bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 22 December 2012

عشرت وارثی حاضر ہُو۔


جب میں حالتِ مَدہُوشی سے عالمِ ہُوش میں پلٹ کر واپس  آیا۔ تب سب سے پہلے میں نے جس چیز کو مِحسوس کیا وہ میرے بدن میں اُٹھتی ہُوئی دَرد کی لہریں تھی ۔پورے جسم میں اتنی شدید ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں ۔مانو جیسے کسی نے مجھے بُری طرح دھنک کر رکھ دِیا ہُو۔ لیکن یہ اِحساس بھی زیادہ دیر قائم نہ رِہ سکا ۔پھر مجھے اِحساس ہُوا کہ میرے بدن پر ایک بھی کپڑا موجود نہیں ہے ۔ ایک ہلکی سی شرم کی لہر میرے حَواس پر غالب ہُوئی۔ لیکن جونہی میں نے اپنے اِرد گِرد کے ماحُول پر نِگاہ ڈالی تو میں نے جانا کہ میں جس مقام پر موجود ہُوں ۔ وہاں  شائدکسی کے بھی جِسم پر پیراہن نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔

ہر طرف انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ لوگوں کے جتھے کے جتھے یہاں سے وہاں پریشانی کی حالت میں دوڑتے پھر رہے تھے عجیب نفسا نفسی کا عالم تھا ۔ میرے  کانوں میں لوگوں کے سسکنے، بلکنے ، کی آوازیں اس کثرت سے آرہی تھیں ۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے لاکھوں مکھیاں ایک ساتھ بھنبھنا رہی ہُوں۔ یہ ماحُول دیکھ کر مجھے اِحساس ہُونے لگا کہ کوئی خاص واقعہ پیش آگیا ہے ۔ جسکی وجہ سے لوگ یُوں سَرگرداں  و پریشاں حال نظر آرہے ہیں۔۔۔ کہ اِنہیں یہ بھی اِحساس نہیں ہوپارہا کہ وہ بِنا لباس کے یوں بے پرواہ گھوم رہے ہیں اگرچہ یہ برہنگی بھی عجیب تھی کہ لوگ برہنہ بھی تھے لیکن ایک دھند نے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رَکھا تھا جسکی وجہ سے وہ برہنہ ہونے باوجود بھی برہنہ نظر نہیں آرہا تھا۔

خیر میں نے ہِمت کی اور  اپنے  زَخم زَخم  پیروں سے اُٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ موقع کی نزاکت نے ویسے بھی میری تکلیف کو بُہت کم کردِیا تھا۔۔۔ جب میں زمین سے اُٹھ کر کھڑا ہُوا تو مجھے معلوم ہُوا کہ میں ایک سپاٹ میدان میں کھڑا ہوں جہاں کروڑوں لوگوں کا مجمع موجود ہے۔ جہاں نِگاہ اُٹھاتا انجان ہراساں لوگوں کے چھٹ کے چھٹ موجود نظر آرہے تھے۔ پھر مُجھے محسوس ہُوا کہ اس میدان میں بلا کی تیز گرمی ہے۔۔۔ جسکی وجہ سے زمین کسی سُلگتی ہُوئی دَھات کی طرح معلوم ہُورہی تھی۔ اور جب میں نے آسمان کی جانب نِگاہ اُٹھائی تو مجھے آسمان نام کی کوئی شئے نظر نہ آئی اب مُجھے حالات کی سنگینی کا مزید اِحساس ہُونے لگا تھا۔

میں نے ایک خوفزدہ نوجوان کو بھاگتے دِیکھا اس کا چہرہ مُجھے کُچھ جانا پہچانا مِحسوس ہورہا تھا۔۔۔ لیکن ذِہن پر کافی  زُور دینے کے باوجود  وُہ پہچانا نہیں جارہا تھا ۔۔میں نے بھی بے اِختیار اُس نوجوان کے ساتھ بھاگنا شروع کردِیا اور دوڑتے دوڑتے اُس نوجوان سے معلوم کیا۔ بھائی یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔؟

اُس نے صرف ایک لمحے کیلئے میری جانب دِیکھا اور کہنے لگا کیا تُمہیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی ۔کہ ہم میدانِ حشر میں موجود ہیں اور آج جزا اور سزا کا دِن ہے۔۔۔ کسی کو انعام کی خِلعتوں سے نوازا جارہا ہے اور کسی کو جہنم کا ایندھن بنایا جارہا ہے۔ یہاں آج کوئی کسی کا نہیں ہے ۔۔۔میرا حِساب پیش ہوچکا ہے لیکن میرے گُناہوں کے پلڑے میں صرف 10گُناہ میری نیکیوں سے زیادہ ہیں میں نے کُچھ مُہلت طلب کی ہے۔۔۔ تاکہ اپنی ماں سے11 نیکیاں حاصل کرسکوں ۔۔۔مجھے اُمید تھی کہ اس مُصیبت کی گھڑی میں میری ماں ہی مجھے اپنی نیکیاں دے سکتی ہے۔ لیکن میرا حِساب دیکھنے کے بعد میری ماں نجانے کہاں چلی گئی ہے وہ شائد مُجھ سے چھپتی پھر رہی ہے۔۔۔ تاکہ اُسے اپنی نیکیاں مُجھے نہ دینی پڑجائیں۔ اتنا کہنے کے بعد وہ لوگوں کے ہجوم میں ماں۔ ماں چِلاتا ہُوا گُم ہوگیا۔

اب مُجھے اِحساس ہوچُکا تھا کہ میں میدان حشر میں آ پُہنچا ہُوں اور آج مجھے بھی اپنے کئے ہوئے ہر اچھے بُرے عمل کا حِساب دینا ہُوگا پھر میں نے سُنا کوئی صدا لگانے والا صدا لگا رَہا تھا کہ عبداللہ بن صاعقہ کو پیش کیا جائے ۔۔اور پھر چند ہیبتناک فرشتے ایک کمزور سے آدمی کو گھسیٹ کر لیجاتے ہُوئے نظر آئے ۔۔۔وہ آدمی شائد میزان پر جانے سے گھبرا رَہا تھا لیکن اُس شخص کی فِرشتوں کے آگے ایک نہیں چل پارہی تھی۔ بہرحال وہ شخص جب میرے سامنے سے لیجایا جانے لگا تُو میرے کانوں نے اُسکی صدا سُنی مجھے چھوڑ دو میرے پلے کونسی نیکیاں ہیں جو مُجھ سے میرا حِساب چاہتے ہُو ۔

لیکن فرشتوں نے اُسکی ایک نہ سُنی اور اُسے میزان پر لے گئے ۔میں سوچنے لگا نیکیاں تو میرے پلے بھی کُچھ نہیں۔ تو کیا اگر میرے پاس نیکیاں نہ نکلیں تو کیا مجھے بھی جہنم کا ایندھن بنا دِیا جائے گا۔۔۔ ؟ جہنم کا خیال آتے ہی مُجھے سورج کی تپش مزید جھلسانے لگی میرے جسم سے پسینہ بِہنے لگا اور جب میں نے زمین کو دیکھا تُو زمین پر میرا پسینہ بِہہ رَہا تھا۔۔ لیکن یہ کیا ۔۔ کیا میرے اکیلے جسم سے اِتنا پسینہ نِکل سکتا ہے کہ زمین پہ بِہنے لگ جائے ؟ تب مُجھے معلوم ہُوا کہ صرف میرے ہی جسم سے پسینہ نہیں نکل رہا تھا بلکہ ہر انسان کے جسم سے پسینہ بہہ رَہا تھا۔ اور اب یہ پسینہ تیز بارش کے بعد زمین پر بِہنے والے پانی کی طرح نظر آرہا تھا اور اِسکی سطح لحظہ با لحظہ بُلند ہورہی تھی۔۔ تبھی کمرہ میزان سے عبداللہ برآمد ہُوا لیکن یہ کیا وہی عبداللہ جو ابھی کُچھ لمحے پہلے فرشوں سے میزان پر نہ لیجائے جانے کی درخواست کررہا تھا۔ اب اُس کے چہرے کی خُوشی اُسکےچہرہ کو گُلنار کئے دے رہی تھی۔

