردے پار،، کی صدائیں لگاتا چلا جارہا تھا۔ کہ،، کسی صدا دینے والے نے صدا دی۔  لجپال کو پکارا ہے۔ ہے تو جا ! دَم دستگیر تیری حفاظت کریں گے۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔



1 comment: