bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday 22 March 2013

عشق کے رنگ شیخ صنعان قسط ۱۰



سابقہ پیراگراف۔

شیخ صنعان کے جاتے ہی ٹریسا ،،جو کہ،، دروازے کی اُوٹ سے اپنے باپ اُور  شیخ صنعان کی تمام گفتگو بڑے تحمل سے سُن رہی تھی نِکل آئی۔ اُور شکایتاً کہنے لگی۔ بابا کیا آپ نے مجھے واقعی اِس  بوڑھے شیخ کو سُونپنے کا اِرادہ کرلیاہے۔۔۔؟؟؟ نہیں میری لخت جگر ایسا ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہماری پہلی کامیابی ہے ۔کہ،، میں نے  کتنی آسانی سے اِس بِلا کو  یہاں سے ہٹا کر جنگل میں پہنچانے کا انتظام کردیا ہے۔ مجھے قوی اُمید ہے۔کہ،،  بُوڑھا شیخ جلد ہی جنگل میں درندوں کا شکار بن جائے گا۔ یا جب اُسے معلوم ہُوگا کہ،، میں جن مویشیوں کا تذکرہ کررہا تھا ۔ وُہ خنزیر ہیں۔ تب بھی  وُہ ہار مان لے گا۔ کیونکہ مسلمان خنزیر سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی مجھے اِس شیخ سے ہے۔ بوڑھا یہودی قہقہ لگاتے ہُوئے سُونے کیلئے اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔ جبکہ ٹریسا سُوچنے پر مجبور ہُوگئی۔ کہ،، ہائے یہ عشق بھی کیا بَلا ہے۔ کسی عمر کا بھی لحاظ کرتی ہے نہ کسی کے مرتبے کا۔ لیکن کیا واقعی شیخ صنعان مجھے حاصل کرنے کیلئے خنزیروں کو چَرانے کی ذمہ داری قبول کرلیگا۔یا اپنے عشق سے دستبردار ہُوجائے گا؟؟؟؟


اب مزید پڑھیئے۔

گُذشتہ  ۱۰ دِن سے شیخ فرید اور شیخ محمود نے تبوک کا چپہ چپہ چھان مارا تھا۔ لیکن شیخ صنعان کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔ تھک ہار کر شیخ محمود نے اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ کہ،، ہو نا ہُو ۔ شیخ صنعان کی گمشدگی میں بوڑھے راہب کا ہاتھ محسوس ہُوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بوڑھے راہب نے اپنی عزت بچانے کیلئے شیخ صنعان کو قتل کروا کر اُنکی لاش کو ٹھکانے لگا دیا ہُو۔۔۔۔ شیخ محمود نے شیخ فرید کی موجودگی میں جب  اِمام ِ مسجد کے سامنےاپنے اندیشے کا اظہار کیا تو اِمامِ صاحب نے اِس مفروضے کو رَد کرتے ہُوئے جواب دیا۔ بوڑھا راہب اگرچہ مسلمانوں سے کینہ رکھتا ہے۔ لیکن وُہ ایک بُزدل شخص ہے۔ کسی بھی صورت میں اقدام قتل کا مِرتکب نہیں ہُوسکتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بُوڑھے راہب نے کوئی سازشی چال چل کر شیخ صنعان کو قید کرلیا ہُو۔ لیکن وُہ ایک چالاک شخص ہے۔ اِس لئے مجھے نہیں لگتا کہ،، اُس نے شیخ صنعان کو اپنے گھر میں چھپایا ہُوگا۔ اگر تُم لُوگ شیخ صنعان کو تلاش کرنا چاہتے ہُو۔ تو اِس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ،، بوڑھے راہب کی تمام حرکات و سکنات پر نگاہ رکھو۔ اللہ چاہے گا۔ تو بوڑھے راہب کی کوئی نہ کوئی غلطی ہمیں ضرور شیخ صنعان سے مِلوا دے گی۔۔۔۔۔۔۔ کافی بحث و اعتراضات کے بعد بلاآخر فرید و محمود کے پاس اِمام صاحب کی تجویز پر عمل کرنے کے سِوا کوئی راستہ  باقی نہ رَہا۔