میں نے اُسکی خُوشی کا سبب معلوم کیا تو وہ کہنے لگا میں دُنیا میں بُہت غریب تھا میرے پاس کبھی اتنے پیسے جمع نہیں ہوسکے کہ میں زکواۃ ادا کر پاتا۔ لیکن میں ہمیشہ یہ نیت کیا کرتا تھا کہ اگر میرے ہاتھوں میں خزانے کی کُنجیاں آجائیں تو سارا خزانہ مسکینوں میں تقسیم کردوں۔ بس آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ میری نیتوں کو قبول کرتے ہوئے اس عمل کے برابر نیکیوں کو میرے نامہ اعمال میں جمع کردیا گیا تھا اور یُوں میں آج اس مشکل گھڑی میں سرخُرو ہُوگیا ہوں۔

میرا دِل مجھے مشورہ دے رَہا تھا کہ میں کہیں چُھپ جاؤں لیکن میرا دماغ مُجھے سمجھا رہا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا کُچھ دیر دِل اور دماغ کی جنگ جاری رہی اور دماغ دِل پر غالب آگیا۔ اور میں یہ جان گیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے لِہٰذا میں لوگوں کو میزان پر آتا جاتا دیکھنے لگا ۔ میں نے ایک انسان کو بڑی بے پرواہی سے اپنے حساب کتاب کے لئے میزان پر جاتے دیکھا اُسکی نخوت سے مجھے احساس ہونے لگا کہ وہ کوئی نہایت پرہیزگار عابد ہے جسکے پاس نیکیوں کے خزانے موجود ہیں۔

لیکن جب وہ میزان سے فارغ ہُوا تو اُسکے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی اور وہ گڑ گِڑا کر اللہ عزوجل کا فضل طلب کررہا تھا ۔ میرے استفسار پر مُجھے بتایا گیا کہ یوں تو اسکے پاس واقعی نیکیوں کے خزانے موجود تھے ۔لیکن اس نے اللہ کریم کی چادر میں خیانت کی تھی جسکے سبب اسے اپنے جرموں کی پاداش میں جہنم لیجایا جارہا ہے ۔یہ نیک انسان لوگوں کو خُود سے حقیر سمجھا کرتا تھا اور تکبر کا شکار تھا۔ اِس پارسا کے حشر نے مجھے وقتی طور پر ہراساں کردیا۔ لیکن پھر میں دوسرے لوگوں کے حساب کتاب کو دیکھنے میں مصروف ہوگیا ۔۔۔ہر سزایافتہ مجرم کو دیکھنے کے بعد میرا حُوصلہ مزید ٹوٹنے لگتا لیکن جب میں کسی پر انعامُ اکرام کی بارش دیکھتا تو مجھے بھی اُمید اپنے حِصار میں جکڑ لیتی ۔۔۔۔یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک صدا بُلند ہوئی عشرت اقبال کو حساب کیلئے میزان پر پیش کیا جائے۔

یہ صدا سُننے کے بعد میرے ہُوش اُڑنے لگے یہ کیا میرے حِساب کا وقت بھی آپُہنچا ۔۔۔میں جُو ابھی کُچھ ہی لمحے قبل  تک دوسروں کے حساب میں گُم تھا۔۔۔ اور میں نے یہ سُوچا بھی نہیں تھا ۔کہ مجھے اسقدر جلد بُلا لیا جائے گا ۔۔۔دِل میں ہزار اندیشے تھے کہ نجانے میرے ساتھ کیا مُعاملہ پیش آنے والا ہے۔ کیا مجھے چھوڑ دِیا جائے گا۔۔ ۔؟  یا جہنم کی عمیق گہری وادیوں میں دھکیل دیا جائے گا میری نِگاہیں میرے اپنوں کو تلاش کرنے لگیں مجھے اپنے اِرد گرد بُہت سے شناسا چہرے نظر آئے لیکن یہ کیا۔۔۔ تمام چہرے سپاٹ تھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے میری سزا و جزا کے مُتعلق وہ جاننا ضرور چاہتے تھے مگر اُنہیں اس بات کی پرواہ ہرگز نہیں تھی کہ کامیابی میرا مُقدر بنتی ہے یا ناکامی میرے حِصے میں آتی ہے۔

مجھے میزان پر لے جایا جارہا تھا ہر ایک انسان یوں تُو نفسا نفسی کا شکار تھا ۔کئی ایک مُجرم سزا کا پروانہ پا چُکے تھے اور کئی لوگ کامیابی کی نوید سُن چُکے تھے لیکن جب مُجھے میزان پر لیجایا جانے لگا تو میں نے دیکھا کئی ایک لوگ جو مُجھے دُنیا میں جانتے تھے ۔میرے اعمال نامہ کو جاننے میں دِلچسپی رکھتے تھے شائد وہ جاننا چاہتے تھے کہ دیکھیں اس شخص کیساتھ کیا مُعاملہ ہوتا ہے اور بظاہر نیک نظر آنے والا انسان دُنیا میں کس قدر کامیاب رہا ۔ اور کیا یہ حشر کے میدان میں بھی  کامیاب بھی ہُوگا۔ یا اسکے حِصہ میں بھی ناکامی اور وحشتیں لکھی ہیں۔

مجھے میزان پر پیش کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ یہ ایک بُہت بڑی اسکرین تھی جو خَلاؤں میں آویزاں تھی اور ایک فرشتہ ایک مشین کے پاس کھڑا اُس مشین کو آپریٹ کر رہا تھا۔ ہر آدمی کا نام اس مشین میں محفوظ تھا جونہی وہ فرشتہ کسی انسان کا نام پُکارتا تو اسکرین پر اُس انسان کی تصویر اُبھر آتی۔ اور اِسکے بعد اسکرین کی ایک جانب اُسکی ایک ایک نیکی نمایاں کی جاتی جو کہ نہ صرف تحریری شکل میں اسکرین پر نمودار ہوتی بلکہ ایک جانب اسکی وڈیو بھی نمایا ں ہوجاتی تھی۔ اور اگر اس نیکی میں کوئی گُفتگو بھی شامل ہوتی تو وہ گُفتگو بھی سُنائی دینے لگتی۔ جبکہ اسکرین کی دوسری جانب وہ تمام چھوٹے بڑے گُناہ جو دُنیاوی زندگی میں اِنسان ظاہری یا پوشیدہ طُور پر کرتا رہتا ہے ۔ اسکرین پر  بالکل اِسی طرح دوسری جانب ظاہر ہوجاتے۔ ایک طرف نیکیوں کا شُمار جاری تھا تو دوسری جانب گُناہ بھی شُمار کئے جارہے تھے۔ نجانے کتنا وقت گُزر گیا۔۔۔ اور نتیجہ ظاہر ہونے لگا ایک خُود کار مشین نتیجے کو تحریری صورت میں پرنٹ کرنے میں مصروف تھی۔

پھر ایک فرشتہ کی صدا سُنائی دی عشرت وارثی دُنیا میں اپنے مقصد کو پانے میں ناکام رہا ہے ۔ اِسکے گُناہ اسکی نیکیوں پر حَاوی ہیں ۔ لِہٰذا اِسے سزا پانے کیلئے لیجایا جائے۔۔ میں ناکامی کا سُن کر رونے لگا اور فرشتوں سے التجا کرنے لگا ۔۔۔ دیکھو دیکھو ایسا نہ کہو ۔۔۔ مجھے ناکام نہ کہو۔۔۔ میرے حِساب کو ایک مرتبہ اور جانچ لُو۔۔۔۔۔ اگرچہ مُجھے اقرار ہے کہ میں دُنیا میں اپنے آنے کے مقصد کو بھول گیا تھا ۔ہاں۔۔۔ میں دُنیا کی رنگینوں میں کھو گیا تھا۔۔۔ لیکن مجھے اسطرح سزا کیلئے نہ لے جاؤ خُدا کیلئے مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔ مُجھے چھوڑ دو۔


لیکن مُحافظ فرشتوں پر میری صدا کا کوئی خاطر خُواہ اثر نہیں ہُوا ۔۔۔۔وہ مجھے گھسیٹنے کے انداز میں لئے جارہے تھے ۔ کہ میں پُکارا۔۔ سُنو مجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دُنیا میں بُہت مُحبت تھی۔۔۔ اگرچہ میرا عشق کامل نہیں تھا لیکن مجھے قوی توقع تھی کہ میری یہ مُحبت رائیگاں نہیں جائے گی ۔۔۔ تُم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے۔۔۔ خُدا کے واسطے میری مُحبت کی لاج رکھو۔۔۔۔ مجھے چھوڑ دو ۔۔۔ مُجھے سزا کیلئے نہ لیکر جاؤ۔

تبھی ایک صدا بُلند ہوئی ۔۔ ہر دعویٰ دلیل چاہتا ہے۔۔ کیا تُمہارے پاس کوئی دلیل ہے۔۔ جو ثابت کرے کہ تُم واقعی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مُحبت کرتے تھے۔۔۔ کیونکہ تُمہارے عمل نے ثابت کیا ہے کہ تُمہارے پاس صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے عمل نام کی کوئی شئے تُمہارے نامے سے برآمد نہ ہوسکی۔

صدا کو سننے کے بعد فرشتوں کی گرفت مُجھ پر کمزور ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔ میں اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو درست کرنے لگا ۔۔۔ اور سُوچنے لگا کہ میں ایسی کونسی دَلیل پیش کروں کہ میرا دعویٰ سچ ثابت ہوجائے اور میری گُلو خُلاصی ممکن ہوجائے۔ سزا کے نام ہی سے میری جان نِکلی جارہی تھی کہ مجھے اپنا ایک عمل یاد آنے لگا جِسے میں عشق کی دلیل کے طُور پر پیش کرسکتا تھا۔

اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ اپنے اِسی عمل کو اپنے دعوے کے طور پر پیش کرونگا اور مُجھے قوی اُمید تھی کہ اللہ کے فضل سے میں ناکامی سے کامیابی کی طرف ضرور سفر کروں گا میں نے اپنے عشق کا دعویٰ پیش کرنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔

میرا رَبّ خُوب جانتا ہے کہ کہ میرے خاندان میں میرا ایک کزن میرا محبوب تھا ۔جسکے بِنا نہ مجھے کھانا اچھا لگتا تھا۔ اور نہ ہی پانی ہم نے بچپن سے جوانی تک کا سفر ایک ساتھ طے کیا تھا ۔پھر ہماری راہیں جُدا ہونے کا وقت آپُہنچا۔ چونکہ ہمارے خاندان میں میرے دادا اور میرے بڑے تایا کے علاوہ سبھی اولیاءَ اللہ کے ناموں سے چِڑا کرتے تھے۔ اور ہمارے خاندان میں اکثر لوگ متشدد تھے جو ذرہ ذرہ سی باتوں کیلئے مسلمانوں پر کُفر کے فتوے صادر کردیا کرتے تھے۔ اُنہیں اولیاءَاللہ کے ناموں سے جتنی بیزاری تھی میرے دِل میں چُپکے چُپکے اتنی ہی زیادہ اولیاءَ اللہ کی مُحبت پیدا ہوتی جارہی تھی۔ اور جوانی میں قدم رکھتے رکھتے اس مُحبت نے خاموش عشق کی شکل اِختیار کرلی۔ پھر ایک دِن میرے کزن نے مجھے اس عمل سے باز رِہنے کیلئے کہا۔ لیکن میرے دِل میں اب اپنے کزن کے علاوہ اِن اولیاءَ اللہ کی مُحبت بھی نجانے کب کی جَڑ پکڑ چکی تھیں۔ میں نے اُسے لاکھ سمجھایا کہ ہم دونوں اگرچہ الگ الگ راہوں کے مُسافر ہیں۔ لیکن یہ بھی تُو ممکن ہے کہ ہم ایک دوسرے کے طریقے کا احترام کرتے ہُوئے اپنی منزل کی جانب چلتے رہیں۔

