bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday 7 January 2013

تذکرہ اِک پری کی مُحبت کا قسط ۲۲۔


تذکرہ اک پری کی مُحبت کا ۔۲۲قسط۔
عِمران احمد وقاص وسط سندھ کے ایک شہر میں رہنے والا   شرمیلا اُور باحیا شادی شُدہ نُوجوان تھا۔ ایک   کامیاب بزنس مین ہُونے کیساتھ وُہ کافی حَد تک مَذہبی ذِہن کا مالک بھی تھا۔ ایک دِن وُہ اچانک بے اختیاری کی حالت میں ایک گھر میں داخل ہُو جاتا ہے۔ جہاں اُسکی مُلاقات ایک بُزرگ سے ہُوتی ہے۔ جُو اتفاق سے اُسکے ہم نام  نِکل آتے ہیں۔ دُورانِ گفتگو وُہ بُزرگ اُسے بتاتے ہیں۔ کہ وُہ خود یہاں غلطی سے نہیں آیا بلکہ اُسے یہاں ایک خاص مقصد کے تحت  لایا گیا ہے۔ کیونکہ ایک پری  جسکا نام کُوثر ہے۔ اُور وُہ پرستان کے ایک قبیلے ایمن کی شہزدای ہے۔ اُس سے مُحبت کرتی ہے۔اُور اُسے اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتی ہے۔ جسکے لئے کوثر نے اُنہیں یعنی بابا کُوثر کو اپنا نُمائندہ بنایا ہے۔ عمران کے دِل میں اُس پری کو دیکھنے کی خُواہش پیدا ہُوتی ہے۔ جِسے بابا وقاص قبول کرتے ہُوئے چند ہفتوں بعد عمران کی مُلاقات اُس پری کوثر سے کروا دیتے ہیں۔

کوثر کے حُسن کو دیکھ کر عمران مبہوت سا رِہ جاتا ہے۔ اُس ایک مُلاقات کے بعد عمران کو  اکثر کوثر کی خُوشبو اپنے اِرد گرد مِحسوس ہُوتی ہے۔کُچھ ہی عرصہ میں عمران بھی  کُوثر سےباقاعدہ نِکاح کیلئے تیار ہُوجاتا ہے۔۔۔۔ لیکن جب عمران اپنے مُرشد سے اِس نِکاح کی اِجازت حاصل کرنے کیلئے اُنکے آستانے پر حاضر ہُوتا ہے۔ تب اُسکے مُرشد اُسے صاف منع کردیتے ہیں۔ اُور اُسے سمجھاتے ہیں کہ،، شریعت مطہرہ میں انسانوں کی شادی کسی پری سے جائز نہیں ہے۔۔۔ لیکن عمران کا اصرار بڑھتا ہی چلاجاتا ہے کہ،، اُسے اِس نِکاح کی اِجازت دے دی جائے۔ جسکی وجہ سے اُسکے مُرشد عارضی طُور پر  اُس سے خفا ہُوجاتے ہیں۔ عمران بابا وقاص سے خُفیہ طُور پر معملات طے کرلیتا ہے۔۔۔ بابا وقاص عمران کو بتاتے ہیں کہ ،، نِکاح کیلئے اُنہیں  لاھور جانا پڑے گا۔ عمران اِس بات سے بالکل بے خبر ہُوتا ہے کہ،، اُسکے مُرشد کریم کی باطنی نِگاہیں اَب ہر وقت اُسکے تعاقب میں ہیں۔

لاھور جانے سے ایک رات قبل ہی بابا وقاص ایک محفل میں بُلائے جاتے ہیں۔ لیکن وہی رات اُنکی اِس شہرمیں آخری رات  بھی ثابت ہُوتی ہے۔ بابا وقاص   اُسی رات رُوتے ہُوئے اِس شہر سے کراچی چلے جاتے ہیں۔ اِس واقعہ کے بعد ایک طرف بابا وقاص سے جُدائی کا غم ہر وقت عمران کو تڑپاتا رِہتا ہےْ تو دوسری طرف چھ ماہ تک کوثر سے بھی کوئی رابطہ قائم  نہیں ہُوتا ۔جسکی کے اثرات عمران کی صحت پر اثر انداز ہُوتے ہیں۔ اُور وُہ  اُس نازک پُودے کی طرح سے وقت پر پانی نہ مِیسر آتا ہُو کی مانند مُرجھایا چلا جاتا ہے۔ چھ ماہ بعد اچانک عمران کی مُلاقات  بابا وقاص کے مُلازم خادم حُسین سے ہُوتی ہے۔ جو عمران کو بتاتا ہے کہ بابا وقاص کراچی میں پردہ فرما چُکے ہیں۔ بابا وقاص کے انتقال کی خبر سے عِمران کی رہی سہی اُمید بھی دَم تُوڑ دِیتی ہے۔ اِس واقعہ کے دُو مہینوں بعد بابا وقاص کے علاقے سے گُزرتے ہُوئے عمران کو ایک درخت کے عقب سے کُوثر کی  صدا سُنائی دیتی ہے۔ وُہ اُسے بتاتی ہے۔ کہ اُس پر دس برس کیلئے عمران سے مُلاقات  کرنےپر پابندی لگادی گئی ہے۔۔۔ کوثر عمران کو ناران آنے کی دعوت دیتی ہے۔ پھر اُسکی صدا بھی گھنے درختوں میں گُم ہُوجاتی ہے۔ عمران لگاتار بابا احمد وقاص کو خاب میں دیکھتا ہے۔ لیکن اِس خواب کی تعبیر اُسے کہیں سے نہیں مِلتی۔ پھر اُسے محلہ کی مسجد کے اِمام بتاتے ہیں۔ کہ اِس خواب کی تعبیر اُسکے مُرشد کریم بیان کرسکتے ہیں۔ یا ایک مجذوب کا رُوپ دھارے بُزرگ بابا صابر۔۔۔ عِمران بابا صابر سے مُلاقات کرتا ہے۔ لیکن بابا صابر اُس پر واضح کرتے ہیں کہ وُہ بابا احمد وقاص کی غلطی کو نہیں دُھرائیں گے۔  البتہ اَگر اُنہیں اِجازت مِل گئی تو وُہ اُسکی مدد ضرور کریں گے۔


اب مزید پڑھیے۔
عمران ہاتھ میں بابا صابر کی جانب سے دِیا جانے والا بے مُوسم کے آم کا تحفہ لیکر جب گھر میں داخل ہُوا تُو اُسکی والدہ نے حیرت سے آم دیکھ کر  عِمران سے اِستفسار کیا۔ بیٹا اِس موسم میں تُمہارے ہاتھ آم کہاں سے لگ گیا۔۔۔؟ یہ تو بالکل تازہ دِکھائی دے رَہا ہے  ! عِمران کی امی نے آم کو ٹٹولتے ہُوئے دُوبارہ عِمران کو مُخاطِب کیا۔۔۔ جواب میں عِمران نے بابا صابر سے مُلاقات کا تذکرہ اپنی اَمّی کو سُناتے ہُوئے بابا وقاص کے خواب کا تذکرہ جان بُوجھ کر حذف کردیا۔ اَمی جان نے اُس آم کو عقیدت سے اپنی آنکھوں سے لگاتے ہُوئے کہا۔۔۔ بیٹا اللہ والوں کے ہاتھ سے دئیے جانے والے تحفے اپنے اندر بُہت خیر وبرکت سموئے ہُوئے ہُوتے ہیں۔ لِہذا  میری تو یہی خواہش ہُوگی کہ تُم یہ آم اپنے اَبو کو پیش کردو۔ کیونکہ نجانے کئی دِن سے اُنہیں کیا ہُوگیا ہے کہ ،، وُہ نہ رات کو مکمل نیند سُوتے ہیں اُور نہ ہی اب کسی سے ذیادہ گُفتگو کرتے ہیں ابو کا تذکرہ کرتے ہُوئے عِمران کی امی کا لہجہ غمگین ہُوگیا تھا۔

عِمران نے وُہ آم امی جان کے حکم پر کاٹ کر اپنے ابو کو خود  اپنے ہاتھ سے کِھلا دیا ۔ البتہ تبرک کے طُور پر آم کی ایک قاش عمران نے بھی چکھی۔۔۔ نجانے وُہ کس نسل کا آم تھا۔ لیکن ایک بات ضرور تھی کہ اتنا مزیدار آم عِمران نے اپنی پُوری زندگی میں نہیں چکھا تھا۔  کچھ دیر ابو کیساتھ گُزارنے کے بعد عِمران کو محسوس ہُوا کہ جیسے اَبو پر کُچھ غُنودگی کی کیفیت طاری ہُو رہی ہے ۔ سُو اُس نے اپنے اَبو کے جسم پر لحاف ڈالا۔ اُور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے عِمران کو  یہ اِحساس شَدت سے ستانے لگا۔  جیسے کوئی نہایت انہماک سے اُسکی جانب دیکھ رَہا ہُو۔ عِمران نے یہاں وَہاں نظریں دُوڑائیں ۔ لیکن سیڑھیوں کے نذدیک اُسے کوئی بھی ذی رُوح نظر نہیں آیا۔۔وُہ اپنے کمرے کی جانب بڑھتا چلا گیا۔۔۔ لیکن یہ اِحساس ہر بڑھتے قدم کیساتھ قوی ہُوتا جارہا تھاکہ،، جیسے کوئی اُسکے ہر قدم پر نِگاہ رکھے ہُوئے ہے۔ عِمران نے کوریڈور سے گُزرتے ہُوئے ایک مرتبہ پھر بالکونی کی جانب دیکھا تو اُسے وہی بلی نطر آئی جِسے وُہ ایک مرتبہ پہلے بھی اپنے گھر میں دیکھ چُکا تھا۔