شیخ محمود و شیخ فرید کو باری باری بوڑھے راہب پر نگاہ رکھتے ہُوئے آج تیسرا دِن نمودار ہُوچکا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد دونوں چہل قدمی کرتے ہُوئے بازار سے گھر کی جانب جارہے تھے۔ کیونکہ بوڑھا راہب عموماً   خُوب سورج چڑھنے کے بعد ہی گھر سے نمودار ہوتا تھا۔  اچانک شیخ محمود نے کن انکھیوں سے  فرید کو شاہراہ کی بائیں جانب دیکھنے کا اِشارہ کیا۔ شیخ فرید نے نگاہیں گھما کر دیکھا تو اُسے بھی حیرت کا جھٹکہ لگا۔کہ،،  خلافِ معمول بوڑھا راہب اپنے گھوڑے پر سوار شہر کی شمالی سمت میں خراماں خراماں چلا جارہا ہے۔ جبکہ اُسکا مُلازم بھی گھوڑے کے پیچھے پیچھے دوڑنے کے سے انداز میں چل رہا تھا۔ جبکہ گھوڑے کی فتراک سے اشیائے خُورد  و نوش بھی چھلک رہا تھا۔ گھوڑے کی رفتار اسقدر دھیمی تھی کہ،،  شیخ فرید  اُور شیخ محمود نے  فوراً فیصلہ کرڈالا  کہ،، ہم  مناسب فاصلہ رکھ کر بُوڑھے راہب کا پیچھا کرسکتے ہیں۔

تقریباً تین کوس کا فاصلہ کرنے کے بعد بوڑھا راہب بھی گھوڑے سے نیچے اُتر آیا تھا۔ اُور ایک تنگ سی پگڈنڈی کے ذریعے سے جنگل میں داخل ہُورہا تھا۔ شیخ فرید اُور شیخ محمود نے مزید فاصلہ رکھ کر تعاقب جاری رکھا۔ اُور تھوڑی ہی دیر بعد شیخ فرید کی بھنچی بھیچی آواز نکلی۔  محمود  اُس  ٹیلے کی طرف دیکھو جہاں کوئی چرواہا  مویشیوں کیساتھ موجود ہے۔ اُور مجھے نجانے کیوں ایسا محسوس ہُورہا ہے۔کہ،، وُہ ہمارے مُرشد کریم ہی ہیں۔۔۔   ہاں بھائی فرید لگ تو مجھے بھی یہی رَہا ہے۔ اللہ کا شُکر ہے کہ،، ہمارے شیخ صحیح سلامت ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔  ۔۔۔ البتہ  مجھے یہ مویشی پالتو خنزیروں کے مُشابہ دِکھائی دے رہے ہیں۔ اور مزید کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد  شیخ محمود کا شک یقین میں بدل چُکا تھا۔ وُہ واقعی  پالتو خنزیروں  کا ہی رِیوڑ تھا۔ جنہیں اصفہان کا عظیم صُوفی بُزرگ چَرارہا تھا۔۔۔۔

کچھ لمحوں بعد بوڑھا راہب ٹیلے کے کافی قریب پُہنچ چکا تھا۔ اُور جب شیخ صنعان کی نگاہ  بوڑھے راہب  پر پڑی تو وُہ بھی مویشیوں کو ہانکتے ہُوئے ٹیلے سے نیچے درختوں کے جھنڈ میں چلے آئے۔ شیخ فرید اُور شیخ محمود نے فیصلہ کیا ۔کہ،، ہمیں فی الحال بُوڑھے راہب کے سامنے ظاہر نہیں ہُونا چاہیئے۔ بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ وُہ ہمارے شیخ کیساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ اُور اگر وُہ کوئی غیر اخلاقی حرکت کئے بغیر واپس لُوٹ جاتا ہے۔ تب ہم اپنے شیخ سے مُلاقات کریں گے۔ البتہ ہم شیخ سے اتنا قریب ضرور رہیں گے۔ کہ،، کہ اپنے شیخ اُور راہب کی گفتگو سُن سکیں۔

ہاں  معزز شیخ سُناوٗ کیسا وقت گُزر رہا ہے یہاں میرے مویشیوں کیساتھ؟؟؟ اور کوئی پریشانی، یا اُکتاہٹ محسوس ہُو برملا بتا دینا۔ میں اپنے وعدے پر قائم ہُوں تمہیں خاموشی سے تبوک سے نِکل جانے میں مدد کروں گا۔ بوڑھے راہب نے بظاہر اپنے لہجے کو ہمدردانہ بناتے ہُوئے شیخ کو پیشکش کی۔۔۔۔۔۔۔ نہیں مجھے یہاں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ یہاں کے درندوں سے بھی  میری شناسائی ہُوگئی ہے۔ وُہ بھی  اِن خنزیروں کو سنبھالنے میں میری مدد کرتے ہیں۔ بس تُم اپنا  وعدہ یاد رکھنا۔کہ،، میری استقامت کے عوض تمہیں ٹریسا کو میری زُوجیت میں دینا ہے۔ اُور ہاں اپنے مویشی خُوب اچھی طرح دیکھ لُو۔ یہ پہلے میں مُقابلے میں فربہی کی جانب مائل ہیں۔

بوڑھے رَاہب کا خیال تھا کہ،، جنگل کی تنہائی اُور دَدندوں کی موجودگی کے باعث شیخ  بہت ذیادہ خُوفزدہ ہُوگا۔لیکن شیخ کے مطمئن لہجے نے اُس کے اَرمانوں پر اُوس ڈال دی تھی۔ جسکی وجہ سے اُسکا بناوٹی لہجہ یکلخت  بدل گیا۔  ہاں ہاں دیکھیں گے۔ ابھی میری مزید شرائط   بھی باقی ہیں۔ جنہیں تُم نے پُورا کرنا ہےراہب نےجھلاہٹ  بھرے لہجے میں جواب دیکر اپنے مُلازم کو فتراک سے سامان نکال کر شیخ کے حوالے کرنے  اُور واپس چلنےکا حکم جاری کردیا۔ گھوڑے پر سُوار ہُونے کے بعد بوڑھے راہب کو جیسے کچھ یاد آگیا تھا۔ لہذااُس نے گھوڑے کو شیخ کے نذدیک لا کر نیا حکم جاری کیا۔ سُنو  آنے والی سنیچر کو میرے گھر پر ایک دعوت کا اہتمام ہے۔ جس میں مذہبی رسومات بھی ادا کی جائیں گی۔ لہذا میرا حکم ہے کہ،، سنیچر کو تُم ۲ خنزیر کاٹ کر شہر چلے آنا اُور اُنکے لذیز کباب تیار کرکے میرے مہمانوں کی تواضع کرنا۔ لیکن خیال رکھنا کہ شہر میں  اندھیرا ہونے کے بعد ہی داخل ہُونا اُور صبح ہُونے سے قبل واپس  جنگل  کو لُوٹ آنا۔ اُس رات  خنزیروں کی نگرانی کیلئے  میں اپنا مُلازم یہاں بھیج دُونگا۔

بُوڑھے راہب کے  واپس جاتے ہی شیخ فرید اُور شیخ محمود سسکتے ہُوئے شیخ صنعان کے سامنے ظاہر ہُوئے اُور بلک بِلک کر اپنے شیخ کے قدموں سے لِپٹ کر رُونے لگے۔۔۔۔۔کتنے ہی لمحے گُزر گئے لیکن   فرید و محمود کی ہچکیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔۔۔ شیخ صنعان نے دُونوں کے بالوں میں گنگھی کرتے ہُوئے  اُنہیں حُکم دیا۔ کہ   وُہ دونوں  اب خاموش ہُو کر بیٹھ جائیں۔ کیونکہ وقت  مجرم ضائع کرتے ہیں محرم نہیں۔۔۔۔ حضور ہم سے آپکی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی۔ بھلا کس نے سُوچا  ہُوگا کہ،، اصفہان کا عظیم تاج ایک دِن تبوک کے جنگل میں گُمنام ہُوجائے گا۔۔۔حضور اب ہم آپ کو لئے بغیر واپس نہیں جائیں گےوگرنہ ہمیں بھی اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دیں۔۔۔شیخ فرید نے نہایت دلگیر لہجے میں فریاد کرتے ہُوئے عرض کی۔

میرے بچوں مجھے معاف کرنا۔ میں تمہاری دونوں ہی خاہش پوری کرنے سے قاصر ہُوں۔ میں نے  یقیناً ایک مرتبہ پہلے بھی اپنی حدود سے  تجاوز  کیا اُور نجانے کُونسے وعدے کو پس پشت ڈال کر خُود کو مبتلائے بلا کیا۔ اب پھر دوبارہ وعدہ خلافی کا عذاب برداشت نہیں کرپاوٗں گا۔نہ میں ٹریسا کو حاصل کئے بغیر پلٹ سکتا ہُوں اور نہ ہی اپنی مصیبت میں تُم کو شامل کرسکتا ہُوں۔ کہ یہ صریح وعدہ خلافی ہُوگی۔ جو کام مجھے سُونپا گیا ہے۔ وُہ مجھے ہی بھوگنے دُو۔ اُور واپس لُوٹ جاوٗ اگر اپنے گھر نہیں جانا چاہتے تو کم از کم اِس جنگل میں مجھے تنہا چھوڑ دو۔۔۔۔۔ شیخ کی گفتگو سُن کر وُہ دونوں پھر بلک بِلک کر رُونے لگے۔۔۔۔ جسکے جواب میں شیخ صنعان نے اُنہیں سمجھاتے ہُوئے کہا۔کہ،، دیکھو تُہارے  اِس طرح رُونے سے میں مزید کمزور پڑجاوٗنگا۔ مجھے ابھی ایسی اُور بُہت سی آزمائشوں سے گُزرنا ہے۔۔۔۔ البتہ میں نے یہودی سے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا کہ،، کوئی مجھ سے ملاقات کرنے کیلئے جنگل نہیں آسکتا۔ لہذا چاہو تو ہفتے میں ایکبار  ملاقات کیلئے چلے آنا۔

شیخ  فرید اُور شیخ محمود  نے ہزار جتن کئے کہ،، شیخ صنعان اِنہیں خُود سے جُدا نہ کریں لیکن شیخ صنعان  کسی صورت راضی نہیں ہوئے۔ جسکی وجہ سے اِنہیں مجبوراً  تبوک واپس لُوٹ کر آنا پڑا۔ ۔۔۔۔سنیچر کے دِن  دُونوں نے باہمی رضامندی سے اس بات پر اتفاق کیا کہ،، کسی نہ کسی بہانے سے  بوڑھے راہب کی دعوت میں شریک ہُوکر شیخ صنعان کی زیارت کا موقعہ حاصل کرنا چاہیئے۔  اور یہ موقعہ انہیں راہب کے ملازم نے خاصی بڑی رقم اینٹھ کر فراہم کردیا۔ یہ دعوت  کسی یہودی کےکھجور کے باغ میں منعقد کی گئی ۔ جہاں پر محمود اُور فرید دیہاتیوں کے رُوپ میں برتنوں کی دُھلائی اُور صفائی پر مامور کئے گئے تھے۔۔۔۔ ایک جانب شیخ صنعان  تمام لوگوں سے بے پرواہ  بڑے انہماک سے خنزیر کے گوشت سے کباب تیار کرنے میں مصروف تھے۔ تو دوسری جانب شیخ محمود و فرید بڑی مشکل سے اپنی آنکھوں میں آنسو  ضبط کئے ہُوئے تھے۔۔۔

دعوت جس وقت اپنے عروج پر تھی۔ لُوگ شراب اُور کباب سے لُطف اندوز ہُورہے تھے۔ بوڑھے راہب نے شیخ صنعان کو کباب کی ایک پلیٹ لانے کا حُکم دیا۔ شیخ صنعان خاموشی سے خنزیر کے پلیٹ لیکر راہب کے پاس پُہنچ گئے۔ لیکن اگلے ہی لمحے بوڑھے راہب  نے خُکم دیا کہ،، تمام لُوگ  شراب و کباب کے مزے لے رہے ہیں ۔لیکن  شیخ میں دیکھ رہا ہُوں۔ کہ تُم نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔ اس لئے میرے سامنے اس پلیٹ سے کباب اُٹھا کر کھاوٗ۔ اُور جام بھی نُوش کرو۔یہ فرمائش سُن کر  شیخ صنعان پریشان نظر آنے لگے۔ لیکن اگلے ہی لمحے سنبھل کر کہنے لگے،، آپ جانتے ہیں کہ،، مسلمان شراب اُور خنزیر نہیں کھاتے پیتے۔۔۔۔

اچھا  پھر یہ بتاوٗ۔ اگر  تُم نہ شراب  پیتے ہُو۔ اُور نہ ہی خنزیر کا گُوشت کھاتے ہُو۔۔۔ تو ایک ایسی لڑکی سے کیوں شادی کرنا چاہتے ہُو۔ جو یہ دونوں  چیزیں حلال جانتی ہے۔۔۔۔ اُور میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ کیسے دے سکتا ہُوں ۔ جو ہمارے کھانے پینے کو حلال نہیں سمجھتا۔؟؟؟؟۔ اب یا تو تُم شراب و کباب میں ہمارا ساتھ دیکر ثابت کرو۔کہ،، تم ہمارے جیسے ہی ہُو۔ اُور ٹریسا کے قابل ہُو۔ یا پھر وعدہ خلافی کا اعتراف کرتے ہُوئے ہمیشہ کیلئے تبوک سے چلے جاوٗ۔۔۔۔  راہب نشے کی حالت میں چِلا چلا کر بُول رہا تھا جسکی وجہ سے تمام مہمان متوجہ ہُوکر بوڑھے راہب اور شیخ کے قریب سِمٹنے لگے تھے۔ اور اَب سب یہی نعرہ لگارہے تھے۔ کہ ثابت کرو یا واپس جاوٗ۔۔۔۔۔ شیخ صنعان کچھ لمحے تمام تماشائیوں کو دیکھتے رہے۔۔۔ اُور پھر اچانک خنزیر کے کباب نُوچ نُوچ کر اپنے حلق سے اُتارنے لگے۔ اتنے میں کسی شراتی  یہودی نے شیخ صنعان کے سامنے   شراب کا جام بھی پیش کردیا۔ اُور   شیخ صنعان نے بغیر کسی تاثر کے اُسے بھی اپنے حلق سے انڈیل لیا۔۔۔۔۔

جاری ہے۔

1 comment: