محترم قارئین کرام السلام وعلیکم
آج ساری دنیا میں مسلمان ہر سُو ہر جاہ پریشان ہیں۔ اُور دُور دُور تک اِس کسمپرسی کی حالت میں ہمیں مُسلمانوں کا نہ کوئی بالغ نظر رہنما نظر آتا ہے۔۔۔ کہ جسکی فراست مسلمانوں میں حُوصلہ پیدا کردے۔ اُور نہ ہی اِن لامتناہی پریشانیوں کا کوئی حل ہی نظر آتا ہے۔۔۔ اُور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنے دُوسرے مسلمان بھائیوں کی تکالیف کی جانب نِگاہ نہیں اُٹھاتے ہمیں اپنی تکلیف اپنا غم ہی سب سے بڑا نظر آتا ہے۔۔۔۔لیکن کیا کبھی ہم نے یہ جاننے کی کُوشش بھی کی کہ ،، دِل میں بس جانے والے اِس غم کی وجوہات کیا ہیں۔۔۔؟ اُور کیوں زَمانے بھر کے دُکھوں نے ہمارے گھروں کو منتخب کرلیا ہے۔۔۔ہمارے قلبوں کو چُن لیا ہے۔۔۔۔دِلوں میں بسیرا کرلینے والے اِن غَموں کے متعلق ایک دِن میں نے اپنے مُرشد کریم سے استفسار کیا تو میرے مُرشد کریم نے یُوں اِرشاد فرمایا۔۔۔
بیٹا جب انسان سے کوئی گُناہ سرزد ہُوجاتا ہے۔ تب اُسکے قلب پر فرمان مُصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رُوشنی کے مُطابق ایک سیاہ دھبہ نمودار ہُوجاتا ہے۔۔۔ اَب اگر وُہ بندہ ِموٗمن اپنے کریم رَبّ سے اپنے گُناہ پر نادم ہُوکرتوبہ کرلیتا ہے۔ تُو یہ سیاہ نُقطہ قلب سے دُور ہُو جاتا ہے۔ ۔۔۔ اُور قلب توبہ کے نور سے پھر سے جگمگانے لگتا ہے۔وَگرنہ یہی ایک نقطہ مزید گُناہوں کے سبب انسانی قلب پر اپنا قبضہ جمائے رکھتا ہے۔ اُور ایک دِن یہی سیاہ نقطہ پھیلتے پھیلتے تمام قلب کو اپنی سیاہی کی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اِس لئے اگر کسی مسلمان کے قلب میں غم بَس جائے تو اُسے اپنے قلب کی جانب توجہ کرنی چاہیئے کہ،، ایسا کُونسا گُناہ اُسکی ذات سے رُونما ہُوا ہے جسکی توبہ اُس نے ابھی تک نہیں کی ہے۔۔۔ کیونکہ یہ غم دِل میں اُسی وقت پیدا ہُوتا ہے۔ جب کہ گُناہ تو سرزد ہُوجائے ۔لیکن تُوبہ نہ گئی ہُو۔
قارئین محترم اگر چہ مجموعی طور پر مسلمانوں کی حالت پستی کا شِکار ہے۔لیکن پھر بھی اس نفسا نفسی کے دور میں ہمیں کچھ لوگ ضرور ایسے ملتے ہیں جنکی زندگی نہایت پُرسکون نظر آتی ہے۔ اور جنکے قُلوب غم سے پاک نظر آتے ہیں۔ اُور جنکے متعلق اللہ کریم اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ،، بے شک میرے دُوستوں کو نا غَم ہے اُور نہ ہی کوئی خُوف ہے۔۔۔اُور جب ہم اِن لوگوں یعنی (اُولیاءَاللہ) کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو ہمیں اسکا سبب بھی نظر آجاتا ہے اللہ عزوجل نے قران مجید میں جا بجا اپنی اور اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ جسکی پیروی میں اِن اُولیائے کاملین کی زِندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعتِ مُصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں بَسر ہُوتا نظر آتا ہے۔۔۔
لیکن ہم لُوگوں نے شاید اطاعت کا مفہوم ہی نہیں سمجھا۔ محترم اطاعت ،محبت، اُور تعظیم یہ سب الفاظ الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔۔۔محترم بھائیوں اُور بِہنوں ہم اپنے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے یقیناً محبت اور عشق ضرور کرتے ہیں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی دل و جان سے کرتے ہیں ۔لیکن جب بات اطاعت کی آتی ہے تو ہم اپنی نظریں چرانے لگتے ہیں۔ حیلے بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ مجبوریوں کو دلیل بنا کر پیش کرنے لگتے ہیں۔ محترم ساتھیوں اطاعت کے لغوی معنی ہیں تابعداری - تعمیل حکم -فرمانبرداری - خود کو کسی کی محکومی میں دے دینا ۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
لیکن جب ہم اپنی گُذشتہ زندگی کے اُوراق پر نِگاہ ڈالتے ہیں۔ تُو اپنی زندگی کے معمولات میں جگہہ جگہہ اطاعت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے نفس کی تابعداری ذِیادہ نظر آتی ہے ۔ ہم نے اپنی مرضی کو حُکمِ مُصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ڈھالنے کے بجائے۔ اپنی خُواہشات کی غُلامی کو قبول کرلیا۔۔۔ جِسکے سبب ہم دُنیا میں ذلیل ہُوکر رِہ گئے۔۔۔ خدا کی قسم اگر ہم خُدا عزوجل اُور اسکے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مان کر زندگی گزاریں ۔تُو نہ کوئی دَیوُث ہم پر جبر و ظلم کرسکے گا۔ اُور نہ ہی زندگی اتنی تکلیف دہ ہو۔ اُور نہ ہی ہمارا دِل حزن و ملال کی آماجگاہ بنے گا۔۔۔ حالات چاہے جیسے بھی ہُوں۔ مسائل چاہے کتنے بھی ہُوں۔۔۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ یہی اطاعتِ رَسُول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہم میں حُوصلہ اُور طاقت پیدا کرسکتی ہے۔ ہمیں باوقار طریقے سے جینے کی راہ دِکھاسکتی ہے۔ اُور اِن تمام مسائل سے نِمٹنے میں مدد دے سکتی ہے۔
اے میرے پروردیگار تیری بے نیاز بارگاہ میں تیرے محبوب اعظم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم قربانیوں کے وسیلے سے دُعا گُو ہُوں کہ ہم سب مسلمانوں کے قُلوب کو اپنے محبوبِ کریم ﷺکی مُحبت کا خزینہ بنادے ۔ اطاعت مُصطفٰے ﷺ سے ہمارے قُلوب کو سرشار فرمادے۔ اُور ہمیں اپنے اُولیائے کرام رَحم اللہ اجمعین کی راہ کا مُسافر بنادے تاکہ انعمت علیہم کی تشریح ہمارے قُلوب و اَذہان کو مُنور کردے۔۔۔آمین بِجاہِ النبی الکریم وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم
آج ساری دنیا میں مسلمان ہر سُو ہر جاہ پریشان ہیں۔ اُور دُور دُور تک اِس کسمپرسی کی حالت میں ہمیں مُسلمانوں کا نہ کوئی بالغ نظر رہنما نظر آتا ہے۔۔۔ کہ جسکی فراست مسلمانوں میں حُوصلہ پیدا کردے۔ اُور نہ ہی اِن لامتناہی پریشانیوں کا کوئی حل ہی نظر آتا ہے۔۔۔ اُور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنے دُوسرے مسلمان بھائیوں کی تکالیف کی جانب نِگاہ نہیں اُٹھاتے ہمیں اپنی تکلیف اپنا غم ہی سب سے بڑا نظر آتا ہے۔۔۔۔لیکن کیا کبھی ہم نے یہ جاننے کی کُوشش بھی کی کہ ،، دِل میں بس جانے والے اِس غم کی وجوہات کیا ہیں۔۔۔؟ اُور کیوں زَمانے بھر کے دُکھوں نے ہمارے گھروں کو منتخب کرلیا ہے۔۔۔ہمارے قلبوں کو چُن لیا ہے۔۔۔۔دِلوں میں بسیرا کرلینے والے اِن غَموں کے متعلق ایک دِن میں نے اپنے مُرشد کریم سے استفسار کیا تو میرے مُرشد کریم نے یُوں اِرشاد فرمایا۔۔۔
بیٹا جب انسان سے کوئی گُناہ سرزد ہُوجاتا ہے۔ تب اُسکے قلب پر فرمان مُصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رُوشنی کے مُطابق ایک سیاہ دھبہ نمودار ہُوجاتا ہے۔۔۔ اَب اگر وُہ بندہ ِموٗمن اپنے کریم رَبّ سے اپنے گُناہ پر نادم ہُوکرتوبہ کرلیتا ہے۔ تُو یہ سیاہ نُقطہ قلب سے دُور ہُو جاتا ہے۔ ۔۔۔ اُور قلب توبہ کے نور سے پھر سے جگمگانے لگتا ہے۔وَگرنہ یہی ایک نقطہ مزید گُناہوں کے سبب انسانی قلب پر اپنا قبضہ جمائے رکھتا ہے۔ اُور ایک دِن یہی سیاہ نقطہ پھیلتے پھیلتے تمام قلب کو اپنی سیاہی کی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اِس لئے اگر کسی مسلمان کے قلب میں غم بَس جائے تو اُسے اپنے قلب کی جانب توجہ کرنی چاہیئے کہ،، ایسا کُونسا گُناہ اُسکی ذات سے رُونما ہُوا ہے جسکی توبہ اُس نے ابھی تک نہیں کی ہے۔۔۔ کیونکہ یہ غم دِل میں اُسی وقت پیدا ہُوتا ہے۔ جب کہ گُناہ تو سرزد ہُوجائے ۔لیکن تُوبہ نہ گئی ہُو۔
قارئین محترم اگر چہ مجموعی طور پر مسلمانوں کی حالت پستی کا شِکار ہے۔لیکن پھر بھی اس نفسا نفسی کے دور میں ہمیں کچھ لوگ ضرور ایسے ملتے ہیں جنکی زندگی نہایت پُرسکون نظر آتی ہے۔ اور جنکے قُلوب غم سے پاک نظر آتے ہیں۔ اُور جنکے متعلق اللہ کریم اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ،، بے شک میرے دُوستوں کو نا غَم ہے اُور نہ ہی کوئی خُوف ہے۔۔۔اُور جب ہم اِن لوگوں یعنی (اُولیاءَاللہ) کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو ہمیں اسکا سبب بھی نظر آجاتا ہے اللہ عزوجل نے قران مجید میں جا بجا اپنی اور اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ جسکی پیروی میں اِن اُولیائے کاملین کی زِندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعتِ مُصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں بَسر ہُوتا نظر آتا ہے۔۔۔
لیکن ہم لُوگوں نے شاید اطاعت کا مفہوم ہی نہیں سمجھا۔ محترم اطاعت ،محبت، اُور تعظیم یہ سب الفاظ الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔۔۔محترم بھائیوں اُور بِہنوں ہم اپنے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے یقیناً محبت اور عشق ضرور کرتے ہیں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی دل و جان سے کرتے ہیں ۔لیکن جب بات اطاعت کی آتی ہے تو ہم اپنی نظریں چرانے لگتے ہیں۔ حیلے بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ مجبوریوں کو دلیل بنا کر پیش کرنے لگتے ہیں۔ محترم ساتھیوں اطاعت کے لغوی معنی ہیں تابعداری - تعمیل حکم -فرمانبرداری - خود کو کسی کی محکومی میں دے دینا ۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
لیکن جب ہم اپنی گُذشتہ زندگی کے اُوراق پر نِگاہ ڈالتے ہیں۔ تُو اپنی زندگی کے معمولات میں جگہہ جگہہ اطاعت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے نفس کی تابعداری ذِیادہ نظر آتی ہے ۔ ہم نے اپنی مرضی کو حُکمِ مُصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ڈھالنے کے بجائے۔ اپنی خُواہشات کی غُلامی کو قبول کرلیا۔۔۔ جِسکے سبب ہم دُنیا میں ذلیل ہُوکر رِہ گئے۔۔۔ خدا کی قسم اگر ہم خُدا عزوجل اُور اسکے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مان کر زندگی گزاریں ۔تُو نہ کوئی دَیوُث ہم پر جبر و ظلم کرسکے گا۔ اُور نہ ہی زندگی اتنی تکلیف دہ ہو۔ اُور نہ ہی ہمارا دِل حزن و ملال کی آماجگاہ بنے گا۔۔۔ حالات چاہے جیسے بھی ہُوں۔ مسائل چاہے کتنے بھی ہُوں۔۔۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ یہی اطاعتِ رَسُول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہم میں حُوصلہ اُور طاقت پیدا کرسکتی ہے۔ ہمیں باوقار طریقے سے جینے کی راہ دِکھاسکتی ہے۔ اُور اِن تمام مسائل سے نِمٹنے میں مدد دے سکتی ہے۔
اے میرے پروردیگار تیری بے نیاز بارگاہ میں تیرے محبوب اعظم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم قربانیوں کے وسیلے سے دُعا گُو ہُوں کہ ہم سب مسلمانوں کے قُلوب کو اپنے محبوبِ کریم ﷺکی مُحبت کا خزینہ بنادے ۔ اطاعت مُصطفٰے ﷺ سے ہمارے قُلوب کو سرشار فرمادے۔ اُور ہمیں اپنے اُولیائے کرام رَحم اللہ اجمعین کی راہ کا مُسافر بنادے تاکہ انعمت علیہم کی تشریح ہمارے قُلوب و اَذہان کو مُنور کردے۔۔۔آمین بِجاہِ النبی الکریم وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم
Suma Aameen
ReplyDelete