قسط ۔۱۵
کامِل
علی نے کچھ پَس و پیش کے بعد افلاطُون کے بڑھے ہُوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے
ہُوئے کہا۔۔۔ دیکھو افلاطُون ۔۔ مجھے دُوست کہا ہے ۔ تُو اِس رشتہ کی لاج بھی رکھنا۔۔۔
کیونکہ میں نے زمانے میں اتنے دُھوکے اُور فریب کھائے ہیں۔ اُور اتنی تکلیفیں سہی ہیں
کہ مزید برداشت کی ہمت باقی نہیں رہی ہے۔ جسقدر ممکن ہُوگا میں تُمہاری مدد کرونگا۔۔۔۔
اُور تُم سے یہ توقع رکھتا ہُوں کہ تُم بھی مجھے مایُوس نہیں کرُوگے۔۔
بے
شک میرے دُوست۔۔۔ میں تُم سے وعدہ کرتا ہُوں کہ ،، ہمیشہ دوستی کا بھرم قائم رَکھوں
گا۔۔۔ البتہ میری تُم سے ایک درخواست ہے کہ آئیندہ مجھے افلاطُون کے بجائے ابو شامل
کہہ کر مخاطب کرنا۔۔ کیونکہ مجھے اپنا یہ نام دوسروں کی زُبان سے سُننا بُہت پسند ہے۔
اب کہو میرے لئے کیا حُکم ہے۔ افلاطُون کے صرف چہرے پر ہی نہیں بلکہ لہجے میں بھی کامل
علی کی رضا مندی کے بعد شُوخی دَر آئی تھی۔
کیا
تُم نرگِس سے ابھی اِسی وقت میری مُلاقات کا بندوبست کرسکتے ہُو۔ کامل علی نے نظریں
جھکا کر ملُتجانہ لہجے میں افلاطُون کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔۔!
کیوں
نہیں میرے دُوست۔۔۔ میں ابھی نرگس کو اُسکے گھر سے یہاں اُٹھالاتا ہُوں۔ افلاطُون نے
یقینی لہجے میں کامل کو جواب دیتے ہُوئے اپنا داہنا ہاتھ سینے پر رکھ کر اپنے سر کو
ہلکا سا خم کرتے ہُوئے کہا۔۔
نہیں
یار۔۔۔ اِس طرح تُو وُہ بدنام ہُوسکتی ہے۔ ۔۔۔ کیونکہ وُہ اب ایک شادی شُدہ عورت ہے۔۔۔
اُور ایک شادی شُدہ عُورت کا رات میں ایک لمحے کیلئے بھی غائب ہُونا کِسی قیامت سے
کم نہیں ہے۔۔۔۔۔ میرا مقصد اُسے پانا ہے نا کہ بدنام کرنا۔۔۔تُم ایسا کیوں نہیں کرتے
ابو شامل کہ مجھے ہی اُس کے گھر لے چلو۔۔۔ کامل علی نے تجویز پیش کرتے ہُوئے کہا۔۔۔!
ہُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایسی ہی بات ہے ۔ تب میرے دُوست تمہیں آج کا دِن مَزید صبر کرنا پڑے گا۔ کیونکہ
صبح کی رُوشنی پھیلنے ہی والی ہے۔ ویسے بھی تُم تمام رات کے جاگے ہُوئے ہُو۔ ایسی حالت
میں جب کے نیند کا خُمار طاری ہُو۔ محبوب سے ملنے میں کیا خاک مَزہ آئے گا۔ آج ہم کُچھ
کھیل تماشے کریں گے۔ کُچھ سیر سپاٹے کریں گے۔ اُور رات ۱۲ بجے
کے بعد میں تُمہیں تُمہاری نرگس سے مِلانے کیلئے لے جاؤں گا۔ لیکن ابھی تُمہیں سُوجانا
چاہیئے۔
نرگِس
کے ذکر نے اگرچہ کامل کی آنکھوں سے نیند اُڑا دی تھی۔ لیکن ابو شامِل کی بات میں دَم
تھا۔ ایک تو کامل علی کے جسم پر تھکن کے اَثرات تھے۔ دُوسرے دِن کی رُوشنی میں نرگس
سے مُلاقات واقعی خطرناک ثابت ہُوسکتی تھی۔ اسلئے ناچار کامِل علی کمبل اُوڑھ کر بستر
پر دراز ہُوگیا۔ ابو شامل نے جاتے جاتے کامل علی کُو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ کامل
جب جاگ کر تیار ہُوجاؤ تب مجھے آواز دے لینا۔ میں فوراً حاضر ہُوجاؤ گا۔
کامل
علی کی جب آنکھ کُھلی تب اُسے پہلے پہل ایسے مِحسوس ہُوا جیسے اُس نے رات میں کوئی
سپنا دیکھا ہُو۔۔۔ لیکن چائے کے خَالی کپ دیکھ کر اُسے یقین ہُوگیا کہ وُہ کوئی سپنا
نہیں بلکہ ایک حقیت تھی دیوار پر لگی گھڑی دیکھ کر کامل علی کو اندازہ ہُوا کہ دوپہر
کے تین بجنے کو ہیں ۔ مطلب وُہ کافی دیر تک سُوتا رہا ہے۔۔۔ یہی سُوچ کر کامل علی جلدی
سے واش رُوم میں داخِل ہُوگیا۔
واش
رُوم سے نِکل کر جب کامِل علی باہر آیا تب تلک کمرے کی حالت بالکل ہی بَدل چُکی تھی۔
مکان کے اِس اکلوتے کمرے میں جُو کے ابھی کُچھ ہی لمحے قبل کاٹھ کباڑ کی آماجگاہ بنا
ہُوا تھا۔ وہاں ضرورت کی ہر شئے قرینے سے رکھی ہُوئی تھی۔ جِن دیواروں سے پلاستر تک
نابُود ہُوچُکا تھا۔ اَب ایسے چمک رہی تھیں ،، گُویا دیواروں پر پلاستر نہیں بلکہ شیشے
پر پینٹ کردیا گیا ہُو۔ پرانے ٹی وی کی جگہ دیوار پر جہازی سائز کی ایل ای ڈی جگمگارہی
تھی۔ کمرے سے اُسکی جھلنگا چارپائی غائب ہُوچُکی تھی۔ اب کمرے کے درمیان میں سنگ مرمر
کا ڈبل بیڈ آنکھوں کو خیرہ کئے دے رَہا تھا۔ کمرے کے ایک کُونے میں ایستادہ نہایت حسین
گُلدستہ کمرے کی خُوبصورتی میں مزید اِضافہ کررہا تھا ۔کمرے سے ملحق اُوپن کچن بھی
کسی عالیشان کُوٹھی کی نُمایندگی کررہا تھا ۔ کامل علی حیرت کے ساگر میں گُم اِن مناظر
میں کُھویا ہُوا تھا۔ کہ ،، عقب سے ابو شامِل کی آواز سُنائی دِی۔۔۔۔ اتنی حیرت سے
کیا دیکھ رہے ہُو میرے دُوست۔ ابھی تُو بُہت کُچھ بدلنا باقی ہے۔ کامل علی نے گھوم