بلی کی  گردن میں آج بھی نقرئی چین جگمگارہی تھی۔ البتہ آج اُسکی نِگاہُوں میں وُہ پہلی سی چمک نہ تھی۔ اسکے علاوہ ایک اُور بات عِمران کو حیران کئے دے رہی تھی ۔کہ آج بلی کی آنکھ سے لگاتار آنسو ٹپ ٹپ کرتے ہُوئے زمین پر گررہے تھے۔ جیسے وُہ کسی اذیت و کرب سے گُزر رَہی ہُو۔ عمران بے اختیار بلی کی جانب بڑھنے لگا۔ لیکن جُونہی بِلی نے عِمران کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا اُس نے بالکونی کی دیوار سے صحن کی جانب چھلانگ لگادی۔

عِمران نے بے ساختہ آگے بڑھ کر بالکونی سے صحن میں جھانکا لیکن پُورے صحن میں اُسے وُہ بِلی کہیں دِکھائی نہیں دِی۔ عمران کے دِل میں اچانک ایک خیال پیدا ہُوا کہ کہیں بِلی  بالکونی کے چھجے کے نیچے تُو موجود نہیں ہے۔ اِس خیال کے دِل میں پیدا ہُوتے ہی عِمران مِیکانکی انداز میں بالکونی کی مُنڈیر پر چڑھ گیا۔

منڈیر پر چڑھتے ہی ابھی وُہ بالکونی کے نیچے جھانکنے کا سُوچ ہی رَہا تھا کہ اچانک اُس کا توازن بگڑ گیا۔۔۔۔ لیکن اِس سے پہلے کے اُسکے قدم مُنڈیر  کی سطح کو چھوڑتے۔اچانک سامنے سے وہی بِلی نمودار ہُوئی اُور اُس نے باقاعدہ اپنے اگلے دونوں پیروں کی مدد سے اُسے پُشت کے بَل بالکونی میں واپس دھکیل دِیا۔ اگرچہ پُشت کے بل بالکونی میں گرنے کے سبب عمران کو ایک لمحے کیلئے تو دِن میں ہی تارے نظر آگئے تھے۔۔۔ لیکن چند ساعت بعد جب اُسکے اُوسان بحال ہُوئے۔ تو وُہ سُوچنے لگا کہ اگر وُہ بِلی اُسے واپس دھکا نہ دیتی تو شائد ابتک اُسکا سر صحن کے فرش سے ٹکرا کر پاش پاش ہُوچُکا ہُوتا۔ لیکن اُسے ذیادہ تعجب اِس بات پر تھا کہ آخر کسی بِلی میں اتنی طاقت کیسے آسکتی ہے۔ کہ وُہ کسی گِرتے ہُوئے انسان کو نا صِرف سنبھال سکے بلکہ اُسے واپس مُخالف سِمت میں دھکیل بھی سکے۔ اُور آخر وُہ بلی کہاں چھپی بیٹھی تھی اُور فِضا میں اُسکے مُقابل کیسے آگئی۔۔۔

وُہ شائد کُچھ دیر وَہاں اُور پڑا رِہتا۔۔۔ لیکن امی کے قدموں کی چاپ سُن کر عِمران نے ہمت دِکھائی اُور اپنے کپڑے جھاڑتے ہُوئے کھڑا ہُوگیا۔ ۔۔ اَمی جان عِمران کے کمرے کی جانب بڑھی چلی جارہی تھیں ۔کہ اُنکی نِگاہ عِمران پر پڑی اُور وُہ بالکونی میں مسکراتے ہُوئے عِمران سے مُخاطب ہُو کر کہنے لگیں ۔۔۔ تُم یہاں بالکونی میں کسکا انتظار کررہے ہُو۔۔۔ چلو میں نے کھانا لگادِیا ہے۔اِسلئے آج دوُپہر کا کھانا میرے ساتھ ہی  کھالو۔۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے آج آفس جانے کا  تُمہارا اِرادہ  نہیں ہے ۔۔۔

نہیں امی جان آفس تو میں ضرور جاوٗنگا۔ البتہ آپ کے ہاتھوں سے بنا ہُوا کھانا کھانے کے بعد۔۔۔ اتنا کہہ کر عِمران نہایت سعادتمندی سے امی کے ساتھ ڈائینگ ھال کی جانب بڑھ گیا۔ اَمی جان کے ہاتھوں سے بنے لذیزکھانے سے فارغ ہُونے کے بعد عِمران آفس رانہ ہُوگیا۔لیکن آفس میں پُہنچ کر بھی کئی مرتبہ عِمران کو اُس بِلی کا خیال آیا جسکی وجہ سے وُہ آج ایک ناگہانی مصیبت سے بال بال بچا تھا۔

عشاٗ کی نماز کے بعد وُہ مولوی صاحب کے درس قران میں یہ سُوچ کر شریک ہوگیا۔کہ اسطرح جہاں اُسکے علم میں مزید اضافہ ہُوگا۔ تو ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ بابا صابر صاحب کا کوئی پیغام اِمام صاحب کے توسط سے اُسکا منتظر ہُو۔ لیکن دَرس قران سے فارغ ہُونے کے بعد بھی اِمام صاحب نے جب عِمران سے بابا صابر کا کوئی تذکرہ نہیں کیا تُو وُہ سمجھ گیا کہ ابھی بابا صاحب کا کوئی پیغام اُسکے لئے نہیں آیا ہے۔ ورنہ اِمام صاحب ضرور اُسے اِطلاع دے دیتے۔ پھر اچانک عِمران کے ذہن میں آیا کہ بابا صاحب نے اُسے جمال ہانسوی سے مُشابہت دِی تھی۔

سُو اُس نے اِمام صاحب سے جمال ہانسوی سے متعلق استفسار کرڈالا۔ لیکن اِس معاملہ میں بھی عِمران کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اِمام صاحب کا کہنا تھا کہ اُنہوں یہ نام ضرور سُنا اُور پڑھا ہے۔ لیکن چُونکہ اُنکی دلچسپی اَحادیث مُبارکہ میں ذیادہ ہے۔ اِسلئے اُنہیں اِن کے متعلق ذیادہ معلومات نہیں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ جمال ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق صوفیائے کرام  کی جماعت سے ہے۔ اُور یہ کہ وُہ کِسی آزمایش سے گُزرے تھے۔ بس اِس سے ذیادہ اُنہیں کُچھ یاد نہیں ہے۔ رات بستر پر لیٹنے کے بعد عِمران حضرت جمالِ ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کے مُتعلق ہی سُوچتا رہا یہاں تک کے نیند نے اُسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔۔۔ 

 صبح فجر کی نماز سے فارغ ہُوکر عِمران جُونہی مسجد سے نِکلنے لگا اِمام صاحب نے اُسے پکار کر اپنی جانب آنے کا اِشارہ کیا۔۔۔ قریب پہنچنے پر اِمام صاحب نے اُسے بتایا کہ بابا صابر صاحب کا کوئی قاصد آیا تھا۔ اُور اُنہوں نے تُمہیں طلب کیا ہے۔۔۔ بابا صاحب کے بلاوے کی خبر سُن کر خُوشی عِمران کے چہرے پر رَقص کرنے لگی تھی۔۔۔وُہ مسجد سے نِکل کر سیدھا گھر کی طرف چل پڑا ۔تاکہ امی جان کو اِطاع دینے کے بعد  بابا صاحب  سے مُلاقات کو جاسکے ۔  گھر کے مین گیٹ سے داخل ہُوتے ہی اُسکی نِگاہ امی جان کے چہرے پر پڑی جو کسی انجانی خُوشی کی وجہ سے دمک رِہا تھا۔
  
جاری ہے۔۔۔
اُسکی الفت کا مزاہ سب سے الگ سب سے جُدا
جیسے سُورج کی تپش روکتی ہے کُوئی رِدا
جیسے ساقی نے پَلائی  کِسی تشنہ کو شراب
جیسے ٹل جائے کسی عاصی کے سر پہ سے عذاب



2 comments:

  1. MashaALLAH...bohat acha likha hae...tishnagi reh gai k ab next kia hoga...k Imran ki Ammi Jaan kyoon khush hoein hein...

    ReplyDelete
  2. ASSALAM ALE KUM BHAI BHOT KHOB ...ALLAH TALA AP KO SAHAT DAY...
    mirpur khas.SINDH PAKISTAN

    ReplyDelete