bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Sunday 3 February 2013

کالا لباس اور اُجلا من


اگرچہ کتنی سادگی تھی اِس ایک جملے میں جو آج مجھے بذریعہ ایس ایم ایس مُوصول ہُوا تھا۔ لیکن اِس میسج میں پنہاں دَرد کو میرا حساس دِل بخُوبی محسوس کررِہا تھا۔ جسکا ایک ثبوت یہ بھی ہے۔ کہ میں نے آج اپنا قلم اسی سوال کے جواب کو تلاش کرنے کیلئے اُٹھایا ہے۔۔میسج می لکھا تھا کہ،، سر مجھے سیاہ لباس راس کیوں نہیں آتا۔ میں جب جب سیاہ لباس زیب تن کرتی ہُوں۔ تب کچھ نہ کچھ نقصان ضرور برداشت کرنا پڑتا ہے۔یا  پھرشائد میں ہی اِس رنگ کے قابل نہیں ہُوں۔

اِس میسج کو پڑھتے پڑھتے میرے لاشعور نے مجھے اُس فُون کال  تک پہنچا دیا۔۔۔۔ جو مجھے تقریباً تین برس قبل مُوصول ہُوئی تھی۔ میں اُس ٹیلیفون کال کو کبھی فراموش نہیں کرپاوٗں گا۔  اگرچہ اِن دونوں واقعات میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ لیکن دونوں واقعات میں عاجزی کا عنصر ضرور موجود ہے۔ جو کہ میرے پروردیگار کو بُہت پسند ہے۔۔۔۔۔

کتنا سُوز تھا اُس خاتون کی آواز میں۔۔۔ حالانکہ بقول اُن خاتون کے وُہ زندگی کی چالیس بہاروں کا سامنا کرچکی تھیں۔ لیکن دُورانِ گفتگو وُہ یُوں بلک بلک کر رُونے لگی تھیں۔۔۔۔۔ جیسے کسی پانچ برس کے بچے کی ماں اُس سے بازار میں بچھڑ جائے۔ اُور وُہ  حیران تنہا بازار میں کُھو گیا ہُو۔۔۔۔وُہ دیار غیر کے ایک مسلم مُلک میں لیکچرار ہُونے کے باوجود۔ اپنے سوالوں کے جواب نہیں ڈھونڈ پارہی تھی۔ اب نُوبت یہاں تک آپُہنچی تھی۔ کہ وُہ سفید لباس کو پاکیزگی کی علامت سمجھتے ہُوئے خُود کو  سفید لباس کا حقدار  بھی نہیں سمجھ رَہی تھی۔۔۔۔ کافی دیر تک وُہ صرف فون پر رُوتی ہی رہی۔ اُور میں خاموش تماشائی کی طرح فقط اُسکی سسکیوں اُور ندامت بھرے  ٹوٹے پھوٹےجملوں کا سامع بنا رَہا۔

پھر میرے ڈھارس بندھانے پر اُس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہُوئے بتایا کہ،، وُہ ہند کے ایک بڑے شہر سے مُلازمت کیلئے اِس اسلامی مُلک میں آئی ہے۔ اُور گُذشتہ بارہ برس سے دیار غیر میں مقیم ہے۔۔۔ اُس  نے گفتگو جاری رکھتے ہُوئے مزید بتایا کہ،، ہمارا خاندان اگرچہ مختصر تھا۔لیکن خاندان کے تمام لوگ ہی اعلی تعلیم یافتہ ہُونے کیساتھ اچھی پُوسٹوں پر تعینات ہیں ۔۔۔ اُسے سولہ برس کی عُمر سےہی  اِس بات کا احساس ہُونے لگا تھا۔ کہ کوئی ہر وقت اسکے ساتھ رِہنے لگا ہے۔ اُور اس اِحساس کی ابتدا بھی اُسی دِن ہُوئی تھی۔ کہ جِس شام وُہ سفید لباس پہنے اپنی اماں کے گھر  کی چھت پر اپنے گیلے بالوں کو ڈُوبتے سورج کی نرم تپش سے سکھانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ پھر یہ احساس بڑھتے بڑھتے اتنا قوی ہُوگیا۔ کہ میں اُس نادیدہ ہستی کے قدموں کی چاپ بھی محسوس کرنے لگی تھی۔ لیکن ایک بُہت عجیب بات یہ تھی۔ کہ مجھے اِس تمام معاملے میں کبھی خوف محسوس نہیں ہُوا۔ شروع شروع میں یہ بات میں نے اماں کو بتانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن  چونکہ وُہ اپنے زمانے کی ایم اے انگلش تھیں۔ اُور اِن تمام باتوں کو توہم پرستی سے ذیادہ اہمیت دینے کی قائل نہیں تھیں۔ اسلئے میں نے اَماں سے بھی اُس نادیدہ ہستی کا تذکرہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔


پھر جِس وقت میری عُمر بائیس برس کی ہُوئی۔ تب میں نے جان بوجھ کر اَماں سے اپنا بستر الگ کرلیا۔ کیونکہ  وُہ نادیدہ اب مجھے میرے لحاف میں محسوس ہُونے لگا تھا۔ اُور دھیرے دھیرے اُسکی شرارتیں گُستاخی میں بدلتی جارہی تھیں۔۔۔۔ اگرچہ میرے ساتھ جو کچھ ہُورہا تھا۔ ابتدا میں اِس تمام معاملے میں مجھے  گھبراہٹ محسوس ہُوتی تھی۔ ۔۔لیکن  دوسری طرف اُسکی دیدہ دلیری اُور دَر اندازی  بڑھتی ہُی چلی جارہی تھی۔ ۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ مجھے بھی یہ سب کچھ اچھا لگنے لگا تھا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ مجھے اِس تمام معاملے سے گھن آنے لگی۔۔۔ اُور ایک تشنگی کا احساس ہر وقت میرے وجود کو ڈسنے لگا۔

اِن تمام وجوھات نے میرے ذہن کو عجیب پراگندہ کرڈالا تھا۔۔۔۔اگرچہ  اللہ کریم نے مجھے حُسن کی دُولت سے بے حد نوازا تھا۔ لیکن مجھے کبھی لڑکوں میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔۔۔۔ میرا خیال تھا کہ میں ایم اے کرنے کے بعد اسلامی کلچر پر پی ایچ ڈی کرونگی۔ لیکن اب میرے ذہن میں گندے خیالات کے سِوا کوئی تعلیمی پلاننگ نہیں تھی۔۔۔۔ لیکن میرے لئے اَب مشکل یہ تھی کہ،، ہمارا گھرانہ اَعلی تعلیم یافتہ ہُونے کے باوجود بھی انتہائی مذہبی تھا۔ اسلئے خاندان کی کسی لڑکی کو اجازت نہیں تھی۔ کہ وُہ خاندان میں بھی کسی کزن سے  فالتو بات چیت کرسکے۔۔۔۔ میں اِسی شش و پنج میں مُبتلا تھی۔ تب ہی میں نے محسوس کیا کہ میرے ایک لیکچرار  مجھ میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔۔۔ اگرچہ وُہ شکل و صورت سے  بالکل عام تھے۔ اُور مجھ سے قریباً عمرمیں بھی دس برس بڑے تھے۔ لیکن بہرحال وُہ ایک مرد تھے، اسلئے جب  انہوں نے میرے قریب آنے کی کوشش کی تو میں نے بھی خُوشدلی سے اُنکا استقبال کیا۔ جسکی وجہ سے جلد ہی ہمارا رشتہ اُستاد  اُور شاگرد کے دائرے سے نِکل کر دوستی تک پُہنچ گیا۔

پھر اُنہوں نے مجھے ٹیوشن کی پیشکش کی۔ جِسکی اجازت میں نے اپنی والدہ کے سامنے  کئی جھوٹ سچ رکھ کر حاصل کرلی۔۔۔ اُس لیکچرار کے بیوی بچے کسی دوسرے شہر میں تھے۔ جہاں وُہ ہر ہفتے کی شب چلے جایا کرتے تھے اُور پیر کی صبح یونیورسٹی آجایا کرتے تھے۔ اِس لئے ٹیوشن کے وقت ہم دُونوں کے سوا فلیٹ میں کوئی نہیں ہُوتا تھا۔ جسکی وجہ سے ہم دونوں ہی  جلد گُناہوں کی دلدل میں گرتے چلے گئے۔۔۔۔ لیکن یہ کیفیت بھی ذیادہ دِن نہیں چل پائی اُور مجھے اپنی عصمت کے گوہر نایاب کے کھونے کا دُکھ راتوں کو سُونے نہیں دیتا تھا۔ چھ ماہ اِسی حالت میں رہنے کے بعد میں نے اُن سے کہا کہ وُہ  میری ماں سے میرا رشتہ مانگ کر مجھ سے باقاعدہ نکاح کرلیں۔ مجھے انکی پہلی بیوی بھی قبول ہے۔۔۔۔ تب اُس شخص نے یہ کہہ کر مجھے ٹھکرادیا کہ جو لڑکی مرد کے ایک اشارے  پر اپنی عصمت کی چادر کو تار تار کرسکتی ہے۔ میں بھلا ایسی لڑکی پر ساری زندگی کیلئے کیسے بھروسا کرسکتا ہُوں۔ اِس واقعہ نے اگرچہ مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ لیکن اب بُہت دیر ہُوچکی تھی۔۔۔۔ میں نے اگرچہ اس واقعہ کے بعد وُہ یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ وُہ ملک بھی چھوڑ دیا۔ اُور آج تک شادی بھی نہیں کی۔۔۔ اُور نہ ہی شادی کرنا چاہتی ہُوں۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے۔ کہ میں اپنے ہُونے والے شوھر کی امانت میں خیانت کرچکی ہُوں۔ اُور نہ ہی میں نے چودہ برس سے سفید لباس زیب تن کیا ہے۔ کیونکہ سفید لباس تو پاکیزگی کی علامت ہُوتا ہے نا۔۔۔۔؟ اُور میں تو سراپا گندگی کی پُوٹ ہُوں۔اگرچہ میں بے شُمار مرتبہ اپنے گناہُوں کی معافی اپنے رَب سے طلب کرچکی ہُوں۔ مگر یہ احساس گناہ مجھے ایک لمحے کیلئے بھی سکون سے جینے نہیں دیتا۔۔۔ جبکہ وُہ نادیدہ  احساس مجھے گُذشتہ چند ماہ سے پھر آمادہ گناہ کرنے لگا ہے۔۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد وُہ خاتون ایک مرتبہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔ میرے پاس اسکے سِوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کہ،، اُسے خُوب رُو لینے دُوں۔ تاکہ اسکے دِل کی بھڑاس بھی نِکل جائے اُور میں اسکے گناہ پر شاھد بننے کے بعد اسکی توبہ پر بھی شاہد بن جاوٗں۔

اُسکے خاموش ہُونے پر میں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہُوئے اُسے سمجھایا۔۔۔۔ میری پیاری بہن تُمہاری تمام دُکھ بھری کہانی سننے کے بعد میں اِس نتیجے پر پُہنچا ہُوں کہ آپ بھی لاکھوں خواتین کی طرح قومِ اجنہ کے کسی وحشی کی درندگی کا شکار ہُوگئی ہیں۔ جسکے علاج کیلئے میں بھرپور طریقے سے آپکی معاونت کرونگا۔۔۔۔۔ کاش آپکی والدہ صاحبہ نے اُس وقت آپکی بات پر کان دھر لئے ہُوتے تو آپکا پیچھا وُہ مُوذی کب کا چھوڑ کر اپنے انجام کو پُنچ گیا ہُوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے اِس تمام معاملے میں آپکی غلطی بُہت کم نظر آتی ہے۔ چونکہ آپ بیماری کی حالت میں تھیں۔ جسکی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ، اگر کسی شخص پر ذہنی امراض کا غلبہ ہُوجائے۔ اُور اگر اِسی حالت میں وُہ قتل کردے۔ تو  دُنیا کی عدالت بھی میدیکل رپورٹ آنے پر اُسے جیل میں ڈالنے یا فرد جرم عائد کرنے کے بجائے دِماغی بحالی مرکز میں بھیجتی ہے۔ اِسی طرح جو لوگ جنات یا جادو کے زیر اثر گناہ کربیٹھتے ہیں۔ تو کیا اللہ کریم کی عدالت سے اُنکو رعایت نہیں مِلے گی۔۔۔؟

  اسکے علاوہ جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ اللہ کریم سے بے شمار مرتبہ معافی مانگ چُکی ہیں۔۔۔ تب آپ اللہ کریم کی رحمت سے نا اُمید کیسے ہُوسکتی ہیں۔۔۔ کیونکہ وُہ تو ایسا کریم ہے۔ جسکی مثال انسانوں سے دی ہی نہیں جا سکتی۔ جب ایک ماں اپنے بچے کی لاکھ غلطیاں معاف کرسکتی ہے۔ اُور اپنے رحم کے باعث ایک انگارہ بھی اپنے بچے کی ہتھیلی پر نہیں رکھ سکتی۔۔۔۔ تب آپ اللہ کریم کی محبت کا تو اندازہ لگائیں جس نے ماں کو بھی پیدا فرمایا اُور رحم کو بھی۔۔۔۔ اُور اُس نے انسانوں کو ماں سے لاکھوں درجہ ذیادہ محبت سے پیدا کیا ہے۔ تو بھلا وُہ معافی طلب کرنے پر اپنے بندے کو کیوں معاف نہیں فرمائے گا۔۔۔۔۔ ارے وُہ تو اپنی مخلوق سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اگر کوئی  انسان تمام زمین و آسمان بھی گناہ بھردے۔ جو کہ کوئی نہیں بھرسکتا۔۔۔۔ مگر بالفرض کوئی اتنے گناہ کرلے۔۔۔۔ اُور پھر صرف ایک مرتبہ سچے دِل سے معافی طلب کرلے۔۔۔۔ تو وُہ اتنا کریم پروردیگار ہے کہ بندہ ایک مرتبہ کہتا ہے۔ کہ مُولا میں گناہ کرنے کے بعد تیری بارگاہ میں عفو کیلئے حاضر ہُوں۔ تو ایسے گنہگار بندے کی ایک لبیک کی صدا پر  اللہ کریم دس مرتبہ قبول ہے قبول ہے کہتا ہے۔


پھر رنگ چاہے سفید ہُو یا سیاہ ہُو۔ چاہے وُہ کعبتہ اللہ کا غلاف ہی کیوں نہ ہُو۔ کسی مومن سے ذیادہ اسکی تقدیس و حرمت نہیں ہُوسکتی۔ اسلئے آپ سفید و سیاہ جو کپڑا  دِل چاہے پہنا کریں۔ کہ اُس کپڑے اُور رنگ کی عزت آپکی وجہ سے ہے۔ نہ کہ کسی رنگ و کپڑے کی وجہ سے  آپکی عزت۔ کعبہ کا غلاف سیاہ ہے ۔ اُور جنتیوں کا لباس سبز ہے۔ تو اسکی حکمت خدا ہی  بہتر جانے۔ لیکن کسی رنگ کی حرمت انسان سے ذیادہ نہیں ہُوسکتی۔ کیونکہ اُس کریم نے خُود  اپنے کلام پاک میں فرمادیا ہے۔ کہ اُس نے انسان سے حسین کسی کو نہیں بنایا۔۔۔۔۔

اُور نکاح تو سُنت ہے۔ گناہ سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ پھر جو گناہ آپ نے شادی سے قبل کیا تھا۔ اُور اُسکی توبہ بھی مانگ لی۔ تو اب گناہ کہاں رہا۔ کہ توبہ کا پانی گناہ کے نشان تک دُھو ڈالتا ہے۔ اُور جب  نکاح ہی نہیں ہُوا۔ تو شوھر کی خیانت کیسی۔ خیانت تو جب ہُوتی کہ نِکاح قائم ہُو چُکا ہوتا۔ کیونکہ علماء بھی یہی فرماتے ہیں۔ کہ نکاح کے بعد عورت کی عصمت شوہر کی امانت ہُوتی ہے۔ اُور نکاح سے قبل کی خیانت اللہ اُور بندے کا معاملہ ہے۔ لہذا  توبہ کی توفیق  مِل جانے کے بعد اَب نکاح قائم کرلیجئے۔ تاکہ پھر کبھی شیطان لعین اپنی چالوں میں کامیاب نہ 
ہُوسکے۔

الحمدُ للہ عزوجل اللہ کریم کی عطا سے اُنہیں اپنے سوالوں کا جواب بھی مِل گیا تھا۔ اُور شیطانی وساوس بھی دُور ہُوئے۔ اُور آجکل وُہ ایک مقدس مقام پر اپنی ازدواجی زندگی صحت وعافیت کے ساتھ بسر کررہی ہیں۔اللہ کریم کی بارگاہ میں دُعا ہے۔ کہ وُہ میرے اس کالم کو ہمیشہ لوگوں کیلئے نافع و شافع بنائے۔ آمین بجاہِ النبی الکریم وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ و اِزواجہ  وبارک وسلم۔

11 comments:

  1. ماشاء اللہ ۔ یہ آپ کا کمال ہے بلکہ طرۃ امتیاز ہے کہ روحانی علاج کے ساتھ ساتھ نفسیاتی علاج بھی فرماتے ہیں۔ یوں سائل کی تشفؔی و تسلی ہو جاتی ہے۔

    اللہ تعالٰٰی آپ کو صحت و عافیت عطا کرے

    ReplyDelete
    Replies
    1. حضور والا یہ تو آپکا حسن ظن ہے ورنہ

      میں اس کرم کے کہاں تھا قابل
      حضور کی بندہ پروری ہے

      بس اللہ کریم اپنے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین کے طفیل قبول فرمالے آمین

      Delete
    2. بالکل سو آنے درست فرمایا آپ نے۔ ھم تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں جس نے اقبال بھائی فرشتہ صفت انسان سے ھمیں ملوادیا۔ اللہ عزوجل ان کو صحت کی دولت سے مالا مال رکھے۔ آمین یا رب العالمین

      Delete
  2. Great job sir...mjhe b bht cnfusion thi black clr k bary ..... Sir apk es article sy bht faida ho ga logoon ko

    ReplyDelete
  3. کاشف بھائی اُور عاصمہ جی کی خدمت میں سلام
    آپ لوگوں کو میری تحریر پسند آئی اس حوصلہ افزائی کیلئے آپ دونوں کا بُہت شکریہ
    ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے کبھی کبھی خود اپنی باتیں سمجھ نہیں آتی۔ البتہ دیوانگی کی حالت میں اچھی طرح سمجھ لیتا ہُوں ۔ سُنا ہے کہ دیوانوں کی باتیں دیوانے ہی سمجھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ کہیں آپ سب بھی تو ۔۔؟

    ReplyDelete
  4. Sir mjhe tu kbi kbi doubt hta ha k aap insan nhi frishta hein ........ Aap bat hi aesi krty hein k mre pas alfaz nhi hty tareef krny ko

    ReplyDelete
  5. پیارے سجنوں خدا کے واسطے مجھے انسان ہی رہنے دُو۔۔۔۔ کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہُو۔۔ کیونکہ فرشتے تو نظر نہیں آتے۔۔۔ کیا مجھے گُمشدہ دیکھنا چاہتے ہُو۔۔۔۔۔؟ آجکل طبیعت ویسے ہی بُہت ناساز ہے۔۔۔ کچھ تو رحم کرو۔۔
    :D
    :P

    ReplyDelete
  6. Mmmm wesy sister kh too theek hi rhee hy.

    ReplyDelete
  7. Sir hm sb ki duaein apk sath hein ALLAH apko perfect seht k sth lmbi zindgi dein gy INSHAALLAH

    ReplyDelete
  8. SALAM SAIN BHOT ACHA KAHA ASMA KHAN ne.......ISE ACHAY MARE BI PAS ALFAZE NAI.......HAIN....IQBAL BHAI ALLAH TALA AP KO SAHAT DAY.....LAMBIIIIIIIIII ZINDAGIIIIII DAY.....BHAI AMIL KAMIL ABU SHAMIL KA KIYA HOWA HAI.....BHAI PLZZZZZZZZZZZZZ SEND KARO.....

    ReplyDelete
  9. Ap ney behad acha kaam kiya unhay haqeeqat bata k aur sath hi elaaj kar k bhi.
    Allah aapko iska ajar dae aur us baat ki taufeeq ata farmae k aap k hathon seekhay loug baaqi aiesy afraad ki madad kar sakein.

    ReplyDelete