کر دیکھا تُو ابو شامل مسہری پر نیم دراز نظر آیا۔۔۔۔ کامِل علی کو ہلکا سا حیرت کاجھٹکا
لگا۔ لیکن پھر جلد ہی اُس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔۔۔ کیونکہ رات کو وُہ دیکھ چُکا
تھا۔ کہ مٹی اُور پتھر کی دیواریں ابوشامل کا راستہ روکنے کیلئے کافی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
میں
بُہت جلد اپنے دُوست کیلئے اِس شہر میں یا جِس شہر میں تُم رہنا پسند کرو۔۔۔ وہاں ایک
ایسی کُوٹھی تیار کرواؤں گا کہ دیکھنے والوں کی گردن حیرت سے قُوس کی شِکل اختیار کرجائے۔۔۔۔
اُور اُسمیں دُنیا کی ہر نعمت کو جمع کردُونگا۔ افلاطون نے مسکرا کر کامل علی کی جانب
دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔
نہیں
ابوشامل مجھے مزید کسی کوٹھی یا بنگلے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لئے یہ گھر ہی کافی ہے۔۔۔
البتہ تُم نے اِس گھر میں جُو تبدیلیاں کی ہیں اُس سے واقعی مجھے خُوشی ہُوئی ہے۔ جسکے
لئے میں تہہ دِل سے تُمہارا شُکر گُزار ہُوں۔ کامل علی نے خُلوص سے شکریہ ادا کرتے
ہُوئے کہا۔۔۔ اب یہ بتاؤ کہ آج کا کیا پروگرام بنایا ہے تُم نے۔۔۔؟ مجھے یاد ہے تُم
نے رات کو کُچھ سیر سپاٹے کی بات کی تھی۔۔۔۔
یار
دیکھو ایک بات کان کھول کر سُن لُو آج کے بعد یہ شکریہ وغیرہ کے الفاظ کم از کم مجھ
سے مت کہنا۔ ورنہ میں تُم سے ناراض ہُوجاؤں گا۔ کیونکہ دُوستی میں کوئی کِسی پر اِحسان
نہیں کرتا۔ بس تُم کو میری تبدیلی پسند آئی سمجھو مجھے انعام بھی مِل گیا۔ اُور خوشی
بھی حاصِل ہُوگئی۔۔۔۔ اُور جہاں تک بات ہے سیر سپاٹے کی تُو کیا خیال ہے دریائے جہلم
نہ چلا جائے۔۔۔ وہاں دریا کے کنارے انجوائے بھی کریں گے اُور۔۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر ابو
شامل نے گفتگو ادھوری چھوڑ دی۔ ۔۔۔۔ اُور کیا۔۔۔ کامل علی نے استفاپمیہ انداز میں ابو
شامل کی جانب دیکھتے ہُوئے سُوال کیا۔
کیا
جلباب کو بُھول گئے۔۔۔؟ کیا تُمہیں یاد نہیں مولوی رمضان صاحب نے انتقال سے قبل جلباب
کی ذمہ داری تُمہارے سپرد کی تھی۔۔۔۔ ؟ ابو شامل نے ایک ایک لفظ پر زُور دیتے ہُوئے
کہا۔۔۔۔ نہیں یار۔۔۔ میں جلباب کو کیسے بُھول سکتا ہُوں اُسکے اُور مولوی رمضان صاحب
کے مجھ پر بُہت سے احسانات ہیں ۔۔ لیکن جہلم جانے آنے میں تُو کم از کم ۲ دِن
لگ جائیں گے۔ جب کہ تُم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ کہ آج رات تُم میری نرگس سے مُلاقات
کراؤ گے۔۔۔۔ کامل علی نے ابو شامل کو اُسکا وعدہ یاد دِلاتے ہُوئے کہا۔۔۔۔
اُو
میرے بھائی ۔۔۔ میں تجھے چناب ایکسپریس سے لیکر نہیں جارہا۔ جُو تجھے آنے جانے میں
۲
دِن لگ جائیں گے۔۔۔ تُم شہزادہ ابو شامل کے
ساتھ جارہے ہُو۔ کسی ریلوے مُلازم کے ساتھ نہیں۔۔۔ہم پانچ منٹ سے بھی پہلے جلباب کے
گھر جہلم پُہنچ جائیں گے اُور وقتِ مقررہ سے بُہت پہلے واپس بھی آجائیں گے۔ کیا سمجھے۔۔۔۔؟
ابو شامل نے کامل کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہُوئے مُسکرا کر کہا۔۔۔ اگر ایسی بات ہے
۔ تُو چلو ٹھیک ہے لیکن یہ تُمہیں ایکدم جلباب اُور جہلم کا خیال کیسے آگیا۔۔۔۔؟ کامل
علی نے کُچھ سوچتے ہُوئے سوال کیا۔۔۔
یار
مولوی رمضان صاحب کا ایک قرض مجھ پر بھی ہے۔ بس وہی قرض اُتارنے کی کُوشش کررہا ہُوں۔۔۔۔
تُمہیں شائدبالکل بھی خبر نہیں ہے ۔ مگر میں جانتا ہُوں کہ،، مولوی رمضان صاحب کی بیٹی
جلباب آجکل بُہت کسمپُرسی کی زندگی گُزار رہی ہے۔ کیونکہ اُسکا شوھر جُوئے اُورشراب
کی لَت کے ساتھ ساتھ ایک دوسری عورت کے چکر میں بھی گرفتار ہُوگیا ہے۔ اُور جلباب آجکل
بُہت پریشان حال ہے ۔۔۔ابو شامل کا لہجہ جلباب کا تذکرہ کرتے ہُوئے بُہت غمگین ہُوگیا۔۔۔۔۔
جیسے وُہ اپنی بِہن کا تذکرہ کررہا ہُو۔۔۔
اگر
ایسی بات ہے۔۔۔ تُو میں بھی جلباب سے فوراً مِلنا چاہُوں گا۔ کامل علی نے جذباتی لہجے
میں جواب دیا۔
چلو
پھر تُم ۲
منٹ میرا انتظار کرو میں ابھی آتا ہُوں۔ ابو
شامل یہ کہتے ہُوئے دروازے کی جانب مُڑا۔۔۔
مگر
تُم جا کہاں رہے ہُو۔۔۔۔۔؟ کامل علی کے سوال پر ابو شامل نے مُڑ کر کامِل علی کو دیکھتے
ہُوئے کہا۔۔۔ ارے میرے بُدھو دُوست بہن کے گھر جارہے ہیں تُو کیا خالی ہاتھ جائیں گے۔۔۔۔؟
اِتنا کہہ کر ابو شامل گھر سے باہر نِکل گیا۔۔۔ مگر اِس مرتبہ گھر سے باہر جانے کیلئے
اُس نے دروازے کا ہی استعمال کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔!
(جاری ہے)
پھر
دَرد بڑھ رَہا ہے پھر نیند کی خُواہِش
ہُوئی
دِل میں پِھر سے پیدا تیری دِید کی خُواہش
تیری
رَاہ کے خَار سارے ۔۔۔ پَلکوں سے اپنی چُن لُوں
مجھے
پا کے تیرے مَن میں۔۔ نہ رہے مَزید خُواہش
قسط
۔ ۱۶
کامِل
علی اپنے بالوں کو سنوارنے میں مشغول تھا۔ تبھی ابو شامِل واقعی ۲ منٹ
میں واپس لُوٹ آیا ۔ لیکن اُسے دیکھ کر ہر گز ایسا محسوس نہیں ہُورہا تھا۔ کہ،، وُہ
مارکیٹ میں صِرف ۲
مِنٹ گُزار کر آیا ہے۔ اُس کے دُونوں ہاتھ بڑے
بڑے شاپر سے لَدے پھندے ہُوئے تھے۔ مسہری کے قریب آکر اُس نے تمام شاپرز کو مسہری پر
ڈالتے ہُوئے کامل علی سے کہا۔۔۔۔ یار ذرا نظر مار لینا۔۔۔ کہیں کُچھ رِہ تُو نہیں گیا۔۔۔۔؟
کامل
علی ایک ایک شاپر کو کھول کر حیرت سے دِیکھ رَہا تھا۔ ۲ شاپر
میں مِٹھائی کے بکس مُوجود تھے۔ ۳ بڑے
شاپرز میں زنانہ مردانہ اُور بچکانہ کپڑے بھرے پڑے تھے۔ ۱یک بڑے شاپر میں پھل مُوجود
تھے۔ جبکہ ایک چھوٹے شاپر میں سُونے کا ایک خُوبصورت سیٹ مُوجود تھا۔ جِسے دیکھ کر
کامل علی نے ابو شامل نے کہا۔۔ کیا تُم جلباب کے گھر اتنا ذیادہ سامان لے کر جاوٗگے۔۔۔۔؟
میں لیکر نہیں جارہا۔۔ بلکہ یہ سامان تُم اپنی جانب سے اپنی بِہن جلباب کو دُو گے۔۔۔
ابو شامِل نے اُسکی بُوکھلاہٹ سے محظوظ ہُوتے ہُوئے جواب دِیا۔۔۔
لیکن
ہم یہ تمام سامان لیکر کِس سواری پر جارہے ہیں۔۔۔؟ کامل علی نے تمام شاپرز پر نظر ڈالتے
ہُوئے پُوچھا۔۔۔۔ اَب گاڑی تُو تُمہارے پاس ہے نہیں۔ اُور میں ایکدم تُمہیں کروڑ پتی
بنا نہیں سکتا ورنہ لُوگوں کو تُم پر شک ہُوجائے گا۔ جسکی وجہ سے تُمہارے لئے مشکلات
پیدا ہُوسکتی ہیں۔ اسلئے فی الحال ٹیکسی میں ہی چلتے ہیں۔ ایسا کرو کُچھ شاپر تُم سنبھال
لُو باقی کو میں دیکھ لُوں گا۔۔۔ یہاں سے ٹیکسی اسٹینڈ چلتے ہیں وہیں سے جلباب کے گھر
چلیں گے۔ ۔۔۔ افلاطُوں نے کامل علی کو جواب دیتے ہُوئے سُوچا۔ اب یہ پھر سے یہ سوال
نہ کرڈالے کہ جہلم تک ٹیکسی کا سفر تو بُہت طویل ہُوجائے گا۔۔۔ لیکن کامل علی نجانے
کِس خیال میں ڈُوبا تھا کہ اُسکے خیال میں یہ بات ہی نہیں آسکی۔ اُور دونوں گھر سے
نِکل کر ٹیکسی اسٹینڈ کی جانب روانہ ہُوگئے۔۔۔
ٹیکسی
اسٹینڈ کی جانب جاتے ہُوئے راستے میں ایک اُبھرے ہُوئے سنگ سے کامل علی کا پاوٗں ٹکرا
گیا۔ اِس سے پہلے کہ وُہ زمین پر گِر پڑتا ۔ اَبو شامل نے اُسکا بازو تھام لیا۔ کامل
علی نے ابو شامل کا شُکریہ ادا کرتے ہُوئے جب اِرد گرد نِگاہ دوڑائی تُو اُس نے خُود
کو ایک اجنبی ماحول میں پایا۔ یہ ایک کُشادہ سڑک سے ملحق لِنک روڈ تھا۔ اُور سامنے
ایک وسیع گراونڈ کا اِحاطہ نظر آرہا تھا۔۔۔۔ کامل علی کی زُباں سے بے اِختیار نِکلا۔۔۔
یہ ہم کہاں آگئے۔
یہ
جہلم کا مشہور گولف کُورس گراوٗنڈ ہے۔ ابو شامِل نے گراوٗنڈ کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے
اپنی گُفتگو کا جاری رکھا۔۔ اُور اِس وقت ہم اقبال کالونی کے موڑ ۔۔۔ اُور ایف جی کالج
رُوڈ و جی ٹی رُوڈ کے سنگم پر کھڑے ہیں۔۔ افلاطُوں نے کسی مُشاق ٹُورسٹ کی طرح جواب
دیتے ہُوئے حسب سابق اپنی عادت کے مُطابق اپنے سر کو ذرا سا خَم کردِیا۔ اگر ہمیں اِسی
طرح جہلم میں آنا تھا۔ تُو سیدھے جلباب کے گھر کیوں نہیں گئے۔۔۔؟ کامل علی نے ایک اُور
سوال داغتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔۔۔
اُو
میرے بُھولے بادشاہ ہر کام کا ایک طریقہ ہُوتا ہے۔ ۔۔۔ ہمیں جلد واپس بھی جانا ہے۔۔۔
اُور جلد واپسی کیلئے کوئی معقول بہانہ بھی تُو ہُونا چاہیئے نا۔۔؟ ابو شامل نے کامل
علی کو آنکھ مارتے ہُوئے رُوڈ سے گُزرتی ایک ٹیکسی کو اِشارہ کیا۔۔۔۔ ٹیکسی والے نے
نذدیک آنے پر اِن دُونوں کا بغور معائنہ کرتے ہُوئے پُوچھا۔۔۔ کیوں باوٗ جی کِتھے جانا
اے۔۔۔؟
یار
بس ذیادہ فاصلے تے نیوں جانا اے۔۔۔ وائی کراس توں پنڈ دَادن روڈ تے جیہڑی بلال مسجد
آ۔۔۔ بس اُودے نال ای جانا اے۔۔۔ دَس کِنا کرایہ لے گا۔۔۔ ٹیکسی والا ابو شامل کی ٹوٹی
پھوٹی پنجابی اُور حلیہ سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہُوئے کہنے لگا۔۔۔ باوٗ جی ہُوندے
تے تین سُو روپیہ نے پر تُساں دُو سو روپیہ دے دینا۔۔۔۔ یار اللہ نُوں مَن تین کلو
میٹر دا سفر بھئ نہیں ہیگا۔ تو اسطرح کر کہ سُو رُوپیئے لے لییں ابو شامل شائد موڈ
میں تھا۔ جو اسطرح اپنا وقت ضائع کئے جارہا تھا۔ ۔۔۔۔باوٗ جی چلنا اے تے چلو۔ نیئں
تے میرا ٹائم خراب نہ کرو۔۔ ٹیکسی ڈرائیور نے زِچ ہُوتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ چل یار جسطرح
تیری مرضی۔۔۔۔ اَبو شامل نے کامل علی کی پریشانی کو بھانپتے ہُوئے کہا۔۔۔۔
ٹیکسی
بِلال مسجد سے عید گاہ کی جانب جاتے ہُوئے ایک مکان کے سامنے ٹہر گئی۔۔۔۔ ابو شامل
نے ٹیکسی والے کو ایک ہزار کا نُوٹ دیتے ہُوئے کہا،، ہمیں دُو گھنٹے کے بعد واپس جی
ٹی رُوڈ جانا ہے۔ اگر تُم دُو گھنٹے انتظار کرلُو۔ تُو یہ ایک ہزار کا نُوٹ تُمہارا
ہُوسکتا ہے۔۔۔؟ ٹیکسی والے کی ایک ہزار رُوپیہ کا نُوٹ دیکھ کر باچھیں کِھل اُٹھیں۔
۔۔۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اُس نے مُرجھائے ہُوئے چہرے کے ساتھ کہا۔۔ نہیں باوٗ جی مجھے
اپنے بچے سے مِلنے کیلئے اسپتال جانا ہے۔ میں دُو گھنٹے یہاں آپکا انتظار نہیں کرسکتا۔۔۔کیوں
کیا ہُوا ہے تُمہارے بیٹے کو۔۔۔؟ ابو شامل کے اِ س سوال پر ڈرائیور نے مُرجھائے ہُوئے
لہجے میں فقط اِتنا ہی کہہ پایا۔۔۔ شائد حلق کا کینسر۔۔۔ بڑا منع کرتا تھا کہ،، پُتر
نہ کھایا کر یہ گُٹکے شُٹکے۔ ۔۔ مگر اُس نے کدی میری گَل نئیں مَنی۔۔۔۔
اچھا
یہ تُو کرسکتے ہُو کہ بچے سے مِل کر ۲ گھنٹے
بعد واپس آجاوٗ ۔۔۔ ابو شامل نے تجویز پیش کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ابو شامل کی تجویز سُن
کر ٹیکسی ڈرائیورنے حامی بھرلی۔۔۔ ۔ ٹیکسی ڈرائیور جانے لگا۔ تو ابو شامل نے مزید پانچ
ہزار روپیہ اُسکی جیب میں ٹھوستے ہُوئے کہا۔ ۔۔۔ یار اِن پیسوں سے میری طرف سے میرے
بھتیجے کیلئے کُچھ لے جانا۔۔۔۔ ٹیکسی ڈرائیور شائد کُچھ ذیادہ ہی مجبور تھا۔ اسلئے
اُس نے خاموشی سے وُہ رقم قبول کرلی۔ البتہ اُسکی آنکھوں میں آئے تشکر کے آنسو کامل
علی کی نظروں سے بھی بچ نہیں پائے۔۔۔
دروازے
پر تیسری دستک دینے کے بعد اندر سے جِلباب کی آواز اُبھری۔ کُون ہے بھائی۔۔۔۔؟ راشد
گھر پر نہیں ہے۔۔۔۔ جِلباب کی آواز سُن کر کامل علی سے نہ رَہا گیا اُس نے پُکار کر
جواب دیا۔۔۔ بِہن دروازہ کُھولو۔۔۔ میں ہُوں تُمہارا بھائی کامل علی۔ ۔۔ کامل کی آواز
سُنتے ہی جلباب نے لپک کر دروازہ کھول دِیا۔۔۔۔ اُور نجانے کیسی بے اختیاری تھی۔ جسکی
وجہ سے جلباب کامِل علی کے اندر داخل ہُوتے ہی اُس سے کامل بھائی کہہ کر لِپٹ گئی۔۔۔
اُسکی حالت ایسی ہی تھی ۔ جیسے کسی کو تپتے صحرا میں نخلستان نظر آگیا ہُو۔۔۔ یا جیسے۔۔۔۔۔
کِسی پیاسے کو پانی کے ایک قطرے کی خُواہش کرتے کرتے دَریا دِکھائی دے جائے۔۔۔۔ وُہ
اگرچہ خُود کو بُہت سنبھالے ہُوئے تھی۔۔۔۔ لیکن اُسکا لہجہ چغلی کھارَہا تھا۔۔۔ کہ
وُہ بابل کے آنگن سے آئے مہمان کا مُدتوں سے انتظار کررَہی تھی۔۔۔ جلباب کا جی چاہ
رَہا تھا کہ وقت تھم جائے اُور اپنے بھیا کے سینے پر سر رکھے یُونہی اپنے بابُل کے
صِحن کی مٹی کی خُوشبو کو مِحسوس کرتی رہے۔۔۔۔ یکایک اُس کی نِگاہ ابو شامِل پر پڑی
تو ایک اجنبی کو اتنے انہماک سے دُو بہن بھائی کے قریب دیکھ کر سنبھلتے ہُوئے چُونک
کر کامل علی سے دریافت کرنے لگی۔۔۔ کامل بھائی یہ کُون آپ کے ساتھ آئے ہیں۔۔۔؟
کامل
علی اِس سوال کیلئے شائد ذِہنی طُور پر تیار نہیں تھا۔۔۔ ٹیکسی میں سَوار ہُونے سے
قبل اَبو شامل نے خُود ہی کہا تھا۔ کہ وُہ جلباب کے سامنے نہیں آنا چاہتا۔۔۔ اِس لئے
وُہ اِسے ساتھ نہیں دیکھ پائے گی۔۔۔۔ لیکن وُہ ابو شامل کو دیکھ پارہی تھی۔ اِس کا
مطلب یہ ہُوا کہ ابو شامل نے پوشیدگی کی چادر نہیں اُوڑھی تھی۔۔۔۔ کامل علی کی سمجھ
میں اُور تُو کچھ نہیں آیا۔ بس وُہ اِتنا ہی کہہ پایا۔ یہ رفیق صاحب ہیں۔ اُور بابا
جان کے شاگرد ہیں۔۔
اَبو
شامِل نے کامل کی گھبراہٹ کو دیکھ کر بات سنبھالتے ہُوئے کہا۔۔۔ دراصل میں مولوی صاحب
کا شاگرد ہُونے کیساتھ ساتھ اُنکا بزنس پارٹنر بھی ہُوں۔۔۔ مولوی صاحب نے کُچھ رقم
میرے کاروبار میں لگائی تھی۔ جُو بڑھتے بڑھتے ایک معقول رقم میں تبدئل ہُوچُکی ہے۔۔۔۔میں
اب مُلک سے باہر جانا چاہتا ہُوں۔۔۔۔ اُور مجھے چند دِن قبل ہی مولوی صاحب کے انتقال
کی خبر مِلی تھی۔۔۔۔ بڑی مشکل سے کامل صاحب کا پتہ چلا ۔۔۔ یہ جہلم آرہے تھے۔تُو میں
بھی ضد کرکے انکے ساتھ جہلم چلا آیا۔۔۔۔۔ اب آپ مجھ سے یہ رقم لے کر مجھے اِس فرض سے
سبکدوش کردیں۔ اتنا کہنے کے بعد ابوشامِل نے اپنے پرس سے چار چیک ایک ایک لاکھ رُوپیہ
مالیت کی رقم کے جلباب کی جانب بڑھا دیئے۔۔۔۔
جلباب
اِن چیکوں کو تھامتے ہُوئے جھجک رہی تھی۔۔۔۔ کیونکہ یہ سب کُچھ جلباب کو بُہت عجیب
سا لگ رَہا تھا۔۔۔کیونکہ نہ جلباب نے کبھی اِس اجنبی انسان کو پہلے دیکھا تھا۔۔۔۔ اُور
نہ ہی مولوی صاحب نے کبھی اُسے یہ بات بتائی تھی کہ،، اُنہوں نے کوئی رقم پس انداز
کرکے کاروبار میں لگائی ہُوئی ہے۔۔۔۔۔ کامِل علی نے وُہ تمام چیک ابو شامل کے ہاتھ
سے لیکر جلباب کو تھماتے ہُوئے کہا۔۔۔ میری بہن اپنی رقم لینے میں کیسی جھجک۔۔ اِس
رقم پر صرف تُمہارا حق ہے۔۔۔ اِسے احتیاط سے سنبھال کر رَکھ لو۔ چاہو تُو اپنا اکاونٹ
کھلوا لُو۔۔۔ یا چاہو تو اپنے بچوں کے لئے انہیں محفوظ کرلو۔ ویسے راشد بھائی اُور
سفینہ پھپوکہاں ہیں۔۔۔؟ کامل علی نے گھر میں یہاں وَہاں نِگاہیں دوڑاتے ہُوئے ابو شامل
کے ہاتھ سے شاپر لیکر بیڈ کی سائڈ میں پڑی میز پر رکھتے ہُوئے کہا۔۔۔
سفینہ
پھپو کے انتقال کو تُو ایک برس سے زائد کا عرصہ گُزر چُکا ہے ۔۔۔۔ اُور وُہ شہر سے
باہر گئے ہُوئے ہیں شائد ایک دُو دِن میں واپس آجائیں۔۔۔ ویسے آپ دُوچار دِن تو رُکیں
گے ہی ۔۔۔تب تک شائد وُہ بھی واپس آجائیں۔ جلباب نے اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل
بناتے ہُوئے جواب دیا ۔۔۔ لیکن جلباب کے لہجے میں چھپی بیچارگی کو کامل کیساتھ ساتھ
ابو شامل بھی محسوس کرگیا۔
نہیں
جلباب مجھے آج ہی واپس جانا ہے۔ دراصل کاروبار کے سلسے میں مجھے لاہور میں آج رات ایک
صاحب سے مُلاقات کرنی ہے۔۔۔ اُور کل مجھے ملتان جانا پڑے گا۔۔۔۔ کامل علی نے بات بناتے
ہُوئے کہا۔۔۔ اُور آپ سیالکوٹ بھی تُو جانے کا تذکرہ کررَہے تھے۔ ابو شامل نے بیچ میں
لقمہ دیتے ہُوئے کہا۔۔۔ ہاں دیکھو ملتان سے کب تک فارغ ہُوتا ہُوں۔۔۔ پھر سیالکوٹ چلا
جاوٗں گا۔۔ کامِل علی نے ابو شامِل کو گھورتے ہُوئے جواب دِیا۔۔۔۔
بھائی
لگتا ہے ماشاءَاللہ آپ کا بزنس خُوب چل رہا ہے۔۔۔۔ مگر بھائی آپ کے بزنس کے لئے سرمایہ
کہاں سے آیا۔۔۔؟ جلباب کے اِس سوال نے ایکبار پھر کامل علی کو چکرا کر رکھ دیا۔۔۔ وُہ
سُوچنے لگا۔۔۔۔ واقعی بُزرگ سچ کہتے ہیں۔۔۔ کہ،، جھوٹ کے پاوٗں نہیں ہُوتے۔۔۔ میں نے
اماں والا مکان بیچ دِیا ہے۔ اُور عبدالرشید نامی اپنے سابقہ سیٹھ کے ساتھ پارٹنر شپ
کرلی ہے۔ کامل علی نے پھر جھوٹ کا سہارا لیتے ہُوئے سُوچا اگر جلباب نے مزید ایک دُو
سوال اُور کردئیے تو وُہ مَزید جُھوٹ نہین بُول پائے گا۔۔۔ کامل علی جلد از جلد جلباب
کے گھر سے نِکل جانا چاہتا تھا۔ لیکن وُہ بضد تھی کہ کم از کم وُہ کھانا کھائے بِنا
نہیں جاسکتا۔۔۔ کامل علی کو ناچار جلباب کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑگئے۔ کھانے سے
فارغ ہُونے کے بعد کامل علی نے جلباب سے اِس وعدے کے ساتھ اِجازت چاہی۔ کہ وُہ وقتاً
فوقتاً آتا رہے گا۔۔۔ کامل علی جانتا تھا کہ جلباب کی دِلی خُواہش یہی ہُوگی کہ میں
مزید یہاں رُک جاوٗں۔۔۔ لیکن ابو شامِل اُسے بار بار اشارے کِنایئے میں چلنے کی درخواست
کررہا تھا۔
گھر
سے نکلنے کے بعد کامل علی کی نِگاہیں ٹیکسی ڈرائیور کو تلاش کرنے لگیں۔ لیکن وُہ اِسے
دُور دُور تک کہیں نظر نہیں آیا۔۔۔ یار لگتا ہے وُہ ڈرائیور گھبرا گیا کہ کہیں تُم
اُس سے رقم واپس نہ مانگ لُو۔۔۔ کامل نے شرارت بھرے لہجے میں ابو شامل کے کان میں سرگُوشی
کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ نہیں یار۔ تُم غلط سُوچ رہے ہُو۔۔ دیکھ لینا وُہ ابھی آجائے گا۔۔۔
اُور واقعی ابو شامل کا جُملہ مکمل ہُوتے ہی اُنہیں دُور سے ایک گاڑی کی ہیڈ لایٹ نظر
آئیں ۔ جُو انہی کی جانب بڑھی چلی آرہی تھی۔۔۔
وُہ
ٹیکسی ڈرائیور واپس آگیا تھا۔ اُور اب اسکا چہرہ پہلے کے مُقابل کافی پرسکون نظر آرہا
تھا۔۔۔ دُوران سفر ابو شامل نے اُسکے بیٹے کی خیریت دریافت کرنے کے بعد جب اُس سے اُسکا
نام اُورٹیکسی کی ملکیت کے متعلق سوال کیا۔ تُو ڈرائیور نے اپنا نام زَمان بتاتے ہُوئے
کہا کہ اِ س ٹیکسی کا وُہ صرف ڈرائیور ہے۔۔۔ اُور اِس ٹیکسی کا مالک بُہت جلد یہ ٹیکسی
فروخت کرنے والا ہے۔ اُسکے بعد مجھے کوئی دوسری ٹیکسی دیکھنی پڑے گی۔ جِسے چلا کر اپنے
بچوں کا پیٹ بھر سکوں۔۔۔ یار تُم یہ ٹیکسی خرید کیوں نہیں لیتے۔۔۔ ابو شامِل نے بڑی
بے نیازی سے مفت مشورہ دیتے ہُوئے کہا۔۔۔
صاحب
کیوں مَذاق کرتے ہیں۔۔ یہاں بچوں کو کھلانے کے لالے پڑے ہیں۔ اُور آپ پانچ ساڑھے پانچ
لاکھ کی گاڑی خریدنے کی بات کررہے ہیں۔ زَمان نے اُداسی سے کہا۔۔۔۔ اگر رقم نہیں ہے
تُو کہیں سے قرض حاصل کیوں نہیں کرلیتے ابو شامل کے مفت مشوروں کی پٹاری کُھل چُکی
تھی۔ صاحب۔۔ مجھ جیسے غریب کو بھلا کوئی کیوں اتنی بڑی رقم اُدھار دے گا۔۔۔ زَمان کے
لہجے میں اُداسی کیساتھ حسرت بھی دَر آئی تھی۔ ۔۔اگر تُم چاہو تُو اتنی رقم میں تُمہیں
۲
دِن میں دِلوا سکتا ہُوں۔ اُور وُہ بھی معمولی
خانہ پُری کاغذات میں کرنے کے بعد۔۔۔ بس شہر کے ۲ معزز
افراد کی ضمانت پر۔۔ اُور مزے کی بات یہ ہے کہ تُمہیں رقم لُوٹاتے ہُوئےکوئی اضافی
رقم بھی ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ اگر کوئی بھی ضمانت دینے والا نہ مِلے تب بھی کوئی ٹینشن
کی بات نہیں۔ ہم دُونوں بھی معززین میں ہی شُمار کئے جاتے ہیں۔۔۔ ابو شامل نے اپنی
اُور کامل کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ابو شامِل کی اِس بات پر جہاں زمان کی باچھیں
کِھلی جارہی تھیں۔ وہیں حیرت سے کامل علی کا مُنہ کُھلا کا کھلا رِہ گیا۔۔۔ کامِل علی
سُوچنے لگا یہ جن زادہ ہے۔۔۔ یا حاتم طائی کی رُوح۔۔۔۔۔ جو ہر ایک کو نوازتا ہی چلا
جارہا ہے۔۔۔ جبکہ زمان ڈرائیونگ کرتے ہُوئے سُوچ رَہا تھا کہ،، یہ دُونوں انسان ہیں
یا فرشتے۔۔۔؟
پھر
دَرد بڑھ رَہا ہے پھر نیند کی خُواہِش
ہُوئی
دِل میں پِھر سے پیدا تیری دِید کی خُواہش
تیری
رَاہ کے خَار سارے ۔۔۔ پَلکوں سے اپنی چُن لُوں
مجھے
پا کے تیرے مَن میں۔۔ نہ رہے مَزید خُواہش
قسط ۔۱۷
ابو شامل نے گولف کورس گراؤنڈ آنے پر ٹیکسی سے اُترتے ہُوئے
زَمان کو یقین دِلایا کہ۔۔۔ وُہ کل رات اِسی ٹائم اُور اِسی مقام پر اُسکا انتظار کرے
گا۔ اِسلئے کل وُہ اپنے ڈاکومینٹس لیکر یہیں آجائے۔ ڈاکومینٹس جمع کروانے کے ایک ہفتے
کے اندر اندر اُسے ٹیکسی خریدنے کیلئے مطلوبہ رقم مِل جائے گی۔ زمان نے ابو شامِل کا
شُکریہ اَدا کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ صاحب جی۔۔۔اگر ایسا ہُوگیا تو میں اُور میرے بچے تازِندگی
آپکو اپنی دُعاؤں میں ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ زمان کے لہجے سے اِحسان مندی اُور تشکر
کے جذبات کا اِظہار ہُورَہا تھا۔۔۔۔
کیا تُم واقعی اُسکی مدد کیلئے جہلم واپس آؤ گے۔۔۔؟ یا یُونہی
وقت پاس کرنے کیلئے اُس غریب ڈرائیور کیساتھ کھیل رہے تھے۔۔۔؟ زَمان کے جاتے ہی کامل
علی نے استفہامیہ انداز میں ابو شامل کو دیکھتے ہُوئے سوال کیا۔۔۔ نہیں یار میں اُن
لوگوں میں سے نہیں ہُوں۔ جو کسی کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں یا کِسی کو جھوٹی اُمید
دِلاتے ہیں۔۔۔ میں واقعی اُسکی مدد کرنا چاہتا ہُوں اُور اسکے لئے مجھے چاہے جتنی مرتبہ
بھی جہلم آنا پڑے میں ضرور آؤنگا۔۔۔اُور ڈاکومینٹس بھی صرف خانہ پُری کیلئے مانگ رَہا
ہُوں تاکہ اُسے شک نہ پڑے۔۔۔ جہلم دُوبارہ آنے کا ایک مقصد جلباب کے شوہر کی اِصلاح
کا کُچھ سامان کرنا بھی ہے۔ وُہ لاتوں کا بھوت ہے جو صِرف باتوں سے ماننے والا نہیں۔۔۔
اسلئے میں نے اُسکے لئے بھی کُچھ پلاننگ سُوچ کر رکھی ہے۔ کُچھ خوراک تو آج ہی دینی
ہے۔۔۔اسلئے جب تم نرگس سے مِلو گے تب میں واپس آکر ارشد کو کُچھ مزہ چکھانے کی کوشش
کرونگا۔ ابو شامل نے حتمی لہجے میں جواب دیتے ہُوئے اپنی بات مُکمل کی۔
ویسے یار ایک بات کہوں آج جلباب سے بار بار جھوٹ بولتے ہُوئے
میرے تُو اِس سردی میں بھی پسینے چُھوٹ گئے تھے۔ اُوپر سے تُم نے سیالکوٹ کا تذکرہ
چھیڑ دِیا۔ ۔۔ کامل علی نے اَبو شامل کو متوجہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔کُچھ نہیں ہُوتا یار۔۔۔
دھیرے دھیرے سب سیکھ جاؤ گے۔۔۔ ابو شامل نے اپنے بالوں سے کھیلتے ہُوئے اپنے ہیر اِسٹائل
کو یکسر تبدیل کرڈالا۔۔۔۔ نہیں بھائی میں کوئی پروفیشنل ادکار یا سیاست دان تُو ہُوں
نہیں جو بڑے اعتماد سے جھوٹ بولتا چلا جاؤں۔ ویسے بائی دا ۔وے کیا میں پُوچھ سکتا ہُوں۔
کہ یہ سیالکوٹ کا تذکرہ ایویں مذاق میں آگیا تھا گُفتگو کے دُوران ۔۔۔ یا اِس میں بھی
کوئی خاص راز چُھپا ہے جناب من۔۔۔ کامل نے سردی کا اِحساس ہُوتے ہی اپنے ہاتھ جیکٹ
میں چھپاتے ہُوئے شُوخی سے کہا۔
تُم نے صحیح پہچانا۔سیالکوٹ کا تذکرہ واقعی میں نے ایک سبب سے
کیا تھا میرے یار۔ ۔۔مگر میں ابھی تُم کو کچھ نہیں بتاؤنگا۔ بلکہ گھر پُہنچ کر تمہیں
اُسکی وجہ بتاؤں گا۔۔ کیونکہ ابھی تُو ہمیں نرگِس کے گھر بھی جانا ہے ۔اُور یہاں کھلے
میدان میں سَردی بھی غضب ڈھارَہی ہے۔۔۔نرگِس کا تذکرہ کرتے ہُوئے ابو شامل نے شرارت
بھری نظروں سے کامل علی کی جانب دیکھا۔۔۔ کامل علی کے چہرے پر شرم کی وجہ سےکئی رنگ
آکر گُزر گئے۔۔۔۔ بڑی شرم آرہی ہے جناب کو۔۔۔۔۔؟ ابوشامِل نے شرارت کرتے ہُوئے کامل
علی کی کَلائی کو زُور سے بھینچتے ہُوئے کہا۔۔۔ افلاطُون کلائی تُو چُھوڑ دُو یار۔بُہت
درد ہُو رہا۔۔۔ ایسا محسوس ہُورہا ہے۔۔ جیسے کِسی آہنی شکنجہ میں میرا ہاتھ پھنس گیا
ہُو۔۔۔! کامل علی نے اپنی خِفت مِٹانے کیلئے بات بنائی۔۔۔۔۔۔ لُو جی چُھوڑ دِیا آپکا
ہاتھ۔۔۔ ابو شامل نے یکدم کامل علی کا ہاتھ جھٹکے سے چُھوڑتے ہُوئے کہا۔۔۔ کامل علی
اِس غیر متوقع جھٹکے کیلئے قطعی تیار نہیں تھا۔جِس کی وجہ سے وُہ اپنا توازن سنبھال
نہیں پایا۔اُور زمین پر ڈھیر ہُوگیا۔۔۔۔ یار یہ کونسا طریقہ ہے ہاتھ پکڑنے اُور چُھوڑنے
کا۔۔ کامل علی نے ناراضگی کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔
بھائی صاحب محبوب کے دیس پُہنچنے کیلئے چُھوٹے مُوٹے جھٹکے تُو
برداشت کرنے ہی پڑتے ہیں۔ابو شامِل نے فِضا میں اپنے دُونوں ہاتھ بُلند کرتے ہُوئے
انگڑائی لی۔۔۔۔ محبوب کے تذکرے پر کامل علی نے دائیں بائیں دیکھا تو وُہ حیران رِہ
گیا۔۔۔۔ گُولف کُورس کا دُور دُور تک نام و نِشان نہیں تھا۔ اب وُہ ایک جگمگاتی شاہراہ
پر گُول چُورنگی کے نذدیک کھڑے تھے۔ کامل علی نے اتنی پُررُونق اُور وسیع شاہراہ اپنی
زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔ یہاں گاڑیاں صرف زمین پر ہی نہیں چل رہی تھیں بلکہ
فضا میں معلق سڑک پر بھی بڑی بڑی گاڑیاں رَواں دَواں تھی۔۔۔ کامل علی کے مُنہ سے بے
ساختہ نِکلا۔۔۔ یار اَبو شامل یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔؟
یہ کراچی ہے میری جان۔۔۔ جِسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔۔۔
اُور یہ فلائی اُوور ہے۔۔۔۔ جِسے تم اتنے غُور سے دیکھ رہے ہُو۔۔۔۔ ابو شامل نے کامل
علی کی مُتجسس نگاہوں کا تعاقب کرتے ہُوئے اُسے آگاہ کیا۔۔۔۔ اچھا تُو یہ ہے کراچی۔۔۔۔
یار یہاں کی سڑکیں تُو واقعی بُہت بڑی بڑی ہیں۔۔۔۔ میں نے اُستاد عبدالرشید سے سُنا
تھا۔ وُہ بتارہے تھے کہ یہاں آنے والوں پر یہ شہر اپنا سحر طاری کردیتا ہے۔ جُو یہاں
ایکبار آجائے وُہ پھر واپس جانے کا نام نہیں لیتا۔۔۔۔
ہاں میرے دُوست یہ شہر کبھی ایسا ہی ہُوا کرتا تھا۔ جیسا ابھی
تُم نے بیان کیا ہے۔۔ مگر اب شائد یہ کسی بد نظر کی منحوس نِگاہوں کا شِکار ہُوگیا
ہے۔ رُوزانہ بے شمار لُوگ یہاں اندھی گولیوں کا نِشانہ بن جاتے ہیں۔۔۔ گھر سے باہر
جانے والوں کا انتظار گھر والے ایسے کرتے ہیں۔۔۔ جیسے وُہ گھر سے باہر نہ گیا ہُو
۔بلکہ مقتل گاہ میں چلا گیا ہُو۔۔۔۔ ابو شامل نے حَسرت و یاس کی مِلی جُلی کیفیت میں
تبصرہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔
مگر ہم یہاں آج کیوں آئے ہیں۔ آج تُو ہمیں نرگس کے گھر جانا
تھا نا۔۔ کامل علی نے اپنی کلائی میں وقت دیکھتے ہُوئے کہا۔۔ جہاں رات کے پونے دُو
بج رہے تھے۔۔۔۔ اُو میرے بُھولے بادشاہ محبوبہ تیری ہے۔ اُور تُجھ ہی کو خبر نہیں کہ
آجکل میڈم نرگس صاحبہ اپنے ایک بچے کیساتھ ناظم آباد کے ایک فلیٹ میں رِہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا مجھے تُو واقعی کوئی خبر نہیں تھی۔۔۔۔ پھر کہاں ہے نرگس کا فلیٹ۔۔۔؟ کامل علی
کے لہجے میں بچوں جیسا اشتیاق مُوجود تھا۔۔۔۔۔۔۔ وُہ سامنے والے اپارٹمنٹ کے تھرڈ فلور
پر موجود ہے۔۔۔ جا میرے یار مزے کر میں صبح واپس آؤنگا۔۔۔۔ ابو شامل نے کامل علی کو
آنکھ مارتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔
نہیں یار ایسے کسطرح چلاجاؤں ۔ وہاں اُسکا شوہر بھی تُو موجود
ہُوگا۔ اُور پھر اپارٹمنٹ کا چوکیدار نہیں ہُوگا کیا۔۔۔؟ اُس سے کیا کہوں گا۔۔۔ نہیں
تُم ساتھ چلو۔۔۔ بلکہ ایسا کرو مجھے رات بھر کیلئے غائب کردُو۔ کامِل علی نے کُچھ سُوچتے
ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ اُو بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ تُمہاری نرگس وہاں اپنے شوہر کیساتھ
نہیں بلکہ تنہا اپنے بچے کیساتھ رہتی ہے ۔ کیونکہ اُس کے شُوہر نے تیسری شادی کسی شُوبز
ڈانسر سےکرلی ہے۔ اُور آجکل موصوف اکثر وہیں پائے جاتے ہیں۔ ۔۔ دُوسری بات یہ ہے کہ
وُہ تُمہاری محبوبہ ہے ۔ ہم دُونوں کی مشترکہ نہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اِس اپارٹمنٹ
میں سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔۔۔ سیکیورٹی تُو دُولت مندوں کو چاہیئے ہُوتی
ہے ۔اُور اِس اپارٹمنٹ میں تو سبھی متوسط طبقہ کے لُوگ رہتے ہیں۔۔ جُو خُود ہی ایک
دوسرے کی ٹوہ میں بھی لگے رہتے ہیں۔ اُور ساری رات گپ شپ کی وجہ سے خُود ہی سیکیورٹی
کے فرائض بھی انجانے میں ادا کرتے رِہتے ہیں۔ ہاں البتہ میں یہ کردیتا ہُوں کہ تُمہیں
نرگس جی کے دروازے کے سامنے کردیتا ہُوں۔ اِتنا کہہ کر ابو شامل نے کامل علی کو ہلکا
سا پُش کیا جسکی وجہ سے کامل علی نے خُود کو ایک دروازے کے سامنے پایا۔ کامل علی نے
یہاں وَہاں نظریں دُوڑائیں لیکن ابو شامل کہیں بھی نظر نہیں آیا۔۔۔
کامل علی کُچھ لمحات تک اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کُوشش
کرتا رَہا۔ یہاں تک کہ اُسکی سانسوں کی لے نارمل ہُوگئی۔ اُسے ایک طرف جلد سے جلدنرگس
کو دیکھنے کی تمنا تھی۔ تو دوسری طرف یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ کوئی اچانک آ نہ جائے۔۔۔
اُور اگر کسی نے پُوچھ لیا کہ میاں رات کے ۲ بجے یہاں کیسے کھڑے ہُو ۔ تو بُہت گڑ بڑ ہوجانے کا اندیشہ ہے۔۔۔۔۔
یہی سُوچ کر کامل علی نے دھڑکتے دِل سے فلیٹ کی ڈور بیل پر ہاتھ رَکھ دیا۔ وُہ چھوٹی
چھوٹی بیل بجاتا رَہا۔۔۔۔ چُوتھی پانچویں بیل پر اندر سے کُچھ کھٹر پٹر کی آواز سُنائی
دی۔۔۔ کامل علی کا دِل ایک مرتبہ پھر سے زُور زُور سے دھڑکنے لگا۔۔۔ لیکن جونہی نرگس
نے اپنی مترنم مگر سخت آواز میں اندر سے پُوچھا کُون ہے۔۔۔۔؟ تُو کامل علی کی خُوشی
سے چیخ نِکلتے نِکلتے رِہ گئی۔ اِس آواز کو کامل علی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں پہچان
سکتا تھا۔ یہ اُسی کافر اَدا کی آواز تھی۔ کہ جسکو سُننے کیلئے کامل کے کان ایک مُدت
سے ترس رہے تھے۔۔۔ جواب نہ مِلنے پر اندر سے پھر نرگس کی آواز بُلند ہُوئی ۔۔۔ کُون
ہے۔ بُولتے کیوں نہیں۔۔
میں ہُوں کامل علی۔۔۔۔۔ کامل کے حلق سے پھنسی پھنسی سی آواز
نِکلی۔ کُون کامل علی۔۔۔ میں کسی کامل علی کو نہیں جانتی۔۔۔۔ اندر سے دُوبارہ نرگس
کی آواز بُلند ہُوئی۔۔۔۔۔ نرگس میں ہُوں کمالا ۔۔۔ تُمہارا پڑوسی۔۔۔۔ کامل علی نے ارد
گرد دیکھتے ہُوئے مُناسب الفاظ کا انتخاب کرتے ہُوئے دھیمے لہجے میں جواب دِیا۔۔۔۔۔۔
اندر کُچھ لمحوں کیلئے سکوت قائم ہُوگیا۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازے سے ملحق گِلاس
وِنڈو میں روشنی کےآٓثار نظر آئے۔۔۔ پھر ایک نسوانی ہَیولا اُس رُوشنی کے درمیان نظر
آنے لگا۔۔۔۔۔ جیسے کوئی باہر آنے والے مِہمان کو جانچنے کی کوشش میں مصروف ہُو۔۔ تھوڑی
سی خاموش نگاہوں سےجانچ پڑتال کے بعد وُہ نسوانی ہیولا روشنی کے اُس دریچے میں کھو
گیا۔۔۔۔دَروازہ کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی نرگس کا چہرہ نظر آیا۔۔۔ نرگس کے چہرے پر
نِگاہ پڑتے ہی کامل علی کے من آنگن میں چاندنی سی بِکھر گئی۔۔کامل علی بڑے انہماک سے
اُسکے سراپے کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔۔جسکی تپش نرگس کے چہرے کو تمتمائے جارہی
تھی۔۔۔۔ نرگس کے سراپا میں شادی کے باوجود کوئی خاص تبدئلی واقع نہیں ہُوئی تھی۔ سِوائے
اِسکے کہ اُسکی کمر پہلے کے مقابلے میں کُچھ فربہ دِکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔ کہو کامل
یہاں کیسے آنا ہُوا۔۔۔؟ اُور وُہ بھی رات کی اِس تاریکی میں۔ جبکہ تُم خُوب جانتے ہُو
کہ،،اگر کسی نے دیکھ لیا ۔۔۔۔۔تُو۔۔۔۔ میں ایکبار پھر کسی کی نِگاہوں سے گِر سکتی ہُوں۔۔۔۔
نرگس نے کامل کی محویت کو تُوڑتے ہُوئے آہستہ سے کہا۔
کیا اتنی مُسافت طے کر کے آنے والے مُسافر کو اپنے گھر میں بھی
نہیں بُلاؤ گی۔۔۔؟ کامل علی نے اُداس لہجے میں نرگس کے چہرے کو دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔
نرگس نے تھوڑے سے تذبذب کے بعد کُچھ سُوچتے ہُوئے کامل علی کے لئے راستہ چھوڑ دِیا۔۔۔
فلیٹ میں داخِل ہُونے کے بعد کامل علی نے فلیٹ کا سرسری سا جائزہ لیا۔۔۔۔ یہ دُو کمروں
کا ایک چھوٹا سا گھر تھا۔۔ جِس میں اگرچہ بظاہر کوئی آسائش کا سامان نظر نہیں آرہا
تھا۔ لیکن پھر بھی جِس طرح تمام گھر کو قرینے سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔ وُہ اہلخانہ
کی نفاست و ہُنرمندی کی داستان سُنانے کیلئے کافی تھا۔۔۔
نرگس نے ایک کمرے میں داخل ہُوتے ہُوئے کرسی کی جانب اِشارہ
کرتے ہُوئے کامل علی کو بیٹھنے کیلئے کہا۔۔۔ اِس کمرے میں پلاسٹک کی اُس کرسی کے علاوہ
ایک سِنگل بیڈ موجود تھا۔۔۔ کامل کے کرسی سنبھالتے ہی نرگس بھی بیڈ پر سِمٹ کر بیٹھ
گئی۔ بیڈ کے درمیان میں ایک دُو سالہ بچہ اپنا انگوٹھا مُنہ لئے نیند کی حالت میں مُسکرا
رَہا تھا۔۔۔۔۔ یہ میرا بیٹا طارق ہے۔ نرگس نے بچے کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے دھیمے
لہجے میں کامل علی کو آگاہی بخشی۔۔۔ بُہت پیارا بچہ ہے ماشاءَاللہ بالکل تُم پر گیا
ہے۔ کامل نے بچے کو بغور دیکھتے ہُوئے کہا۔
کامل تُمہیں یہاں نہیں آنا چاہیئے تھا۔۔۔ ہمارے درمیان جو کچھ
بھی تھا۔۔ اُسے ختم ہُوئے ایک مُدت گُزر چُکی ہے۔ میں وُہ تمام باتیں ماضی کا قصہ سمجھ
کر بُھول چُکی ہُوں۔۔۔ اسلئے میرے خیال میں تُمہیں میرے گھر آتے ہُوئے احتیاط کرنی
چاہیئے تھی۔۔۔ میں ایک مرتبہ پہلے اپنے والدین کی نظروں سے گر چُکی ہُوں اُور اب اپنے
شوہر کی نِگاہوں سے گرنا نہیں چاہتی۔۔۔ اگر تُم ایک طویل مُسافت طے کرکے میرے شہر سے
رات کے اِس پہر میرے گھر نہ آئے ہُوتے تو میں ہرگز تُمہیں اپنے گھر میں داخل ہُونے
کی اجازت نہ دیتی۔۔۔ مجھے اِس بات سے بھی غرض نہیں ہے۔ کہ تُم یہاں صرف میرے لئے آئے
ہُو۔ یا کراچی کی رُونقوں سے محظوظ ہُونے کیلئے۔۔۔۔ میں تُو بس اتنا چاہتی ہُوں کہ
جِس قدر جلد ہُوسکے تم یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے واپس لُوٹ جاؤ۔۔۔۔
نرگس کی گفتگو کامل علی کے سینے کو برچھی کی طرح چھلنی کئے جارہی
تھی۔۔۔ جسکی وجہ سے نہایت رازداری سے اُسکی آنکھیں اَشکوں کو الودع کہہ رہی تھیں۔۔۔
کامل علی سُوچ رَہا تھا۔۔۔ کیا یہ وہی نرگس ہے ۔ جو مجھے دیکھے بِنا چین سے سُو بھی
نہیں پاتی تھی۔۔۔ اُور کیا یہ وہی نرگس ہے کہ جِس کو پانے کیلئے وُہ تمام زمانے سے
لڑنے کیلئے تیار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے
مجھکو ہر چہرے میں آتا ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے
جاری ہے۔
0 comments:
Post a Comment