اور جب جب زندگی کے کسی پڑاؤ پر ہماری مُلاقات ہوجائے ۔تو ہم ایک دوسرے سے باہمی احترام کیساتھ مِلتے رہیں۔ اور اپنی راہوں کے جُدا ہونے کے باوجود بھی اپنے بچپن کی مُحبت کو قائم رکھیں۔ لیکن وہ اِس بات پر مُصر تھا کہ یا تو واپس لُوٹ آؤ۔ یا پھر ہمیشہ کیلئے ہماری زندگیوں سے نِکل کر دفع ہوجاؤ ۔۔۔

میں اگرچہ ہر قیمت پر اس بچپن کی مُحبت کو قائم رکھنا چاہتا تھا لیکن مجھ سے جو قیمت اولیاءَ اللہ کی مُحبت سے دستبردار ہونے کی مانگی جارہی تھی میں یہ قیمت دینے سے قاصر تھا میرا جواب سُن کر میرے دوست نے ایسا کام کیا جسکا تصور تو میں کبھی خیال و خُواب میں بھی نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ میرے کزن میرے دوست نے میرا جواب سُننے کے بعد غُصہ میں اللہ کریم کے مدنی محبوب کی سُنت کی توہین کرڈالی۔۔۔۔

یہ سب میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ ایک طرف بچپن کی مُحبت تھی۔ تو دوسری جانب اللہ کریم کے سوہنے رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کی بات تھی۔ شائد مُجھے چند لمحے لگے ہُونگے۔۔۔ پھر میں اِس نتیجے پر پُہنچ گیا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہُ علیہ وسلم) کی حُرمت پر ایسی لاکھوں دُوستیاں نثار کی جاسکتی ہیں۔ اور پھر تا عُمر میں اپنے کزن سے صرف اس لئے نہیں مِلا کہ اس نے اللہ کے رسول (صلی اللہُ علیہ وسلم) کی سُنت کی اہانت کی تھی۔ اور میرا رَبّ خُوب جانتا ہے کہ میری یہ قطع تعلقی صرف اور صرف اللہ کے رسول(صلی اللہُ علیہ وسلم) کی خاطر تھی۔ میرے پاس اس کے سِوا مُحبت کی کوئی اور دلیل موجود نہیں ہے اِتنا کہنے کے بعد میں ایک مُجرم کی طرح زمین پر بیٹھ گیا اور سسکنے لگا۔

میرے کانوں نے وہی صدا پھر سُنی ۔صدا دینے والا کہہ رَہا تھا ۔۔یہ سچ کہتا ہے اسکا یہ عمل خالص اللہ عزوجل کے رسول (صلی اللہُ علیہ وسلم) کی مُحبت میں کیا گیا عمل ہے ۔اس عمل کی جزا اِسے ملنی ہی چاہیئے عشرت اقبال کو دوبارہ میزان پر لیجایا جائے اور اسکے اس عمل کی خصوصی جزا بھی اِسے ضرور دِی جائے گی۔

مجھے دوبارہ میزان پر لیجایا گیا میرا پچھلا حساب دوبارہ اسکرین پر نمودار ہوگیا اُسکے بعد میری نیکیوں کا پلڑہ آہستہ آہستہ بھاری ہونے لگا یہاں تک کہ میری نیکیاں اور میرے گُناہ برابر ہوگئے ۔لیکن میری نیکیوں کا میٹر رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔  یُوں میری نیکیوں کو پلڑہ دھیرے دھیرے بڑھتا رہا۔۔۔ بڑھتا رہا اور ہر جانب سے صدا آنے لگی مُبارک ہو۔۔۔ مُبارک ہو میں سجدہ بجالانے کیلئے زمیں پر جھکتا چلا گیا۔۔۔

تبھی اچانک میری آنکھ کُھل گئی کہیں دور مؤذن تکبیریں بُلند کررہا تھا۔ ۔۔۔ الصلواۃ خیر مِن النُّوم۔۔ الصّلواۃ ُخَیر مِن النُّوم

اور میں باوضو ہو کر حالتِ بیداری میں سجدہ شُکر بجا لانے لگا۔۔۔

2 comments: