bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Tuesday, 22 January 2013

تذکرہ اک پری کی مُحبت کا قسط (۲۳)۔


تذکرہ اک پری کی مُحبت کا قسط (۲۳

گُذشتہ سے پیوستہ۔ 
 اِمام صاحب کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے جمالِ ہانسوی (رحمتہ اللہ علیہ) کا نام ضرور سُنا اُور پڑھا ہے۔ لیکن چُونکہ اُنکی دلچسپی اَحادیث مُبارکہ میں ذیادہ ہے۔ اِسلئے اُنہیں اِن کے متعلق ذیادہ معلومات نہیں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ جمال ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق صوفیائے کرام  کی جماعت سے ہے۔ اُور یہ کہ وُہ کِسی آزمایش سے گُزرے تھے۔ بس اِس سے ذیادہ اُنہیں کُچھ یاد نہیں ہے۔ رات بستر پر لیٹنے کے بعد عِمران حضرت جمالِ ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کے مُتعلق ہی سُوچتا رہا یہاں تک کے نیند نے اُسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔۔۔  صبح فجر کی نماز سے فارغ ہُوکر عِمران جُونہی مسجد سے نِکلنے لگا اِمام صاحب نے اُسے پکار کر اپنی جانب آنے کا اِشارہ کیا۔۔۔ قریب پہنچنے پر اِمام صاحب نے اُسے بتایا کہ بابا صابر صاحب کا کوئی قاصد آیا تھا۔ اُور اُنہوں نے تُمہیں طلب کیا ہے۔۔۔ بابا صاحب کے بلاوے کی خبر سُن کر خُوشی عِمران کے چہرے پر رَقص کرنے لگی تھی۔۔۔وُہ مسجد سے نِکل کر سیدھا گھر کی طرف چل پڑا۔تاکہ امی جان کو اِطاع دینے کے بعد  بابا صاحب  سے مُلاقات کو جاسکے ۔  گھر کے مین گیٹ سے داخل ہُوتے ہی اُسکی نِگاہ امی جان کے چہرے پر پڑی جو کسی انجانی خُوشی کی وجہ سے دمک رِہا تھا۔

اب مزید پڑھ لیجئے۔

اَمی جان کیا بات ہے۔ ماشاءَ اللہ آج آپکا چہرہ خُوشی سے مِثلِ قمر چمک رَہا ہے۔۔۔ کیا خُوشی کی کُوئی بُہت  بڑی خبر ہے۔۔۔؟ عمران نے نہایت بے تابی کے عالم میں اَمی سے دریافت کیا۔۔۔۔ ہاں بیٹا اللہ کریم نے واقعی ہم پر احسان فرماتے ہُوئے بڑا کرم فرمایا ہے۔ اُور یقیناً جب تُم وُہ خبر سُنو گے۔ تو تمہارا بھی خوشی سے وہی حال ہُوگا۔۔۔ جیسا کا تُم میرے چہرے پر دیکھ رہے ہُو۔۔۔ امی نے جائے نماز پر مصلی لپیٹ کر رکھتے ہُوئے کہا۔

پھر اَمی جان جلدی سے وُہ خبر مجھے بھی سُنا دیجئے نا۔۔۔یُوں بھی کافی عرصہ سے کسی اچھی خبر کیلئے میرے کان ترس رہے ہیں۔ عمران نے امی کے نذدیک  رکھی کرسی سنبھالتے ہُوئے اِشتیاق بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ بیٹا مُبارک ہُو! تمہارے ابو مصلے پر فجر کی نماز ادا کررہے ہیں۔۔۔ ابو فجر کی نماز ادا کررہے ہیں۔ بھلا اِسمیں کونسی خُوشی کی خبر ہے۔۔۔ ابو کو تُو میں بچپن سے ہی نماز پڑھتے دیکھ رہا ہُوں۔۔۔ روانی سے کہتے ہُوئے عمران اچانک ٹھٹک کر رِہ گیا۔۔۔ اُوہ!  میں تو بالکل بُھول ہی گیا تھا۔ کہ اَبو تو کافی عرصہ سے بستر سنبھالے ہُوئے ہیں۔ اُور اپنی بیماری کی وجہ  سے وُہ  کافی عرصہ سے نماز ادا کرنے سے قاصر ہیں۔  اللہ تیرا شُکر ہے۔ عمران نے زُبان سے کلمہ شکر بجالاتے ہُوئے کہا۔۔ مگر اَمی جان  یہ کرشمہ کیسے ہُوا۔ اُور اب ابو جان کہاں ہیں۔۔۔؟ عمران نے  خوشی سے کرسی سے اُٹھتے ہُوئے امی سے اِستفسار کیا۔

بیٹا مجھے تو لگتا ہے کہ،، یہ سب کچھ اُنہی بُزرگ کی کرامت ہے۔ جِنہوں نے کل تمہیں بے موسم کا آم عنایت کیا تھا۔ جِسے تُمہارے ابو نے کھالیا  تھا۔  یہ مجھے اُسی  پھل کی برکات کا ثمر لگتا ہے۔ جسکی وجہ سے اللہ کریم کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ،، تمہارے ابو ایک ہی رات میں بستر سے اُٹھنے کے قابل ہُوگئے ہیں۔۔۔ بیٹا میں لفظوںمیں اپنی خوشی شائد بیان نہ کرپاوٗں۔ لیکن میں نے اللہ کریم کی بارگاہ میں اِس خوشی کے شُکرانے کیلئے ۵۰ نوافل کا اِرادہ کیا ہے جو انشاءَاللہ آج ہی پڑھنے کی کوشش کرونگا۔ جب کہ میری خواہش ہے کہ تُم جاکر اُن بذرگ کا شکریہ ادا کر آوٗ جنکی نظر عنایت نے ہمیں یہ خُوشی کا دِن دِکھایا ہے۔۔۔ تمہارے ابو ڈرائینگ رُوم میں شُکرانے کی تسبح ادا کررہے ہیں۔ پہلے ابو سے مُلاقات کرلو۔ پھر اگر ممکن ہُو۔ تو ناشتہ کے فوراً بعد ہی اُن بزرگ سے مُلاقات کیلئے چلے جاوٗ۔۔۔ امی کا اصرا دیکھ کر عمران نے امی کو بتایا کہ وُہ اُن بزرگ سے مُلاقات کیلئے ہی جارہا تھا۔ اُور نماز پڑھ کر اُن سے اجازت کیلئے ہی حاضر ہُوا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں گھر کے تمام افراد ابو جان کے کمرے میں جمع ہُوچکے تھے۔۔۔ ابو سے باتیں کرتے ہُوئے ہر ایک چہرہ سرشار تھا۔ اُور آج کافی دِن بعد ابو تمام گھر والوں سے گفتگو کررہے تھے۔ ابو کے چہرے بشرے پر اگرچہ اب بھی کمزروی کے  آثار نمایاں تھے۔ لیکن سب کو یہی خوشی کافی تھی۔ کہ ابو ناصرف آج بستر سے اُٹھ بیٹھے تھے۔ بلکہ وُہ ہر ایک کو جواب بھی دے رہے تھے۔ اُور آج کافی دِن کے بعد تمام گھر کے افراد نے ابو کیساتھ ہی  ایک ہی دستر خوان پر ناشتہ بھی کیا تھا۔

ناشتے سے فارغ ہُوتے ہی عمران نے سُوچا کہ واک کے چکر میں کافی دیر نہ ہُوجائے۔ جبکہ وُہ جلد از جلد بابا  صابر کی خِدمت میں حاضر ہُونا چاہ رَہا تھا۔ اِسلئے عمران نے خاموشی سے اپنی بائیک نِکالی اُور بابا صابر کی طرف روانہ ہُوگیا۔ تمام راستے وُہ بابا صاحب کی اِسی کرامت کے متعلق سُوچتا رہا۔ جسکے سبب اُسکا گھر آج  پھرخوشیوں سے بھر گیا تھا۔

شہر کے بیرونی دروازے پر پہنچتے ہی اُسے بابا صابر نظر آگئے۔ اُنہیں دیکھ کر عمران کو ایسا محسوس ہُوا جیسے وُہ  وہاں اُسی کا انتظار کررہے ہُوں۔۔۔ آگئے بیٹا! ماشا اللہ بُہت خُوش ہُو۔۔۔ اُور کیوں خُوش نہ ہُو۔۔۔ کہ والدین کا سایہ ہے ہی بڑا قیمتی۔ جسے میسر ہُوتا ہے۔ اُسے اِسکی قیمت کا اِدراک نہیں ہُوتا۔ اُور جنکے سر سے یہ سائبان غائب ہُوجاتا ہے ۔ اُنہیں اسکا نعم البدل نہیں مِلتا۔ بابا صابر نے خود ہی سوال قائم کیا۔۔۔ پھر خود ہی اُسکا جواب بھی عطا فرمادِیا۔ اِمام  صاحب نے اگرچہ بابا صاحب کی کشفی قُوت کا پہلے ہی تذکرہ فرمادِیا تھا۔ لیکن بھلا جو لُطف مشاہدے میں ہُوتا ہے۔ وُہ سرور صرف سماعت میں کیسے پایا جاسکتا ہے۔ یہی سُوچتے ہُوئے عمران نے بابا صاحب کے دست مبارک پر بوسہ دیتے ہُوئے  اُنکا شُکریہ ادا کرنے کیلئے لب کھولنے ہی چاہے تھے۔ کہ بابا صابر نے انگلی کے اِشارے سے اُسے خاموش رہنے کیلئے کہا۔ اُور آگے بڑھ گئے۔

آج بھی بابا صاحب نے مُلاقات کیلئے باغ ہی کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن مقام مختلف تھا۔ بابا صاحب نے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر  گفتگو کی ابتدا کرتے  ہُوئے کہا۔ بیٹا۔ جانتے ہُو۔۔۔ فقیروں کے پاس جاتے ہُوئے کس شئے کی حفاظت کرنی چاہیئے۔۔۔؟ ۔ بابا صاحب آپ ہی بتایئے۔ میں تو خالی پیالے کی مانند ہُوں۔ جسکے پاس حسرت و آرزو کے سِوا کچھ بھی نہیں ہُوتا۔ عمران کے جواب پر بابا صاحب نے ایک بُلند قہقہ لگاتے ہُوئے کہا۔ بُہت ہُوشیار ہُو۔ اُور باتیں بنانا بھی خوب جانتے ہُو۔ اُور شائد اِسی وجہ سے مجھے اجازت مِل گئی ہے۔ کہ میں تمہیں کچھ سِکھاوٗں۔ بابا صابر نے غور سے عِمران کا چہرہ دیکھتے ہُوئے مُسکرا کر کہا۔

دیکھو بیٹا۔ جب علم والوں کے پاس جایا کرو۔ تب اپنی زُبان کی بُہت حفاظت کرنا۔ کہ علم والوں کے سامنے گونگا بنے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ ورنہ یہاں زُبان سے ایک غلط جُملہ نِکلا۔ اُور وَہاں تنبہی کا تلوار نِکلی۔ لیکن یہ ہتھیار بھی نافع ہی ہُوتا ہے۔ کوئی چاہے تو اپنے گمانی اشکال کو یقین سے بدل سکتا ہے۔ لیکن جب دِل والوں کے پاس جایا کرو۔ تو اپنے دِل کو تھام کر رکھنا چاہیئے۔ کیونکہ اُنکا فتوی قُول پر نہیں بلکہ نیت پر لگایا جاتا ہے۔ اُور جب زُبان بگڑتی ہے تو اصلاح کے نوے فی صدی چانس ہُوتے ہیں۔ لیکن اگر دِل بگڑ جائے تو۔۔۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد اچانک بابا صاحب نے یہاں وَہاں دیکھنا شروع کردیا۔

جاری ہے۔۔۔

اُسکی الفت کا مزاہ سب سے الگ سب سے جُدا
جیسے سُورج کی تپش روکتی ہے کُوئی رِدا
جیسے ساقی نے پَلائی  کِسی تشنہ کو شراب
جیسے ٹل جائے کسی عاصی کے سر پہ سے عذاب

1 comment:

  1. ASSALAM ALEKUM .BHAI BHOT ACHEY ...24 KAB ARI HAI.....
    Muhammad Irshad Mehmood....Mirpur khas Sindh Pakistan

    ReplyDelete